Pak Cheen Dousti Aur Social Media Par Gumrah-kun Video ........
پاک چین دوستی اور سوشل میڈیا پر گمراہ کُن ویڈیو۔۔۔
تحریر شاہد لطیف
پچھلے کچھ عرصے سے سوشل میڈیا، خاص طور پر وہاٹس ایپ پر گمراہ کُن اور جعلی ویڈیو گردش میں ہیں۔افسوس کا مقام ہے کہ جو کام پاکستان کے دشمنوں نے کرنا تھا وہ خودہمارے احباب کر رہے ہیں۔ وہ ایسے کہ بلا تحقیق ،جوگمراہ کُن اور جعلی ویڈیو، کوئی اِن ہی کا دوست بھیجتا ہے ،اُس کو بغیر سوچے سمجھے یہ اپنے دوستوں کو آگے بھیج دیتے ہیں۔ پھر وہ ویڈیو گھومتے گھومتے آپ اور ہم تک پہنچ جاتی ہیں۔ایسی ہی ایک ویڈیو میں ہمارے اچھے بُرے وقت کے آزمائے ہوئے دوست ملک، عوامی جمہوریہ چین کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ اِن جعلی ویڈیو میں دکھایا جاتا ہے کہ چینی مسلمانوں کو مسلمان ہونے اور نمازیں پڑھنے کے جُرم میں مارا پیٹا جا رہا ہے۔ اِن ویڈیو میں کمرے کی دیوار پر چھوٹا سا چینی پرچم بھی واضح ہے ۔اس سے یقیناََ یہ باور کرانا مقصود ہے گویا یہ نام نہاد ظلم و ستم واقعی چین کے کسی مقام پر ہو رہا ہے۔افسوس تو ہماری وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات پر ہے کہ اُس نے اس سلسلے میں کوئی کاروائی نہیں کی۔عوام کو کسی قسم کی آگاہی نہیں دی گئی کہ وہ ہوشیار رہیں۔ نہ ہی ایسی گمراہ کُن جعلی ویڈیو کلپس کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی کی گئی۔یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ پاک چین دوستی میں دراڑیں ڈالنے کی کاروائی ملک دشمنوں نے تیز کر دی ہے۔ اتنی اہم بات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔اس کے پیچھے ایک منظم منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ’ سی پیک ‘ کا ترقیاتی منصوبہ پاکستان دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔
1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں اُس دور کے تمام اخبارات اور ریڈیو ،ٹی وی میں اس بات کی بہت تشہیر کی جاتی تھی کہ افواہوں پہ کان نہ دھریں ۔کسی بھی ایسی ویسی خبر کی تصدیق کیے بغیر اُسے آگے نہ پھیلائیں۔یہ بالکل صحیح حکمتِ عملی اور عین اسلام کے مطابق تھی ۔
اور یہ عوامی جمہوری چین ہی تھاجس نے 1962میں چینی سرحد پر بھارتی اشتعال انگیز جارحیت کا سختی سے جواب دینے سے پہلے باقاعدہ حکومتِ پاکستان کو بتایا کہ وہ پوری قوت کے ساتھ بھارت پر جوابی حملہ کرنے والا ہے۔بھارت کی تمام ترفوجی توجہ چین کی سرحدوں پر ہے۔مسئلہ کشمیر ، یعنی بھارتی تسلط سے مقبوضہ کشمیر آزاد کروانے کا یہی وقت ہے ۔ لہٰذا پاکستان کو بھی کوشش کرنا چاہیے کہ وہ بھارت سے دو دو ہاتھ کر لے۔ لیکن۔۔۔ مورخ نہایت افسوس کے ساتھ لکھتا ہے کہ اُس وقت کے صدرِ پاکستان نے سیکریٹری داخلہ کے ذریعے عوامی جمہوری چین کی اس پیشکش پر کان نہیں دھرے۔اس پورے واقعہ کا اُس وقت کے سیکریٹری داخلہ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’’ شہاب نامہ ‘‘ میں تفصیلاََ ذکر کیا ہے۔ آج کل ہمارے بعض ’ روشن خیال ‘ دانشور عوامی جمہوریہ چین کی اُس پُر خلوص پیشکش کو بھی اپنے ’ مخصوص ‘ زاویے سے توڑ مروڑ کر عوام کو سنا رہے ہیں کہ ایسا مشورہ پاکستان کو خدانخواستہ پستی کی جانب دھکیلنے کی خاطر دیا گیا۔ کہ اگر پاکستان اُس وقت بھارت سے جنگ کرتا تو 60 کی دہائی کی ترقی کیسے ہوتی؟؟ حالاں کہ اگر اُس وقت دوست ملک چین کی بات مان لی جاتی تو نہ رہتا بانس نہ بجتی بانسری ۔ عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان کی بے لوث دوستی کو ایسے بیانات اور گفتگو سے باقاعدہ منصوبہ بندی سے نقصان پہنچانے کا کام شروع کیا جا چکا ہے۔ایسے دلائل دینے والے زرا یہ تو بتائیں کہ 1962 میں ایسا نہ کر کے کیا ہمارا ملک ترقی کے انتہائی اونچے زینے پر پہنچ گیا؟ نہیں۔۔۔ بلکہ ۔۔۔اس کے برخلاف چین، جِس نے بھارت سے دو دو ہاتھ کیے وہ ترقی کر کے آج کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔تاریخ میں ’’ اگر ایسا ہوتا تو یہ نہ ہوتا‘‘ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔جو ہو گیا وہی تاریخ ہے۔ لیکن اگر ایسے نام نہاد دانشور پاک چین دوستی کے خلاف کوئی مذموم ارادے رکھتے ہیں تو خاکسار بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اگر 1962میں برادر ملک چین کی بات مان لی جاتی توبھارت کے ساتھ1964 کا رن کچھ کا جھگڑا ہوتا نہ 1965اور 1971کی جنگیں۔
خیر بات پاک چین دوستی میں دراڑیں ڈالنے والی گمراہ کُن ویڈیو کی ہو رہی ہے۔ حیرت ہے کہ ہماری متعلقہ وزارت میں ’’ سب اچھا ہے‘‘ ہی کی گردان چل رہی ہے۔ میں اطلاعات و نشریات کی وزارت، متعلقہ سیکریٹری صاحب، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ داروں سے درخواست کرتا ہوں کہ عوام کو ایسی غلط، گمراہ کُن اور جعلی ویڈیو سے خبردار کریں جو خوامخواہ ایک اضطراب کا باعث بن رہی ہیں۔ وہ تمام احباب جو ٹاک شو اور حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ فرماتے ہیں ذرا اس پر بھی گفتگو کریں کہ کہیں یہ ملک دشمن لابی تو نہیں جو اس قسم کی ویڈیو پاکستان میں پھیلا رہی ہے !! وہ بھی ہمارے اور آپ ہی کے ذریعے !!
پہلے تو ایسے تمام ٹی وی پروگراموں اور اخبارات میں تجزیوں میں ’ سی پیک ‘کی مداح میں بہت کہا اور لکھا جا رہا تھا۔پھر اچانک ’’ نا معلوم ‘‘ وجوہات کی بنا پر پہلے تو خاموشی چھائی اور پھر اُس کے بعد ڈھکے چھپے الفاظ میں سی پیک پر اپنے اپنے ’’ تحفظات ‘‘ سامنے لانا شروع ہو گئے۔ ہمارے ایک سینیئر صحافی نے تویہ خدشہ بھی ظاہر کر دیا تھا کہ کہیں ’ سی پیک ‘ پاکستان کے لئے ’ ایسٹ انڈیا کمپنی ‘ تو نہیں بننے والا؟حیرت ہے کہ کسی جانب سے اس بات پر کوئی احتجاج سنائی نہیں دیا ۔خیر چھوڑیے اس ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذکر کو، سی پیک نہ صرف پاکستان بلکہ اس پورے خظے کی ترقی کی کنجی ہے۔ عقلمندی تو یہی ہے کہ اس پر کسی قسم کی فضول سیاست نہ کی جائے۔یہ ایسے ہی نہیں کہہ دیا جاتا کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے زیادہ بلند و مضبوط ہے۔حقیقت میں یہ ایسا ہی ہے۔ہم نے اور آپ نے دیکھا کہ پاکستان میں کتنی ہی حکومتیں آئی اور گئیں، خود عوامی جمہوری چین میں بھی اندرونی اور بیرونی اُتار چڑھاؤ آئے لیکن دونوں ممالک کے عوام اور حکومتوں کی دوستی مثالی رہی اور انشاء اللہ آئندہ بھی رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 26 جنوری کے روزنامہ نوائے وقت کراچی / کوئٹہ کے صفحہ 11 پر کالم اُلٹ پھیر میں شائع ہوئی۔
Comments