حیرت کدہ




خوف یا حقیقت

زیارت، بلوچستان میں پیش آنے والا عجیب ماجرا

تحریر شاہد لطیف

’’ چلو تیاری کر لو! تمہیں ہماری ٹیم کے ہمراہ جانے کی اجازت مِل گئی ہے ‘‘۔نجم نے خوشی سے کہا۔
’’میری کیا تیاری ہونا ہے ۔چند کپڑے اور چھوٹا موٹا سامان......‘‘ ۔میری بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ نجم کہنے لگا۔ ’’ ارے وہاں بہت برف پڑتی ہے، کچھ اِس کا بھی انتظام کیا ہے؟‘‘۔
’’ ہاں ! انکل چشتی سے اوور کوٹ ، گرم کوٹ اور دستانے لے لئے ہیں۔کہہ رہے تھے کہ چار مہینے زیارت میں شدت کی برف پڑسکتی ہے ‘‘۔ میں نے جواب دیا۔

اس قصہ کا پس منظر یہ تھا کہ میرا دوست نجم ، ایک پروڈکشن ہاؤس میں کام کرتا تھا جِسے اقوامِ متحدہ کے کسی ذیلی ادارے کے تحت زیارت، بلوچستان میں واقع پاکستان کے سب سے بڑے صنوبر کے جنگل پر دستاویزی فلم بنانے کا ٹھیکہ مِلا تھا۔ہم پاکستانیوں کی بد قسمتی، کہ اکثریت کو یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا دنیا میں دوسرا بڑا صنوبر کا جنگل ہے۔یہاں کئی قسم کے نباتات اور جنگلی حیات پائی جاتی ہیں جس کی بِنا پر اِس جنگل کو محفوظ علاقہ قرار دیا جا چکا ہے۔ اِس جنگل میں خلافت ہل کے مقام پر مشہورِ زمانہ مارخور، کالا ریچھ اور بھیڑیے۔اور دور دراز سے ہجرت کرکے آنے والے پرندے بھی پائے جاتے ہیں۔ غیر قانونی شکار، جنگلات کو کاٹنا اور لوگوں کے مویشیوں کا اِس جنگل میں آزادانہ چرنا ، اِن سب نے یہاں کی جنگلی حیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

نجم کے پروڈکشن ہاؤس کی ٹیم اور راقِم جنوری کے پہلے ہفتے میں پی۔آئی۔اے کی پرواز سے کوئٹہ پہنچے ، جہاں سے سیدھے ایک قیام گاہ میں گئے، فالتو سامان رکھا۔ چائے پی کر تازہ دم ہوئے اور عکس اور صدا بندی کا ضروری سامان لے کر زیارت کی جانب روانہ ہوگئے۔ زیارت کا فاصلہ کوئٹہ سے تقریباََ ۱۳۰ کلو میٹر کا ہے۔گو کہ اصل قصے کا اِس سب سے کوئی تعلق نہیں لیکن راقم کا فرض ہے کہ چند جملوں میں زیارت کے ساتھ ساتھ اُس سے متعلق عالمی شہرت کے حامِل اِن صنوبر کے جنگلات کا بھی ذکر ہو جائے۔ بہرحال ہم لوگ زیارت پہنچے۔ برف باری جاری تھی لہٰذا یہ سوچا گیا کہ فی ا لحال یہاں ٹہرا جائے۔ ہمارا عارضی ٹھکانہ ایک گئے زمانے کے کسی سرکاری افسر کی رہائش گاہ تھی جِس کو سیاحت کے سیزن میں گیسٹ ہاؤس بھی بنا لیا جاتا تھا۔ طے یہ ہوا کہ رات یہاں قیام کر کے صبح آگے جنگلوں میں کام شروع کیا جائے۔ برف کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔رات کا کھانا شام کو ہی کھا لیا گیا اور جہاں جس کا سینگ سمایا وہ وہاں سو گیا۔میرے حصہ میں پرانے وکٹورین طرز کی ایک آرام کُرسی آئی۔صبح کو برف باری کے کم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔نجم اور اُس کی ٹیم مقامی گا ئیڈوں کیساتھ صنوبر کے جنگل میں جانے کے لئے تیار ہو گئے ۔ اُن کو علم تھا کہ یہاں برفباری ہو رہی ہے لیکن برفباری سے ان کے کام نے متاثر نہیں ہونا تھا لہٰذا طے پایا کہ چار پانچ دنوں کے لئے جنگل ہی میں کیمپ لگائیں گے۔چونکہ ایسی برفباری کا مجھے کوئی تجربہ نہیں تھا نہ ہی مجھے شدت کی برفباری میں جنگل کی راتیں پسند تھیں ، اِس لئے میں نے نجم سے کہا کہ میں یہیں زیارت میں رہوں گا اور سیر و تفریح کرتا رہوں گا۔

یہ لوگ اپنے کیمروں وغیرہ کے ساتھ صنوبر کے جنگل اور خلیفہ ہِل کی جانب چل پڑے۔میں چائے پی کر تر و تازہ ہوا اور پھر یونٹ کی گاڑی میں بیٹھ کر قائدِ اعظم ؒ ر یزیڈینسی گیا۔غضب کی سردی تھی کہ دانت سے دانت بجنے لگے۔ اِس قدر شدیدٹھنڈ تھی کہ سر میں سُویاں چبھتی محسوس ہو رہی تھیں ۔اللہ اللہ کر کے میں واپس اپنے ٹھکانے پر آیااور سکون کا سانس لیالیکن مجھے کیا خبر تھی کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔ 

میں اپنے کمرے میں داخل ہوا جہاں دو عدد بیڈ موجود تھے۔ جیسے ہی میں داخل ہوا ، مجھے ایک ہلکی سی حرکت محسوس ہوئی۔میں نے سمجھا کہ کوئی ملازم ہے لیکن جیسے ہی میں بیڈ کے قریب پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔میں نے ’ اُس ‘ حرکت کو اِس سے زیادہ اہمیت نہیں دی کہ وہ کوئی باہر سے آنے والی آواز ہو گی۔ اُس کمرے میں دو کھڑکیاں تھیں جِن کے درمیاں لکڑی کا ایک قدیم ،کشادہ تولیہ اور کپڑے لٹکانے کا اسٹینڈ تھا۔ایک بہت پرانے طرز کا صوفہ اور اُسی زمانے کی دو آرام کرسیاں بھی تھیں ۔اِس کے علاوہ ایک لکھنے کی میز اور ایک گول میز بھی موجود تھی۔ ایک بیڈ پر ملازم نے میرا بیگ اور تولیہ رکھ دیا تھا۔ اُس کے ساتھ والی کھڑکی سے غروب ہوتے سورج کی کمزور روشنی اور اُس کا عکس نیچے زمین پر جمی برف پر عجب سماں پیدا کر رہا تھا۔نہ جانے کتنا وقت گزر گیا مجھ پر ایک نا معلوم سی کیفیت طاری تھی ۔ تب کسی نے کمرے کے دروازے سے اندر آ کر آواز دی۔’’ صاحب آپ کی چائے تیار ہے‘‘۔چائے پیتے ہوئے میں نے خوب غور سے کمرے کا جائزہ لیا۔جب دونوں بستروں پر نظر پڑی تو میں ایک دم یوں اُچھلا
جیسے پیروں میں اسپرنگ لگ گئے ہوں۔فوراََ سے پیشتر اپنا تولیہ اور سفری بیگ جِس بیڈ پر ملازم نے رکھا تھا اُس سے اُٹھا کر دوسرے بیڈ پر رکھ دیا۔جب کچھ اوسان بحال ہوئے تب میں نے اپنے آپ سےسوال کیا کہ ایسا میں نے کیوں کیا؟ .....لیکن جواب نہیں مِل سکا۔جب فیصلہ کر لیا کہ اب میں دوسرے بیڈ پر سوؤں گا تو دِل مطمئن ہو گیا۔اب میں نے صوفہ کی پشت سے سر ٹِکا کر آنکھیں بند کیں کہ آرام کر لوں۔اِسی حالت میں کچھ نیم غنودگی کے عالم میں چلا گیا ۔ 

اِسی عالَم میں ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی ملازم کمرے میں آیا اور مجھے نیم دراز دیکھ کر کمرے کی صفائی کرنے لگا۔کمرے میں روشنی خاصی ہلکی تھی جس کی وجہ سے اُس کا چہرہ صاف نظر نہیں آ تا تھا ۔بس میں اتنا جانتا تھا کہ یہ وہی ہے کیوں کہ اُس کے علاوہ بھلا اور ہو بھی کون سکتا تھا۔ اچانک مجھے اُس کے ہاتھ میں حجاموں کا اُستر ۱ نظر آیا۔وہ اُس اُسترے کو تیز کرنے والا چمڑ ے پر رگڑ رہا تھا۔اُسترے کے پھل سے روشنی منعکس ہو کر پراسرار ماحول پیدا کرنے لگی۔پھر.... پھر اچانک... میرے خوف کی انتہا نہ رہی جب اُس نے اُسترا اپنے ہی گلے پر چلا دیا۔میں سکتے میں چلا گیا،میری چیخ بھی نہیں نکل سکی۔ اچانک دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور میرے کمرے کا دروازہ کھلا۔اُف..... دروازے میں وہی ملازم کھڑا تھا۔ سیکنڈوں میں وہ تمام خوفناک فِلمیں میری نظر میں گھوم گئیں جہاں کوئی خودکشی کرتا ہے اور مرنے والے کی چیخیں........

’’ جناب چائے حاضر ہے‘‘۔آنے والے مُلازم نے کہا۔
’’ مگر میں نے تو چائے لانے کو نہیں کہا؟‘‘ میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
اب ملازم کے حیران ہونے کی باری تھی۔’’ تو شاید.... اِنہوں نے منگوائی ہو‘‘ اُس نے کمرے کے بیڈ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ لیکن اِس کمرے میں اور تو کوئی شخص نہیں؟ میں اکیلا ہی ہوں‘‘ ۔میں نے جواب دیا۔
ملازم نے چائے کی ٹرے کو دیکھ کر کہا’’ معافی چاہتا ہوں۔ شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے.. میں آج ہی یہاں کام پر آیا ہوں ۔ یہ میرا پہلا دِن ہے‘‘۔
’’ ٹھیک ہے‘‘۔میں نے کہا۔
’’ لیکن .....ایک بات ہے‘‘۔اُس نے غور سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ وہ کیا؟‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ میں سمجھا کہ اِسی کمرے سے چائے منگوائی گئی تھی... شب بخیر‘‘۔یہ کہتا ہوا وہ ملازم چلا گیا۔میں بستر پر لیٹا ، روشنی گُل کی۔


اِس قدیم رہائش گاہ میں قدرتی گیس نہیں تھی بلکہ اُسی زمانے کے آتش دان میں لکڑ یوں سے حرارت لی جا رہی تھی۔میں اُس وقت اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھ رہا تھا کہ باہر صنوبر کے جنگل میں کسی کیمپ میں نہیں ہوں۔میرا خیال تھا کہ لیٹتے ہی فوراََ ہی نیند آ جائے گی لیکن ذہن میں دن بھر کے پیش آنے والے چھوٹے بڑے واقعات گھومنے لگے۔غنودگی اور نیند کے بین بین پھر مجھے وہی حرکت محسوس ہوئی .... بڑی واضح حرکت کی آواز جو کمرے کے دوسرے بستر سے آ رہی تھی۔میں حیران ہونے لگا کہ وہ کیا بات تھی جِس نے مجھے اُس بیڈ پر سونے سے بیزار کر دیا تھا..... کوئی بات ضرور تھی.... کیا میرے ساتھ کچھ ہونے والا ہے ؟...یہ سوچتے سوچتے میں گہری نیند سو گیا۔

اگلا روز موسم کے لحاظ سے مزید ابتر ہو گیا۔گھر سے باہر گھومنے پھرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔اب سارا دن اور ساری رات اسی مکان اور کمرے میں گزارنا مجبوری تھا۔ساتھ والے بستر کا خوف پہلے مبہم تھا اب وہ واضح ہو رہا تھا۔لیکن میں خوفزدہ کیوں تھا؟اِس کی وجہ معلوم نہیں تھی۔اپنے اِس خوف کا اظہار میں کسی سے کر بھی نہیں سکتا تھا۔کبھی کبھی تو میں خود بھی اِس خوف کے عنصر کو شدید سردی کے اثرات قرار دینے لگتا۔اب سوال ہے کہ کیسا خوف؟اِس سلسلے میں کئی ایک تفصیلات ہیں۔ایک سے زیادہ دفعہ صبح اُٹھنے پر ساتھ والے بستر پر نظر پڑی تو بیڈ شیٹ اور تکیہ کو دیکھتے ہی محسوس ہو گیا کہ اِس پر کوئی حال ہی میں سویا تھاجِس نے اُس کو درست حالت میں لانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ..... کوئی زیادہ کامیاب نہ ہو سکا۔

سوچتے سوچتے میرے ذہن میں جھپاکا ہوا۔ میں نے بھی کمرے میں گھس آنے والے کے لئے ایک جال بچھا لیا۔اس سلسلے میں اولین چیز اپنی گھبراہٹ پر قابو پانا تھا۔میں نے نہایت احتیاط سے دوسرے بستر پر بیڈ شیٹ بچھائی اور اُس کے کنارے خوب اچھی طرح سے اندر کی جانب اُڑس دیے۔پھر تکیہ عین درمیان میں رکھ دیا اور ہاتھ کی بالشت سے تکیہ کی دونوں جانب کافاصلہ ناپ لیا۔اب کی مرتبہ میں بہتر سویا؛ گویا خوف پر قدرے قابو پا لیا۔

صبح پہلا کام یہ کیا کہ باریک بینی سے ساتھ والے بستر کا معاینہ کیا۔لگتا ہے کہ ’ آنے والے ‘ نے بیڈ شیٹ کو پہلے سے زیادہ بے ترتیب کیا ہوا تھا۔تکیہ دبا کر گول کیا ہوا تھا۔اِن تمام اشارات نے دِن کی روشنی میں مجھ پر قطعاََ کوئی منفی اثر نہیں ڈالا۔لیکن رات کو بستر پر جاتے وقت کانپ کر رہ گیا کہ اب آگے نہ جانے کیا ہو! 

اس دوران البتہ یہ ضرور ہوا کہ جب مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوتی اور میں ملازم کے لئے طلبی کی گھنٹی بجاتا تو چار میں سے تین دفعہ وہی ملازم آتا لیکن عجیب بات ہوتی کہ میری طلبی پر وہ تھوڑا سا دروازہ کھول کر وہیں سے بات سُنتا اور پھر طلب کی گئی شے کے لا تے وقت اُس کی کوشش ہوتی کہ اُ س کو دروازے کے اندر نہ آنا پڑے۔ جب کبھی اُس کو مجبوراََ کمرے کے اندرآنا ہی پڑا تو ایسے میںُ س کا چہرہ لٹھے کی طرح سے سفید ہو جایا کرتا۔دو مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ وہ شام کو میرے کمرے میں آ گیاجبکہ میں نے اُس کے لئے طلبی کی گھنٹی بجائی ہی نہیں تھی۔اِس کمرے میں اپنی گزاری گئی پہلے رات کو بھی یہ ملازم بِن طلب کیے آیا تھا۔

تین دین گزر چکے تو موسم قدرے بہتر ہوا۔رات کو چاند بھی نظر آیا۔رہا خوف.... تو اب میری کیفیت ایسی تھی جیسے کہ سامنے کسی کا مجسمہ ہو ، جس پر چادر ڈلی ہو اور یہ احساس ہو رہا ہو کہ چادر اُٹھانے پر نیچے سے کیا نکلے۔ شام کو کئی دفعہ میں نے سوچا کی کسی ذمّہ دار سے کہلوا کر اپنا بستر اِس کمرے سے نکلوا کر کہیں اور لگوا لوں لیکن پھر میں خاموش رہا۔ رات کے کھانے کے بعد بالآخرخوف سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے جوابی حملہ کی تیاری شروع کر دی۔اپنے بستر کے قریب والی روشنی گُل کر د ی جب کہ دوسرے بستر کے قریب والی روشنی کھُلی رہنے دی۔وہاں تکیہ پر نیچے کی جانب ایک متجسس داغ نظر آیا۔ایسا ہی ایک دھبہ تکیہ کی طرف کی بیڈ شیٹ پر بھی تھا۔ اس کو دیکھتے ہی نامعلوم خوف چھانے لگا۔ تھوڑی ہمت پکڑی اور میں اُس بستر کے مزید قریب ہو گیا تا کہ باریک بینی سے دیکھ سکوں۔پھر میں نے بیڈ شیٹ کوداغ والی جگہ پر چھو کر دیکھا،ہاتھ لگنے سے و ہ نَم محسوس ہوا۔یہی معاملہ تکیہ کے ساتھ بھی تھا۔ پھر مجھےخیال آیا کہ رات کے کھانے سے قبل میں نے گیلے کپڑے اُس بستر پر رکھے تھے۔عین ممکن ہو کہ یہی بات ہوئی ہو۔لیکن اُلجھن یہ تھی کہ کچھ دیر پہلے تک بیڈ شیٹ اور تکیہ پر کسی قِسم کے کوئی نشانات یا داغ دھبے نہیں تھے۔میں نے گھڑی میں وقت دیکھا جوساڑھے بارہ سے کچھ زیادہ تھا۔وقت تو ایسا لگتا تھا جیسے ٹہر گیا ہو........ گزر ہی نہیں رہا تھا ۔ تب مجھے خیال آیا کہ ہم لوگ کوئٹہ سے آتے ہوئے کچھ اخبارات و رسائل ساتھ لائے تھے جو اِس وقت کمرے میں موجود نہیں تھے۔ممکن ہے کہ کھانے کے کمرے یا پھر ردّی میں رکھ دیے گئے ہوں۔یہ سوچتے ہی میں نے ملازم کی طلبی کی گھنٹی بجائی۔حسبِ معمول وہی ملازم ، چہرے پر دہشت سجائے دروازے پر آن موجود ہوا۔

’’ جی جناب ! ‘‘۔دروازے کو تھوڑا سا کھول کر باہر کھڑے کھڑے اُس نے سوال کیا۔
’’ دیکھو ! مجھے نیند نہیں آ رہی، اسٹور میں کوئی پرانے اخبارات یا رسائل ہوں تو لے آؤ‘‘۔میں نے کہا۔
جواب میں اُس نے مجھے ایسے دیکھا جیسے میں نے الجبرا کا کوئی سوال کر دیا۔جواب دیے بغیر سر کو جنبش دیتے ہوئے چلا گیا۔ اور میں ساتھ والے بستر کی طرف متوجہ ہو گیا۔چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ و ہ ڈوری سے بندھا اخبارات کا پلندہ لئے آ گیا۔اب کی دفعہ اُسے کمرے کے اندر آنا ہی پڑا۔’’ یہ پرانے اخبارات اسٹور سے لایا ہوں ‘‘۔
’’ ٹھیک ہے!‘‘ میں نے اخبارات کا بنڈل اُس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔ اُس کے جانے کے بعد میں نے پلندے پر نظر ڈالی ۔اِس گفتگو اور اخبارات کے پلندے کی ڈوری کھولنے، پھر اِن پر سرسری نظر ڈالنے میں ساتھ والے بستر سے توجہ ہٹ گئی۔اب جو اُدھر نگاہ پڑی تو سخت حیرت ہوئی۔بستر کو دیکھ کر یوں لگا کہ ابھی کوئی وہاں سے اُٹھ کر گیا ہے۔میں نے بیڈ شیٹ کو ہاتھ لگایا ... وہ گیلی تھی۔ لیکن.... اب کی دفعہ وہ گرم اور اُنگلیوں میں چپکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اُسی لمحہ مجھے واضح محسوس ہوا کہ کمرے میں ، میں اکیلا نہیں ۔مجھے اپنی بہادری کا کوئی ایسا دعویٰ تو نہیں لیکن اللہ جانے اب اُس خوف پرتجسس غالب آ گیا۔دوبارہ اُس بستر پر نئے داغ کو ہاتھ لگایا، یوں لگا جیسے پگھلی ہوئی برف کا کیچڑ۔عجیب بات ہے کہ اِس کے بعد سے میرا خوف جاتا رہا۔ شاید اندر کے وجدان نے کام شروع کر دیا۔
میں نے پرانے اخبارات کے درمیان سے چند اخبار نکالے اور سرسری ورق گردانی کرنے لگا۔وہی گھسے پٹے تجزیے وہی ایک دوسرے کی پگڑیوں کے اُچھالنے کے بیانات۔ایسے میں میرے نظر تقریباََ سال بھر پرانے اخبار کی ایک خبر پر ٹِک گئی:
’’ شمشیر لاسی کو، جنہوں نے پچھلے ہفتہ زیارت کے ایک گیسٹ ہاؤس میں
اُسترے سے اپناگلا کاٹ کر خودکشی کر لی تھی ،اُنہیں اُن کے آبائی قبرستان
ژوب میں دفنا دیا گیا‘‘۔ 

میں ابھی اتنا ہی پڑھ سکا تھا کہ دفعتاََ کمرے کی روشنی گُل ہو گئی اور تاریکی چھا گئی؛ ساتھ ہی وہ احساس دوبارہ اُبھرا کہ کمرے میں میرے علاوہ کوئی اور بھی ہے۔اب میں جان گیا ، کہ وہ دوسرا کون ہو سکتا تھا۔ایک دم سرد ہوا کا جھونکا آیا جِس نے میرے دماغ کو تقریباََ جامِد ہی کر دیا۔اب میری آنکھیں اندھیرے کی کچھ کچھ عادی ہو گئیں اور کمرے میں رکھے ہوئے فرنیچر کی شبیہہ واضح ہونے لگی۔کھڑکیوں سے چاند تاروں کی کمزور سی کر نوں سے بھی مدد مِلنے لگی۔وہاں فرنیچر کے علاوہ بھی کچھ تھا۔دونوں کھڑکیوں کے درمیان گاؤن نما لباس پہنے کوئی وجود کھڑا تھا۔پھر وہ دو قدم چل کردوسرے بستر پر آ گیا۔ اُس کا چلنا ایسا تھا گویا تیر رہا ہو....... سرد موسم کے باوجود میری پیشانی پر پسینہ آ گیا۔گو کہ دوسرے بستر پر نسبتاََ سایا اور تاریکی زیادہ تھی مگر پھر بھی میں دیکھ سکتا تھا کہ وہاں کیا ہے۔تکیہ پر رکھا سر دھندلا نظر آ رہا تھا۔اُس کا بازو اونچا ہوتابھی واضح ہوا جوبستر کے قریب دیوار پر لگی ملازم کی طلبی کی گھٹی کی جانب جا رہا تھا۔تھوڑی ہی دیر میں کمرے کے دروازے کے قریب کسی کے قدموں کی آواز آنے لگی۔اور دروازے پر دستک ہوئی۔
’’ جناب چائے حاضر ہے ‘‘، دروازے پر کھڑے اُسی ملازم نے کہا۔’’ میں جتنی جلدی ہو سکتی تھی، بنا کر لے آیا‘‘۔وہ گھبرا کر بولا۔
میں نے بات کرنا چاہی لیکن نہ ہو سکی۔دوبارہ کوشش کی تو مجھے اپنی ہی گھُٹی گھُٹی آواز سُنائی دی: ’’ اند آ جاؤ‘‘۔
اِدھر دروازہ کھُلا اُدھر کمرہ روشنی سے منور ہو گیا۔میرے ساتھ والے بستر پر ایک کمزور سا شخص دراز تھا جِس کی شیشے کی طرح چمک دار آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔اُس کا گلا ایک کان سے دوسرے کان تک کٹا ہوا تھا اوربیڈ شیٹ ، تکیہ خون میں تر۔مگر..... مگر..... دوسرے ہی لمحہ وہ سب کچھ غائب تھا۔صرف دروازے کی اوٹ سے ملازم نیند بھری آنکھوں سے کمرے کو دیکھ رہا تھا۔حسبِ سابق، اُس کے چہرے پر خوف نمایاں تھا۔
’’ جناب نے بُلایا تھا! ‘‘۔اُس نے کہا۔
’’ نہیں میں نے نہیں بُلایاالبتہ اب میں خود کھانے کے کمرے میں جاکر بڑے صوفے پر آرام کروں گا‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
نومبر 2017 کے ماہنامہ حکایت ڈائجسٹ  میں " حیرت کدہ" کے نام سے شائع ہونے والی تحریر













 

Comments

Popular posts from this blog