کتابچہ یا " کُتا بچہ " ۔۔۔۔۔۔ حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں

روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ ایڈیشن مورخہ 8  ستمبر صفحہ 11 پر شائع ہونے والا کالم  اُلٹ پھیر

Comments

شاہد صاحب کی تحریر ہر روز نکھرتی جا رہی ہے۔ ماشا اللہ کیا موضوع اٹھایا ہے۔ اس سلسلے میں میں نے بہت سے لوگوں کے مضامین پڑھے ہیں لیکن یہ سانس کہاں توڑنا چاہیے والی انتہائی اہم بات میں نے ان ہی کے مضمون میں آج پڑھی۔ دل خوش ہوگیا کہ کوئی تو ہے جس نے اس اہم بات کی طرف انگلی اٹھائی ہے۔ میں سمجھ تا ہوں کہ میری طرح جو اسے پڑھے اور وہ ہمارے ریڈیو اور ٹی وی کے معیار کو بہتر دیکھنا چاہتا ہو، اور کون نہیں چاہتا، تو اس مضمون کو میری طرح اپنی فیس بک پر ضرور ڈال دے۔ یقین چانیے اس کی بہت ضرورت ہے۔ دوسرے مسائل میں اردو اور انگریزی کا ملغوبہ آتا ہے۔ یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ باہر کے ممالک، اس سے عام طور پر مراد مغربی ممالک ہی ہوتی ہے، میں کسی کو بھی اس وقت ٹی وی ریڈیو پر کام ملتا ہے جب وہ زبان کا امتحان پاس کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی بی سی اور وی او اے اور ڈی ڈبلیو کی اردو نشریات اردو کے معاملے میں ہماری نشریات سے زیادہ بہتر ہوتی ہیں۔ اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے چینلوں سے محبت کرتے ہیں، انہیں اپنی عزت پیاری ہے، اور انہیں اپنا پیغام جن
لوگوں تک پہنچانا ہے ان کے سامنے وقات سے کھڑے ہونا ہے۔ شاہد صاحب آپ اپنا مشن جاری رکھیں۔ اللہ ہم سب کی مدد یقینا کرے گا۔ شکریہ۔
ulatphair said…
جناب یمین الاسلام زبیری صاحب

آپ کی حوصلہ افزائی کا شکریہ ! جی ہاں اِن چیزوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔

نوازش، شاہد لطیف

Popular posts from this blog