کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا۔۔۔ذمہ دار کون؟؟؟
کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا۔۔۔ذمہ دار کون؟؟؟
تحریر شاہد لطیف
اللہ کا شکر ہے کہ ہم عوام میں سے ہیں۔ ضرورت کی ہر ایک چیز گھر کے قریب دستیاب ہے۔کہیں دور جانے کا موقع کبھی کبھار ہی آتا ہے۔جب بھی دور جانا ہو تو عوامی طریقہ ہی اختیار کرتا ہوں۔اب جو مجھے سفر کرنے کا موقع ملا تو کرایہ سُن کر حیران رہ گیا۔تحقیق کی تو علم ہوا کہ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہرِ کراچی میں منی بس اور کوچوں نے اپنے کرایہ میں من مانا اضافہ کر لیا ہے۔وزارتِ ٹرانسپورٹ نے اس معاملہ پر چپ سادھ لی ہے۔حکومتِ سندھ نے پچھلے دس برسوں میں محض زبانی دعوے کیے جن پر کبھی رتّی بھر بھی عمل نہیں ہوا۔وزیرِ اعلیٰ سندھ نے اعلان کیا تھا کہ 15 فروری سے بڑی پبلک بسیں سڑکوں پر آ جائیں گی لیکن۔۔۔؟کراچی کے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔جو تھوڑی بہت بڑی بسیں چل رہی ہیں وہ بھی خستہ حال ہیں ۔مجبوری کا نام شکریہ ۔۔۔اس وقت بیشتر عوام چنگ چی میں سفر کرتی نظر آتی ہے۔ چنگ چی شاہراؤں پر سفر کرنے کے واسطے بنائے ہی نہیں گئے نہ جانے یہ کس حساب سے عوامی سواری کے نام سے سرکاری طور پر چل رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ’’ نا معلوم‘‘ وجوہات کی بنا پر ٹرانسپورٹ مافیاکو من مانا کرایہ بڑھانے کی کھلی اجازت ہے۔آپ خود فیصلہ کیجئے کہ سرجانی سے چلنے والی خان کوچ نے فی سواری اپنا کرایہ 17 روپے سے بڑھا کر 30 روپے کر لیا۔کیا اب کراچی کے شہری سمجھ لیں کہ یہاں ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پرناکام ہو چکا ؟
وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کاایک مقام ہے۔یہ صوبے میں ’’ وزیرِ اعظم ‘‘ ہے۔مراد علی شاہ صاحب کو بطور وزیرِ اعلیٰ اپنے دعوے کا پاس رکھنا چاہیے تھا ۔15 فروری آئی اور گزر گئی لیکن کراچی کی سڑکوں پر ایک بھی نئی بڑی بس دکھائی نہیں دی۔ وزیرِ اعلیٰ، وزیرِ ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ اور اُن کے محکمہ سے اپنے حکم پر عمل کروانے میں ناکام رہے۔ کیوں؟۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیرِ اعلیٰ کمزور ہیں یا وزیر ٹرانسپورٹ کی کوئی او ر تر جیحات ہیں اور وزیرِ اعلیٰ کی کوئی اور؟ اگر اِن میں کوئی چپقلش ہے تو کراچی کے عوام کا کیا قصور؟ وہ آخر کس وجہ سے پسے جا رہے ہیں ؟ اس وجہ سے کراچی کے شہریوں میں بد دلی اور مایوسی بڑھ گئی ہے۔واضح ہو کہ حکومتِ سندھ نے پہلے بھی 250بڑی بسیں چلانے کا وعدہ کیا تھا لیکن۔۔۔ایک سال بیت گیااور اب وزیرِ اعلیٰ نے ڈھائی سو بسوں میں سے 75 بسوں کے چلانے کی بات کی جو بات ہی رہی۔۔۔اِسے عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں کیا ترقی یافتہ اور کیا ترقی پذیر ، اِن کے تمام بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک مناسب اور مربوط نظام ہے۔یہ عوام کی ضرورت ہے۔ کراچی میں پہلے بھی پبلک بسیں کامیابی سے چلتی رہی ہیں ۔ پھر جب کسی ’’ مصلحت‘‘ کی خاطر سرکاری بسوں کو بند کر کے منی بسوں کی اجارہ داری قائم کرائی گئی تو کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔شاید ہم سب بے حس ہو چکے ہیں ۔نہیں ! بلکہ عوام کا کوئی ایسا راہنما ہی نہیں جو اُن کے دُکھ درد کو سمجھ سکے۔عوام تو محض بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی کی فکر ہے۔جب تک عوام کے دکھ درد کو ’’بادشاہ‘‘ تک پہنچانے کا کوئی مضبوط نمائندہ نہ ہو تو عوام بھی رو دھو کر چپ ہو جاتے ہیں۔ دور کیوں جائیے ، وزیرِ ریلوے بلور صاحب کے زمانے میں ریلوے کا بھٹہ ہی بٹھا دیا گیا مگر جو چیخ و پکار ہونا چاہیے تھی وہ کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ایوبی دور میں جِن صاحب کو ریلوے کا وزیر بنایا گیا وہ خودایک بڑے ٹرانسپورٹر تھے۔۔۔اب کس کس بات کا ذکر کریں۔۔۔
کیا کراچی کے شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی مد میں ہمیشہ محض دعوے اور اعلانات کے علاوہ کبھی کچھ اور ملے گا یا نہیں ؟افسوس کہ دس سال گزر گئے لیکن ’’عو ام کی آواز ‘‘ہونے کی دعوے دار پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کراچی میں ایک بھی سرکاری بس نہ چلا سکی۔گلشنِ حدید ، نزد اسٹیل ملز، سے چلنے والی گرین بسیں محض چند ماہ ہی چل پائیں۔پھر ان میں سے زیادہ تر بسیں ’’ نا معلوم‘‘ وجوہ کی بنیاد پر بند کر دی گئیں۔رہی ٹرانسپورٹ کی وزار ت ، تو وہ پہلے ہی سرکاری بسیں روڈوں پر لانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔اب یوں لگتا ہے کہ اُس نے عوام کے دکھ کو دوگنا کرنے کے لئے نجی ٹرانسپورٹ مافیا کو من مانے کرائے بڑھانے کی اجازت بھی دے دی ہے۔’’ خان کوچ‘‘ تو ایک مثال ہے۔دیگر روٹوں پر چلنے والی کوچوں نے بھی اپنے اپنے کرائے بڑھا کرعوام کو نچوڑ ڈالا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ وزیر، مشیر اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ افسران کبھی صبح اور شام کے رش والے اوقات میں اِن کوچوں میں بیٹھے ہی نہیں۔اور’’ ماضی‘‘ کو کون یاد رکھتا ہے ؟ خاکسار سندھ کے وزیرِ ٹرانسپورٹ ناصر حسین شاہ اور وزیرِ اعلیٰ جناب مراد علی شاہ صاحبان سے درخواست کرتا ہے کہ جنابِ والاکبھی کسی دن آپ اپنے دفتر میں آنے کے لئے کوچ میں سفر کیجئے! عوام کی تکالیف سمجھنے کے لئے عوامی انداز اختیار کرنا ضروری ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب عوام کے نمائندے کوئی اختیار حاصل کر لیتے ہیں تو وہ عوام سے خواص بن جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اُن کی پوری نفسیات اور مزاج بدل جاتا ہے۔خاص طور پر وہ خواص جن کا ماضی عوامی گزرا ہے۔وہ ا پنے اس سنہری دور سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔
ہمارا مقصد نہ کسی کی حمایت کرنا ہے نہ کسی کی مخالفت۔۔۔لیکن جو حقیقت نظر آرہی ہے اور جسکا میں نے خود مشاہدہ کیا ہے وہی پیشِِ خدمت ہے۔مجھے جب بھی اسلام آباد اور لاہورجانا پڑا، میں نے ہمیشہ عوامی طریقے سے ہی سفر کیا ۔خاص طور پر لاہور میں ، میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ وہاں سرکاری ٹرانسپورٹ کا بہت اچھا انتظام ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نجی ٹرانسپورٹ کے کرایہ بھی بہت مناسب ہیں۔کوئی بھی سرکاری نرخ سے زیادہ طلب نہیں کرتا۔نیز عوام عزت کے ساتھ بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر سفر کرتے ہیں، کوئی بھی ’’ مُرغا ‘‘ نہیں بنتا۔اسی طرح راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان عوام کی ایک بڑی تعداد سرکاری اور نجی ٹرانسپورٹ پر اطمنان سے سفر کرتی ہے۔اس پر دل دُکھتا ہے کہ ایک ہی ملک میں رہنے والی کچھ عوام کو تو اتنی سہولتیں ملیں اور عوام کی ایک بڑی تعداد اِن سے محروم رہ جائے۔
اِس کا حل ۔۔۔؟ ایک بات طے ہے کہ انتظامیہ کا سربراہ اُس پوری انتظامیہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ سربراہ کی صفات کا اندازہ اُس کے انتظامی اُمور سے ہو جاتا ہے۔اِس کا حل صرف یہی ہے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ اپنی اعلیٰ صلاحتوں کا مظاہرہ کریں۔اپنے ماتحت وزراء سے کام لیں۔اِس بات پر ذاتی طور پر نظر رکھیں کہ کیا احکامات پر عمل درآمد ہو رہا ہے؟ ہماری تمام سیاست دانوں سے ایک درخواست ہے کہ اگر انہوں نے دوبارہ عوام کا سامنا کرنا ہے تو وہ اپنے دورِ اقتدار میں بھی عوام کا خیال رکھیں۔ کسی کی بھی حمایت سے قطع نظر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کی مثال اس سلسلے میں بہترین ہے۔
ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ کرے کہ ہمارے عوامی نمائندے ۔۔۔جب اقتدار حاصل کر لیں تو اپنی نمائندگی کو نہ بھولیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 24 فروری، 2018،بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہوئی
Comments