کچرا پھیلانے پر بلدیہ وسطی میں گر فتاریاں اور مقدمات
کچرا پھیلانے پر بلدیہ وسطی میں گر فتاریاں اور مقدمات
تحریر شاہد لطیف
پچھلے دنوں کراچی میں ایک عجیب بات ہوگئی جس پر کچھ احباب نے محض مسکرا کر اپنا رد عمل ظاہر کیا، بعض نے اسے ’ خبر‘ تک نہیں سمجھا۔لیکن میرے نزدیک یہ ایک خوشگوار روایت قائم کی گئی ہے۔کراچی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلدیہ وسطی کے زیرِ انتظام حدود میں کچرا پھیلانے والے افراد کو باقاعدہ تھانے میں ایف آئی آر رپورٹ درج کر کے گرفتار کر لیا گیا۔یہ واقعہ ذکریہ اسکول، کوثر نیازی کالونی ، بلاک ایف نارتھ ناظم آباد میں پیش آیاجہاں کوُڑا غلط جگہ پھینکنے پر 2 افرادکو حیدری مارکیٹ تھانے میں لکھت پڑھت کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔اُدھر بلدیہ وسطی کے خصوصی اجلاص میں فیصلہ کیا گیا کہ عوام الناس میں شہری اور تمدّنی شعورکی آگہی دینے کے لئے اپنی حدود میں جا بجا رضا کاروں کو تعینات کیا جائے گا۔
چونکہ اس جرم میں کسی کو پہلی مرتبہ سزا ملی اس لئے اس پر ملا جُلا ر د عمل سامنے آیا ۔اکثر احباب اس کو ہنسی ٹھٹھے میں اُڑا رہے ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ صرف نمائشی اقدام ہے بھلا اس پر عمل کس طرح ہو سکتا ہے؟اور بعض ’ ماہرین‘ کا کہنا ہے کہ اس بات میں بھی یقیناََ کوئی ’بات‘ پوشیدہ ہے۔ایک رد عمل یہ بھی ہے کہ بغیر تشہیری مہم کے یہ گرفتاریاں نہیں کرنا چاہییں۔
چونکہ یہ گرفتاری اوراس کی تشہیر کراچی کی بلدیہ ضلع وسطی سے کی گئی لہٰذا یہ خاکسار بھی بات یہیں سے شروع کرتا ہے۔کراچی کے دیگر اضلاع کے برعکس بلدیہ ضلع وسطی نے اپنی حدود میں ایک نہایت خوبصورت روایت کو ’ جاری ‘ کیا ہے۔ کونسل کی اکثریت نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ قانون کے مطابق اپنی حدود میں کچرا اور کوُڑا پھینکنے پر سخت سزاؤں کو سختی کے ساتھ نافذ کیا جائے تو خاطر خواہ نتیجہ آ سکتا ہے لہٰذا کونسل نے اس کا پہلا نفاذ اِن دو افراد کو گرفتار کر کے کیا۔ یقیناََ اس کے فوری مثبت نتائج نظر نہیں آئیں گے لیکن میں اس بات کی پوری تا ئید کرتا ہوں کہ اگر اس قانون کو اسی طرح نافذ کیا جاتا رہا تو جلد یا بدیر اس کے حوصلہ افزا نتائج ضرور سامنے آئیں گے۔
ترقی یافتہ ممالک میں صرف آگہی مہمات سے کام نہیں چلتا۔ وہاں یہ قوانین موجود ہیں کہ اگر شاہراہوں پر آپ نے اپنی کار سے کچھ باہر پھینکا، یا مخصوص جگہوں پر بنے ہوئے ریسٹ ایریا میں رکھے گئے کوڑے کے ڈرموں کے علاوہ کہیں بھی پھینکا تو بہت تگڑا جرمانا لگے گا یہاں تک کہ اس میں سگرٹ کا ٹوٹا پھینکنا بھی شامل ہے۔
کئی مرکزی حکومتیں آئیں اور گئیں، سندھ میں بھی کئی حکومتیں بنیں اور گئیں لیکن کبھی کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ کچرا سرِ عام پھینکنے کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اگر کوئی قانون ہے تو اُسے سختی کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ہمارے وزراء،
سنیٹرز ، صدر وزیرِ اعظم، وزرا ئے اعلی ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ۔۔۔نجی یا سرکاری طور پر ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک جاتے رہتے ہیں۔وہاں وہ ہوائی جہاز کے علاوہ ٹرینوں ، بسوں، اور ٹیکسیوں میں بھی سفر کرتے ہیں۔حیرت کا مقام ہے کہ یہ سب خواتین و حضرات وہاں جا کر ایک مہذب شہری کی طرح سفر کرتے ہیں۔ پھر واپس وطن کی سرزمین پر قدم رکھا نہیں اور قاعدے قانون لپیٹ کر رکھے نہیں ۔کیوں؟ اس لئے کی یہ پاکستان میں ’ قانون‘ سے ارفع اور مبرّا ہیں۔ قانون تو کمزوروں اور عوام کے لئے ہوتا ہے۔
ماضی میں کچرا پھنکنے پر سزاؤں کی باتیں ہوتی رہیں ہیں، ایک ایسے ہی فورم میں یہ کمتر بھی شریک تھا جہاں، کے ڈی اے، اس کے ماسٹر پلان والے، کے ایم سی اور سٹی ڈسٹرکٹ والے ، واٹر بورڈ اور متعلقہ شعبوں کے نمائندے شامل تھے۔ جب بات سرِ عام کچر ا پھینکنے پر سزاؤں کی چھِڑی تو اس کا بہت مذاق اُڑایا گیا ۔وہاں ایک بھی ذمہ دار عہدے دار ایسا نہیں تھا کہ جو اس موضوع پر بات کرتا یا حاضرین میں سے کسی کی سنتا۔
میں اِن کالموں میں ایک بات تواتر سے کہتا چلا آ رہا ہوں کہ منصوبے ہوں یا قانون، جب تک وہ سختی کے ساتھ نافذ نہیں ہوں گے ان کا کوئی فائدہ نہیں ۔
پچھلے دنو ں8 سپریم کورٹ کے قائم کردہ واٹر کمیشن نے کراچی کے متعلقہ شعبوں میں ایک تھر تھلی مچا رکھی تھی لیکن اُن شعبوں نے ’ کر لیں گے‘، ’ دیکھ لیں گے‘، ’ ہو جائے گا‘ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی پھر عدالتِ عالیہ کی سختی سے افسر شاہی کو لگامیں لگ گئیں اور نتیجہ سامنے آنے لگا۔مثلاََ بغیر ٹریٹمنٹ کے آلودہ پانی ڈی ایچ اے والے سمندر میں ڈال رہے تھے۔ گویا ڈی ایچ اے پر کوئی قاعدہ قانون نہیں۔ ضابطہ اور قانون پہلے ہی موجود تھے لیکن عمل۔۔۔ نہیں کیا جا رہا تھا۔اب جب ’ اوپر‘ سے سختی کی گئی تو۔۔۔
اسی طرح کھلے عام کچرا پھیلانا ہمیشہ ہی غیر مستحسن اور قابلِ گرفت تھا لیکن۔۔۔ یہ ایک ایسی بیماری اور برائی بن چکا تھا کہ عوام تو عوام خواص بھی اسی صف میں شریک تھے۔گویا اس برائی کو برائی ہی نہیں سمجھا جا رہا تھا۔اب ایسے میں جو بلدیہ وسطی نے سختی کے ساتھ اس قانون کو نافذ کرنے کا عمل شروع کیا ہے تو اس کو بے دھڑک اوربلا امتیاز جاری رکھنا چاہیے۔خاکسار کو یقین ہے کہ جو نتیجہ ’ڈنڈے‘ سے حاصل ہو گا وہ کبھی بھی تشہیری مہمات سے حاصل نہیں ہو سکتا۔یہ تمام ترقی یافتہ ممالک جن کی نقل کرنا باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے ۔۔۔یہ ممالک بھی اگر قانون کے نفاذ میں سے ’’ ڈنڈا‘‘ نکال دیں تو ان کا حال ہم سے بھی برا ہو گا۔ہمیں یقیناََ بلدیہ وسطی کی اس کاروائی پر حوصلہ افزائی کرتے رہنا چاہیے تا کہ قانون کا جو نفاذ ایک دفعہ شروع ہوا ہے وہ رکنے نہ پائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 7 جولائی 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کے صفحہ نمبر 11 پر کالم " اُلٹ پھیر" میں شائع ہوئی۔
Comments