Traffic Qawaneen Aarzi Kiyoon .........






ٹریفک قوانین عارضی کیوں۔۔۔

تحریر شاہد لطیف

پچھلے چند روز سے کراچی میں ٹریفک قوانین سختی کے ساتھ نافذ کیے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق 8 روز میں صرف وَن وے کی خلاف ورزی پر 718 شہری گرفتارہوئے اور 27080 ہزار افراد سے 3کروڑ 51 لاکھ روپے سے زیادہ کے جرمانے وصول ہوئے۔شہری قوی امید رکھتے ہیں کہ اِس رقم کو شہریوں کی بہبود پر ہی خرچ کیا جائے گا نہ کہ حکومت اور انتظامیہ کے اللے تللوں پر۔ تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹرامیر شیخ کی زیرِ نگرانی شہر میں ٹریفک کے قوانین کو پورے طریقے سے نافذ کرنے کے لئے یہ مہم شروع کی گئی ہے۔ ونَ وے کی خلاف ورزی محض اس کا شروع ہے۔

کراچی کے شہری ،ایسی مہمات کو بہ خوبی جانتے ہیں کہ یہ کتنی پائدار ہوتی ہیں۔بھلا یہ کیا منطق ہوئی کہ ٹریفک کے قوانین تو ایک زمانے سے موجود ہیں لیکن ٹریفک پولیس اور انتظامیہ لاکھوں روپے خرچ کر کے عوام کو خبردار کر رہی ہے کہ ٹریفک قوانین کی فلاں چیز کو فلاں تاریخ سے سختی سے نافذ کیا جائے گا۔ پھر۔۔۔ پھر مہم ختم اور پیسہ ہضم۔یہ کیسے قوانین ہیں جو کڑی کے اُبال کی طرح سے آتے ہیں ۔۔۔ وہ بھی کھٹی۔کیا کبھی حکومت کی جانب سے کروڑ ہا روپے کے اشتہارات کے ذریعے عوام کو بتلایا گیا کہ خبردار !! فلاں تاریخ سے فلاں دیوانی یا فوجداری قانون کی خلاف ورزی کے خلاف سختی کے ساتھ مہم چلائی جا رہی ہے ۔ایسا نہیں ہو سکتا ۔آپ دیکھ لیجئے کہ کراچی کے بڑے مسائل میں ٹریفک کا مسئلہ ہمیشہ شامل رہا ہے ۔ یہ کہنا کہ عوام کو شعور نہیں،کوئی تربیت نہیں ۔۔۔ یہ بیکار کی تاویلات ہیں۔ ٹریفک کی بد نظمی کی عوام نہیں خود ٹریفک پولیس اور شہر کی انتظامیہ ذمہ دار ہے۔ جب ٹریفک کے قوانین موجود ہیں تو کیا وہ صرف کتابوں کے صفحات کے لئے بنائے گئے تھے؟اِن پر عمل آخر کیوں نہیں کرایا جاتا ؟ چوری چکاری، ڈکیتی، لوٹ مار، زمینوں پر قبضہ ، ملاوٹ، سمگلنگ، منی لانڈرنگ، کرپشن ،ملک سے غداری وغیرہ پر ایسا کیوں نہیں ہوتا؟۔۔۔اس لئے کہ حکومت کی رِٹ ختم ہو جائے گی۔تمام کام ہی ٹھپ ہو کر رہ جائیں گے۔ کراچی میں ٹریفک پولیس کی کوئی رِٹ نہیں۔ عملاََ جہاں کسی نے ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی تھوڑی سی مُٹھی گرم کی اور کہانی ختم۔۔۔ جب ہی تویہاں کا نظام چوپٹ ہے۔ کراچی کے ٹریفک پر ایک محاورہ صادر آتا ہے ’ جوتیوں میں دال بٹنا ‘ ۔آپ دیکھ لیجئے کوئی نظم کوئی تنظیم نہیں۔

ماضی میں ٹریفک کے قوانین کے نفاذ کے لئے نہ جانے کتنی مہمات چلیں۔نتایج؟۔۔۔صفر۔ قانون قانون ہوتا ہے جس پر عمل کرنا اور کروانا ہر حال میں لازم ہے۔ موٹر سائکل سوار کے لئے ہلمٹ لازمی ہے،اس قانون پر عمل کروانے کے لئے بارہا مہمات چلائی گئیں۔کوئی نتیجہ سامنے آیا؟۔۔۔مہم معینہ ہوں یا غیر معینہ اِن کو ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔ ٹریفک پولیس اور شہر کی انتظامیہ کو یہ بات کون سمجھائے کہ آگہی/آگاہی مہم اور چیزہے اور قوانین کا نفاذ اور۔کراچی میں عملاََ اِن دونوں کو ایک کر دیا گیا ہے۔ ٹریفک قانون کی آگہی مہم ختم تو گویا اُس کا نفاذ بھی ختم۔ البتہ کبھی کبھار کسی کمزور کی گردن دبا کر کاروائی دکھا دی جاتی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ حجت تمام کرنے کے لئے عوام کو بتلا دیا جائے کہ فلاں تاریخ سے دیگر ملکی قوانین کی طرح تمام ٹریفک قوانین سختی کے ساتھ نافذ ہوں گے ۔ لفظ، مہم کا استعمال کرنا چھوڑ دیا جائے۔ میں ایک دفعہ پھر کہوں گا کہ کسی بھی ضابطے، قانون کا جب تک پورا نفاذ نہ کیا جائے وہ کارآمد نہیں ہو سکتا۔یہی حال ٹریفک قوانین کا ہے ۔ ہم اور آپ کئی دہائیوں سے اِن قوانین کی دھجیاں بکھرتی ہوئی دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔یقین کیجئے اِس مہم کو بھی عوام سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔اِن کی یہ دلیل ہے: ’’ دیکھتے ہیں یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔۔۔‘‘

سڑکوں اور شاہراؤں پر حادثات کیوں ہوتے ہیں؟ اِس لئے کہ ایک فریق یا دونوں فریق ٹریفک کے اصولوں پر عمل نہیں کر رہا ہوتا۔سڑک پر آنے ولے سے توقع ہونا چاہیے کہ وہ الف سے لے کر یے تک ٹریفک کے اصول جانتا ہو۔اُس کے پاس قانونی ڈرائیونگ لائیسنس ہو۔ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ لائیسنس کے چند پائنٹ ہوں۔ ٹریفک اصول کی خلاف ورزی کرنے والا جرمانہ بھی دے گا اوراُس کے لائیسنس میں سے ایک پائنٹ کم کردیا جائے گا۔جب تمام پائنٹ ختم ہو جائیں تو ایسے شخص کا لائیسنس کچھ مدت کے لئے غیر فعال کر دیا جائے گا۔اس دوران اگر وہ گاڑی چلاتا پایا گیا تو سیدھا لمبی مدت جیل میں۔ ایسا ترقی یافتہ ممالک میں عرصہ سے ہو رہا ہے۔ نادرہ کے لئے یہ کون سا بڑا کام ہو گا ! پاکستان میں پہلے کمپیوٹرائز شناختی کارڈ آئے پھر نادرا نے ’ چِپ ‘ والے کارڈ نکالے۔اسی طرح سے ڈرائیونگ لائسنس بن سکتے ہیں۔جن پر ٹریفک خلاف ورزی پر پائنٹ کاٹے جانے کا سسٹم ہو۔یہ کئی دہایاں پہلے میں نے خود امریکہ میں ہوتے دیکھا تھا۔

ہم ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹرامیر شیخ سے درخواست کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ کام جس رفتار سے شروع کر رکھا ہے اُس کو جاری رکھا جائے۔ قانون سب کے لئے اگر یکساں ہوتو یقین کیجئے اس سختی پر شور مچانے والے عناصر خاموش ہو جائیں گے۔ وَن وے کی خلاف ورزی خود غرضی کی انتہا ہے جو صرف سختی ہی سے کم ہو گی۔ہم یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ اسی طرح بتدریج ٹریفک قوانین کو 100 فی صد نافذ کیا جائے گا۔آخر کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ اسٹیٹ بینک کے قوانین کیا سختی کے ساتھ نافذ نہیں؟ کیا بغیر ٹکٹ پاکستان ریلویے میں سفر کرنے پر جُرمانہ نہیں؟ عوام کا ذہن بن چکا ہے کہ ٹریفک قوانین محض کتابوں کی باتیں ہیں۔ان کا مکمل نفاذ ممکن ہی نہیں! ایڈیشنل آئی جی صاحب ! کیا آپ اس ان ہونی کو ہونی بنا سکتے ہیں؟یقین کیجئے ! اگر آپ نے اس کام کو اللہ کا نام لے کر شروع ہی کر دیا تو صرف اسی اقدام کی وجہ سے آپ کا نام کراچی کے محسنوں میں لکھا جائے گا۔یہ مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 20 اکتوبر 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ سے  صفحہ 11 پر شائع ہوئی۔
















 

Comments

Popular posts from this blog