جوتیوں میں دال۔۔۔




جوتیوں میں دال۔۔۔

تحریر شاہد لطیف


شہروں میں چھوٹے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں ۔اِن سے نبٹنے کے لئے ہی تو شہری حکومتیں، بلدیہ عظمیٰ وغیرہ بنائی جاتی ہیں۔کراچی میں بھی کبھی ایسا ہوا کرتا تھا ۔۔۔ بقول شاعر    ؂
                                   اب وہ بہاریں کہاں۔۔۔

 پچھلے چند روز سے ایسا لگتا ہے کہ عملاََ یہاں جوتیوں میں دال بَٹ رہی ہے ۔ آج کئی روز ہو چکے لیکن قائدِ اعظمؒ میوزیم سیوریج لائن کی مرمت نہیں ہو سکی۔ محض چند روز اِس پانی کے کھڑے رہنے سے جناح اسپتال کے اطراف میں سڑکیں گہرے گڑھوں میں تبدیل ہو چکی ہیں ،اور تو اور ادارہ امراضِ قلب کی طرف جانے والوں کو بھی بہت مشکل کا سامنا ہے۔اُدہر صدر کے علاقے کی تاجر برادری شدید اضطراب میں ہے ۔ عام شہری متعلقہ محکموں کی غفلت اور نا اہل افراد کے زمہ دار عہدوں پر فائز ہونے کی قیمت ادا کر رہا ہے۔شہر کی تقریباََ تمام اہم سڑکوں پر فٹوں کے حساب سے پانی کھڑا ہے حتیٰ کہ ایمبولینسوں کا وہاں سے آنا جانا بھی بہت ہی دشوار ہو گیا ہے۔

شاہراہِ فیصل پر قائدِ اعظمؒ میوزیم کے سامنے دھنسنے والی سیوریج لائن کی فوری مرمت کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور آج پانچویں روز بھی یہ کام مکمل نہیں ہو سکا۔پورے علاقے میں اِس پانی نے تباہی مچا کر رکھ دی ہے۔اِس سیلابی صورتِ حال سے عوام اور علاقے کے تاجر سخت اشتعال میں ہیں ۔صدر میں اِس ’ سیلاب ‘ نے پورے شہر کا ٹریفک درہم برہم کر کے رکھ دیا۔صدر کے دکاندارڈی ایم ڈی ٹیکنیکل کی مبینہ غفلت پر شدید غصہ میں ہیں جہاں کے تجارتی علاقوں میں کئی فٹ پانی کھڑا ہے۔ صدر کے تاجروں کا مطالبہ ہے کہ سفارش کی بنیاد پر بھرتی ہونے والے ڈی ایم ڈی ٹیکنیکل کو فوراََ معطل کیا جائے۔سیوریج نظام کی خرابی سے مسلسل پانی کے کھڑے رہنے کی وجہ سے صدر اور جناح اسپتال کے آس پاس کی سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہو گئی ہیں جِس پر ڈی ایم سی جنوبی نے واٹر بورڈ پر ہرجانے کے دعویٰ دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی ڈی ایم ڈی ٹیکنیکل نے علاقے کا دورہ کرنے کی زحمت نہیں کی بلکہ واٹر بورڈ کے اعلامیے کے مطابق ایم ڈی واٹر بورڈ سید ہاشم رضا زیدی نے جمعرات کی دوپہر کو متاثرہ لائن کی تبدیلی کے کام کا معائنہ کیا۔واضح ہو کہ قائدِ اعظمؒ میوزیم کے سامنے لائن دھنسنے کی وجہ سے صدر کے مختلف علاقوں میں اوور فلو کی شکایات سے لائن کی تبدیلی کا کام متاثر ہو رہا تھا۔اِس پر قابو پانے کے لئے واٹر بورڈ کے انجینئروں اور عملے نے بھاری پمپ لگا کر سیوریج کے پانی کے بہاؤ کو متبادل لائن میں منتقل کر دیا ہے۔اُمید تو ہے کہ دھنسنے والی لائن کی مرمت جلد مکمل ہو سکے گی۔ ٹائم میڈیکو، اسٹیڈیم روڈ پر اوورفلو کو فوری طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ اِس جگہ سیوریج لائین اور مین ہولوں میں کچرا (شاپرز) بھر جانے کے باعث گڑ کا پانی سڑکوں پر آ گیا تھا جسے صاف کر کے رواں کر دیا گیا۔

جائیں تو جائیں کہاں۔۔۔ کے مصداق کوئی شہری اِس علاقوں سے نکل کر اپنے گھر کی جانب چلا بھی گیا تو۔۔۔ٹریفک پولیس کی بد انتظامی اور متعلقہ اداروں کی غفلت کی وجہ سے تمام اہم سڑکوں پر ٹریفک نظام درہم برہم نظر آ یا۔ایم اے جناح روڈ سے شاہراہِ فیصل تک ہزاروں گاڑیاں بد ترین ٹریفک جام میں پھنسی رہیں اِن میں بڑے اسپتالوں کی جانب جانے والی ایمبولنسیں بھی شامِل تھیں۔ بے ہنگم ٹریفک میں پھنسے ہوئے شہریوں کا کہنا تھا کہ ترقیاتی کاموں کے نام پر تمام سڑکیں کھُدی ہوئی ہیں ، ٹریفک پہلے ہی بد نظم تھا اب سونے پہ سہاگہ یہ پانی۔۔۔ جمعرات کی صبح سے ہی ٹریفک جام ہونا شروع ہو گیا۔شام سے پہلے ہی شہر کی تمام مصروف سڑکوں پر ٹریفک کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا۔ایم اے جناح روڈ، بزنس ریکارڈر روڈ، ایس ایم توفیق روڈ، مارٹن روڈ، شا رع پاکستان، جمشید کوارٹر، نشتر روڈ،
سولجر بازار، نیو ایم اے جناح روڈ، شارع قائدین، یونیورسٹی روڈ، کوریڈور 3، زیب النساء اسٹریٹ، پریڈی اسٹریٹ، عبداللہ ہارون روڈ، لکی اسٹار، صدر، بوہری بازار، ناظم آباد، پٹیل پاڑہ، لیاقت آباد، گلشنِ اقبال، لائنز ایریا، جناح اسپتال سمیت دیگر سڑکوں پر عملاََ جوتیوں میں دال بٹتی ہوئی نظر آئی۔کئی ایک ایمبولینسیں بھی ہارن اور ہوٹر بجا بجا کر راستہ مانگتی دکھائی دیں۔اِس کی وجہ سے کتنے لوگ زندگی کی بازی ہار گئے؟ اِس کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں۔۔۔

ٹریفک جام میں پھنسے ہوئے شہریوں سے جب اُن کے تاثرات پوچھے گئے تو انہوں نے کہا ’’ پوری دنیا میں ترقیاتی کام کسی منصوبہ بندی کے تحت کیے جاتے ہیں جب کہ کراچی میں اب کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔۔۔گرین لائن بس پراجیکٹ کی وجہ سے سڑکیں پہلے ہی تباہ کر دی گئی تھیں، بڑے بڑے گڑھے پہلے ہی موجود تھے اب اِن میں یہ سیوریج کا پانی جمع ہو گیا ۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ تجاوزات جائز قرار دے دی گئی ہیں، بعض سڑکیں تجاوزات سے بہت تنگ ہو کر رہ گئی ہیں۔۔۔چائنا کٹنگ اور قبضہ مافیا کی طرح اب ’ پتھارا مافیا ‘ بھی جا بجا نظر آتی ہے۔گویا کہہ رہی ہو کہ ’’ کر لو جو کرنا ہے ‘‘۔۔۔

ایم اے جناح روڈ پر گاڑیوں کا روزانہ کی بنیاد پر لگنے والا جمعہ بازار دوبارہ ڈنکے کی چوٹ وزیرِ اعلیٰ کے احکامات کو ہوا میں اُڑا رہا ہے۔اِس کی وجہ سے اصل سڑک بہت کم رہ گئی ہے جو ٹریفک کی روانی میں ایک بڑی رُکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔۔۔ٹریفک پولیس کی عقلمندی ملاحظہ فرمائیں کہ شارع فیصل پر سڑک بیٹھ گئی تو ٹریفک پولیس نے اطراف کی سڑکیں متبادل راستے دیے بغیر ہی بند کر دیں۔اِس ’ قابلِ تعریف‘ کام کی وجہ سے مزید ٹریفک جام ہو گئی۔

 یہ حقائق سب ہی کو نظر آ رہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ آیا کبھی یہ مسائل حل ہو بھی سکیں گے؟اِس کا جواب ۔۔۔ نہیں بھی ہے۔۔۔ اور ۔۔۔ ہاں بھی ہے۔۔۔

نہیں اِس لئے کہ جو حکومت ( مئیر کراچی اور حکومتِ سندھ دونوں) سُپریم کورٹ کے احکامات ہوا میں اُڑا دے اُس سے قاعدے قانون کی امید رکھنا پرلے درجے کی بے وقوفی ہو گی۔چیف جسٹس آف پاکستان نے تمام تجاوزات، جِن میں شادی گھر،مکانات وغیرہ گرانے کے واضح احکامات دیے تھے ۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے محض ایک روز خانہ پری میں یہ کام کیا اُس کے بعد۔۔۔ اُس کے بعد یہ کام ٹھپ۔ سب ہی کو معلوم ہے کہ کے ایم سی کے پارکوں میں قائم مارکی نما شادی گھروں کی پشت پر کون ہے۔اگر یہ توڑے جاتے ہیں تو کیا مئیر کراچی کی اپنی سیٹ قائم رہ سکے گی؟ جسطرح سے ’ کوئی ‘ اِن شادی گھروں کی پُشت پر ہے بالکل اُسی طرح اہم سڑکوں پر گاڑیوں کے جمعہ بازاروں کی پشت بھی ’ طاقتور ‘ ہے۔۔۔سیدھی سی بات ہے جب قانون کمزور کے لئے اور، اور طاقتور کے لئے اور ہے تو پھر کراچی میں جو ہو رہا ہے وہ ایسے ہی جاری و ساری رہے گا۔

ہاں۔۔۔ہاں اِس بنیاد پر کہ اگر اب کی مرتبہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے قانون صحیح معنوں میں نافذ کروا دیا اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزائیں دلوا دیں تو نہ صرف اِس قسم کے مسائل حل ہونا شروع ہو جا ئیں گے بلکہ آئندہ کے لئے ایک عبرت انگیز مِثال بھی بن جائے گی۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر 30 دسمبر 2017 بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہوئی۔












 

Comments

Popular posts from this blog