Muzr e Sehat Khanay Say Halakatain ..... Laboratory Report Aa Gayee
مُضرِ صحت کھانے سے ہلاکتیں۔۔۔لیبارٹری رپورٹ آ گئی
تحریر شاہد لطیف
نومبر کی 10 تاریخ کو زمزمہ کے علاقے کے معروف ریستوراں ’ اریزونا گرِل ‘ کامضرِ صحت کھانے سے دو کمسن بھائیوں کی ہلاکت کی بالآخر کراچی کی پولیس انتظامیہ نے تصدیق کر دی۔ بد نصیب خاندان نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ یہ اموات اسی ریستوراں کے مضرِ صحت کھانے سے ہوئی ہیں۔ کراچی پولیس نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 322۔قتل بالسبب اور 272 ۔کھانے پینے میں ملاوٹ کے تحت کیس رجسٹر کیا تھا۔ سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر آپریشنز ابرار شیخ نے ریستوراں سیل کر کے مذکورہ ریستوراں کو حال ہی میں صفائی کے انتظامات بہتر بنانے کا نوٹس دیا تھا۔ جس روز یہ ریستوراں سیل کیا گیا اُس کے دوسرے دن خفیہ اطلاع ملی کہ زمزمہ ہی کے علاقے میں مشتبہ انداز میں ایک گودام سے مال لوڈ ہو رہا ہے۔ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ ریستوراں کے گودام سے درآمد شدہ گوشت کے ڈبے اور دیگر اشیاء سوزوکی میں لوڈ ہو رہی ہیں۔ جب چھاپہ مارا تو درجنوں ڈبوں میں 2014 کا امریکہ سے درآمد شدہ زائد المد ت گوشت موجود تھا جس کی ا یکسپائری تاریخ 24 فروری 2015 تھی۔ گودام کے نگران اور مذکورہ ریستوراں کے ملاز م حید علی کوپولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ ریستوراں کی انتظامیہ نے دورانِ تفتیش پہلے اپنے گودام کے بارے میں نہیں بتلایا تھا۔ اتھارٹی کے چھاپہ مارنے سے قبل ریستوراں کے ڈیپ فریزر سے کچھ اشیاء غائب کر دی گئیں۔پھر بھی سندھ فوڈ اتھارٹی نے وہاں موجود اشیاء کے نمونے حاصل کر لئے ۔ واضح رہے کہ اس واقعے سے چند روز قبل بھی یہاں سے کچھ نمونے لئے گئے تھے جب صفائی کے ناقص انتظامات پر مذکورہ ریستوراں کو نوٹس دیا گیا تھا۔ ریستوراں انتظامیہ اور اُس کے وکیل کا موقف تھا کہ مبینہ گودام سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ سندھ فوڈ اتھارٹی ہمارا نام بدنام کر رہی ہے۔ریستوران کے وکیل ہائی کورٹ میں چلے گئے۔ ہائی کورٹ نے20 نومبر کو اتھارٹی کے ڈائریکٹر آپریشنز کو بلوایا اور اُس کا موقف سنا۔
اس تمام منظر نامے میں جو سب سے زیادہ افسوسناک اور مضحکہ خیز پہلو ہے وہ تفتیشی ٹیم کا اشتہار دیناکہ اگر 10 نومبر کو کسی اور کو بھی اس ریستوراں یا اسٹال سے کھانے کے بعد طبیعت خراب ہوئی ہو تووہ اپنا بیان ریکارڈ کرائے۔گویا اگر کوئی ’’ اور ‘‘ کہیں سامنے نہیں آتا تو ریستوراں یا اسٹال والے بے گناہ ہوئے؟ بات دو یا دس کی نہیں بلکہ بات حقائق کی ہے۔جب دو اموات کے تانے بانے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ مذکورہ ریستوراں کو قبل ازیں بھی صفائی کا نوٹس دیا جا چکا ہے ۔نیز اسی ریستوراں کے گودام سے زائد المعیاد گوشت بھی برآمد ہوا ہے تو انتظار کس بات کا تھا؟ یہی دو باتیں مالکان کے خلاف کافی تھیں۔پھر ایڈووکیٹ اظہر صدیقی نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کو از خود نوٹس کی مفادِ عامّہ کی درخواست دائر کر دی ۔ جس میں بنیادی نقطہ یہی اُٹھایا گیا کہ مذکورہ ریستوراں کے مالکان نے پہلے بھی سندھ فوڈ آرڈیننس 2016 کی خلاف ورزی کی ہے اور اب بھی یہی اندیشہ ہے کہ معاملہ دبا دیا جائے گا۔لہٰذا عوام کی داد رسی کے لئے عدالت از خود نوٹس لے۔
اب ایک مہنیہ بعد ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ پولیس نے ریستوراں، متاثرہ خاندان کے گھر اور ہلاک شدگان کے جسم سے لئے گئے نمونے ’ پنجاب فورینسِک سائنس ایجنسی اور SGS کورنگی کو بھجوائے تھے۔نمونوں کی رپورٹ سے یہ ثابت ہو گیاہے کہ اس میں بکٹیریا کا لیول اور مقداربہت زیادہ تھی۔نیز یہ بھی کہا کہ تفتیش مکمل ہونے پر ریستوراں انتظامیہ کے خلاف کیس درج کیا جائے گا۔ڈی آئی جی ساؤتھ نے بتایا کہ لمبے عرصے کے زائد المعیاد اشیائے خوردنی بھی خراب حالت میں ریستوران کے اسٹور میں پائی گئیں۔ ڈی آئی جی صاحب نے دل چسپ انکشاف کیا کہ مذکورہ ریستوراں کے اسٹور میں 2015 کے ایکسپائرڈ بیف اسٹیک اور ایکسپائرڈ میونیز کے بارے میں ریستوران اسٹاف کا کہنا ہے کہ ’’ یہ استعمال میں نہیں ‘‘ تھا‘‘۔ واہ !! کیا منطق ہے کہ یہ خراب اشیاء ’ بس ویسے ہی ‘ ریستوراں کے اسٹور میں رکھی ہوئی تھیں۔ اوڈھو صاحب کا کہنا ہے کہ اس سب کے ذمہ دار ریستوراں کے مالک ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ کوئی انصاف سے بچ نہیں سکے گا۔ پولیس نے اریزونا گرل ریستوراں کے دو جنرل منیجروں کو گرفتار کیا ہے۔ البتہ ریستوراں کے مالک ندیم ممتاز گرفتار نہ ہو سکے ۔ انہوں نے پہلے ہی ضمانت قبل از گرفتاری کرا رکھی تھی۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ مالک کو اپنا تو بہت خیال تھا لیکن ملازمین ۔۔۔ بھلے وہ جیل جائیں ، ہمیں کیا!! پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش مکمل ہونے پر ریستوراں انتظامیہ کے خلاف کیس درج کیا جائے گا۔
ہمیں اپنے منصفوں سے کوئی گلہ نہیں ۔مسئلہ ہمارے عدالتی نظام کا ہے۔ کیس کو انجام تک پہنچانے میں اتنا زیادہ وقت لگ جاتا ہے کہ اس دوران حقائق مسخ ہو جاتے ہیںیا ’’کر دیے جاتے ہیں‘‘۔ہم اپنے تمام دنیاوی اعمال میں یورپ اور امریکہ کی نقّالی کرتے ہیں ۔اچھی بات ضرور اپنانی چاہیے تو اُن کی اچھی باتوں میں ایک بات یہ ہے کہ مضرِ صحت خوراک کا ایک بھی کیس سامنے آ جائے تو اسی کو بنیاد بنا کر تہہ تک پہنچتے ہیں۔مزید ’’ کیسوں ‘‘ کا انتظار نہیں کرتے۔وہ یہ کبھی نہیں کہتے کہ اتنے زیادہ لوگوں میں سے صرف یہ ہی ایک کیوں متاثر ہوا؟اللہ کرے کہ یہ کیس جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچے۔ اور متاثرہ خاندان کو انصاف ملے۔یہ تو سرار سر انسانی جانوں سے کھیلنے کی بات تھی ۔ہماری منصفوں سے درخواست ہے کہ جو بھی ذمہ دار پایا جائے اسے سخت ترین سزا دی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 22 دسمبر، 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی / کوئٹہ کے صفحہ 11 پر کالم " اُلٹ پھیر " شائع ہوئی۔
Comments