پی آئی اے۔۔۔اچھا وقت ضرور آئے گاپی آئی اے۔۔۔اچھا وقت ضرور آئے گا
پی آئی اے۔۔۔اچھا وقت ضرور آئے گا
تحریر شاہد لطیف
18دسمبر بروز پیر کراچی سے اسلام آباد پی آئی اے کی 4 بجے والی پرواز سے آنے کا اتفاق ہو ا ۔ طیارہ کراچی دیر میں پہنچا تھا لہٰذا پرواز تقریباََ آدھ گھنٹہ تاخیر سے گئی۔17نمبر گیٹ سے جہاز میں داخل ہونے کا کہا گیا جہاں ایک ویت نام ایر کا طیارہ مسافروں کے لئے منتظر تھا، کئی مسافر پی آئی اے کے عملہ سے ایک ہی سوال کر رہے تھے کہ کہ کیا مطلوبہ فلائٹ یہی ہے؟ بتلایا گیا کہ یہی ہماری پرواز ہے جو کرایہ یعنی لیز پرحاصل کردہ ویتنامی طیارہ میں ہو گی۔
ہوائی جہاز میں دو طرح کا عملہ ہوا کرتا ہے۔کاک پِٹ کا عملہ اور کیبن کرو ۔اِس طیارہ کا کپتان وتنامی تھا لہٰذا امکان یہی ہے کہ کاک پِٹ عملہ بھی ویتنامی ہو گا جیسے ماضی میں ایرو ایشیا کے روس سے لیز شدہ جہازوں کا معاملہ تھا۔کیبن کرو ایک خاتون سینئر پرسر ، ایک خاتون اور 2 حضرات پر مشتمل پاکستانیوں کے علاوہ ایک ویتنامی پر مبنی تھا۔ مجموعی طور پر طیارہ بہتر تھا، کپتان نے پیشہ ورانہ مہارت سے ٹیک آف اور لینڈنگ بھی کی۔ٹرکش ایر لائن ، ویت نام ایر یا ایر چائنا سے طیارے کرایہ یا لیز پر لینا بلا شبہ مستحسن قدم نہیں لیکن ظاہر ہے یہ انتہائی قدم ضرورت کے تحت ہی کیا گیا ہو گا۔ پی آئی اے کے قومی بیڑے میں جو جہاز تھے وہ کیا ہوئے ۔۔۔یہ آج کا موضوع نہیں۔۔۔آج کا موضوع پی آئی کا عملہ اور ملازمین ہیں۔
ہماری اطلاعات کے مطابق اُس روزتک، یعنی 18دسمبر تک عملہ کو نومبر کی تنخواہیں وصول نہیں ہوئی تھیں۔جب طیارہ نے ٹیک آف کر لیا اور اسنیکس ، کولڈ ڈرنکس اور چائے کافی کے دور ہو گئے تو خاکسار جہاز کے پچھلے حصّہ میں آ گیا جہاں پہلے ہی سینئر پرسر کھڑی تھیں۔میں نے اِس جہاز کے بارے میں سرسری سوال جواب کیا اور پھر براہِ راست سوال کیا کہ ہماری اطلاع کے مطابق آپ لوگوں کو نومبر کی تنخواہیں ابھی تک نہیں ملیں؟اِس پر وہ خاتون بولیں کہ درست ہے۔ہم بھی انسان ہیں ہمارے بھی اخراجات ہیں، ہمیں بھی کے الیکٹرک اور سوئی گیس کے بل، دودھ والے کے پیسے بچوں کی فیسیں۔۔۔ اور۔۔۔ ایک لمبی فہرست گِنوا دی۔لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ تو پاکستان انٹرنیشنل ایر لائن میں ہوتی ہیں کیا آپ کو بھی تنخواہ رُک رُک کر مِلتی ہے؟اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ آج دسمبر کی 18ہو گئی ہے، تنخواہ کب مِلے گی؟ ۔۔۔کچھ علم نہیں۔۔۔ اُنہوں نے کہا کہ تنخواہ کا وقت پر نہ ملنا پہلے بھی ہو چکا ہے ۔۔۔
اِس موقع پر ایک نوجوان فلائٹ اسٹوارڈ بھی شریکِ گفتگو ہو گئے۔بات چیت سے علم ہوا کہ یہ ایک ہی نہیں بلکہ 4عدد ویتنامی طیارے لیز پر لیے گئے ہیں۔ اِن دو افراد نے کیبن کروکی نمائندگی کرتے ہوئے جو کہا وہ نہایت خوبصورت اور اندھیرے میں روشنی دکھانے والی بات ہے۔اُس نوجوان نے کہا : ’’ مجھے پی آئی اے میں شامل ہوئے کوئی بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا ۔میں جب پی آئی اے میں آیا تواپنے سے بیشتر کام کرنے والوں کی زبانی سنا کہ پہلے حالات بہت بہتر تھے۔کہاں کہاں پی آئی اے کی پروازیں نہیں جاتی تھیں۔ کاک پٹ اور کیبن کرو کے ساتھ ساتھ قومی جہاز ران کمپنی کے تمام کارکنان اچھی تنخواہ اور بہتر سہولیات پاتے تھے۔پھر۔۔۔پھر پی آئی اے سیاست اور سیاستدانوں کی بھینٹ چڑھ
گئی ۔میں نے بھی آنے کے بعد اِس کے سرد و گرم دیکھے۔۔۔لیکن میں بالکل بھی مایوس نہیں۔۔۔بلکہ یقین ہے کہ انشاء اللہ جلد قومی ادارے پی آئی اے کے حالات بہتر سے بہتر ہو جائیں گے‘‘۔
خاکسار نے اِس کے یقین کو دیکھتے ہوئے پوچھا : ’’ وہ کیسے؟‘‘۔اِس پر وہ کہنے لگا کہ ادارے کے سربراہ سے ادارہ چلتا ہے۔نورخان کے زمانے میں پاکستان انٹر نیشنل ایرلائن کی ترقی ہونا شروع ہوئی۔بعد میں اُس وقت تک ترقی کا سفر جاری رہا جب تک ادارے کا سربراہ ادارے اور ملازمین سے مُخلص رہے۔جہاں سیاستدانوں نے اپنے مفاد کی خاطر ادارے میں ’’ غیر مُخلص ‘ ‘ افراد سربراہ کے طور پر نامزد کیے وہیں پی آئی اے میں بگاڑ شروع ہوا‘‘۔
یہ بات 100فی صد درست ہے۔ملائیشین ایر لائن اور کئی ایک معروف ہوائی کمپنیاں جو آج صفِ اوّل کی جہاز راں کمپنیاں مانی جاتی ہیں وہ پی آئی اے کی مرہونِ منت ہیں۔ایک وہ بھی زمانہ آیا کہ ہماری یہ قومی ایر لائن دنیا کہ منتخب کردہ بہترین ایر لائنوں میں شامل ہو ئی۔یہ وہ زمانہ تھا جب اس کے سربراہ دِل و جان سے اِس سے وفا دار تھے۔جب سیاسی پارٹی کے ’’ وفا دار‘‘ یہاں کے سربراہ لگوائے گئے تو تنیجہ میں بہت جلد آوے کا آوا ہی بگڑ گیا۔لوٹ کھسوٹ، سفارشی بھرتیاں، غیر ممالک میں نا اہل لوگوں کی تقرری۔۔۔کِس کِس بات کا ذکر کیا جائے۔
اگر پاکستانی قوم اِس قومی ادارے، پی آئی اے کی پرانی آن بان شان چاہتی ہے تو کچھ کام عوام کے بھی کرنے کے ہیں وہ ہیں پی آئی اے جیسے بگاڑ ، جو حکومت کے سامنے تواتر سے لاتے رہنا۔ آج کل ہمارے ہاں تو تمام بگاڑ سُپریم کورٹ کے لئے رکھ دیے جاتے ہیں کہ وہی اِن کو سنوارے۔
پی آئی اے کے معاملات نا قابلِ حل بھی نہیں۔ اس ادارے کے معاملات پاکستان ریلویز کے ایسے تو نہیں تھے؟ اب دیکھئے کہ چند سالوں میں پاکستان ریلویز نے اپنے معاملات میں خاطر خواہ بہتری کر لی ہے۔سعد رفیق، گو کہ ریلوے کے سربراہ نہیں لیکن ریلوے کے وزیر تو ہیں؟ کہاں تو ملتان میں تیل کے انجن ڈیزل ختم ہو جانے کی وجہ سے کھڑے ہو جاتے تھے۔گھنٹوں کے حساب سے ٹرینوں کا منزل پر پہنچنا ایک عام بات ہو کر رہ گئی تھی۔مال گاڑیاں قصّہء پارینہ ہو چکی تھیں اور کہاں اب قدرے بہتری کے آثار ملتے نظر آتے ہیں۔یہاں کوئی الہ دین کا چراغ یا جادووئی چھڑی تو نہیں چلائی گئی محض معاملات سدھارنے کی مخلصانہ کوشش کی گئی۔
اس طرح سے کسی نے بھی پی آئی اے کے بگڑے معاملات سُدھارنے کی کوئی مُخلصانہ کوشش نہیں کی؟ کوشش کی گئی ہوتی تو پاکستان ریلویز کی طرح نتائج بولتے۔بد قسمتی سے کیا کوئی چیرمین کیا کوئی منیجنگ ڈا ئیرکٹر ، کسی نے بھی وہ کام کر کے نہیں دکھایا جو کرنا چاہیے تھا۔
موجودہ وزیرِ اعظم خواہ محدود مدت ہی کے لئے ہیں، ہیں تو ملک کے وزیرِ اعظم ۔پھر ایک نجی ایر لائن کے مالک بھی۔ایر لائن کے معاملات اِن سے زیادہ بہتر اور کون جان سکتا ہو گا۔اِن پر یہ بھاری فرض اور قوم کا قرض ہے کہ وہ پی آئی اے کو گردش کے بھنور سے نکالنے کے لئے کُل وقتی ایک مخلص اور با اختیار سربراہ نامزد کریں۔جو تمام سفارشیوں اور مفاد پرستوں کی اچھی طرح سے چھانٹی کرے۔پھر جو لوگ مخلص نظر آئیں صرف وہی اِس قومی ادارے میں موجود ہوِ ں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر 23 دسمبر، 2017 بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہوئی۔
Comments