این اے 120 ۔ بیگم کلثوم نواز ؟؟
این اے 120 ۔ بیگم کلثوم نواز ؟؟
تحریر شاہد لطیف
۔۔۔ کلثوم نواز ۔۔۔ مسکراتا چہرہ،سادہ،گھریلو، وفا شعاربیوی۔۔۔ سیاست کے میدان میں اس وقت سامنے آئیں جب 1999 میں اُن کے شوہر، اُس وقت کے وزیرِ اعظم کو ایک فوجی ایکشن کے بعد وذارتِ اعظمیٰ کے منصب سے معزول کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔اُس وقت بیگم کلثوم نواز انتہائی جذبے اور اعتماد کے ساتھ میدان میں اُتریں۔اُن کا مطمعء نظر نہ سیاست تھی نہ عوام۔اُنہوں نے محض اپنے شوہر کی رہائی کے لئے ہر ممکن قدم اُٹھایا۔ اخبارات ، ریڈیو، ٹیلی وژن میں کبھی کوئی عامیانہ بات نہ کی۔بین الاقوامی سطح پر بھی بھر پور کوششیں کیں اور بالآخر وہ اپنے شوہر کو جیل سے نکلوانے میں کامیاب ہو گئیں۔
اُس کے بعد سیاست میں کئی اُتار چڑھاؤ آئے مگر سیاسی طور پر اُن کا کوئی کردار سامنے نہ آیا۔وہ دوبارہ اپنی گھریلو زندگی میں لوٹ آئیں۔ وزیرِ اعظم کی بیوی کے سوا اُنہوں نے کبھی بھی ذاتی طور پر سیاست میں حصہ نہیں لیا۔یہاں تک کہ انتخابی مہمات میں بھی بہت کم میڈیا پر آئیں۔جبکہ اُن کی بیٹی مریم نواز بھر پور انداز میں سیاست کے کارزار میں قدم رکھ چکی تھیں۔ایسی گھریلو خاتون کا دوبارہ سیاست کے افق پر نمودار ہونا کئی معنیٰ رکھتا ہے۔
بات بڑھانے سے پہلے برسبیلِ تذکرہ حلقہ این اے 120 کی انتخابی مہم پر مختصر سا تبصرہ ہو جائے ۔
یہ معرکہ در اصل دیگ کا ایک دانہ تھا جس نے بتا دیا کہ سیاسی تربیت کا انتہائی فقدان ہے۔عوا م تو عوام خود سیاسی راہنماؤں کو سیاسی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔سیاسی اہمیت کے پیشِ نظر، یہ انتخاب فوج کی نگرانی میں ہوا۔ اِس کے باوجود نتیجہ کے اعلامیہ سے پہلے ہی لندن سے دھاندلی کا غوغا بلند ہونا شروع ہو گیا۔ جیسے جیسے نتائج حق میں آتے گئے، لہجہ اور زبان بھی بدلتی گئی۔سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فوج وہ واحد ادارہ ہے جس پر تمام عوام بمع ان کے راہنما، بغیر کسی گروہ بندی اور تعصب کے ۔۔۔ اعتماد کرتے ہیں اور عوام کے ایک جید راہنما کا اس ادارے کے لئے ایسا کہنا ۔۔۔؟؟عوام کا مزاج ایسا بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے کہ ووٹ دیتے ہوئے وہ ہوش کے بجائے جوش سے کام لیتے ہیں۔اپنی پارٹی کا راہنما ۔۔۔ بہترین، بے قصور ، ہر غلطی سے پاک اور مخالف پارٹی والے کی نا اہلی ہر طرح ثابت کی جاتی ہے۔ اعتدال پر کوئی نہیں،نہ راہنما نہ عوام ۔ پھر انتخابی مہم کسی فلم کا سیٹ محسوس ہوتا ہے جہاں ہر جانب روشنیوں کے درمیان کیمرے فلم بندی کے لئے تیار ہیں۔انتخابی مہم چلانے والے ’’ سِتارے ‘‘ نمادار ہوتے ہیں، مکالمے، اُن کی ادائیگی، باڈی لینگویج کا استعمال ۔۔۔ اور فلم بندی مکمل۔کسی بھی پارٹی کا جلسہ دیکھ لیں ، سب کا ایک انداز اور یکساں مکالمے، خواہ وہ راہنما آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ ہو ، ایچی سن کا یا کسی سرکاری اسکول کا پڑھا ہوا۔۔۔کیا بوڑھا کیا جوان ۔۔۔ نہ جانے سیاست کی نگری کیا جادو کرتی ہے کہ سب کا انداز ایک جیسا ہو جاتا ہے !!!!!
بات سے بات نکلتی ہے۔کہتے ہیں کہ فلمساز خود عوام کا مزاج بناتے ہیں۔وہ جِس نہج پر چا ہیں عوام کو چلادیں۔بس ایک شخص نئی چال چلتا ہے اور تمام لوگ اُس کے پیچھے اسی فارمولا کو لے کر چل پڑتے ہیں۔کبھی سنجیدہ رومانوی فلموں کا دور تھا پھر مزاحیہ ہلکی پھُلکی فلمیں بننی شروع ہو گئیں۔پھر پنجابی ماردھاڑ فلموں کا دور آیا۔ عوام بے چاری کیا کرے جو دکھایا، دیکھ لیا۔مگر سیاست کی فِلم ایسی ہے کہ اِس فارمولا میں کبھی تبدیلی نہیں آئی۔افسوس! بیگم کلثوم نواز بوجوہ ناسازی ء طبیعت اپنی انتخابی مہم میں حصہ نہ لے سکیں ورنہ اُمید ہے کہ آئندہ وہ اِس فارمولے میں خوش گوار تبدیلی لانے کا موجب بنیں گی ۔
بات ہو رہی تھی ایک سادہ، گھریلو، وفا شعار بیوی کی سیاسی میدان میں آمد کی ۔۔۔ اِس آمد کے محرکات پر تو سیاسی ماہرین روشنی ڈال رہے ہیں خاکسار تو محض بعد از آمد اثرات کا مختصر جائزہ پیش کرنا چاہتا ہے۔
سیاست کا میدان جو انتخابات کے موسم میں میدانِ کارزار کا نقشہ پیش کرتا ہے اور دورانِ حکومت بھی حزبِ مخالف اسے میدانِ کارزار بنائے رکھنے پر تُلی رہتی ہے اور عموماََ کامیاب بھی رہتی ہے ۔ ایسے میں بیگم کلثوم کی آمد تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا ہے۔بادی النظر میں پُر شفقت چہرہ جو نرمی کا تاثر لئے ہوئے ہے اور امید دلاتا ہے کہ اس چہرے کی زبان سے تند و تیز مکالموں کی بارش نہیں ہو گی۔عامیانہ گفتگو اور الزام تراشیوں کی بجائے مفاہمت کا اسلوب اختیار ہو گا۔ اِس کمتر کو قیافہ شناسی کا دعویٰ نہیں مگر اِس معاملہ میں اُمید ہے میرا قیافہ درست ہو گا۔
میاں نواز شریف کے بعد مُسلم لیگ (ن) کسی ایک مرکزی راہنما پر متفق نہیں ہو سکی ( مُسلم لیگ نون جو ہوئی، نون ہٹا دیں تو شاید مسئلہ حل ہو جائے) ایسے میں ایک غیر سیاسی اور غیر تربیت یافتہ شخصیت کو اِس انتہائی اہم حلقے سے ٹکٹ دینا بہت معنی خیز ہے۔ مغل بادشاہ نورالدین محمد جہانگیر سلطنت کےفیصلوں میں ملکہء نورجہاں سے مشورہ کیا کرتا تھا۔تو کیا ملکہ نورجہاں، جہانگیر سے مشورہ نہیں لے گی؟
اِس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ فی الحال مُسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں قومی سطح پر کوئی جماعت نہیں ہے۔تحریکِ انصاف اُسے ضرور ایک سخت مقابلہ دے سکتی ہے لیکن افسوس کہ پی۔ ٹی۔ آئی خود بھی ’’ ون مین شو ‘‘ ہے۔ایسے میں اگر آئندہ وزیرِ اعظم کے لئے بیگم کلثوم نواز کا قرعہ نکلتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی دو خاتون و زرائے اعظم کا اعزاز حاصل ہو جائے گا۔ جبکہ امریکہ تو ابھی تک ایک سے بھی محروم ہے۔یوں بھی راہنما لیڈر کا مزاج مجموعی طور پر معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔کیا معلوم یہ خوشگوار جھونکا عوامی مزاج کی تندی و جذباتیت کو بھی لگام دے دے۔۔۔کیا خبر سیاست کی فارمولا فِلم میں مثبت تبدیلی آئے اور عوامی راہنما ؤں کی تربیت کے ساتھ عوام کی بھی سیاسی تربیت کا آغاز ہو۔
ہم سب کو اچھا گُمان رکھنا چاہیے۔کوئی بھی پارٹی حکومت بنائے ، وزیرِ اعظم تو بس ’’ وزیرِ اعظم ‘‘ ہی ہوتا ہے۔پاکستان اللہ کے حکم سے منضہء شہود پر آیا، اسی کی رحمت سے قائم و دائم رہے گا ۔ پاک افواج کا ادارہ اس کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے کافی ہے۔کاش ! کوئی ایسا ادارہ بھی ہو جو اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی کر سکے ۔ پمر ا کو اسی مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا لیکن اُس نے نظریاتی سرحدوں کی تو کیا حفاظت کرنا تھی اُلٹا بھارت کی ثقافت کو رواج دینے کا باعث بن رہا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ بیگم کلثوم نواز نے اپنی وفا شعاری کا حتمی ثبوت دے دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر،سنیچر 23 ستمبر 2017 کو روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر کالم " اُلٹ پھیر " میں شائع ہوئی۔
Comments