انہونی




شَاذ و نا دِر انہونی

تحریر شاہد لطیف

بعض باتیں یا واقعات بَس شاذ و نا دِر ہی ہوا کرتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں کبھی کبھی انہونی بھی ہو جاتی ہے۔ایسا ہی ایک بالکل سچا واقعہ رقم کرتا ہوں ۔اِس طرح کا کوئی واقعہ آپ نے کم ہی سُنا ہو گا۔

میرے والد صاحب محکمہء صحت میں تھے اور ہم لوگ کراچی ائرپورٹ کے سرکاری مکانوں میں رہتے تھے۔ہمارے پڑوس میں ائرپورٹ ڈسپنسری کے ڈاکٹر منصور اپنی والدہ بہن اور بھائیوں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ہم لوگ 1964 سے لے کر ایک عرصہ ساتھ رہے ۔ڈاکٹر منصور سے چھوٹے محفوظ بھائی تھے جو بعد میں پاکستان ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن PTDC سے طویل عرصہ وابستہ رہے۔ اِس واقعے کے محور محفوظ بھائی ہی ہیں۔

یہ 1992 کا موسمِ سرما تھا، میرا کسی کام سے میٹروپول ہوٹل کی طرف جانا ہوا تو خیال آیا کہ یہاں پی ٹی ڈی سی کے دفتر میں تو محفوظ بھائی بھی ہوتے ہیں ۔پس یہ سوچ لئے میں وہاں جا پہنچا۔ 

’’ السلام علیکم محفوظ بھائی! اِدھر سے گزر رہا تھا سوچا سلام کرتا چلوں‘‘۔
وہ میری اِس غیر متوقع آمَد پر بے حد خوش ہوئے۔سب گھر والوں کا حال احوال پوچھا۔

’’ آج ماشاللہ آپ بہت خوش نظر آ رہے ہیں ‘‘۔میں نے اُن کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے بے ساختہ کہا۔

’’ اچھا؟ بھئی وہ کیسے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے۔

’’ اندازہ ہو رہا ہے‘‘۔میں نے کہا۔

’’ کیسے اندازہ لگایا؟‘‘۔ اُنہوں نے بھی اچھے مُوڈ میں کہا۔

’’ محفوظ بھائی ہم نے بھی پردوں میں زردے دیکھے ہیں‘‘۔میں نے کہا۔

’’ پردوں میں زردے؟یہ کبھی سُنا نہیں‘‘۔اُنہوں نے حیرت کا اظہار کیا۔

’’ یہ محاورہ حریت اخبار کے کالم نگار جناب نصراللہ صاحب اکثر استعمال کرتے ہیں۔اِس کا مطلب غالباََ یہ ہے کہ آپ ہی کو نہیں بلکہ ہمیں بھی سب خبر ہے‘‘۔

’’ نیا ہی محاورہ سُنا۔ بہر حال ! کِسی حد تک تمہارا اندازہ ٹھیک ہے۔ایک بڑی مُصیبت میں مُبتلا ہونے سے بال بال بچا ہوں‘‘۔اُنہوں نے میرے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔

’’ ارے!! وہ کیسے؟ ‘‘۔میں نے حیران ہو کر سوال کیا۔

’’ وہ ایسے کہ دبئی سے بزنس کرنے والے ایک ٹور آپریٹر ، ظفر ( فرضی نام )نے مجھے تجویز پیش کی کہ 15 دِن کے لئے دبئی گھومنے اِس کے ساتھ جاؤں۔ہوائی سفر کے ٹکٹوں کے علاوہ مجھے اور کچھ خرچ نہیں کرنا تھا۔مجھے یہ بھی کہا گیا کہ 3 ماہ بیرون مُلک جانے کی چھٹی لے لوں۔ مجھے دُبئی جانے کا کوئی شوق نہیں تھا نہ ’ شاپنگ ‘ کرنے کے لئے پیسے ۔بہر حال اُس نے با اصرار مجھے قائل کر لیا کہ اِس میں بھلا میرا کیا نقصان ہو گا؟ مجھے وہ وہاں ایک ملازمت بھی دِلوا دیں گے۔ اگر دِل چاہے تو 3 ماہ اُن کے دبئی آفِس میں کام کر لوں ورنہ ہفتہ پندرہ دِن میں جب چاہوں واپس آ سکتا ہوں‘‘۔

’’ ا چھا؟ پھر کیا ہوا؟ ‘‘ میں نے اُ ن کی گفتگو میں دِلچسپی لیتے ہوئے سوال کیا۔

’’ پھر یہ ہوا کہ سب تیاریاں مکمل کر کے ایک دِن میں ظفر کے ساتھ کراچی کے ہوائی اڈہ پر دبئی جانے کی نیت سے پہنچ گیا۔ائر لائن کے کاؤنٹر سے بورڈنگ پاس لے کر ہم دونوں امیگریشن کے کاؤنٹر پر پہنچے۔پہلے میں نے پھر اُنہوں نے اپنا پاسپورٹ دیا۔ بظاہر تو یہ مرحلہ طے ہو گیا مگر۔۔۔‘‘ نہ جانے کیوں محفوظ بھائی نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔


’’ مگر کیا ہو؟ ‘‘۔مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے بے چین ہو کر سوال کیا۔

’’ مگرایسا ہوا نہیں‘‘۔اُنہوں نے جملہ مکمل کیا۔

’’ ارے! وہاں کیا معاملہ پیش آ گیا؟ ‘‘۔کہانی کے اِس پُر تجسس موڑ پر بے ساختہ میں نے سوال کیا۔ 

’’ نہ جانے کہاں سے 2 افراد نمودار ہوئے اور ہم دونوں کے نام لے کر ایک طرف لے گئے ‘ ‘ ۔ محفوظ بھائی نے بات جاری ر کھتے ہوئے کہا ۔’’ وہاں جا کر اُنہوں نے کہا کہ ہم دونوں میں سے کِسی ایک کے پاس اعلیٰ درجے کی ہیروئین ہے اور اُن کی معلومات غلط نہیں ہو سکتیں۔اتنا سُنتے ہی میری تو حالت ایک دم سے غیر ہو گئی۔در و دیوار گھومتے ہوئے نظر آنے لگے اور میں دھڑام فرش پر گِر گیا۔وہ ہم دونوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئے اور کہا کہ جلدی منشّیات برآمد کرا دیں ورنہ آپ کی وجہ سے یہ پرواز لیٹ ہو جا ئے گی ۔ ہمارا بیگیج کا سامان جہاز میں جا چکا تھا۔بورڈنگ پاس بھی مِل چکے تھے ‘ ‘۔ اتنا کہہ کر محفوظ بھائی نے کچھ توقف کیا۔

’’ عجیب لوگ تھے جب سامان میں منشّیات کے ہونے کا اتنا یقین تھا تو وہ سامان جہاز میں جانے کیوں دیا؟‘‘۔میں نے مجسم حیرت بن کر سوال کیا۔ 

’’ اُن کا کہنا تھا کہ منشّیات ہمارے ہاتھ کے سامان میں یا ہمارے پاس ہیں۔میں تو خیر کوئی بات کرنے کے قابِل ہی نہیں تھا البتہ ظفر نے معاملہ سنبھالا ۔وہ مُصِر تھا کہ کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور ہمارے پاس کِسی بھی قِسم کی کوئی منشّیات نہیں ہیں۔اُدہر سے برابر یہی تکرار تھی کہ اُن کی معلومات غلط نہیں۔وہ کوئی بہت منجھے ہوئے لوگ تھے، مُستقِل تمیز سے بات کر رہے تھے، بالکل بھی پولیس والوں کا انداز نہیں تھا۔تمام تر گفتگو اب وہ ٹور آپریٹرظفر ہی سے کر رہے تھے۔اُنہوں نے الٹی میٹم دیا کہ 2 منٹ میں بتا دو کہ منشّیات کہاں چھپائی ہیں ورنہ ہم دونوں کو ابھی اِسی وقت حراست میں لے لیں گے‘‘۔

’’ ارے!! ‘‘۔ میں نے کہا۔

’’ پھر وہ ہوا جو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ‘ ‘ ، محفوط بھائی نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔’’ ظفر نے اُن سے کہا کہ آپ نے اپنا تمام زور لگا لیا مگر ہم سے ایک چیز بھی برآمد نہیں کروا سکے۔اگر یہ صاحب میرے ساتھ نہیں ہوتے تو آپ کو صفر کامیابی مِلتی۔میں آج اِن کی خاطر وہ کام کرنے والا ہوں جو عام حالت میں مجھ جیسے لوگ شاید ہی کبھی کرتے ہوں۔ اگر آپ لوگ میرے اِن دوست کو جو سرکاری مُلازم ہیں، اِس کیس سے نکال دیں تو میں سب کچھ بتا دوں گا‘‘۔

’’ یہ تو بڑی عجیب بات ہے ‘‘،میں نے تبصرہ کیا۔’’ پھر کیا ہوا؟‘‘۔

’’ پہلے تو اُن لوگوں نے پس و پیش کی پھر ایک ایسا بیچ کا راستہ نکالا گیا۔جو میرے لئے ایسا تھا جیسا کانٹوں پر چلنا‘‘۔

’’ ارے وہ کیا تھا؟‘‘۔میں نے بے صبری سے سوال کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’ انہوں نے یہ منصوبہ صرف چند منٹوں میں بنا لیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اب میں اکیلا دبئی جاؤں گا۔ ظفر نے ائرپورٹ سے ’ اُن ‘ لوگوں کی حسبِ منشاء اپنی بیوی کو دبئی فون کیا اور کہا کہ آخری لمحوں میں اُس کے پروگرام میں تبدیلی آ گئی ہے ۔ اب وہ خود کچھ دِن بعدآئے گا البتہ محفوظ بھائی آ رہے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ اُس نے یہ سب کچھ اتنے اطمینان سے کہا جیسے کوئی بات ہوئی ہی نہیں ہو ‘‘۔ 

’’ کمال کی بات ہے۔لگتا ہے کہ ظفر کوئی ماہر کھلاڑی تھے!‘‘۔میں نے تبصرہ کیا۔

’’ ارے اُن کی بیوی بھی برابر کی چوٹ تھیں‘‘۔ محفوظ بھائی نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا۔

’’ ارے! ..... کیسے؟‘‘ ایسی حیرت ناک کہانی میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنی تھی ۔ 

’’ یا تو وہ سیکنڈوں میں معاملے کی تہہ تک پہنچ گئیں یا پھر وہ اِس قِسم کے نشیب و فراز سے گزر چکی ہوں گی۔انہوں نے مجھے تاکید کی کہ میں جتنا پُر سُکون رہوں گا اُتنا ہی یہ ’ منصوبہ ‘ کامیاب رہے گا۔اُن لوگوں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ اصل شخص یا اشخاص تک پہنچنا چاہتے ہیں کیوں کہ ظفر تو اِس کہانی میں صرف ایک مُہرے کی حیثیت رکھتا تھا‘‘۔

’’ زبردست !‘‘۔میں نے داد دی ۔

’’ ظفر نے مجھے کہا کہ وہ اِس کام میں ایک عرصے سے ہے اور ایسی صورتِ حال اُس کے ساتھ کوئی پہلی دفعہ پیش نہیں آ رہی۔البتہ وہ صِدقِ دِل سے یہ چاہتاہے کہ مجھے کچھ نہ ہو اِسی لئے وہ یہ سب کر رہاہے۔پھر اُس نے اپنے سامان میں اُس اعلیٰ کوالٹی کی منشّیات کی نشاندہی کر دی۔اُن لوگوں نے مجھے اب میری لائن آف ایکشن بتائی اور یقین دِلایا کہ دبئی میں غیر محسوس طریقے سے میری نِگرانی کی جائے گی۔میں بے فِکر ہو کر چاہوں تو تین ماہ کے لئے ظفر کی پیشکش سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن کے دفتر میں کام کر سکتا ہوں‘‘۔

’’ محفوظ بھائی! یقین جانیے ، مجھے تو ایسا لگ رہا ہے گویا آپ کِسی جاسوسی فِلم کی کہانی سُنا رہے ہوں۔واہ! بہت خوب!‘‘۔ میں نے پُر جوش تبصرہ کیا۔

’’ تمہیں یہ فِلمی کہانی لگ رہی ہے لیکن اُس وقت تو میری جان پر بن گئی تھی‘‘۔ 

محفوظ بھائی نے کہا۔ ’’ بے شک ایسا ہی ہے‘‘۔میں نے کہا۔

’’ میری والدہ اور گھر والوں کو اگر ذرا بھی اِس قصّہ کا علم ہو جاتا تو ؟ یہ سوچ کر میں پریشان ہو گیا۔اِدہر یہ سب سلسلہ ہو رہا تھا اُدہر ائیر لائن والے ہم دونوں کا نام پُکار رہے تھے کہ جہاز میں تشریف لے جائیں۔ ظفر نے با آوازِ بُلند کہا کہ فِکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ بے دھڑک جاےئے۔ میری جلد ہی ضمانت ہو جائے گی ۔ ’ اُن لوگوں ‘ نے بھی مجھے چلتے چلتے کہا کہ آج ائر پورٹ پر جو ہوا اُس کا ذکر کِسی سے نہیں کرنا ۔ اِس کے علاوہ مجھے کچھ ہدایات بھی دیں جن کا ذکر مصلحتاََ نہیں کرنا چاہیے۔ اب جہاز کب چلا؟ پرواز کیسی رہی؟پتا نہیں۔ البتہ میں نے یہ یقین کر لیا کہ ضرور اِس صورتِ حال میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی مصلحت ہو گی اور آہستہ آہستہ میں پُر سُکون ہو گیا‘‘۔

’’ اوہ! ‘‘ میں نے کہا۔

’’ دبئی ایئر پورٹ پر میرا رویہ بالکل عام آدمی جیسا تھا ۔ اتنی پیچیدہ صورتِ حال کے بعد یہ سکون صرف اللہ کا فضل تھا‘‘۔محفوظ بھائی نے کہا۔

’’ پھر دبئی ائرپورٹ پر ظفر کی بیگم آپ کو لینے آئیں؟‘‘۔میں نے سوال کیا۔

’’ ہاں! وہ مجھے لینے کے لئے آئی تھیں۔ بہت خوش نظر آ رہی تھیں۔مجھے تو کوئی ایسی چیز محسوس نہیں ہوئی کہ اُ نہیں کوئی علم ہے کہ ہمارے ساتھ کراچی  
ایئر پورٹ پر کیا ماجرا پیش آیا ہو گا۔ کہنے لگیں کہ اچھا ہوتا کہ ظفر بھی ہوتے مگر کوئی بات نہیں وہ بھی آ جائیں گے۔ آپ کا ہوٹل میں انتظام ہے کھا پی کر کچھ دیر آرام کر لیں پھر میں کِسی کو آپ کے پاس بھیج دوں گی وہ آپ کو دفتر لے آئے گا۔کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بِلا جھجھک میرے اِس نمبر پر فون کر لیں۔ اُنہوں نے اپنا بزنس کارڈ مجھے دیتے ہوئے کہا۔ اورپھر وہ مجھے ہوٹل کے دروازے پر اُتار کر بڑے اچھے موڈ میں واپس چلی گئیں۔میں نے استقبالیہ سے کمرے کا معلوم کیا اور نہا دھو کر کچھ دیر بستر پر لیٹ گیا۔ اب میں نے اس خاموشی اور تنہائی میں گزرے واقعات پر غور کرنا شروع کیا۔ بالآخر میں نے فیصلہ کیا کہ ’ اُن لوگوں ‘ کی ہدایات کے مطابق یہاں رہ کر ظفر کے دفتر میں کام کرنے میں کوئی ہرج نہیں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ گھنٹے بھر آرام کرنے کے بعد میں نے ظفر کے دبئی دفتر فون کیا اور آدھ گھنٹے بعد ہی استقبالیہ سے اطّلاع آ گئی کہ نیچے گاڑی آئی ہے۔ بس میاں! اُس وقت اللہ نے کچھ ایسی ہمّت عطاء کر دی کہ میں جب تک وہاں رہا بڑے حوصلہ سے رہا۔
 ظفر نے اِس دوران مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا نہ ہی وہ میری معلومات کے مطابق اِن تین مہینوں میں دبئی آیا۔البتہ اُن کی بیگم اِس دوران پانچ مرتبہ دبئی سے باہر گئیں۔ اُ نہوں نے کبھی میرے سامنے ظفر کا ذکر نہیں کیا۔اور نہ ہی میں نے اُن سے ظفر کے بارے میں کچھ پوچھنے کی کوشش کی۔ دفتر کا ماحول اور لوگ بہت اچھے تھے۔میرا کام بھی زیادہ مشکل نہیں تھا۔ بہرحال میں نے وہ تین ماہ بڑے آرام سے گُزارے۔ ہر دُوسرے دِن میں کراچی میں اپنے گھر والوں سے بات کر لیتا تھا۔جب تین ماہ کا عرصہ ختم ہونے کو آیا تو میں نے بیگم ظفر سے واپِس جانے کی خواہش کی۔ اُن کا اسرار تھا کہ میں یہاں مزید رُک جاؤں اور کراچی اپنے دفتر والوں سے اور چھٹی لے لوں ۔اُن کا کہنا تھا کہ اگر ظفر یہاں ہوتے تو وہ کبھی اتنی جلدی آپ کو جانے نہ دیتے۔ یقیناََ یہ اُنہوں نے خلوصِ دل سے کہا ہو گا لیکن اب میں خود بھی وہاں نہیں رہنا چاہتا تھا‘‘۔

’’ محفوظ بھائی! کیا وہاں آپ کوکبھی ایسا لگا کہ کوئی غیر محسوس طریقے سے آپ کی نِگرانی کر رہا ہے؟‘‘۔میں نے اُن سے سوال کیا۔

’’ ارے میاں! یہ غیر محسوس طریقے والی بھی خوب ہی اصطلاح ہے۔بھئی جب یہ ہے ہی غیر محسوس تو پھر محسوس کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ میرے دِل میں کون سا چور تھا جو میں اپنے آگے پیچھے دیکھ بھال کر چلتا‘‘۔محفوظ بھائی نے میری تفریح لیتے ہوئے ہنس کر جواب دیا۔

’’ پھر کیا ہوا؟‘‘۔میں نے پوچھا۔

’’ میں تو ہر وقت اللہ سے دعا مانگا کرتا تھا کہ کوئی میرے کمرے میں منشّیات سے بھرا بنڈل نہ ڈال جائے اور میں پھنس جاؤں ۔ مگر اِس پورے عرصے کسی نامعلوم فرد نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ نہ کبھی ہوٹل میں کوئی اجنبی مُلاقاتی مجھے پوچھتا ہوا آیا۔اِس دبئی جانے والی کہانی کے آغاز کو اگر نکال دیا جائے تو وہ تین ماہ میری زندگی کا ایک بہترین زمانہ تھا‘‘۔

’’ واہ واہ!کاش ایسی کہانی میرے بھی ساتھ ہو جائے!‘‘۔میں نے مذاقاََ کہا۔

’’ ارے اللہ کا نام لو! ایسی بات منہ سے نہیں نکالتے۔اللہ ایسی صو رتِ حال کِسی کو نہ دِکھائے‘‘۔

’’ محفوظ بھائی پھر اِس کہانی کا انجام کیا ہوا؟‘‘۔

’’ ہاں! میرے منع کرنے کے باوجود بیگم ظفر نے میرے گھر والوں کے لئے تحائف کے ڈھیر لگاد یئے۔دودھ کا جلا چھاج پھونک پھونک کر پیتا ہے، میں نے ایک ایک تحفہ اچھی طرح سے دیکھ بھال کر خود خریدے ہوئے نئے سوٹ کیس میں رکھا۔تین ماہ کی تنخواہ کے علاوہ بھی الگ سے ایک لفافہ ’ بونس ‘ کے طور پر دیا۔یوں میں تین ماہ اور چند دِنوں کے بعد کراچی واپس آگیا‘‘۔

’’ آپ کو تو لینے تمام گھر والے آئے ہوں گے؟‘‘۔میں نے پوچھا۔

’’ میں نے اُن کو اپنی واپسی کی اطّلاع نہیں دی تھی مجھے شک تھا کہ ائیر پورٹ پر کوئی تفتیشی ٹیم موجود ہوئی تو کئی گھنٹے لگ جائیں گے اور گھر والے پریشان ہوں گے؛ البتہ.......‘‘۔اپنے مخصوص انگ میں اُنہوں نے ارادتاََ بات میں وقفہ دیا۔

’’ البتہ کیا؟‘‘۔میں نے زِچ ہوتے ہوئے اُن سے پوچھا۔ 

’’ ارے میاں! تُم یہ سُن کر اُچھل پڑو گے کہ مجھے لینے کون آیا ہوا تھا؟‘‘۔ محفوظ بھائی کے چہرے سے شرارت جھلک رہی تھی۔

’’ محفوظ بھائی اب تو میرے تجسس کی انتہا ہو چکی ۔۔۔کون آیا ہوا تھا؟‘‘

’’ ظفر خود موجود تھا‘‘۔محفوظ بھائی نے کہا۔

’’ ارے باپ رے!‘‘۔میرے منہ سے یہ الفاظ نِکلے۔

’’ ہاں میاں! ظفر کا کہنا تھا کہ اُس کا ’ اُن ‘ سے معاملہ طے ہو گیا تھا۔میں نے ظفر کا بہت شُکریہ ادا کیا ۔ وہ اپنے ساتھ مجھے بھی بآسانی شریکِ جُرم ٹہرا سکتا تھا مگر ایسا نہ کر کے اُس نے مجھ پر احسان کیا‘‘۔ 

’’ اوہ! محفوظ بھائی ایسا تو میں نے پہلی دفعہ ہی سُنا کہ کوئی پاکِستانی خود پھنستے پھنستے ساتھ والے بے قصور کی ٹانگ نہ کھینچے۔آپ یقیناََ خوش قِسمت ہیں لیکن اُس نے یہ کیا کیوں؟ ‘‘۔

’’ یہ سوال میں نے بھی اُس سے کیا تھا، جِس کا جواب اُس نے صرف ایک ہلکے سے تبسّم سے دیا‘‘۔یہ کہہ کر خود محفوظ بھائی بھی مسکرانے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام 
یہ سچا واقعہ اگست  2018کے حکایت ڈائجسٹ کے صفحہ 235 میں " انہونی " کے عنوان سے شائع ہوا۔ 

Comments

Naseem Khan said…
Is waqiay Kay sachay honay ka andaza sirf aak baat say hi hota hai aap ka makhsoos jumla "padoon main zardy" jis ka istamal aap hi say suna tha hum loogoon nay.
Unknown said…
True incident but written in a 'Short Story' pattern which is full of suspense. Reader remains unaware of the climax while reading it from start to end.
'Pardon may Zarday'is first read in this story.
ulatphair said…
نسیم صاحب وقت نکال کر میری تحریر پڑھنے کا شکریہ ہا ہا ہا ہا !! آپ نے بہت صحیح کہا۔ لگتا ہے آپ نے بھی پردوں میں زردے دیکھے ہیں۔
ulatphair said…
شاہد بھائی ! انہونی کو آپ نے پسند کیا جس کا میں بہت مشکور ہوں۔
یہ " پردوں میں زردے دیکھنا" مجھے بھی بہت عجیب لگا تھا جب پہلی مرتبہ 1973 میں سنا۔

Popular posts from this blog