مُردہ جانوروں کی چربی سے تیار ہونے والا تیل




مُردہ جانوروں کی چربی سے تیار ہونے والا تیل

تحریر شاہد لطیف

خبر ہے کہ مُردہ جانوروں کی چربی سے تیار ہونے والا تیل چھوٹے عوامی ہوٹلوں میں فروخت ہو رہا ہے۔خبر کے مطابق بھینس کالونی میں بڑی بڑی بھٹیوں میں چربی پگھلا کر تیل نکالا جا رہا ہے جس سے شہریوں کی ز ندگی اور صحت متاثر ہو رہی ہے ۔اِس مکروہ کاروبار میں ملوث افراد مردہ جانور علاقے میں لانے اور چربی نکالنے کا دھندہ کرتے ہیں۔ متعلقہ اداروں نے اپنی آنکھیں، کان اور ناک بند کر رکھے ہیں۔

کراچی کی تین کروڑ آبادی کی زندگی اور صحت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ امراضِ قلب کے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی ا ضافے کایہ بھی ایک سبب ہو سکتا ہے۔متعلقہ محکموں کے ذمہ دار افسران کی آنکھیں مستقل بند ہیں۔ 

تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے بھینس کالونی میں انسانی صحت سے کھیلنے کا دھندہ عروج پر ہے۔یہ بھوسہ منڈی کے عقب میں واقع آبادی میں قائم ہے ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ کچھ طاقت ور اور با اثر گروپوں نے کم وقت میں کروڑ پتی بننے کے ارمان کو پورا کرنے کے لئے ڈنکے کی چوٹ شہریوں کی زندگی سے کھیلواڑ شروع کر دیا ہے۔ وہ بھینس کالونی میں مردہ جانور لاتے ہیں پھرانہیں چیر پھاڑ کر ان کی چربی کو نکالا جاتا ہے اور پھر اِس چربی کو وہاں قائم کی جانے والی بڑی بڑی بھٹیوں میں پگھلایا جاتا ہے جس سے نام نہاد ’’ گھی‘‘ اور ’’ تیل ‘‘ نکالا جا رہا ہے۔اور یہ گھی و تیل مارکیٹ سے کہیں کم قیمت پر عوامی ہوٹلوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔یہ غلیظ دھندہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔اِس سلسلہ میں علاقہ بھوسہ منڈی کے مکینوں نے بتایا کہ کچھ با اثر اور طاقت ور لوگوں نے رہا یشی علاقے میں بڑی بڑی بھٹیاں قائم کر لی ہیں ۔جب یہ لوگ چربی پگھلانے کا کام شروع کرتے ہیں تو دور دور تک اتنی غلیظ بو آتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔۔۔ناک پر رومال رکھنے سے بھی گزاراہ نہیں ہوتا۔لیکن یہ با اثر مافیا اتنا طاقتور ہے کہ تھانے سمیت تمام متعلقہ ادارے بار ہا زبانی اور تحریراََ کہنے سننے کے بعد بھی چپ سادھے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔پورا علاقہ اذیت کے رات دن گزار رہا ہے۔ 

اِس خبر پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے ایک دو باتیں کہنا ضروری ہیں:دودھ میں مضرِ صحت کیمیکل کی ملاوٹ اگر چوری چھپے کی جائے تو قریب کے پڑوسی بھی لا علم رہتے ہیں۔مردہ جانور کے گوشت پر جعلی مہریں لگانے کا کام جہاں کیا جاتا ہے، وہاں برابر والے کو پتا تک نہیں چلتا۔گدھے کا گوشت بیچنے والے کی دوکان پر بھی کسی قسم کی نا زیبا بو نہیں آ تی۔الغرض زیادہ تر ’’ دو نمبر‘‘ کے کاموں کا عام طور پر دوسروں یا پڑوسیوں کو علم نہیں ہو تا ۔لیکن یہاں، ڈنکے کی چوٹ کھلے عام مردہ جانور لائے جا رہے ہیں ۔ پھر اِن کی چربی کے پگھلنے کی غلیظ بو پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ ’’ لوگو دال میں کالا نہیں بلکہ یہاں تو پوری دال ہی کالی ہے‘‘۔حیرت اورشرم کا مقام ہے کہ متعلقہ تھانے کو شکایتیں جائیں کہ صاحب آئیے، یہاں غیر قانونی، کام ہو رہا ہے۔شہریوں کی زندگی سے کھیلا جا رہا ہے۔لیکن ۔۔۔کوئی شنوائی نہیں۔

تھانے کو تو آپ چھوڑ دیں۔ماحولیات کا محکمہ ہے، صوبائی اور وفاقی محکمہ صحت ہے، صنعت و تجارت ہے، بلدیات وغیرہ ۔۔۔ افسوس کا مقام یہ ہے اس کھلے عام غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام پر کہیں سے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ذرائع نے بتایا کہ جب علاقے کے متاثرین اپنی شکایات لے کر مقامی بلدیہ کے ذمہ داروں کے پاس پہنچے تو دادرسی کا یقین دلایا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلدیہ والے داد رسی کیسے کر سکیں گے؟ سپریم کورٹ کے احکامات کے با وجود ابھی تک کے۔ایم۔سی۔ کے حکام لانوں اور پارکوں پر طاقت ور مافیا کے قائم شدہ غیر قانونی شادی گھر تو ختم نہیں کرا سکے لہٰذا اِن سے کوئی توقع رکھنا بے وقوفی ہوگی۔ 

کاش کہ متعلقہ محکموں کے افسرانِ بالا کم از کم اِس کو تو بخش دیتے ۔ یہ تو انسانی زندگی اور صحت کا معاملہ ہے ۔

ہم جب کہتے ہیں کہ فلاں کام ’’ غیر قانونی ‘‘ کیا جا رہا ہے تو گویا ایک عام آدمی بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ کہیں قانون موجود ضرور ہے جِس کو کوئی طاقت ور گروپ جوتے کی نوک پر رکھے ہوئے ہے۔ ایک محاورہ ہے:’’ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ‘‘ ۔یہ کبھی محض ایک محاور ہ ہوا کرتا تھا اب یہ ایک سوچ کا نام ہے جو بد قسمتی سے ’’ قومی سوچ‘‘ بن چکی ہے۔ خاکسار کے مطابق یہ سوچ ایک ایسا بوتل کا جِن ہے جِسے رشوت خور افسران نے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے پالا ہے ۔اب یہ جِن بوتل سے نکل کر بے قابو اور خود مختار ہو چکا ہے۔

رِشو ت نام ہے کسی کام کوغیر قانونی طریقے سے مجاز افسران سے منظور کرو انا ۔۔۔یہ کام پہلے ’’ شرمندگی‘‘ کے ساتھ کیا جاتا تھا۔لیکن اب۔۔۔ اسے بھی نظریہ ضرورت بنا دیا گیا ہے۔ راتوں رات دولت مند بننے کا آسان نسخہ۔۔۔ معاشرے میں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ صاحب! یہ راتوں رات دولت کہاں سے آ گئی؟ الٹا سماج میں ایسے لوگوں کو بہت اعلیٰ مقام حاصل ہو جاتا ہے۔ 

اس رشوت کی لعنت سے معاشرے کا بیڑا غرق ہونے کو ہے۔اب سماج میں کسی شخص کے اچھے ہونے کا پیمانہ نیک چال چلن نہیں بلکہ روپیہ پیسہ ہے۔یہ ایک بہت ہی بڑا قومی المیہ ہے۔رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں اب پند ونصائح ، اخلاقیات کے دروس، قرآن و حدیث کے ڈراووں سے ماورا ہو چکے ۔ اِن کو ذرا بھی یقین نہیں کہ قبر میں کوئی پوچھ گچھ ہو گی۔۔۔جب خوفِ خدا ہی نہیں رہے تو پھر کیسا قاعدہ کہاں کا قانون۔۔۔

تو پھرکیا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں؟۔۔۔خاکسار اِن کالموں میں متعدد دفعہ لکھ چکا ہے کہ جب قوانین موجود ہوں لیکن ان کا نفاذ کمزور اور غریب پر ہی ہو اشرافیہ تمام قاعدے قوانین سے بلند ہوں تو پھر اِس بگاڑ کے سدھار کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے۔۔۔وہ ہے حجاج بن یوسف ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 17 فروری، 2018، بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر کالم " اُلٹ پھیر "" میں شائع ہوئی۔





































 

Comments

Popular posts from this blog