وہی سدا بہار کہانی۔۔۔باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ





وہی سدا بہار کہانی۔۔۔باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ

تحریر شاہد لطیف

زمانہ موجودہ ہو یا پرانا ، ملک یہ ہو یا وہ ،کہانی وہی پرانی ہے کہ ۔۔۔ باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ۔ اِس موضوع پر محاورے اور ضرب الامثال ایسے ہی نہیں بن گئے۔اِن کے پیچھے بھی۔۔۔ خون کے رشتے توڑ کے پیسے سے رشتہ جوڑ کے۔۔۔ واقعات ہوتے ہیں اور پھر وہ سب کچھ ہو جاتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔ قُربتیں فاصلوں میں بدل جاتی ہیں اور شیشے میں بال آ جاتا ہے ۔ ایسا ہی معاملہ میرے ایک دوست کے ساتھ بھی پیش آیاجب پیسے نے سگے بھائیوں میں رنجشیں ڈال دیں۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ باہم پیار و محبت سے بندھے اِ س گھرانے میں یہ کہانی دھرائی جائے گی۔


محمدعشرت چوہدری 1952 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔یہیں پلے بڑھے اور میرے ساتھ ہائی اسکول کے ساتھی اور ہم جماعت رہے۔ میٹرک کرنے کے بعد یہ لاہور چلے گئے اور وہاں سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔ پھر 5 اگست 1971کو لندن چلے گئے۔یہاں سات سال کا عرصہ گزار کر 1978 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نقلِ مکانی کر گئے۔ اِن کے والد بھی امریکہ میں رہتے تھے لیکن پاکستان میں اُن کی کچھ جائداد تھی۔ 1989 میں وہ انتقال کر گئے۔ پھر عشرت چوہدری کے تمام بہن بھائی ما سوا سب سے چھوٹے طارق چوہدری کے ،بتدریج امریکہ میں منتقل ہو گئے۔ طارق پاکستان میں والد صاحب کی جائداد کی دیکھ بھال کے لئے وہیں رہا۔
پھر 17 سال بعد محمد عشرت چوہدری 1995 میں پاکستان آئے۔ان کی خواہش تھی کہ کراچی میں ایک مکان بنوایا جائے جہاں وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد رہ سکیں۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا اور 1999 آ گیا۔عشرت چوہدری نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی فیز 7 کراچی میں مکان بنانے کے لئے ایک پلاٹ خریدلیا۔ جیسا کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں اپنے ٹھکانے کے لئے سوچ رکھا تھا۔اب اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آ گیا۔مکان بنانے کے لئے مختلف مراحل اور اجازت ناموں وغیرہ کے لئے انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی طارق کو ایک تصدیق شدہ نوٹ کے ذریعے مکان کا عارضی مالک نامزد کر دیا۔ اِس میں بالکل صاف اور واضح لکھا ہوا تھا کہ مکان کا اصل مالک محمد عشرت چوہدری ہے اور و ہی مکان بننے کے تمام اخراجات برداشت کرے گا۔


2002 میں مکان مکمل ہو گیا اور عشرت چوہدری کا چھوٹا بھائی طارق نے مع بیوی بچوں نیچے والی منزل میں رہنا بھی شروع کر دیا۔پھر اوپر کی منزل کرایہ پر چڑھا دی اور کرایہ خود وصول کرنے لگا۔ اِس کرایہ میں سے ایک روپیہ بھی کبھی عشرت کو نہیں دیا ۔ اس مکان کی تعمیر اور تزئین کے لئے تمام اخراجات کے لئے عشرت نے ہی امریکہ سے بینکوں کے ذریعے رقم منتقل کی۔رقوم کی اِس منتقلی کی تمام رسیدیں اُن کے پاس محفوظ ہیں۔


کچھ عرصہ قبل عشرت کو اپنے والد کے ہاتھ کا لکھا ہو ا ایک وصیت نامہ پرانے کاغذات میں سے ملا۔یہ تو ایک چشم کُشاء دستاویزتھی جس سے علم ہوا کہ اِن کے والد صاحب کی 18 جائدادیں اور کچھ اثاثے ہیں۔جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ والد صاحب کی تمام جائدادیں کراچی کے مختلف علاقوں میں ہیں۔طارق کو اِن کا علم تھااور وہی ان کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بھی تھا۔80 کی دہائی میں طارق کو امریکی شہریت مل چکی تھی لیکن وہ پاکستان ہی میں رہتا تھا ۔وہ امریکہ آتا جاتا رہتا تھاپھر وہ سال ڈیڑھ پہلے امریکہ منتقل ہو گیا جب کہ اُس کے بیوی بچے کراچی میں عشرت کے مکان میں رہ رہے تھے۔تحقیق کرنے کے بعدعشرت نے طارق سے اِن جائدادوں کے بارے میں پوچھا۔اُس وقت وہ دونوں ڈیلاس میں قریب ہی رہ رہے تھے۔طارق نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ویسے اُس نے ان جایدادوں اور اثاثوں کااعتراف کر لیا لیکن وصیت کے مطابق تقسیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ امریکہ منتقل ہونے سے پہلے طارق نے ایک جعلی پاور آف اٹارنی بنا کر اپنے والد کی 17 جائدادیں اکیلے ہی بیچ ڈالیں۔جب کہ عشرت اور اُس کے بہن بھائیوں کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوئی کہ ہمارے والد کی کوئی جائدادیں اور اثاثے ہیں ۔ 


ستم بالائے ستم یہ کہ عشرت چوہدری کی بھیجی گئی رقم سے بننے والے مکان پر عملاََ طارق ہی قابض ہے اور مکان اپنے بڑے بھائی عشرت کے حوالے کرنے سے سراسر انکاری ہے۔اِس وقت مذکورہ مکان کی مارکیٹ میں مالیت 16 کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ 


طارق نے جائداد میں سے اپنے بہن بھائیوں کو کوئی حصہ دینے سے صاف انکار کر دیاتھا لیکن حالات ابھی تک اُس نہج پر نہیں پہنچے تھے جہاں کہنے سننے کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ چوں کہ طارق بھی عشرت ہی کے شہر اور کاؤنٹی میں رہتا تھا اور ایک عرصہ عشرت ہی کے کارخانے میں کام کرتا رہا تھا۔دونوں کے دوست احباب بھی مشترک تھے۔ عشرت نے کس کس کو بیچ میں نہیں ڈالا کہ وہ بہن بھائیوں کو والد کی جائداد میں سے حصے دے اور بڑے بھائی کے گھر کو خالی کرے لیکن طارق چکنا گھڑا ثابت ہوا۔


اب معاملہ ٹھیک کرنے کا ایک ہی راستہ رہ گیاتھا ۔۔۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا۔مجبوراََ 2018 میں عشرت چوہدری نے ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں طارق پر کیس کر دیا۔عشرت چوہدری کے تمام بہن بھائی بشمال طارق ، امریکی شہری ہیں ۔امریکی قانون کے مطابق کسی جائداد کے جھگڑے میں اگر دو امریکی شہری ملوث ہو جائیں تو جائداد خواہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کیوں نہ ہو، کیس امریکہ میں کیا جا سکتا ہے۔


چند ماہ پیشتر عشرت چوہدری پاکستان آئے تو طارق کے گھر والوں سے علم ہوا کہ ملیر والا آبائی مکان بھی اس نے بیچ دیا ہے اور خریدار کو اپنے نام منتقل کروانے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔عشرت معاملے کی تفتیش کے لئے گئے ۔خریداروں نے مکان کے کاغذات دکھائے۔اِن میں واشنگٹن کے پاکستانی سفارتخانے کی تصدیق شدہ ایک پاور آف اٹارنی بھی نظر آئی جو اِن کے والد کی طرف سے تھی۔یہ ایک بالکل ہی جعلی دستاویز تھی جس میں سفارتخانے کی مہر ہی جعلی تھی۔عشرت نے وہ دستاویز حاصل کی تا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے تصدیق کرائی جائے۔ وہاں تصدیق ہو گئی کہ یہ جعلی ہے اور قابلِ گرفت جرم ہے۔
اِس پس منظر میں جعلسازی سے والد صاحب کا مکان بیچنے کا ایک کیس عشرت نے طارق پر کراچی میں بھی کر دیا ہے۔


میرے پوچھنے پر عشرت نے بتایا : ’’ طارق ہم سب بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ابھی چند سال پہلے تک فرماں بردار تھا۔ایک عرصہ میرے پاس اُس نے کام بھی کیا‘‘۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ فرماں برداری کے پردے میں ہی سارے گُل کھلا رہا تھا۔جیسے ہی اُس کی اصلیت کھلی اُس نے اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔۔۔ باپ بڑا نہ بھیا سب سے بڑا روپیہ!


اِس کہانی کا مرکزی کردار طارق چوہدری ہے۔یہ پہلے سب کی آنکھ کا تار ا تھا۔خود عشرت چودہری نے بھی جب مکان بنانے کا فیصلہ کیا تو اِس کام کی نگرانی کے لئے اسی کو مقرر کیا ۔پھر وہ مکان کی تکمیل کے بعد2003 میں بمع فیملی نچلے حصہ میں آ گیا۔ وہ صرف بجلی گیس اور ڈی ایچ اے کے ماہانہ بِل ہی ادا کرتا تھا جبکہ ہاوس ٹیکس وغیرہ اور کوئی ضروری ٹوٹ پھوٹ بڑے بھائی عشرت ہی کے ذمہ تھی ۔پھر اُس نے مکان کے دوسرے حصے کو کرایہ پر دے دیا ۔بھائیوں میں مالی طور پر طارق کو کمزور سمجھا جاتا تھا اس لئے شاید یہ سوچا گیا ہو کہ اُس کی بیوی بچوں کا کرایہ سے بہتر گزارا ہو جائے گا۔ اس لئے اِس کرایہ کا تقاضا نہیں کیا گیا ۔ اس دوران طارق چوہدری بھی ڈیلاس ٹیکساس میں امریکی شہری کی حیثیت سے بڑے بھائی کے کارخانے میں کام کرنے لگا ۔بیوی بچے البتہ کراچی والے مکان ہی میں رہے۔ اِس سب کے باوجود بھی وہ خاندان ، برادری اور مشترکہ دوستوں میں قابلِ عزت رہا۔وہ تو بڑے بھائی عشرت کے ہاتھ اُن کے والد صاحب کی وصیت لگی جس سے تعلقات میں دراڑیں پڑنے لگیں۔


امریکہ اور پاکستان دونوں جگہ کیسوں کی کاروائی جاری ہے۔


ستمبر کے اوائل میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کا ایک بیان شائع ہوا ۔ انہوں نے کہا ہے کہ سمندر پار پاکستانی جب پاکستان میں مکان بنانے لگتے ہیں تو وہ اپنے رشتہ داروں کو پاور آف اٹارنی دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔یا پھر اپنے مکان میں کوئی بھروسے کا کرایہ دار رکھتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں دیکھا گیا ہے کہ اکثر یہ لوگ مکان پر قبضہ کر لیتے ہیں اور کبھی تو بیچ بھی دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ہمارا اور حکومت کا فرض ہے کہ ان کی مدد کی جائے۔
جائداد، روپیہ پیسہ، ہر چیز انسان خود حاصل کر سکتا ہے مگر خون کے رشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنتے ہیں ۔ جب ہم ان عارضی دنیاوی آسائشوں کی لالچ کے پیچھے اپنے خونی رشتوں کو توڑتے ہیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ یہ دوبارہ بازار میں دستیاب نہیں ہوں گے !!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام



Comments

Popular posts from this blog