سمندری آلودگی پر سُپریم کورٹ کی برہمی
سمندری آلودگی پر سُپریم کورٹ کی برہمی
تحریر شاہد لطیف
کراچی کے اخبارات، اداریہ، مضامین اور کالم سمندری آلودگی کا رونا رورو کے تھک گئے بالآخر یہ رونا کام دکھا گیا۔ عدالتِ عالیہ نے اس سلسلہ میں حوصلہ افزا کاروائی شروع کر دی ہے۔۔۔یہ سب اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن ہمارے ملک کے تمام چھوٹے بڑے مسائل حل کروانابھی کیا عدالتِ عالیہ کے فرائض میں شامل ہیں؟آخر کار شہروں کی انتظامیہ کس مرض کی دوا ہیں؟ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس ثاقِب نِثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ کے رو برو سمندر میں کچرا سیوریج کا گندہ پانی ، صنعتی فضلہ اور کیمیکل سے آلودہ پانی ڈالے جانے سے بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی سے متعلق سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران کچرا، سیوریج کے پانی اور صنعتی فضلہ صاف کیے بغیرسمندر میں ڈالنے اور اس حوالے سے ٹھوس اقدام نہ کرنے پر چیف جسٹس برہم ہو گئے اور حکومتِ سندھ کو حتمی رپورٹ پیش کرنے کے لئے 23دسمبر تک مہلت دے دی۔چیف جسٹس نے کہا کہ افسران 2دِن کی مہلت لے کر اپنا قِبلہ درست کر لیں ۔یہ انسانی جانوں اور میرے بچوں کی صحت کا معاملہ ہے ۔کوئی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔عدالتِ عالیہ کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں چیف سیکریٹری حکومتِ سندھ نے کہا : ’’ وفاقی حکومت کے تعاون سے 5کمبائنڈ ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جا رہے ہیں‘‘۔ اِس پر چیف جسٹس نے کہا : ’’ سمندر میں روزانہ 45کروڑ ملین گیلن گندہ پانی ڈالا جا رہا ہے۔عدالت بنیادی حقوق اور صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی‘‘۔اس پر چیف سیکریٹری نے کہا :’’ ۔۔۔ٹریٹمنٹ پلانٹ 1 اور 3 کا منصوبہ جون 2018 تک مکمل ہو جائے گا‘‘ ۔ چیرمین پلانگ کمیشن نے بتایا : ’’ منصوبے کے ابتدائی مراحل مکمل ہو گئے ہیں ۔۔۔ عنقریب حتمی منظوری مل جائے گی‘‘۔ایک سوال کے جواب میں چیف سیکریٹری حکومتِ سندھ نے کہا :’’ ۔۔۔ اپنی نا اہلی پر شرمندہ ہیں،آپ کی وجہ سے کام آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔ کراچی میں 660 ملین گیلن یومیہ، گھریلو سیوریج کا پانی سمندر میں گرتا ہے ۔2 ٹریٹمنٹ پلانٹ فعال کیے جا رہے ہیں۔ ٹریٹمنٹ پلانٹ 2 کی زمین پر قبضہ ہو چکا ہے۔۔۔ماہرین نے ہمیں اس کام سے دستبردار ہونے کا مشورہ دیا ہے‘‘۔عدالت نے استفسار کیا: ’’ آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ پلانٹ کی زمین پر ہاؤسنگ اسکیم بن گئی ہے ۔۔۔‘‘۔چیف جسٹس نے کہا : ’’یہ منصوبہ مکمل ہونا چاہیے۔کوئی کوتاہی برداشت نہیں کریں گے‘‘۔ عدالت نے حکومتِ سندھ کو حتمی رپورٹ پیش کرنے کے لئے 23 دسمبر تک کی مہلت دے دی۔
اطلاع کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل حکومتِ سندھ ضمیر بھنبھرو نے عدالتِ عالیہ کو بتایا : ’’ فنڈز پر تنازع تھا جو ایکنک کے اجلاس میں حل کر لیا گیا ہے۔ٹریٹمنٹ پلانٹ کے منصوبہ میں دو تہائی رقم حکومتِ سندھ اور ایک تہائی وفاق دے گا‘‘۔اِس پر عدالت نے سوال کیا : ’’ آپ کے خیال میں کیا معاملہ ختم ہو گیا ہے؟۔۔۔اتنا بڑا معاملہ لوگوں کی زندگیوں سے جڑا ہوا ہے آپ کہہ رہے ہیں سب ٹھیک ہو گیا ہے ۔ ایڈووکیٹ جنرل صاحب آپ سیدھا موقف اختیار کریں ۔۔۔‘‘ ۔ عدالت نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ یہ ایکنک کس چیز کا مخفف ہے؟جس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکے۔
یہ مختصر سی رپورٹ با ضمیر لوگوں کے لئے تازیانہ ہے۔دیکھئے کِس قدر معصومیت سے حکومتِ سندھ کا ایک اعلی افسر عدالتِ عالیہ کے روبرو کہہ رہا ہے کہ ایک ٹریٹمنٹ پمانٹ کی زمین پر تو نا جائز قبضہ ہو گیا اور ہاؤسنگ اسکیم بن گئی۔ماہرین کا کہنا ہے حکومت اس جگہ پر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کے کام ہی سے دست بردار ہو جائے۔دیکھئے کیا ’’ صائب ‘‘ مشورہ دیا جا رہا ہے۔اور دینے والا بھی یقیناََ حکومتی ادارہ ہی ہو گا ۔یہ ہاوسنگ اسکیم راتوں رات تو بنی نہیں اَس کے بننے میں ایک عرصہ لگا ہو گا۔بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے وغیرہ اُس وقت کہاں تھے؟ اسکیم کا نقشہ کس نے اور کیوں کر پاس کیا؟ خود حکومتِ سندھ کہاں تھی؟ اِن تمام سوالات کا جواب حاصل کرنا کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں۔چونکہ اس قسم کے بے ضابطہ کام ماضی میں بھی ہوتے رہے اور کسی کو کوئی خاص سزائیں نہ ہوئیں لہٰذا یہ اب بھی ہوتا رہے گا جب تک سختی نہیں برتی جائے ۔۔۔ اب کیا اِس سختی برتنے کو بھی سپریم کورٹ سے توقع کی جائے گی؟ حکومتِ سندھ کہاں ہے؟
ایسی اسکیموں اور انفرادی عمارات کے بلڈرز سے مک مکا اور واجبی جُرمانے لے کر آج تک بے ضابطگی اور غیرقانونی تعمیرات کو درست مانا جاتا رہا۔کبھی کوئی ایک بھی مثال ایسی نظر نہیں آتی کہ ضابطے اور قانون کی خلاف ورزی کر کے بننے والی عمارات بنتے بنتے توڑی گئی ہوں اور بلڈرز جیل بھیجے گئے ہوں۔ بقول ایک معروف ’ بلڈنگ آئیکون ‘ کے ’’ میں فائلوں میں پہیہ لگا کر اپنے تمام کام کروا لیا کرتا ہوں ‘‘۔بجائے اس کہ کوئی ان صاحب کو غیر قانونی اقدام کرنے سے سے روکے ، اس کے برعکس معاشرے میں ایسے اشخاص کا اعلیٰ مقام ہے۔
تمام بات گھوم کر اسی ایک نکتہ کی جانب آتی ہے کہ جب تک قانون اور ضوابط سب پر یکساں لاگو نہیں ہوں گے پاکستان میں یہی چال بے ڈھنگی ہی رہے گی۔ سپریم کورٹ کِس کِس سے نبٹے گی اور کہاں کہاں جائے گی!
پھر اب کرنا کیا چاہیے؟سب سے اول چیز قانون کا احترام۔خواہ ٹریفک کے قوانین ہوں، قطار میں اپنی باری کا انتظار ہو، دفاتر کے فرائض اور ضوابط ہوں اِن سب پر پورا پورا عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے عزیز ملکِ پاکستان سے وی آئی پی کلچر کو دفن نہیں کیا جاتا۔اِسی خرابی کی و جہ سے ملک میں کھلے عام 2 الگ الگ ضابطے اور قانون چل رہے ہیں۔ایک غریب اورکمزور کے لئے دوسرا پیسے والوں اور طاقتور کے لئے۔اِس کمترنے کہنے کو تو سخت بات کہہ دی لیکن اِن سطور کو پڑھنے والے اپنے اطراف ایک نظر ڈالیں تو وہ جان جائیں گے کی قدم قدمپر یہی دکھائی دے گا کہ پیسے والا قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو مک مکا کر کے یا تعلقات اور رتبے کے رعب اور دھونس کے زور سے ہاتھ جھٹک کر گھر کو چلا جاتا ہے۔وہی کام ایک کمزور سے ہو جائے تو حوالات اور ’ بڑے گھر ‘ جاتا ہوا نظر آتا ہے۔یہ فرق اب ہر قیمت پر ختم ہو جانا چاہیے۔یقین جانیے یہی کامیابی کے زینے پر چرھنے والا اولین قدم ہو گا۔پاکستانی عوام کی ایک عادت بن چکی ہے کہ وہ ہر ایک خرابی اوربگاڑ پر تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اگر اُن سے اِس بگاڑ کے حل کے بارے میں پوچھا جائے تو فوراََ کہا جاتا ہے کہ ہمارے کہنے کرنے سے کیا ہوتا ہے۔۔۔یہی کام فلاں بھی کرتا ہے فلاں بھی۔۔۔گویا برائی کو جاری رکھنے کے لئے دلیل دی جاتی ہے۔۔۔ قانون کا خوف دلوں سے جاتا رہا ہے۔ قبضہ گروپ اُسی طرح سے فعال ہے، عام شہری کے ساتھ پولیس کا رویہ کیسا ہے؟ سب جانتے ہیں، چھوٹی موٹی چوری کی ایف آئی آر کاٹی ہی نہیں جاتی۔ سرکاری اسپتالوں سے مریضوں کو مفت دی جانے والی ادویات اسپتال کے قریبی میڈیکل اسٹوروں پر ڈنکے کی چوٹ بیچی جا رہی ہیں۔سرکاری دفاتر میں ’’ آج نہیں ۔کل آنا‘‘ کی گردان جاری ہے، ہاں اگر آپ ’’ فائل کو پہیے ‘‘لگا سکتے ہیں تو پھر بات بن سکتی ہے۔یہ سب بھی اور اسکے علاوہ سب بڑی بڑی خرابیاں ختم ہو سکتی ہیں اگر ’’ سزا‘‘ دیے جانے کا دل میں خوف ہو ۔
ٰٓ ایک قانون جو سب کے لئے یکساں ہو۔پھر سزائیں ہوتی نظر بھی آئیں تو یقین جانئے معاشرے کا بگاڑ سنورنا شروع ہو جائے گا۔آزمائش شرط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
Comments