آہ ۔۔۔بے چاری ’’ قومی زبان ‘‘ اُردو



آہ ۔۔۔بے چاری ’’ قومی زبان ‘‘ اُردو
تحریر شاہد لطیف

عالمی اُردو کانفرنس 21تا 25دسمبر کو آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہو گی۔بھارت سمیت دنیا بھر سے معروف دانشور، محقق، شاعراور ادیب شرکت کریں گے۔اِس سلسلہ میں خصوصی پروگرام ’’ قائد، اعظم ؒ کا پاکستان‘‘ کے نام سے منعقد کیا جائے گا۔یہ بات آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے منظر عالم ہال میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں کہی۔ انہوں نے بتایا : ’’ تسلسل کے ساتھ ایک عشرے تک منعقد ہونے والی یہ دسویں عالمی اُردو کانفرنس ہوگی۔یہ نہ صرف آرٹس کونسل انتظامیہ بلکہ کراچی کے شہریوں کے لئے بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔آج پاکستان کو آزاد ہوئے 70برس مکمل ہوئے ہیں۔۔۔کانفرنس میں اِن 70 سالوں میں ادب، ثقافت، موسیقی، شاعری، مصّوری، رقص، ڈرامہ، تعلیم و تدریس، پاکستان کی زبانیں، صحافت اور فلم اور دیگر شعبوں میں کیا کھویا کیا پایا پر گفتگو ہو گی۔۔۔ہم نے دس سال پہلے جب کانفرنس کا آغاز کیا تھا اُس وقت شہر میں حالات بہت خراب تھے۔جِس دِن ہماری پہلی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی اُس دن شہر میں 40 افراد کو دہشت گردی کے زریعے ہلاک کر دیا گیا۔ اُس وقت ہم نے کہا تھا کہ دشمن ہماری تہذیب کو غاروں میں لے جانا چاہتے ہیں ۔۔۔مگر ہم اُن کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ہم نے اپنے ثقافتی ورثہ کی حفاظت کے لئے اِن ادبی کانفرنسوں میں میوزک فیسٹیو ل اور دیگر پروگراموں کے ذریعے مزاحمت کی۔۔۔ ہمیں کامیابی نصیب ہوئی اور آج ہم دسویں کانفرنس کا پروگرام لے کر آپ کے سامنے حاضر ہیں۔شہر میں ادبی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں۔اِس کانفرنس میں دنیا بھر کے ممتاز دانشور ، ادیب و شعراء شرکت کر رہے ہیں‘‘۔

یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ پاکستان میں ہونے والی اِن یا اِن جیسی تمام کانفرنسوں میں مرکزیت ’ ’ اُردو زبان ‘‘ کو حاصل ہے جو خود پاکستان میں بُرے حال میں ہے۔ غیر ملکی شرکاء دِل میں تو سوچتے ہی ہوں گے کہ اِن کے ہاں تواُن ہی کے ممالک کی زُبان نافذ ہے تاہم پھر بھی یہ مہمانِ گرامی اُردو زبان سے جُڑے ہوئے ہیں لیکن پاکستان میں آخر اب تک اُردو قومی زبان کیوں نہ بن سکی؟۔اِس شرم ناک صورتِ حال کا ذمہ دار کوئی اور نہیں خود حکومتِ پاکستان ہے۔ 

کسی کیس کی سماعت کے دوران عدالتِ عالیہ نے حکومت سے کہا کہ وہ سرکاری خط و کتابت اُردو میں کرنے اور مقابلے کا امتحان تحریری اور زبانی، دونوں اُردو میں لینے کا انتظام کرے ۔اِس پر حکومتی وکیل نے 60 دِن کی مہلت مانگی۔اِس کے بعد کیا ہوا؟۔۔۔کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔ہے تو سخت بات لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومتِ پاکستان خود ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت ہے کیا؟ نوکر شاہی اور قومی اسمبلی کے ممبران حکومت کہلاتے ہیں۔ یہ دونوں کبھی اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں دینے دیں گے۔سوال ہے کہ کیوں؟ جواب بہت آسان ہے کہ ایسا کرنے سے اِن کی حکومتی اعلی عہدوں پر اپنی ، اپنی اولادوں اور رشتہ داروں کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے براجمان رہنے کو خطرہ درپیش ہو جائے گا۔وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ اِس طرح عوام بھی بڑی تعداد میں اعلی افسران بن سکیں گے اور مٹھی بھر نام نہاد شرفاء جو انگریزوں کے بنائے ہوئے جاگیرداروں کے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر آتے ہیں ، پھر تحریری اور زبانی مقابلے کے امتحانات انگریزی میں لیئے جانے کی وجہ سے پاکستان کے حاکم بن جاتے ہیں اُن کی ٹھیکیداری ختم ہو جائے گی۔ موجودہ افسر شاہی اور اسمبلی ممبران ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔

یہ بالکل آسان سا سچ ہے۔1947 میں آزادی حاصل کرنے کے فوراََ بعد بھارت میں جاگیرداری سسٹم ختم کر دیا گیا اور پاکستان میں ؟۔۔۔پاکستان میں یہ پورے کروفر سے اب تک جاری ہے۔کیایہ ممکن ہو سکتا ہے کہ جاگیردار اسمبلی ممبران ، اسمبلی میں جاگیرداری سسٹم کے خلاف قانون سازی کریں ؟۔۔۔قطعاََ نہیں۔۔۔یہ ناممکنات میں سے ہے۔لہٰذا موجودہ نام نہاد جمہوریت میں جب اسمبلیوں میں جاگیردار ہی اکثریت میں رہے ہیں تواُردو سرکاری زبان کے طور کبھی اسمبلی کے زریعہ قانون بن کر نافذ نہیں ہو گی۔جو ایسا سوچتا ہے وہ افسانوی دنیا میں رہتا ہے۔نہ تو کبھی اُردو کو سرکاری طور پر پاکستان کی قومی زبان کے طور پر نافذ کیا جائے گا نہ ہی کبھی عوام ہی مقابلے کے امتحان اُردو میں دے کر حکومت کے اعلیٰ افسران بن سکیں گے۔
بقول جالبؔ :       یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
                          اِس درد    کی    دنیا سے    گزر کیوں نہیں جاتے

اخبارات میں لکھنے والے اپنی تحریروں میں جو مسائل بتلا تے ہیں اُن کے قابلِ عمل حل کے لئے تجاویز پڑھنے کی بھی توقع رکھتے ہیں۔لیکن۔۔۔بہت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑھتا ہے کہ جب تک ہمارے ملک میں ’’ اشرافیہ برانڈ ‘‘ جمہوریت ہے اس وقت تک اُردو کے سرکاری زبان کی حیثیت سے نفاذ کی کوئی تجویز نہیں دی جا سکتی ، کیوں کہ اس کا نفاذ ناممکن بات ہے۔ٹیلی وژن نیوز شوز میں چہار جانب گرما گرم پروگرام اور مباحث دیکھنے سُننے کو ملتے ہیں۔لیکن آپ نے شاز ونادر ہی ’’ اُردو سرکاری زبان کب نافذ ہو گی ‘‘ کے بارے میں ایسے مباحث سنے یا دیکھے ہوں گے۔آپ خود سوچئے کہ اتنے اہم مسئلہ کو کوئی اہمیت کیوں نہیں دیتا؟ یہ بالکل طے ہے کہ اِس مسئلے کو کبھی اہمیت نہیں دی جائے گی۔

نام نہاد اشرافیہ اور جاگیرداری نظام کے ہوتے ہوئے اِن پگڑی اُچھال مذاکروں میں کیا حکومت کیا اپوزیشن سب کا ایک زبردست اتحاد ہے کہ عوام کواعلیٰ حکومتی عہدوں تک کسی بھی قیمت پر رسائی نہ دی جائے۔ خاکسار نہایت خلوص کے ساتھ لکھتا ہے کہ اُردو کے نفاذ کا مسئلہ ، مسئلہ کشمیر کی طرح سے پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ ہمیں جلد از جلد کسی بھی طرح اِس مسئلہ کو حل کرنا ہے وگرنہ پھر ہم بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ اگر کالے انگریزوں کی ہی غلامی کرنا تھی تو ہمارے بزرگوں نے آزادی کیوں حاصل کی؟کوئی تو خدا کا خوف کرے ! 70 سال ہو گئے اپنے ملک میں رہتے ہوئے اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کا امتحان غیر ملکی زبان میں لیا جاتا ہے۔معذرت چاہوں گا، یہ کام کبھی ختم نہ ہو گا ۔ ہاں البتہ۔۔۔اگر کوئی ’ حجاج بِن یوسف ‘ آ گیا تو یہ کام چٹکیوں میں ہو جائے گا۔لیکن اس کی ایک بھاری قیمت ادا کی جائے گی۔ جو غالب امکان ہے کہ نام نہاد اشرافیہ دے گی۔ 
               ؎   
                 جو آئے وہ جائے رہے نام اللہ کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر 18 دسمبر بروز پیر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11پر کالم ' اُلٹ پھیر ' میں شائع ہوئی۔















 

Comments

Popular posts from this blog

خالدہ ریاست کردار میں ڈھل جانے والی اداکارہ