Mosiqar Baba G A Chishti





پاکستانی فلمی موسیقی کی بنیاد رکھنے والے
بھارتی فلمی موسیقار خیام اور پاکستانی موسیقار رحمٰن ورما کے اُستاد
وہ پہلے موسیقار جنہوں نے 1947کے بعد سب سے پہلے 100فلموں کی موسیقی دی
ایک دِن میں 6 عدد فلمی گیت خود لکھنے، دھُن بنا کر صدابند کروانے کا ریکارڈ قائم کرنے والے
موسیقاروں کے موسیقار
بابا جی اے چشتی، صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی
( 17 اگست 1905سے 25 دسمبر 1994)

تحریر شاہد لطیف 

بابا جی اے چشتی پر قلم اُٹھانا کوئی مذاق نہیں۔ ایک ایسی شخصیت پر لکھنا جس نے پاکستانی فلمی موسیقی اور فلمی صنعت کو خونِ جگر سے پالا ۔۔۔ بہت جی گُردے کا کام ہے۔ بابا جی کی موسیقی نے ایسا جادو کیا کہ محض دو کامیاب ترین فلموں کی کمائی سے لاہور میں دو نئے فلم اسٹوڈیو بن گئے۔ ایور نیو پکچرز کی فلم ’’ دُلّا بھٹی ‘‘ جمعہ 6 جنوری 1956 کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اس سُپر ہِٹ فلم کے پیسوں سے ایور نیو اسٹوڈیو قائم کیا گیا۔ پھر جمعہ 22 فروری 1957 کو ملِک ٹاکیز کی فلم ’’ یکے والی‘‘ ریلیز کی گئی۔یہ لاہور کے ’ کیپیٹل‘ سینما میں 50 ہفتے مسلسل چلی۔ اداکارہ مسرت نذیر نے ٹائٹل رول ادا کیا ۔اس فلم کے بے مثال منافع سے فلمساز باری ملِک نے اپنے وقت کے سب سے بڑے فلم اسٹوڈ یو کے لئے ملتان روڈ پر 92 کنال زمین خرید لی ۔ روایت کی جاتی ہے کہ اس فلم کو بنانے میں کل ایک لاکھ روپے خرچ ہوئے جب کہ فلم سے 40 لاکھ روپے کمائے گئے۔

بابا جی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ اِن کے دو شاگرد فلمی صنعت میں کامیاب موسیقار ثابت ہوئے۔ پہلے پاکستان کے عبد الرحمن المعروف رحمان ورما ( 1927-2007) اور دوسرے بھارت کے محمد ظہور خیام ہاشمی المعروف خیام ۔ ابتدا میں ان دونوں نے ’’ شرما جی ورما جی ‘‘ کی جوڑی کے نام سے کام کیا ۔ انہوں نے بھارتی فلم ’’ ہیر رانجھا ‘‘ (1948) کی موسیقی ’ شرما جی ورما جی ‘ کے نام سے مرتب کی۔ پھر اس کے بعد موسیقار رحمن ورما پاکستان ہجرت کر گئے جب کہ خیام بھارت میں رہے اور اپنا اور اپنے اُستاد کا خوب نام کیا۔موسیقار خیام نے بھارتی فلموں میں پانچ سال تک ’’ شرما جی ‘‘ کے نام سے کام کیا اس کے بعد اپنا نام خیام رکھ لیا۔یہ دونوں حضرات اپنے انٹرویو اور محفلوں میں فخر سے اپنے آپ کو بابا جی کے شاگرد ہونے کا ذکر اور بابا جی کو خراجِ تحسین پیش کرتے تھے۔ خیام تو اب بھی کرتے ہیں۔ ماشاء اللہ حیات ہیں اور 90 ویں سالگرہ کے موقع پر انہوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی ، بھارتی 10کروڑ روپے ، فلاحی کاموں کے لئے وقف کر دی ہے۔

بابا چشتی موسیقار کے ساتھ فلمی شاعر بھی رہے۔انہوں نے 12 فلموں کے لئے گیت لکھے۔ اس لئے انہیں گیت نگار بھی مانا جاتا ہے۔ 

غلام احمدچشتی المعروف بابا جی اے چشتی 1901میں ’ گوناچور ‘ ، ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک مذہبی گھرانہ تھا۔ کچھ بڑے ہوئے تو نعتیں پڑھنا شروع کر دیں۔عام آدمی بھی سُر تال، اور سریلی آواز پہچانتا اور پسند کرتا ہے۔قدرت نے یہ تینوں چیزیں بابا جی کو عطا کر رکھی تھیں۔ بابا جی کو بچپن ہی سے نعت خوانی اور میلاد کے موقعوں پر بلوایا جاتا۔یوں ابتدا ہی سے بابا جی پبلک ڈیمانڈ تھے۔ نعتوں میں بہتری پیدا کرنے کے لئے یہ موسیقی کی جانب بھی مائل ہوئے اور موسیقار سیتا رام کی شاگردی اختیار کی۔پھر وقت بابا جی کو اُستاد عاشق علی خان کے پاس لاہور لے آیا۔یہاں بابا جی معاون کے طور پر اپنے اُستاد کے ساتھ آغا حشر کاشمیری کے اسٹیج ڈراموں کی موسیقی دینے والی ٹیم میں شامل ہو گئے۔بابا جی ذہین اور بہت با صلاحیت تھے۔رفتہ رفتہ تھیئٹر/اسٹیج پر موسیقی دیتے ہوئے اسٹیج کی موسیقی پر دسترس حاصل ہونے لگی۔آغا حشر کاشمیری بابا چشتی کو50 روپے ماہانہ تنخواہ دیا کرتے تھے۔آغا حشر کے انتقال کے بعد بابا جی ایک ریکارڈنگ کمپنی سے منسلک ہو گئے۔اور خود دھنیں بنانے لگے۔انہوں نے جدن بائی
( بھارتی اداکارہ نرگس کی والدہ اور سنجے دت کی نانی) اور امیر بائی کرناٹکی کو ریکارڈ کیا۔ 

یہ بابا چشتی ہی تھے جو نورجہاں کو قصور سے لاہور لے کر آئے۔بات سے بات اور کام سے کام نکلتا گیا اور بابا جی لاہور میں واقع ایک مشہور گراموفون کمپنی میں اُستاد جھنڈے خان کے معاون ہو گئے۔ اُستاد جھنڈے خان کا معاون ہونا بجائے خود ایک اعزاز تھا۔اُس وقت اِن اُستاد صاحب کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ کچھ عرصے بعد ہدایتکار ایل کے شوری نے لاہور میں پنجابی زبان میں بننے والی فلم
’’ سوہنی مہینوال ‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے بابا چشتی کو موسیقار منتخب کر لیا۔گویا اُس وقت بھی کلکتہ اور بمبئی کے ساتھ لاہور فلمی مرکز تھا۔ یہ بھی دلچسپ اتفاق ہے کہ مذکورہ فلم کا پہلا گیت ، گیت نگاراُستاد ہمدمؔ نے لکھا ۔ ان کے شاگرد اُستاد دامنؔ نے بھی مشہور ہو کر اپنے اُستاد کا نام روشن کیا۔اس فلم کے فوراََ بعد کلکتہ کی فلمی صنعت سے بابا جی کا بلاوا آ گیا اور یہ کلکتہ آ گئے۔یہاں بنگالی فلموں کے ساتھ اُ ردو اور پنجابی فلمیں بھی بنتی تھیں۔یہاں بابا جی کی موسیقی میں ’’ چمبے دی کلی‘‘ اور ’’ پردیسی ڈھولا ‘‘ خاصی مشہور ہوئیں۔یہاں انہوں نے اُردو فلموں میں موسیقی کے ساتھ ساتھ اِن میں چند گیت بھی لکھے :
’’ البیلی ‘‘، ’’ضدی ‘‘، نئی بھابھی ‘‘، ’’ دو باتیں ‘‘، ’’ جھوٹی قسمیں ‘‘ وغیرہ۔ بابا جی نے یہاں ایک سُپر ہِٹ فلم ’’ شکریہ ‘‘ کی دھنیں بنائیں اور گیت بھی لکھے۔ اس فلم کے گیتوں نے پورے ملک کی گلی کوچوں میں دھومیں مچا دیں: ’ ہماری گلی آنا اچھا جی، ہمیں نہ بھلانا اچھا جی‘۔ بابا جی کے لکھے ہوئے ا س دوگانے کو نسیم اختر اور امر نے ریکارڈ کروایا تھا۔ ’’ دو باتیں ‘‘اور ’’ جھوٹی قسمیں ‘‘ (1947 ) بابا جی کی بھارت میں آخری فلمیں ہیں۔پھر وہ پاکستان ہجرت کر گئے۔

لاہور میں اُن کی ملاقات اداکار اور فلمساز نذیر اور ہدایتکار لقمان سے ہوئی۔بابا جی کی پہلی پاکستانی فلم ’’ شاہدہ ‘‘ جمعہ 18 مارچ 1949کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ہدایت کار لقنام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بننے والی یہ پہلی فلم ہے۔’’ تیری یاد‘‘ قیامِ پاکستان سے پہل کچھ پہلے سے بن رہی تھی۔ لقمان صاحب کو یہ اعزاز ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کا پہلا مکالمہ جو ریکارڈ ہوا وہ اُن کی اسی فلم کا ہے:
’’ اللہ !! میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘۔یہ مکالمہ حکیم احمد شجاع نے لکھا تھا۔حکیم صاحب فلمساز اور ہدایتکار انور کمال پاشا کے والد تھے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ مذکورہ فلم نے دہلی اور لکھنو میں سلور جوبلیاں کیں جبکہ پاکستان میں منافع کے لحاظ سے یہ اوسط رہی۔ نامور اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان کی یہ دوسری اور آخری پاکستانی فلم تھی۔پہلی فلم ’’ تیری یاد ‘‘ تھی۔بات بابا جی کی ہو رہی تھی۔فلم ’’ شاہدہ ‘‘ کے لئے کچھ گیت موسیقار، ماسٹر غلام حیدر نے ریکارڈ کروائے پھر وہ بھارت چلے گئے۔باقی کا کام بابا جی نے کیا۔پھر انہوں نے ہدایتکار نذیر کی فلم ’’ سچائی ‘‘ کے تمام گیتوں کی دھنیں بنائیں۔جس فلم نے بابا جی اے چشتی کو آسمانِ شہرت پر پہنچایا وہ لاہور میں بننے والی انیس پکچرز کی سُپر ہِٹ ’’ پھیرے ‘‘ ہے۔یہ عید الفطر 28 جولائی 1949 کو ریلیز ہوئی۔اس فلم کی خا ص بات یہ ہے کہ بابا جی نے 6 گیت ایک دن میں لکھے، دھن بنائی، گانے والوں کو یاد کروایا، میوزشنوں کو ریہر سل کروا کر چھ کے چھ گیت اُسی روز ریکارڈ بھی کروا دیے۔یہ ایک ریکارڈ ہے۔یہ چالو کام نہیں تھا۔یہ گیت سُپر ہٹ ہوئے۔تب ہی تو یہ فلم خوب چلی۔کچھ گیت بابا عالم سیاہ پوش نے بھی لکھے۔ مذکورہ فلم پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم ہے۔فلم کے گیت شہر شہر اور گاؤں گاؤں مقبول ہوئے: ’ سوں رب دی اے تیرے نال پیار ہو گیا، وے چناں سچی مچی وے چناں سچی مچی‘ گیت بابا چشتی، آواز منور سلطانہ،’ وے اکھیاں لائی نہ، تے فیر پچھتائیں نہ‘ گیت بابا چشتی، آوازیں منور سلطانہ اور عنایت حسین بھٹی،’ نی کی کیتا تقدیرے، کیوں رو ڑ دتے دو ہیرے‘ گیت بابا چشتی، آواز منور سلطانہ۔رضا میر فلم کے کیمرہ مین تھے۔عنایت حسین بھٹی کو روشناس کرانے والے بھی یہ بابا جی ہی ہیں۔’’ پھیرے ‘‘ نے بابا جی کے جو دن پھیرے تو وہ پھر آگے ہی بڑھتے گئے۔اس فلم کے بعد زمانے نے یہ دیکھا کہ بابا جی جس پنجابی فلم کے موسیقار ہوتے اُس کے گیت مقبول ہو کر فلم کو مقبول کروا دیتے۔لیکن بابا چشتی پر پنجابی فلموں کے موسیقار کی چھاپ لگ گئی۔’’ دلا بھٹی‘‘، ’’ ڈاچی‘‘، ’’ گُڈی گُڈا‘‘، ’’ پتن‘‘، ’’ پینگاں‘‘، ’’ موج میلا‘‘، ’’ زلفاں‘‘، ’’ جند جان‘‘، ’’ بھریا میلا‘‘، ’’ چَن مکھناں‘‘ وغیرہ چند مثالیں ہیں۔

بابا چشتی نے چند اُردو فلمیں بھی کیں : عید الفطر منگل 24 مئی 1955 کو فلم ’’ نوکر ‘‘ پیش کی گئی ۔ یہ پاکستان کی دوسری گولڈن جوبلی فلم ہے۔اس فلم میں قتیل ؔ شفائی کی لوری کو کوثر پروین نے اس قدر ڈوب کر ریکارڈ کروایا کہ لگتا ہے کوئی ماں آپ کے سامنے اپنے بچے کو لوری سنا رہی ہے۔’ راج دُلارے توہے دل میں بساؤں توہے گیت سناؤں ، او میری انکھیوں کے تارے‘۔

جمعہ 17 فروری 1956 کو ریلیز ہونے والی ایور نیو پکچرز کی ’’ لختِ جِگر‘‘ کے بعض گیت اور ایک ’ لوری ‘ آج تک مقبول ہیں اور ریڈیو پاکستان اور ایف ایم اسٹیشنوں سے اکثر سنوائے جاتے ہیں: ’ چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا تاروں کی نگری سے آ جا‘ لوری ناظم پانی پتی، آواز نورجہاں، ’ وہ خواب سہانہ ٹوٹ گیا امید گئی ارمان گئے۔۔۔‘ گیت سیف الدین سیفؔ ، آواز نورجہاں، ’ آ حال دیکھ لے میرا کہ دل میں پیار بسا کر تیرا ۔۔۔‘ گیت حزیں قادری، آواز نورجہاں۔

وزیرِ اعظم عمران خان جب اپریل 1992 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو جتوا کر ورلڈ کپ لائے تو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں بابا جی نے خصوصی طور پر ایک گیت لکھا اور دھن بنائی۔اس ولولہ انگیز گیت کو پاکستان ٹیلی وژ ن سے براہِ راست پیش کیا گیا۔اس یادگار موقع پر نامور کمپیئر دلدار پرویز بھٹی، توقیر ناصرنے کمپیئرنگ کی۔نغمے کے دوران لاہور فلائنگ کلب نے جہاز سے گُل پاشی کی۔گیت کے بول تھے: ’ دیکھو دیکھو لے کے کپ عالمی، عمران آ گیا عمران آ گیا ‘۔

ایک مرتبہ بابا جی طارق عزیز کے پروگرام ’ نیلام گھر ‘ میں آئے۔ان سے پوچھا گیا کہ سنا ہے آپ اخبار کی سُرخی کی بھی دھن بنا لیتے ہیں۔جواباََ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ واقعی سیکنڈوں میں اخبار کی سُرخی کی دھن بنا ڈالی۔
بابا جی اے چشتی کو پاکستانی فلمی موسیقی میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر پاکستان کا سب سے بڑا فلمی ایوارڈ، نگار پبلک ایوارڈ 1982 میں دیا گیا۔صدرِ پاکستان نے 1987 میں بابا جی کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا۔

پاکستان میں جب بھی فلمی موسیقی کی بات کی جاتی ہے وہ غیر منقسم ہاک و ہند کی فلموں سے کی جاتی ہے۔ناشاد، فیروز نظامی، خواجہ خورشید انور اور رشید عطرے پہلے ہی مستند تھے۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں بھی بڑے نامور موسیقار اُبھرے جیسے: ماسٹر عنایت حسین، نثار بزمی، ماسٹر عبداللہ، اے حمید، سلیم اقبال، حسن لطیف للک، بخشی وزیر، وزیر افضل، لال محمد اقبال، کریم شہاب الدین، خان عطا الرحمن خان، روبن گھوش، ایم اشرف، مصلح الدین، کمال احمد، غلام نبی عبداللطیف، رحمٰن ورما، تصدق حسین،طافو، امجد بوبی، سُبل داس، علی حسین، شمیم نازلی، دیبو بھٹہ چاریہ، سہیل رعنا، آغا سرور، اختر حسین اکھیاں، خلیل احمد، ماسٹر منظور حسین شاہ عالمی والے، نہال عبد اللہ، نذیر علی، طفیل فاروقی، وجاہت عطرے، ماسٹر رفیق
( فلم دل لگی والے) اور دوسرے۔ان موسیقاروں میں ایک نام ایسا بھی ہے جسے فلم کے ناقدین موسیقاروں کا موسیقار مانتے ہیں۔یہ ہی بابا چشتی ہیں۔ 

پاکستانی فلمی موسیقی میں کئی نئی آوزوں کے لانے کا سہر ا بابا جی کو جاتا ہے:1935 میں نورجہاں کو اسٹیج پر لانا جب وہ صرف 9 سال کی تھیں۔1951 میں گلوکارہ زبیدہ خانم سے فلم ’’ بلو‘‘ میں گیت ریکارڈ کروائے۔1955 میں گلوکار سلیم رضا کو فلم ’’ نوکر ‘‘ میں موقع دیا۔1956 میں گلوکارہ نسیم بیگم کوفلم ’’ گڈی گڈا‘‘ میں موقع دیا۔1956 میں نذیر بیگم کو فلم ’’ مِس 56 ‘‘ میں اور مالا کو 1961 میں فلم ’’ آبرو ‘‘ میں مواقع دیے۔1963 میں مسعود رانا کو پنجابی فلم ’’ رشتہ ‘‘ میں ریکارڈ کیا۔پرویز مہدی کو 1973 میں فلم ’’ چَن تارہ ‘‘ میں موقع دیا۔بابا جی نے بلا شبہ ہزاروں گیت ریکارڈ کروائے۔ان میں زیادہ تر عوام کے دلوں میں رچ بس گئے۔ چند کا ذکر : ’ سانوں وی لے چل نال وے باؤ سوہنی گڈی والیا۔۔۔‘ گیت حزیں قادری، آواز نسیم بیگم، فلم ’ ماں پُتر‘ (1970)، ’ تک چن پیا جاندا اے، ویکھ ویکھ میرے چن نوں پیا مکھڑا چھپاؤندا اے‘ آوازیں نورجہاں اور پرویز مہدی، فلم ’ چن تارہ‘ (1973 ) ، ’ دو دل اک دوجے کولوں دور ہو گئے۔۔۔‘، آواز رونا لیلیٰ، فلم ’ زیلدار ‘ (1972 )،’ پاگل نے او جیڑھے سچا پیار کسے نال کردے نے۔۔۔‘ آواز نورجہاں، فلم ’ یارد یس پنجاب دے ‘ ( 1971 ) ، ’ ٹانگہ لھور دا ہووے تے پاہویں جھنگ دا، ٹانگے والا خیر منگدا ‘ آواز مسعود رانا، فلم ’ ڈاچی ‘ ( 1964 ) 
بابا چشتی نے فلمی دنیا میں 50سالوں میں 15بھارتی اور تقریباََ 157 پاکستانی فلموں میں موسیقی ترتیب دی۔ 89 سال کی عمر پا کر 25 دسمبر 1994 کوجہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 18 دسمبر کے روزنامہ نوائے وقت کراچی / کوئٹہ کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔











 

Comments

Popular posts from this blog