ہماری اقدار سے عوام کی جہالت





ہماری اقدار سے عوام کی جہالت!!



تحریر شاہد لطیف 

گزشتہ بدھ بھارتی فضائیہ کے طیارے کے ہواباز ’ ونگ کمانڈر ابھی نندن ‘ کے بے قابو عوام کے ہاتھوں تضحیک آمیز سلوک کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش میں رہی جس کو دیکھ کر گردن شرم سے جھک گئی۔یہ سب ہی کو پتا ہے کہ مسلسل دوسرے روز بھارتی فضائیہ کی پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر پاکستانی فضائیہ نے اُن کے دو طیارے مار گرائے۔ اِن میں سے ایک پاکستانی حدود او ر دوسرا مقبوضہ کشمیر میں جا گرا۔ قضا سر پر دیکھ کر ونگ کمانڈر ابھی نندن پیرا شوٹ سے کود کر طیارے سے باہر چھلانگ لگا گیا۔یہ نہ تو بھارتی فضائیہ کے مشقوں کا میدان تھا نہ ہی بھارتی ونگ کمانڈر کی خالہ کا گھر۔پھر مشقوں میں پیرا شوٹ سے چھلانگ لگانا اور ’ دشمن ‘ کے ملک میں طیارے کی ’ یقینی ‘ تباہی سے لمحہ بھر پہلے جان بچا کر پیرا شوٹ سے کودنے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔پہاڑ، درخت، ندی نالے، جھاڑیاں اور سب سے بڑھ کر بے قابو ہجوم۔ بظاہر صحیح و سالم پاکستانی حدود میں اُترتے ہی ونگ کمانڈر ابھی نندن پر یہ کہاوت : ’’ آسمان سے گرے کھجور میں اٹکا ‘‘ پوری اُتری ۔ زمن پر اترتے ہی بے قابو عوام کے ہاتھوں آ گیا ۔ ٹھیک ہے وہ بھارتی طیارے کا ہوا باز تھا اور کشیدگی کے زمانے میں اب پاکستانی زمین پر تھا لیکن یہ بھلا کہاں کی بہادری ہے کہ قابو میں آئے ہوئے دشمن کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا جائے !! 


ہماری عوام کی نہ کسی سیاسی نہ کسی دینی پارٹی نے اخلاقی اور دینی اقدار کی کوئی تربیت نہیں کی۔ جب کہ جنیوا کنونشن کے قیام سے بہت پہلے ہمارے نبیﷺ نے قوم کی ہر ایک طرح تربیت کے اصول بتا دیے۔جِن میں زمانہ امن کے ساتھ جنگ کے اصول بھی تھے۔اِن میں ایک اصول یہ ہے کہ جب دشمن تمہارے قابومیں آ جا ئے تو اُن پر تشدد نہ کر و۔ اِن مار پیٹ کرنے والوں کو اگر کسی نے یہ بات بتائی ہوتی تو وہ کیوں ایسی بزدلانہ حرکات کرتے؟مرے کو مارے شاہ مدار۔ قانون کو ہاتھ میں لینا صرف محاورہ نہیں بلکہ بد قسمتی سے پورے ملک کی عوام کا شاید وطیرہ ہی بن گیا ہے۔آپ اپنے محلے سے نکل کر کہیں جا رہے ہیں اچانک ایک شور سنائی دیتا ہے: ’’ بھاگو ،دوڑو ،جانے نہ پائے‘‘۔آپ بھی تجسس کے مارے شور کی جانب لپکتے ہیں ۔کچھ لوگ کسی شخص کو مار پیٹ رہے ہیں۔آپ بھی اِس ’ نیک ‘ کام میں حصہ لیتے ہیں۔آپ سمیت کوئی ایک اللہ کا بندہ بھی یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کر رہا ہے کہ کیا معاملہ ہے اس شخص کی مار پیٹ کیوں ہو رہی ہے !! الزام خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو سیاسی تربیت یافتہ کارکُن اور ذمہ دار شہری کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتے۔لیکن۔۔۔ حقیقت کیا ہے؟ یہ ایک قومی المیہ ہے !!

بات بھارتی ہوا باز کی ہو رہی تھی ۔وہ تو خیر ہو پاکستانی فوج کے نوجوان لفٹننٹ کی جس نے بے قابو عوام سے اُس کو بحفاظت نکالااور ضروری سرکاری کاروائی کے لئے اپنے افسروں کے پاس لے گیا۔کیا پوچھا گیا کیا جواب دیا گیا یہ ہمارے زیرِ بحث نہیں ۔ اب وزیرِ اعظم عمران خان کی اسمبلی میں اُس کی رہائی کے اعلان پر جہاں بین الاقوامی طور پر تقریباََ ہر ایک تعریف کر رہا ہے وہیں پاکستان میں کئی آوازیں اِس ’ رہائی ‘ کے خلاف بھی اُٹھ رہی ہیں۔یہ کوئی اعلانیہ جنگ نہیں تھی۔ ہماری سنہری تاریخ میں تو قابو میں آئے ہوئے خون کے پیاسے دشمن کے ساتھ وہ حسنِ سلوک روا رکھا گیا کہ یورپی مورخین آج تک ’ صدمے ‘سے باہر نہیں آ سکے۔1187 میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ اور متحدہ صلیبی فوج رچرڈ شاہ اوّل کی قیادت میں وہ تاریخی جنگ ہوتی ہے جس میں رچرڈ کا گھوڑا میدانِ جنگ میں عین سلطان صلاح الدینؒ کے سامنے ہلاک ہو جاتا ہے۔اِس پر سلطانِ موصوفؒ نے یہ تاریخی جملہ ادا کیا: ’’ میں اپنے دشمن کی بے بسی سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتا ‘‘۔یہی نہیں بلکہ ایک اعلی نسل کا گھوڑا بھی پیش کیا۔ اس حسنِ سلوک سے رچرڈ پھر ساری زندگی سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے مقابلے پر نہیں آیا۔ یہ ہیں ہماری سنہری روایات !! 


بھارتی ہوا باز کو رہا کرنے کی مخالفت کرنے والے سوشل میڈیا پر غصیلے انداز میں اپنا نقطہ ء نظر پیش کر کے اودھم مچا رہے ہیں۔یہ خالص مغرب کا اندازِ فکر ہے: ’’ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہوا؟ ‘‘۔ ہر ایک چیز کو یہ فائدے نقصان میں تولتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے بھارتی پائلٹ کو خیر سگالی اور انسانی ہمدردی کے تحت رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے اس اقدام سے اگر کشیدگی میں کمی آتی ہے اور متوقع جنگ کے بادل چھٹتے ہیں تو یہ ’’ نقادوں ‘‘ کو بری بات کیوں لگتی ہے؟ جنگ میں ایک دوسرے کو گلدستے نہیں لاشیں اور زخمی دیے جاتے ہیں۔ خدانخواستہ تباہی کی صورت میں یہ سوشل میڈیا پر فائدے نقصان اور اِس رہائی کے مخالف اپنا بھاشن کیا قبرستانوں اور مرگھٹوں کو سنائیں گے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختتام
یہ تحریر 2 مارچ 2019 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی میں کالم اُلٹ ہھیر میں شائع ہوئی۔ 














 

Comments

Popular posts from this blog