ایک لیٹر پٹرول پر 40روپے ٹیکس ؟ حکومت نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔۔۔سپریم کورٹ
ایک لیٹر پٹرول پر 40روپے ٹیکس ؟
حکومت نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔۔۔سپریم کورٹ
تحریر شاہد لطیف
یہ ایک نہایت تکلیف دہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی کوئی حکومت عوام الناس سے مخلص نہیں رہی۔پٹرول کی قیمتیں اس کی ایک واضح مثال ہے۔حال سے ماضی کی جانب جائیں تو موجودہ نگران حکومت، نواز شریف کے تینوں دور، پیلپز پارٹی کی تمام حکومتیں، مشرف دور۔۔۔آپ کسی بھی سال کے پٹرول کی قیمت معلوم کر کے جس مرضی فارمولے کو استعمال کیجئے نتیجہ یہی ملے گا کہ فی لیٹر وہ قیمت اُس سے کہیں کم ہے جو بے چارہ صارف ادا کر تا ہے۔مختلف قسم کے ٹیکسوں سے فی لیٹر پٹرول کی قیمت کہیں سے کہیں پہنچا دی جاتی ہے۔حالاں کہ تیل کی عالمی منڈی میں تیل کی فی بیرل قیمتیں کم ہوتی ہیں اور پاکستان کی آئل ریفائینریاں کھلی مار کیٹ سے سستا تیل لیتی ہیں پھر بھی ۔۔۔
جمہوریت کی علم برد ار سیاسی حکومتیں ہوں یا فوجی، عوام کی خیر خواہی کی سب ہی دعوے دار رہیں، لیکن عمل اس کے بالکل برخلاف کیا ۔ ناک دائیں جانب سے پکڑیں یا بائیں ، بات ایک ہی ہے اسی طرح کبھی عوامی دباؤ،یا کسی ترنگ یا کسی اور لہر میں مرکزی حکومت پٹرول کی قیمت کم کر بھی دے تو یہ سپنا بہت جلد خود وہی حکومت بکھیر کر رکھ دیتی ہے۔ لگتا تو ایسا ہے کہ حکومت ہو یا نوکر شاہی کوئی بھی عوام کی بہبود کے لئے سنجیدہ نہیں۔اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک مثال دیتا ہوں۔پچھلے دنوں فون کارڈوں پر بے جا لگے ٹیکسوں پر از خود سماعت کے دوران جب عدالتِ عالیہ نے عارضی طور پر عوام کو 15 روز کے لئے اِن ظالمانہ ٹیکسوں سے نجات دلا کر 100روپے کے کارڈ پر 100روپے کا ہی بیلینس دینے کےا حکامات دیے تو اِن فون کمپنیوں سے زیادہ، حکومتِ پاکستان کے مختلف شعبوں کے سرکاری حکام جیسےا یکسائز اینڈ ٹیکسیشن ،بڑھ چڑھ کر ا س کی مخالفت کرنے لگے کہ صاحب اس اقدام سے اتنے کروڑ کا ریوینیو ملنا بند ہو جائے گا ! لیکن متعلقہ وزارتوں کے وزرا اور اُن کے سیاسی طور پر بھرتی شدہ مشیران کے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو عوام عوام کی مالا جپتے نہیں تھکتے لیکن اگر کہیں عوام الناس کو تھوڑا بہت ’ ریلیف‘ مل رہا تھا تو اس پر وہ خاموش رہے ۔ان سے تو عوام کے لئے ایک لفظ تک ادا نہ ہو سکا۔
پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پٹرول اور پٹرولیم کی مصنوعات پر عائد ٹیکسوں اور اِن کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے متعلق از خود نوٹس لیا۔اسی کیس کی سماعت کرتے ہوئے انہوں نے کہا : ’’ ایک لیٹر پٹرول پر 40روپے ٹیکس کا کیا جواز ہے؟ حکومتوں نے پٹرولیم مصنوعات کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔قیمتیں کم کرنے کا فارمولا کیا ہے؟ یہ کیا بات ہے کہ سرکاری کمپنیوں میں بھاری تنخواہوں میں باہر کے بندے بھرتی کر لئے جائیں؟‘‘۔انہوں نے پی ایس او کے ایم ڈی شیخ عمران سے پوچھا :’’ آپ کا تجربہ اور تنخواہ کتنی ہے؟‘‘۔ جواب ملاحظہ فرمائیے: ’’ تجربہ تین سال اور تنخواہ 37 لاکھ روپے ماہانہ‘‘۔اس پر چیف جسٹس برہم ہو گئے اور کہا: ’’ یہ کیا بکواس ہے! مراعات سمیت آپ کا پیکیج 45لاکھ تک جائے گا ۔یہ اخراجات عام صارف ادا کر رہا ہے۔کیا بیوروکریسی ختم ہو گئی تھی جو پرائیویٹ سیکٹر سے اتنا مہنگا بندہ لیا گیا؟ آپ ہمیں مطمئن نہیں کر سکے۔جہاں سے آئے ہیں وہاں واپس چلے جائیں‘‘۔ اتوار کو سپریم کورٹ میں پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا : ’’ ہفتہ کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کچھ کمی کی گئی ، کیا قیمتیں کم کرنے کا کوئی فارمولا ہے؟عدالت کوآگاہ کریں کی کیسے قیمتوں کا اتار چڑھاؤ کیا جاتا ہے ؟ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں حکومت کے پیسے کمانے کے لئے ہیں؟‘‘ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پٹرول کی قیمت بڑھے تو سیلز ٹیکس کم کر دیا جاتا ہے۔ اس پرعدالتِ عالیہ کی تشفی نہیں ہوئی ۔
پچھلے کئی سالوں سے بظاہر ایسا ہی دکھائی دے رہا تھا کہ ملک کے کسی بھی عوامی شعبے میں عوام کی کوئی شنوائی نہیں ۔لوگ بے چارے تو اپنے مسائل ایک در سے دوسرے پر لے جا لے جا کر رو دھو کر چپ ہو گئے تھے۔ہر مسئلے کا ایک ہی حل بن چکا تھا ’’ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ‘‘۔اب اگر از خود نوٹسوں کے ذریعے عدالتیں ’ نوکر شاہی‘ کو لگامیں ڈال رہی ہیں تو اس کا براہِ راست ذمہ دار سیاستدان خود ہیں جو۔۔۔اب تو کراچی سے شمالی علاقہ جات تک عوام جان گئی ہے کہ عدا لتِ عالیہ اور چیف جسٹس کے بارے میں ایک منظم تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ یہ خواہ مخواہ ہر چھوٹے بڑے ادارے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان کا کوئی مخصوص ارادہ ہے۔
یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ چھوٹی بڑی عدالتوں کے جج خواتین و حضرات بھی زمانہ طالبِ علمی میں اُس اذیت اور کرب سے گزرے ہوں گے جو پاکستانی عوام کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔انہوں نے بھی اپنے زمانہ میں پٹرول پر لگنے والے بے جا ٹیکسوں کی وجہ سے کرایوں میں اضافے کو محسوس کیا ہو گا ۔ عدالتِ عالیہ کے جج ہوں، بیوروکریٹ یا سیاستدان۔یہ سب بھی اپنی گاڑیوں میں پٹرول ڈلواتے ہی ہیں۔بیورو کریٹ یا سیاستدان کو یہ توفیق کیوں نہیں ہوئی کہ وہ پوچھتا کہ فی لیٹر پر ٹیکس کتنا اور کیوں ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ خود پٹرول ڈلواتے ہی نہیں اور ڈرائیور جو رسید لے کر آتا ہے وہ ’ ر ی ایمبرسٹمنٹ‘ کے لئے فائل میں چلی جاتی ہے۔ رہی عوام تو اُن بے چاروں کی اوقات ہی کیا ہے ! اب اگر سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اس بات کو سنجیدگی سے لیا ہے تو یہ افسوسناک تاثر اُن کے بارے میں پھیلایا جا رہا ہے جو عوام کی تھوڑی بہت آس بن رہے ہیں۔یہ کام پہلے سیاستدانوں اور نام نہاد عوام دوست قوتوں نے کیوں نہیں کیا؟
سوال ہے کہ جب ادارے ، شعبے اپنا کام ہی نہ کریں اور لوگ چیخ و پکار کر رہے ہوں تو کم از کم کوئی تو ہو جو اِن ’ شتر بے مہاروں‘ کو لگام دے ! جو کام منتخب ارکانِ اسمبلی کو کرنا چاہیے تھا اور جس کے لئے انہیں بھاری تنخوہیں بھی ملتی ہیں یعنی قانون سازی وہی انہوں نے کبھی نہیں کی۔اگر کبھی کی تو اپنی تنخواہیں بڑھوانے کے لئے کی۔
ہم توقع رکھتے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے سے پہلے عوامی بہبود کے لئے کیے گئے اقدام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں گے جس میں سرِ فہرست پٹرول کی قیمتوں میں استحکام کا ایک فارمولا اور ڈیموں کے لئے فنڈ ریزینگ کے بعد ان کی تعمیر کی ابتداء ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 14 جولائی کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ سے صفحہ 11 پر شائو ہوئی۔
Comments