آئیے۔۔۔ سائیکل چلائیے
آئیے۔۔۔ سائیکل چلائیے
تحریر شاہد لطیف
زمانہ کتنی ہی ترقی کر لے کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی اہمیت گزرتا وقت کم نہیں کر سکتا۔مثلاََ گھوڑا مثلاََ سائیکل۔۔۔دونوں سواریاں ہیں۔۔۔ایک وقت تھا کہ یہ دونوں اپنے وقت کے status symbol تھے۔۔۔خیر گھوڑا تو اب بھی اسٹیٹس سمبل ہے۔اس کی اصل اہمیت پہاڑی علاقوں میں اب بھی پہلے جیسی ہی ہے۔رہی سائیکل تو اب یہ اسٹیٹس سمبل تو نہیں رہی لیکن اہمیت کے اعتبار سے اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ہاں قیمت کے اعتبار سے بچگانہ سائیکلیں اب بھی اسٹیٹس سمبل بنتی ہیں۔
خواہ کچھ بھی ہو سائیکل اب بھی مزدور طبقے اور خاصی تعداد میں طلباء کی اہم ضرورت ہے۔یہ وہ سواری ہے کہ ’’ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے‘‘۔بس خریداری کا خرچہ پھر نہ تیل نہ پانی۔۔۔احتیاط سے چلائیں تو برسوں چلتی ہے۔چلتے چلتے ’ چین ‘ اتر جائے تو بیٹھ کر چین چڑھا لیں ۔ پتھریلی زمین پر ٹائر پنکچر ہو جائے تو چند روپؤں میں پنکچر لگوا لیں اور پہیے کی ہوا کم ہو جائے تو خود ہی بھر لو۔
بات سائیکلوں کی ہو تو ایک ادارے کا نام سائیکل سے نتھی اب بھی ہماری عمر کے لوگوں کے لاشعور میں زندہ ہے یعنی ’ سہراب سائیکل‘ ۔ ہمارے بچپن میں یہ واقعی ایک اسٹیٹس سمبل تھا۔اس کی مضبوطی اور خوبصورتی لا جواب،استعمال میں آسان اور قیمت مناسب۔اگر قیمت قدرے زیادہ بھی تھی تو اس کا لمبے عرصے تک استعمال قیمت پوری کر لیتا تھا بلکہ بونس بھی۔۔۔
یہ پرانی یادیں ایک خبر پڑھ کر ذہن میں تازہ ہو گئیں ۔مقامی اخبار نے کراچی کی سائیکل مارکیٹ کی خبر لگائی ہے کہ اس مارکیٹ میں نئی پرانی، بچگانہ اور بڑوں کی ہر طرح کی سائیکلیں موجود ہیں۔پھر یہ کہ پاکستانی سائیکلوں کے ساتھ ساتھ عوامی جمہوریہ چین سے درآمد شدہ نئی پرانی سائیکلوں کی بڑی کھیپ موجود ہے۔خبر میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا کہ چِین کی ہر ایک طرح کی سائیکل ، پاکستانی سائیکل سے سستی ہے۔اس میں نئی پرانی سب شامل ہیں۔یہی خبر پڑھ کر میرا خیال اپنے بچپن اور لڑکپن کی طرف گیا۔ ہمارے گھر میں برطانیہ کی بنی ہوئی Raleigh Bicycle ہوتی تھی۔میرے والد صاحب اسی پر اپنے دفتر جاتے۔میرے بڑے بھائیوں نے بھی یہ استعمال کی۔پھر یہ مجھے ملی تو میں نے بھی اس کو بہت استعمال کیا۔اس پر میں ائیرپورٹ سے پی آئی بی کالونی ، اور ملیر کینٹ آتا جاتا رہا۔ اُس زمانے میں پاکستانی سائیکلیں اہلِ محلہ اورمیرے دوستوں کے پاس تھیں۔میں وہ وقت یاد کرتا ہوں جب خواہ نئی تھی یا پرانی امیر و غریب اسے استعمال میں لاتا اور اپنی ضرورت پوری کرتا تھا۔افسوس آج کی متنوع سواریوں نے اسے پسِ پشت ڈال دیا ہے۔اس کے باوجود مزدور طبقہ ابھی بھی اسی کا محتاج ہے۔مگر بات پھر وہیں آتی ہے کہ یہ طبقہ کس قسم کی اور ’ کہاں ‘ کی بنی سائیکل کی استطاعت رکھتا ہے۔ بچوں کی سائیکلوں کی بات ہی الگ ہے کیوں کہ یہ ایک عیاشی ہے جو صرف وہی برداشت کر سکتا ہے جو ’ برداشت ‘ کرنے کی سکت رکھتا ہے۔
بچوں کی سائیکلوں کی بات ہوئی تو خبر میں ایک تذکرہ یہ بھی تھا کہ پسماندہ اور گنجان آباد علاقوں کے رہنے والے بچوں کے گھروں میں اتنی گنجائش ہی نہیں ہوتی کہ اپنے گھر میں سائیکل چلا کر خوش ہو سکیں۔گلیوں اور محلے کی سڑکوں پر چلانا الگ دشوار ہے۔اور اگر بچے سڑک پر چلانے کی کوشش کریں تو ہمارے یہاں ’’ سائیکل ٹریک‘‘ کا کوئی تصور موجود ہی نہیں۔ہاں آپ کو اسلام آباد میں کہیں کہیں دکھائی دے گا لیکن اس پر عمل مفقود ہے۔اب رہ گیا کھلا میدان (اگر کہیں قبضے والوں اور شادی گھر والوں سے بچ گیا ہو) تو ایسے میدان نوجوانوں نے کرکٹ اور فٹبال کے لئے قبضہ کئے ہوتے ہیں۔ایسے میں لیاری کی ایک این جی او ’’ لیاری گرلز کیفے ‘‘ نے ایک مخصوص جگہ پر ا ن علاقوں کے بچوں خصوصاََ لڑکیوں کے لئے سائیکلنگ کا انتظام کیا ہوا ہے۔وہاں ان بچوں بچیوں کو سائیکل چلانے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔شوق کا شوق ۔۔۔ورزش کی ورزش۔پھر اس خبر میں تذکرہ تھا کہ مارچ 2018 میں اس این جی او نے بچیوں کی سائیکل دوڑ کا مقابلہ کروایا اور جیتنے والے بچوں کو انعامات دیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سائیکل کا استعمال صحت کے لئے از حد ضروری ہے۔امیر طبقے میں خواتین و حضرات نے تو اپنے کمروں میں ورزشی ’’ سائیکل ‘‘ رکھی ہوتی ہے جس پر وہ دن میں کم از کم آدھ گھنٹہ ’’ سواری‘‘ کرتے ہیں۔لیکن وہ متوسط طبقہ جو موٹر سائیکل استعمال کرتا ہے ، اِن کے لئے بھی یہی نصیحت ہے کہ وہ اپنے گھر میں ایک عام استعمال کی سائیکل ضرور رکھیں ۔کراچی جیسے وسیع و عریض شہر میں یقیناََدور دراز کے سفر کے لئے سائیکل موزوں نہیں لیکن میل دو میل تک کسی کام کے سلسلے میں جانا ہو تو سائیکل ایک بہترین یعنی کم خرچ بالا نشین سواری ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سائیکل سواری کے صحت مندانہ فوائد جیسے ورزش، فشارِ خون، ذیابیطس، کا کنٹرول وغیرہ سے عوام الناس کو آگاہ کرتے رہیں۔نیز مزدور طبقہ اور نوجوانوں کی استطاعت کے مطابق قیمت مناسب رکھی جائے۔یقیناََ عوامی جمہوریہ چین ہمارا دوست ملک ہے۔اس سے ہمارے تجارتی روابط ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بحیثیت پاکستانی ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے ملک کی صنعتوں کو سہارا دیں۔ہماری صنعتوں کے مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی مصنوعات بین الاقوامی معیار کے مطابق مناسب قیمت پر بازار میں لائیں تا کہ صحت مند مقابلے کے ساتھ پاکستانی مصنوعات کا فروغ ہو۔
بات سائیکل کی ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ ’’ مرزا کی سائیکل ‘‘ یاد نہ آئے۔ہو سکتا ہے کہ نئی نسل اس کے بارے میں نہ جانتی ہو تو میری اُن سے درخواست ہے کہ وہ اپنی قریبی لائیبریریوں ( تعلیمی درسگاہوں کی یا عوامی) میں جا کر ’’ پطرس کے مضامین ‘‘ ضرور پڑھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 21 جولائی بروز سنیچر، 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ سے صفحہ 11 پر کالم " اُلٹ پھیر" میں شائع ہوئی۔
Comments