خواب تھایا خیال تھا کیا تھا۔۔۔
سر اینڈرو کلڈی کٹ
(Sir Andrew Caldecott (1884-1951
انہوں نے 1907 سے ایک لمبے عرصے برطانوی نو آبادیاتی ملایا کی سِول سروس میں مختلف عہدوں پر ملازمت کی۔ یہاں کی زبان ، ثقافت اور لوک کہانیوں میں بہت دل چسپی لی۔وہ 1935 سے 1937 تک ہانگ کانگ کے گورنر رہے۔پھر انہیں 1937سے 1944 کے زمانے میں سیلون، موجودہ سری لنکا کا گورنر بنا دیا گیا۔سر اینڈرو کلڈی کٹ کی ساری زندگی مافوق الفطرت سے بہت دلچسپی رہی۔ یہ ان کی لکھی ہوئی دو جلدوں کی کتاب سے ظاہر ہوتی ہے۔ روحوں کی کہانی کی پہلی جِلد انہوں نے 1944 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد شائع کی۔دوسری جِلد Not Exactly Ghosts ، 1947میں شائع ہوئی۔اِس میں 12 عدد کہانیاں ہیں۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک۔ مندرجہ ذیل Fits of the Blues اس کی گیارہویں کہانی ہے۔
’’ ایسا پیارا موسم لندن میں قسمت سے ہی ملے گا ! ‘‘۔ ا سسٹنٹ کمشنر ہاؤس سکھر کے لان میں بیٹھے ہوئے د ھر مِندرنے ناظم چشتی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
نگر پارکر کے رہنے والے یہ دونوں دوست ،اسکول و کالج سے ہی ہم جماعت رہے۔ عملی زندگی میں داخل ہونے کے کافی عرصہ بعد یہ دونوں ملے تھے۔دھرمِندر بھیل، سِول سروس میں آ گیا اور ایک آدھ تبادلے کے بعد سکھر میں اسسٹنٹ کمشنر لگ گیا۔ ناظم چشتی اپنے خاندانی کاروبار ’ قادری اینڈ چشتی جیولر ز ‘ سے وابستہ ہو گیا۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ ان دونوں کی بہت سی باتیں بالکل متضاد تھیں ۔ دھرمندر پستہ قد اور موٹا جبکہ ناظم دبلا پتلا اور لمبے قد کا تھا۔دھرمندر جلد گھل مل جانے والا اور ہمدرد ، اس کے بر خلاف ناظم خود بیں اور الگ تھلگ رہنے والا تھا۔اب سکھر میں اِن دونوں کی یہ تجدیدی ملاقات تھی۔
’’ اسسٹنٹ کمشنر کی نوکری بھی عجائبات سے بھرپور ہے۔میں تمہیں اپنی مثال دیتا ہوں۔ یہاں چارج سنبھالتے وقت میں بہت خوش تھا کہ بڑے شہر میں پوسٹنگ ہوئی ہے۔ایک مہینہ بہ مشکل گزرا کہ پہلے سیلاب آ گیا۔ ایک مخصوص گاؤں میں کافی زیادہ نقصان ہوا جہاں پرکھڑی فصلیں تباہ و برباد ہو گئیں۔اِس سے کچھ جان چھوٹی تو دوبارہ اُسی گاؤں کے مچھیروں کی بستی میں وبائی امراض پھوٹ پڑے۔ میں نے ہنگامی بنیاد پر کراچی سے ادویات اور غذائی اجناس منگوائیں اور اِن کی موثر تقسیم کے لئے جب حکمتِ عملی بنانا چاہی تو نمبردار، پنچایت اور خود عوام نے قطعاََ تعاون نہیں کیا‘‘۔
انہوں نے 1907 سے ایک لمبے عرصے برطانوی نو آبادیاتی ملایا کی سِول سروس میں مختلف عہدوں پر ملازمت کی۔ یہاں کی زبان ، ثقافت اور لوک کہانیوں میں بہت دل چسپی لی۔وہ 1935 سے 1937 تک ہانگ کانگ کے گورنر رہے۔پھر انہیں 1937سے 1944 کے زمانے میں سیلون، موجودہ سری لنکا کا گورنر بنا دیا گیا۔سر اینڈرو کلڈی کٹ کی ساری زندگی مافوق الفطرت سے بہت دلچسپی رہی۔ یہ ان کی لکھی ہوئی دو جلدوں کی کتاب سے ظاہر ہوتی ہے۔ روحوں کی کہانی کی پہلی جِلد انہوں نے 1944 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد شائع کی۔دوسری جِلد Not Exactly Ghosts ، 1947میں شائع ہوئی۔اِس میں 12 عدد کہانیاں ہیں۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک۔ مندرجہ ذیل Fits of the Blues اس کی گیارہویں کہانی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب تھایا خیال تھا کیا تھا۔۔۔
ایک پراسرار کہانی
تحریر شاہد لطیف
’’ ایسا پیارا موسم لندن میں قسمت سے ہی ملے گا ! ‘‘۔ ا سسٹنٹ کمشنر ہاؤس سکھر کے لان میں بیٹھے ہوئے د ھر مِندرنے ناظم چشتی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
نگر پارکر کے رہنے والے یہ دونوں دوست ،اسکول و کالج سے ہی ہم جماعت رہے۔ عملی زندگی میں داخل ہونے کے کافی عرصہ بعد یہ دونوں ملے تھے۔دھرمِندر بھیل، سِول سروس میں آ گیا اور ایک آدھ تبادلے کے بعد سکھر میں اسسٹنٹ کمشنر لگ گیا۔ ناظم چشتی اپنے خاندانی کاروبار ’ قادری اینڈ چشتی جیولر ز ‘ سے وابستہ ہو گیا۔ یہ بھی عجیب بات تھی کہ ان دونوں کی بہت سی باتیں بالکل متضاد تھیں ۔ دھرمندر پستہ قد اور موٹا جبکہ ناظم دبلا پتلا اور لمبے قد کا تھا۔دھرمندر جلد گھل مل جانے والا اور ہمدرد ، اس کے بر خلاف ناظم خود بیں اور الگ تھلگ رہنے والا تھا۔اب سکھر میں اِن دونوں کی یہ تجدیدی ملاقات تھی۔
’’ اسسٹنٹ کمشنر کی نوکری بھی عجائبات سے بھرپور ہے۔میں تمہیں اپنی مثال دیتا ہوں۔ یہاں چارج سنبھالتے وقت میں بہت خوش تھا کہ بڑے شہر میں پوسٹنگ ہوئی ہے۔ایک مہینہ بہ مشکل گزرا کہ پہلے سیلاب آ گیا۔ ایک مخصوص گاؤں میں کافی زیادہ نقصان ہوا جہاں پرکھڑی فصلیں تباہ و برباد ہو گئیں۔اِس سے کچھ جان چھوٹی تو دوبارہ اُسی گاؤں کے مچھیروں کی بستی میں وبائی امراض پھوٹ پڑے۔ میں نے ہنگامی بنیاد پر کراچی سے ادویات اور غذائی اجناس منگوائیں اور اِن کی موثر تقسیم کے لئے جب حکمتِ عملی بنانا چاہی تو نمبردار، پنچایت اور خود عوام نے قطعاََ تعاون نہیں کیا‘‘۔
’’ کمال ہے ! کیا وہ فاقوں اور بیماریوں میں رہنا پسند کرتے ہیں؟‘‘۔ناظم نے سوال کیا۔
’’ نہیں یہ بات نہیں ! ‘‘، دھرمندر نے کہنا شروع کیا۔’’ یہ لوگ ایک طرح کی توہم پرستی کا شکار ہیں جس سے اِن میں مردہ دلی چھا گئی ہے۔ارے ہاں ! ناظم کیا تمہارے خاندانی بزنس میں قیمتی پتھروں کی خریدو فروخت بھی شامِل ہے؟‘‘۔
’’ ہاں بالکل ہے ! لیکن میرے خاندانی کاروبار اور یہاں کے لوگوں کی توہم پرستی کا کیا تعلق ہے؟‘‘۔ناظم نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
اسی دوران ایک ملازم ٹرے میں چائے اور لوازمات لے کر آیا۔دھرمِندر نے اشارے سے اُس کو جانے کا کہا اور چائے دانی سے ٹی کوزی اُٹھاتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ’’ بھئی کوئی مانے یا نہ مانے چائے کا مزہ چائے دانی کی دَم والی چائے کا ہی ہے۔ہاں ! تم نے ایک سوال پوچھا تھا تو جواب ہے کہ تمہارے کاروبار کا یہاں کے لوگوں کی توہم پرستی سے کوئی تعلق نہیں۔البتہ تمہاری دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں کہ یہاں اس گاؤں میں ایک تقریب ہونے والی ہے جس کا تعلق قیمتی پتھروں اور توہم پرستی سے ضرور ہے! ‘‘۔
’’ اچھا! ! میں وہ ضرور سننا چاہوں گا‘‘۔ ناظم نے جواب دیا۔
’’ میرے مذہب کی طرح اِس گاؤں کے لوگ بھی دیو ی دیوتاؤں کے ماننے والے ہیں۔یہاں کی اکثریت ’ سِتّوہلا ‘ دیوی کے ماننے والے ہیں۔اِن کے خیال سے یہ دیوی دریا اور جھیلوں کی لہروں، پانی، بارش ، برسات اور سیلاب وغیرہ پر تسّلط رکھتی ہے۔یہاں کے دہقان اور مچھیرے دیوی کو خوش اور راضی رکھنے کے لئے چڑھاوے دیتے ہیں۔آج کل یہ دیوی اِن لوگوں سے سخت ناراض ہے۔ کیوں کہ اِس کے بھگتوں اور پیروکاروں نے اِس کے ساتھ دھوکہ اور چار سو بیسی کی ہے۔ہر سال ایک خاص مہینے میں چودھویں رات کو اس گاؤں کی ساحلی جھیل میں ایک قدرے بڑے ’ نیلم ‘ کو دیوی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔یہ مختصر سی رسم ایک خصوصی تقریب میں ادا کی جاتی ہے۔یہاں کے رواج کے مطابق ایسا کرنے سے سارا سال دیوی کے پیروکار خوشحال رہتے ہیں‘‘ ۔
’’ میری خفیہ اطلاع کے مطابق اِس مرتبہ اصل قیمتی نیلم کسی جیولر کو اچھی قیمت پر بیچ دیا گیا اور نیلے رنگ کے اُسی کے وزن اور شکل کے برابر شیشے کے گولے کو مقدس کپڑے میں لپیٹ کر جھیل میں بطور اصل ، بھینٹ چڑھا دیا گیا تھا ۔اِس جھیل میں مگر مچھ شاذ و نادر ہی آتے ہیں جو کبھی نقصان نہیں پہنچاتے۔ لیکن اب کی دفعہ یہاں کے بڑے پجاری کو مگر مچھ اُٹھا کر لے گیا۔میری اطلاع کے مطابق یہی شخص قیمتی نیلم کو بیچنے اور اس کی جگہ دو نمبر نیلم رکھ کر دیوی کی بھینٹ چڑھانے کا ملزم تھا۔گویا دیوی نے اس کے ساتھ انصاف کر دیا‘‘۔
’’ دیوی کی بھینٹ کا معاملہ اپنی جگہ قائم تھا۔بڑی سوچ بچار کے بعد بستی کے پنڈت اور پروہت نے کل رات گیارہ بج کر گیارہ منٹ کا وقت دیوی کو بھینٹ دینے کے لئے موزوں قرار دیا ہے ۔یہ سیلاب کا آنا، مچھیروں کی بستی میں وبا کا ڈیرے ڈالنا دیوی کا غصہ مانا جا رہا ہے۔ اسی لئے یہاں کے لوگ اور ان کی پنچایت اپنے لئے کوئی سرکاری رعایت لینے کو تیار ہی نہیں ۔اُن کے خیال سے یہ آفات دیوی کی سزا ہیں ۔اب کل رات اِس تقریب کے بعد امدادی کام یقیناََ پوری رفتار سے شروع ہو جائے گا‘‘۔
’’ توہم پرستی کو ایک طرف رکھو یار ! میں تو یہ دلچسپ تقریب ضرور دیکھنا چاہوں گا‘‘۔ناظم نے دھرمِندر سے کہا۔
’’ ہاں کیوں نہیں ! لیکن میں تمہارے ساتھ نہ جا سکوں گا کیوں کہ مجھے کل شام ایک سرکاری تقریب میں حیدرآباد جانا ہے۔تم یہاں اطمینان سے رہنا۔یہاں ایک خانساماں اور ایک چوکیدار ہے۔ وہ تمہارا خیال رکھیں گے۔جانے سے پہلے میں گاؤں کے نمبردار سے کہہ دوں گا کہ وہ تمہیں اپنے برابر بٹھا کر تقریب د کھائے۔ایک بات کا خاص خیال رکھنا کہ بستی والے پچھلے دھوکہ دہی والے واقعے سے پہلے ہی جذباتی اور حسّاس ہیں لہٰذا نمبردار سے بھینٹ کے لئے جھیل میں پھینکے جانے والے ’ نیلم ‘ کو ہاتھ میں لے کر دیکھنے کی فرمائش نہ کرنا۔ یقین کرو میری شدید خواہش تھی کہ میں بھی اِس تقریب میں شامل ہوتا مگر۔۔۔ خیر ! یہ ایک سادا سی تقریب ہوتی ہے کوئی رنگ برنگی رسومات والا شو نہیں۔ساری کاروائی 10منٹ میں مکمل بھی ہو جائے گی‘‘۔
گفتگو کے دوران ایک ملازم نے رات کا کھانا تیار ہونے کی اطلاع دی۔دونوں دوست ٹہلتے ہوئے پرانے فیشن کے برآمدے میں سے کھانے کے کمرے کی طرف چلنے لگے۔سامنے آسمان پر تیرھویں کا چاند ناریل کے درختوں کے درمیان سحر انگیز کرنیں بکھیر رہا تھا۔ کسی کسی وقت اُس کی جادوئی روشنی اُس بل کھاتے ہوئے دھوئیں سے دھندلانے لگتی تھی جو کھجور کے پیڑوں کے نیچے سوکھی ٹہنیوں اور پتوں کے جلانے سے اوپر کی جانب اُٹھ رہا تھا۔یہ دھواں لال انگاروں اور چڑھتے چاند کی چاندنی میں نیلا نظر آ رہا تھا۔
’’ نیلی چاندنی اور نیلا دھواں۔۔۔یہ تو بہت نیک شگون ہے۔پانی کی دیوی کا پسندیدہ رنگ نیلا ہی تو ہے۔جب ہی تو نیلم پتھر کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے‘‘۔دھرمِندر نے چاند کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے دھرمندر نے بتا یا تھا اُسی طرح تقریب کا آغاز ہوا۔سادگی اور خاموشی میں یہ قافلہ جھیل کے قریب ایک مخصوص مقام پر رُک گیا۔ تین باتوں نے ناظم کو بہت متاثر کیا۔سب سے پہلے نیلم پتھر کی خوبصورتی اور اُس کا حجم !! ایسے انمول پتھر کے لئے اُس کی فرم تو کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ہو جاتی۔ اُس کی انگلیاں اس نیلم کو چھونے کے لئے مچلنے لگیں۔دوسری متاثر کُن بات اِس چڑھاوے کے لئے منتخب کردہ نوجوان تھا۔ اُس نے نیلے رنگ کا کوئی لباس پہن رکھا تھا۔اپنے خدو خال اور کاسنی رنگت سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ نوجوان اِس بستی کے کسانوں اور مچھیروں میں سے نہیں ہے۔بلکہ کہیں اور سے بلوایا گیا ہے۔ایسے قیمتی پتھر کا یوں جھیل میں پھینکا جانا ناظم چشتی کے لئے کسی بھی لحاظ سے احسن قدم نہیں تھا۔البتہ اس ساری کاروائی کو جس دل جمعی اور تقدس کے ساتھ اُس نوجوان نے اول تا آخر ادا کیا وہ ضرور قابل تحسین تھا۔تیسری بات در اصل ناظم کو اشتعال دلا رہی تھی کہ ایک انمول پتھر یوں ہی ضائع گیا۔یہ بات اُسے بے چین کئے دے رہی تھی۔اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس واپس آ کر تھکن کے باوجود نیند اُس سے کوسوں دور تھی۔آخر تنگ آ کر وہ باہر لان میں ٹہلنے لگا۔ پھر کچھ سوچ کر ایک تولیہ لے کر جھیل کی سمت چل پڑا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ اتھلے پانی میں ننگے پاؤں چل رہا تھا۔ ٹھنڈے پانی میں چلنے سے اُسے بہت فرحت محسوس ہوئی۔پیروں کے نیچے زیادہ تر زمین ہموار تھی لیکن کہیں کہیں کوئی سنگریزے بھی محسوس ہو جاتے۔ہر ایک مرتبہ وہ جھُک کر اِن سنگریزوں کو اُٹھا کر بغور دیکھتا۔اُس کو نگر پارکر میں اپنے لڑکپن کا زمانہ یاد آ گیا ۔ وہاں بہت کم بارشیں ہوتی تھیں لیکن جب ہوتیں تو وہ کھڑے پانی میں اسی طرح جھُک کر دُھلے ہوئے سنگریزے تلاش کیا کرتا تھا۔چلتے چلتے وہ نسبتاََ گہرے پانی میں آ گیا۔
یہاں بھی جب اُس کو پیروں تلے کوئی سنگریزے محسوس ہوتے وہ فوراََ ان کو لے کرغور سے معائنہ کرتا۔’’ ارے یہ کیا !! ‘‘۔ایک سنگریزے کو دیکھتے ہی اُس کے منہ سے یہ جملہ بیساختہ نکلا۔’’ یہ تو وہی نیلم ہے جو چند گھنٹے قبل جھیل میں پھینکا گیا تھا‘‘۔فرطِ خوشی سے ناظم نے کہا۔ جھیل سے باہر آ کر اُس نے بڑے تولیے سے خوب اچھی طرح اپنے آپ کو خشک کیا ۔ گیلے کپڑے ساتھ لئے اور تولیہ باندھے واپسی کی راہ لی۔البتہ جب تک واپس اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس نہیں پہنچا اُس وقت تک ہر چند قدم کے بعد کبھی وہ نیلم دائیں مٹھُی میں اور کبھی بائیں مٹھُی میں منتقل کرتا رہا۔یہ اُس کی خوش قسمتی تھی کہ تقریب کے بعد چوکیدار تھک کر اندر کہیں سو رہا تھا یوں ناظم بہ آسانی گھر میں داخل ہو گیا۔ اب اُسے یاد آیا کہ گھر سے باہر جاتے ہوئے بھی چوکیدار موجود نہیں تھا۔
ویسے تو سب ٹھیک تھا لیکن ضمیر کی آواز کو بہلانے کے لئے اُس نے اپنے آپ سے سرگوشی میں گفتگو کی کہ ’’ اِس میں بھلا کیا برائی ہے ! میں نے تو ایک قیمتی چیز کو فضول ضائع ہونے سے بچا لیا‘‘۔وہ بِستر پر لیٹتے ہی میٹھی نیند سو گیا۔اُس کو خواب بھی خوشگوار نظر آئے ۔البتہ کبھی کبھی اُسے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ نیلے لباس والا نوجوان برآمدے کی کھڑکی سے اُس کو مُسکرا کر دیکھ رہا ہے۔
اگلے روز غسلخانے میں دانت مانجھتے ہوئے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھتے ہوئے اُس کو ایسا لگاجیسے وہی نوجوان اُس کو گھور رہا ہو۔ لیکن۔۔۔اُس کا انداز دوستانہ ہر گز بھی نہ تھا۔اُس کو ایک جھٹکا سا لگا اور رات والا خواب یاد آیا۔خواب میں بھی اُس کی مسکراہٹ دوستانہ نہیں تھی۔دو روز بعد وہ کراچی واپس چلا گیا۔سکھر سے کراچی جاتے ہوئے ریل گاڑی میں اُس نے اپنے ذہن سے رات والا خواب اور آئینے میں نوجوان کی شبیہ جھٹک ڈالی۔ اُس نے یہ سفر اونگھتے اور اخبارات پڑھتے گزار دیا۔ ہاں کبھی کبھار غیر محسوس طریقے سے اپنی جیب میں قیمتی پتھر کی موجودگی معلوم کرتا رہا۔
اگلے روز انگلستان جانے کے لئے اُس نے پہلے ہی سے انتظامات کر رکھے تھے۔ یوں وہ لندن کے لئے پرواز کر گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناظم چشتی کی عمر 27 سال ہو چکی تھی۔ مالی اعتبار سے بھی وہ مضبوط تھا۔اُس کے والد کی خواہش تھی کہ ناظم شادی کر لے۔ سکھر آنے سے پہلے وہ اپنی شادی سے متعلق خود بھی سوچ رہا تھا ۔لیکن اب۔۔۔ اب سب سوچوں پر بھاری یہ سوچ تھی کہ وہ اپنے والد کو ’’اِس نیلم ‘‘ کے بارے میں کیا بتائے!! سچ بولنا اپنے والد کی نظروں میں گرنا اور شاید خاندانی کاروبار سے علیحدگی ہوتا۔سب سے بڑھ کر لندن کے کاروباری حلقوں میں اس کی ساکھ اور ا عتماد صفر ہو جاتا۔اُس نے یہی بہتر سمجھا کہ قیمتی پتھر کے حصول کی ایک فرضی کہانی سُنا ڈالے کہ قسمت سے ایک بیش قیمت نیلم کا بہترین سودا ہو گیا۔ہوائی اڈے تک وہ اِن ہی خطوط پر کام کرتا رہا کہ جب میں یہ نیلم دکھاؤں گا تو یہ سوال پوچھا جائے گا۔ میں اُس کا یہ جواب دوں گا۔۔۔ پرواز کے لندن اُترنے تک اُس نے حکمتِ عملی بدل ڈالی۔اُس نے وقتی طور پر اِس نیلم کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہاں پہنچتے ہی وہ اپنے روزمرہ معاملات میں مشغول ہو گیا۔ البتہ لندن آ کر اُسے آنکھوں کا مسئلہ شروع ہو گیا۔گھڑی ساز /مُرمت کرنے والوں کی طرح قیمتی نوادر اور پتھروں کے کاروبار میں آنکھوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اُس نے سوچاکہ شاید بہت زیادہ نیلم پتھر کو دیکھنے سے اُس کی آنکھوں میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ راتوں کو وہ گھنٹوں ٹیبل لیمپ کی روشنی میں اُس نیلم کو دیکھتا رہتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ نیلم پتھر ایک رنگ میں نہیں رہا تھا بلکہ اُسے کبھی گہرا نیلا اور کبھی نیلے رنگ کے مختلف شیڈ نظر آتے۔پھر اکثر نیلم کو دیکھنے کے بعد اُسے ہر ایک چیز دھندلی نظر آتی۔کبھی یہ بھی ہوتا کہ سفید رنگ کی دیواریں اور چھتیں اُس کو ہلکے نیلے رنگ کی نظر آتیں۔یہ فریبِ نظر لندن آنے کے بعد سے محسوس ہونے لگا تھا اور آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔کبھی تو پانی پینے کے عام گلاس بھی پانی سمیت اُسے نیلے دکھائی دیتے۔جلد ہی ناظم کو اندازہ ہو گیا کہ زیورات، نوادرات اور قیمتی پتھروں کی خرید و فروخت میں یہ فریبِ نظر متواتر رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں جب ایک خاتون ’ فیروزہ ‘ بیچنے کے لئے لائیں تو ناظم چشتی کو خیال آیا کہ کہیں وہ اپنے فریبِ نظر کی وجہ سے گھاٹے کا سودا نہ کر بیٹھے لہٰذا اُس نے اپنے ایک معاون کو مشورے کے لئے بلوایا اور اُس پر قطعاََ یہ ظاہرنہیں ہونے دیا کہ اُسے کیا مشکل پیش آ رہی ہے۔لیکن اِس واقعے سے اُسے اچھی طرح علم ہو گیا کہ یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک نہیں چلے گی۔اب کچھ کرنا ہی ہو گا۔
اسی دوران سکھر سے دھرمِندر بھیل کا خط آ گیا:
’’ مجھے علم ہوا ہے کہ ’ سِتّوہلا ‘ دیوی کو اب پھر دھوکہ دے دیا گیا ہے۔وہ نیلم جو پچھلے دنوں جھیل میں دیوی کی بھینٹ چڑھایا گیا وہ نیلم نہیں تھا۔بلکہ رنگ خارج کرنے والا پتھر تھا۔میں اِس رنگ خارج کرنے والی بات کا قائل تو نہیں! ! ہاں البتہ بعض ’یاقوت ‘ اور ’ نیلم ‘ کے بارے میں سُنا ہے کہ اپنے مالک کی آنکھوں میں اپنا رنگ خارج کرتے ہیں۔اس طرح بتدریج اُن کو ہر ایک شے پتھر کی مناسبت سے لال یا نیلی نظر آتی ہے۔بہر حال جوں ہی مجھے یہ اطلاع ملی میں نے فوراََ تمہیں خط لکھ دیا۔پراسرار اور نا قابلِ یقین کہانیاں تمہیں پسند ہیں نا ! ! ہا ہا ‘‘۔
ناظم چشتی یہ خط پڑھ کر قطعاََ محظوظ نہیں ہوا۔ بقول دھرمِندر یہ بے معنی بات تھی لیکن ساتھ ساتھ تکلیف دہ بھی کیوں کہ گزشتہ ہفتہ آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کروانے کے بعد اُسے بتایا گیا تھا کہ کالے موتیے کی کوئی علامت نہیں ہے نا ہی کوئی اور آنکھوں کا مسئلہ ہے۔ناظم کو ماہرِ امراضِ چشم نے ہفتہ پندرہ روز آرام کرنے کا مشورہ دیا۔خاص طور پر آنکھوں کو ۔اُس نے پیر سے چھٹی لینے کا فیصلہ کر لیا۔ دفتر سے اُٹھنے سے پہلے اُس نے دھرمِندر کے خط کے پُرزے پُرزے کر کے ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔
گھر جانے سے پہلے کیفے میں کافی پینے کا موڈ ہوا۔ابھی اُس نے دو گھونٹ ہی پئے ہوں گے کہ دفعتا ایسا محسوس ہوا کہ جیسے سامنے والی میز پر وہی نیلم پتھر بھینٹ دینے والا نوجوان جو اکثر اُس کے خوابوں میں آتا تھا ، چہرہ پر طنزیہ مسکراہٹ لئے سامنے بیٹھا ہے۔ گھبراہٹ میں جو ناظم یکدم اُٹھا تو کافی کی پیالی اُس کے ہاتھ سے چھناکے سے فرش پر آ رہی۔آس پاس کی میزوں سے لوگ گردن گھُما گھُما کر اُسے دیکھنے لگے ۔کیفے کا ایک باوردی شخص دوڑ کر اُس کے پاس آیا:
’’ جناب خیریت !! کسی مدد کی ضرورت تو نہیں؟‘‘
’’ شکریہ !! کچھ نہیں چکر سا آ گیا تھا‘‘۔ اُس نوجوان کو دیکھتے ہوئے ایک پھیکی سی مسکراہٹ لئے وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ کیفے کا گورا ملازم ناظم کے ساتھ دروازے تک آیا۔
’’ وہ جو میرے سامنے والے ٹیبل پر اکیلا ایشین نوجوان بیٹھا تھاکیا تم اُسے جانتے ہو؟‘‘ ۔ کچھ سوچتے ہوئے ناظم نے گورے باوردی کیفے ملازم سے سوال کیا۔
’’ نہیں جناب ! یہ تو پہلی مرتبہ آج ہی یہاں آیا ہے۔شاید اپنے وطن سے یہاں علاج کروانے آیا ہو گا‘‘۔کیفے ملازم نے جواب دیا۔
گھر جاتے ہوئے تمام راستے وہ سوچتا رہا کہ پہلے تو خوابوں میں وہ نوجوان آتا تھا اب تو۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے روز ناظم نے چھٹی کی ۔اُس کا دل کسی سے ملنے نہ کچھ کرنے کو چاہ رہا تھا ۔ اُس کے دفتر سے فون آ گیا۔ ٹیلیفون سُننے کے بعد اُس کی نظر اپنے بستر کی چادر پر گئی تو اُسے محسوس ہوا گویا سفید چادر اور سفید تکیے کے غلاف کو دھوتے ہوئے بہت زیادہ نیل لگا کر بد نما کر دیا گیا ہے۔ اِس سے پہلے کہ وہ ملازم کے کان کھینچتا ، ایک مرتبہ اور آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ دو تین دفعہ سفید بیڈ شیٹ اور تکیے کے غلاف کو دیکھنے پر گہرا نیلا رنگ اب برائے نام ہی نیلا نظر آرہا تھا۔ اب اُس نے سوچا اورپشت کے بَل لیٹ کر خود پر تجربات شروع کر دیے۔کبھی ایک آنکھ بند کر کے، کبھی دوسری ، کبھی آہستہ آہستہ کبھی تیزی سے اپنی آنکھوں کی پتلیوں کو چھت، دیواروں اور کھڑکی پر مرکوز کرنے لگا۔ کبھی سب ہی کچھ نیلا نظر آتا کبھی نہیں۔اس تجربہ سے کوئی کُلیہ تو ثابت نہیں ہو سکاالبتہ سر میں درد ضرور ہو گیا۔
ناشتے پر ناظم نے دوبارہ تجربات شروع کر دیے۔پلیٹ، چمچ، کپ وغیرہ کو بار بار دیکھنا، ایک آنکھ سے، آنکھیں میچ کر ۔۔۔ پھر اپنے ملازم کو آواز دے کر بلایا اور اِن اشیاء کے رنگوں کے بارے میں پوچھنے لگا۔ملازم اسے مذاق سمجھتے ہوئے کہنے لگا:
’’ ہا ہا ہا! صاحب آپ مجھ سے ہر ایک چیز کا پوچھتے ہیں کہ نیلا ہے یا نہیں ! سب کچھ نیلا ہو سکتا ہے سوائے انڈے کے ۔ہا ہا ہا ‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر کے روز سے ناظم چشتی نے اپنی تعطیلات کا آغاز کر دیا۔اُس کے دفتر اور خاندانی کاروبار ’ قادری اینڈ چشتی جیولر ز ‘ میں بتا دیا گیا تھا کہ وہ ہفتہ بھر کے لئے لندن سے باہر جا رہا ہے۔ریلوے اسٹیشن سے اس کا سفر ایک مشینی انداز سے شروع ہوا۔ٹکٹ گھر پر کوئی رش نہیں تھا۔اُس نے ٹکٹ لیا۔ فرسٹ کلاس کے ڈبے میں ایک کونے میں جا بیٹھا۔پلیٹ فارم پر معمول کے مطابق سرگرمیاں جاری تھیں۔ اُس نے آنکھوں سے نیلا دِکھنے کا تجربہ یہاں بھی شروع کر دیا۔ڈبے کی راہداری سے گزرتے لوگوں کے ملبوسات کے رنگوں کو مختلف طرح سے دیکھنے لگا۔ اِس کے کمپارٹمنٹ میں گاڑی کے چلنے کے بعد بھی کوئی مسافر سوار نہیں ہوا۔ ناظم نے مشاہدہء نفس کے طور پر اپنی سوچ پر توجہ مرکوز کرنا شروع کی۔سکھر سے شروع ہونے والے واقعات اور تجربات پر نئے سرے سے غور کرنے لگا۔ اسی دوران ریل گاڑی نے تیز رفتاری سے پٹریاں بدلیں تو اس جھٹکے سے اُس کی سوچ کا تانا بانا ٹوٹ گیا۔ناظم چشتی اپنی نشست پر بالکل سیدھا بیٹھ گیااور خالی کمپارٹمنٹ میں بہ آوازِ بلند بولنا شروع کر دیا۔’’ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ فریبِ نظر ہے یا حقیقت!! کیا میں پاگل ہونے والا ہوں !! اس کا تو صاف صاف یہی مطلب ہے کہ یہ فریبِ نظر نہیں ہے بلکہ اُس سکھر والے نوجوان کو یہاں میرے علاوہ کیفے کے ملازم نے بھی دیکھا ہے ۔اب تک تو میں کسی بھی مافوق الفطرت کو نہیں مانتا تھا مگر اب تو جیتے جاگتے میں نے اور اُس ملازم نے بھی اُس شخص کو دیکھا ہے۔اوپر سے ماہرِ امراضِ چشم یہ بتانے سے قاصر ہے کہ مجھے اشیاء نیلی کیوں نظر آتی ہیں۔سکھر سے موصول ہونے والے دھرمِندر بھیل کا خط اس کی توجیہہ ضرور پیش کرتا ہے۔ ممکن ہے نیلم پتھر کو پانی میں ڈالنے والا نوجوان بہتر علاج کے لئے ہی لندن آیا ہو۔ پانی کی دیوی سِتو ہیلا اور یہ نوجوان اگر میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ ہی گئے ہیں تو جو دل چاہے کرتے پھریں مجھے کیا۔۔۔میں ان کے مذاق سے پریشان کیوں ہوں!! ‘‘۔
اُس کی منزل ایک چھوٹا سا قصبہ تھی۔ریل گاڑی کے دروازے پر ناظم نے آ کر باہر جھانکا۔ افروز اور مریم اُسے دیکھتے ہی خوشی سے لپکے۔ مریم اُس کی پھپھو کی بیٹی تھی اور مریم کا شوہر افروز بھی قریبی عزیز تھا۔ افروز نے اُس کا مختصر سا سامان اُٹھایا۔ناظم نے ساتھ لائے ہوئے تحفے مریم کو دیے اور یہ تینوں اسٹیشن کی پارکنگ لاٹ کی جانب چل پڑے۔کار میں ہونے والی گفتگو میں ناظم نے ضرور حصہ لیا لیکن تمام راستے ، ندی، نالے اور پہاڑیاں کبھی نیلی ہو جاتیں کبھی سبز اور کبھی سُرمئی۔گھر پہنچتے ہی مریم نے باہر ٹیرس پر ہی چائے کا انتظام کر دیا۔ وہ جولائی کا وسط تھا۔ہوا بالکل ساکِت اور موسم قدرے گرم تھا۔
’’ بھئی ناظم !! مجھ کو اور افروز کو ایک نکاح میں شرکت کرنا ہے تُم چائے پی کر تروتازہ ہو جاؤ ۔ہم گھنٹے بھر میں آتے ہیں‘‘۔مریم نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
’’ ٹھیک ہے آپ دونوں چلیں! میں کچھ دیر یہیں ٹیرس پر ہوں پھر اندر چلا جاؤں گا‘‘۔ناظم نے جواب دیا۔
’’ ارے ہاں ناظم !! تمہیں اہم خبر تو بتائی ہی نہیں !! ‘‘۔ مریم بولی۔
’’ ارے رہنے دو !! ناظم کو اس خبر سے کوئی دل چسپی نہیں ہو گی !! ‘‘۔ افروز نے ناظم کا اشتیاق بڑھاتے ہوئے لُقمہ دیا۔
’’ ہا ہا ہا ‘‘۔ جواب میں ناظم نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
’’ وہ دیکھو گلاب کی باڑھ کے پیچھے ہم نے نیا سوئمنگ پول بنوایا ہے۔کل دوپہر تک یہ استعمال کے قابل ہو جائے گا‘‘۔مریم نے کہا۔
فوراََ مریم کی بات کاٹتے ہوئے افروز نے کہا ’’ کل دوپہر کو نہیں بلکہ پرسوں صبح۔۔۔ وہ لوگ پمپ اور فلٹر کا کام پرسوں صبح مکمل ہونے کا کہہ گئے ہیں۔پول کے چھلانگ لگانے کے ڈائیوِنگ بورڈ سے اس کی گہرائی 12فٹ ہے۔یہاں تمہیں خوب مزا آئے گا۔کیا سکھر میں بھی تُم نے تیراکی کی تھی؟‘‘ افروز نے ناظم سے سوال کیا۔
’’ بہت زیادہ !! ‘‘۔ناظم نے زندہ دلی سے کہنا شروع کیا: ’’ تمہیں تو وہاں ہونا چاہیے تھا جب میں قیمتی پتھروں کے لئے پانی میں ڈائیو لگاتا تھا۔وہاں یہ پتھر پانی کی تہہ میں اُگتے تھے!! تمہیں بھی چاہیے کہ اپنے تالاب میں اِن کی کاشت کروا لو۔فصل میں کاٹوں گا!! ‘‘۔
’’ ہا ہا ہا ہا ‘‘ ۔ہنستے ہوئے افروز اور مریم باہر کار کی سمت نکل گئے۔
راستے میں مریم نے اپنے شوہر سے کہا: ’’ ناظم کو کیا ہوا ہے؟ اسکول کے بچوں جیسی باتیں کر رہا ہے۔پہلے والا ناظم تو بالکل بھی نہیں لگ رہا !! ‘‘۔
’’ اپنے کاروبار سے چھٹی پر آیا ہے۔لیکن میرا خیال ہے سکھر میں اسے ملیریا ہوا ہو گا۔یہ اُس کا اثر بھی ہو سکتا ہے۔
’’ نہیں یہ بات نہیں !! تم نے دیکھا نہیں وہ چائے کے دوران بھی عجیب باتیں کر رہا تھا‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے شام بڑھتی گئی ویسے ویسے گرمی کی شدّت بھی ۔ناظم سکھر کی گرمی کو یاد کر کے تلملا اُٹھا ۔ اُسے اور تو کچھ نہ سوجھا سیدھا گلاب کی باڑھ کی جانب آ گیا۔سامنے سوئمنگ پول دیکھ کر فرحت و تازگی کا احساس ہونے لگا۔وہ ڈائیونگ بورڈ کی جانب چل دیا۔ایک تو گلاب کے پھولوں کی مسحور کُن مہک پھر سامنے تالاب میں پانی کے ہونے کے خوشگوار احساس نے ناظم کی تمام تھکاوٹ دور کر دی۔وہاں ہر ایک چیز نئی لگ رہی تھی ۔حتیٰ کہ ڈائیونگ بورڈ ، اس کی سیڑھیوں اور حفاظتی جنگلے پربھی نیا رنگ نظر آیا۔وہ آہستہ آہستہ حفاظتی جنگلے کو پکڑ ے ڈائیونگ بورڈ پر چڑھنے لگا۔اوپر پہنچ کر اُسے فرحت انگیز ٹھڈک محسوس ہونے لگی۔ خِلوت یا پردے کے لئے تالاب کے ساتھ کمر تک اونچی دیواریں تھیں۔ ناظم کو یہ سب بہت اچھا لگا۔اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اِس تالاب میں چھلانگ لگا کر افتتاح کیوں نہ کر ڈالے !! ناظم نے ایک لمبا سانس لیا اور نیچے تالاب میں چھلانگ لگا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ لاش کا سر دیکھو !! جیسے بلندی سے سر کے بل گرا ہے‘‘۔ پولیس کے ساتھ آئے ڈاکٹر صاحب نے کہا ۔’’ لیکن یہ کیوں کر ممکن ہے !! سوئمنگ پول تو خالی تھا !! شاید مرنے والے کا سر چکرا گیا تھا‘‘۔ ایک پولیس افسر نے کہا۔
’’ عجیب بات ہے !! تالاب میں توایک بوند پانی بھی نہیں تھا۔ابھی تو فرش کا سمینٹ ہی بہ مشکل خشک ہوا تھا‘‘۔ گھر کے مکین افروز نے کہا۔
’’ ٹائلوں سے پانی کی موجودگی سے دھوکا کھانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ‘‘۔ پولیس افسر نے کہا۔
’’ نہیں جناب !! یہاں نیلی یا سبز رنگ کی کوئی ٹائلیں سرے سے ہیں ہی نہیں۔یہ دیکھئے !! صرف اور صرف سفید ٹائلیں ہیں‘‘۔ افروز نے جواب دیا۔
’’ ارے یہ کیا؟؟ ‘‘۔وہاں موجود ایک سراغ رساں نے کسی نیلے رنگ کی شے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے افروز سے پوچھا۔
’’ یہ !! یہ ٹھوس شیشے کا لٹو ہے۔ کل میرا بیٹا گلاب کے پودوں میں سے اُٹھا کرلایا تھا۔نہ جانے کس کھلونے کا حصہ ہے۔ میں نے اسے منع کیا کہ ہاتھ زخمی ہو جائے گا۔تب غصے میں اُس نے یہ اُٹھا کر خالی تالاب میں پھینک دیا‘‘۔
’’ جی ڈاکٹر صاحب !! ‘‘، پولیس افسر نے معمول کے مطابق سوال کیا ۔’’آپ کا کیا خیال ہے‘‘ ؟
’’ حادثاتی موت !! ‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام ( ماخوذ)
یہ تحریر ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کے فروری شمارے کےصفحہ 49 پر شائع ہوئی۔
Comments