’ تو بھی دل سے اُتر نہ جائے کہیں ‘ PDF فارمیٹ میں





’ تو بھی دل سے اُتر نہ جائے کہیں ‘

تحریر شاہد لطیف

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اُتر نہ جائے کہیں
ناصرؔ کاظمی کی یہ غزل پاکستان کے عوام کے دل کی آواز بن گئی ہے۔پہلے مصرعے میں حکومت، وزراء اور منتخب عوامی نمائندوں سے ایک حسرت بھرا خطاب ہے کہ ہائے!! کس شوق سے آپ لوگوں کو منتخب کروایا تھا۔کیا کیا اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں ۔مگر۔۔۔ وائے ناکامی کہ سب خاک میں ملتی نظر آ رہی ہیں۔

روز مرہ گفتگو میں محاورہ ’دل سے اُتر جانا ‘ کسی کے بُرے سلوک کے حد سے گزر جانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔جب پاکستان کے عوام بھی یہ کہنے لگیں تو اندازہ لگائیے کہ کس قدر بد دل ہو کر یہ کہا جا رہا ہو گا۔ یہ مصرع حکومتِ وقت، اُس کے کاسہ لیس، نام نہاد مشیروں، پالیسی سازوں کے لئے ایک ’ عوامی انتباہ ‘ ہے۔دھرنے، ہڑتالیں، کاروبار کی جبری تالہ بندی، سِول نافرمانی نہ کبھی عوام نے از خود کی نہ وہ اس کے متحمل ہی ہو سکتے ہیں۔اکثریت روزکے روز کام کی اُ جرت وصول کرتی ہے۔فیکٹریوں ، دُکانوں، منڈیوں میں بالواسطہ اور بلا واسطہ عوام کو بھی روزانہ کی بنیاد پر اُجرت ملتی ہے۔دھرنوں کا انتظام کون کرتا ہے؟ کہاں ہوتا ہے اب یہ ’ راز ‘ نہیں ہے۔ عوام کو اس بات سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی کہ ملک میں کون صدر اور وزیرِ اعظم ہے ؟ اسلام آباد اور کراچی کے ’ حکمران ‘ کیا سوچ رہے ہیں؟ ڈالر کا کیا ریٹ چل رہا ہے؟ کس بڑی شخصیت نے کتنی رقم بیرونِ ملک بھجوائی۔۔۔ نہ ہی انہیں اس سے کوئی دلچسپی ہے کہ نامور ’ کرتے دھرتوں ‘ کی ملک اور بیرونِ ملک کیا کیا جائدادیں ہیں۔ انہیں تمام ہی حکومتوں نے محض آٹے دال کے مسئلہ ہی میں الجھائے رکھا ۔ مُشرف دور سے آکاس بیل کی طرح بتدریج بڑھتے ہوئے سوئی گیس اور بجلی کے بلوں نے جینا محال کر رکھا ہے۔اب تو اکثریت کی حالتنا قابلِ بیان ہو چکی ہے۔وزیرِ اعظم نے پچھلے دنوں گیس بلوں میں ہوشربا اضافے پر انکوائری کروانے کا کہا تھا جس پر آج کے اخبارات میں خبر ہے کہ کابینہ نے عام صارف کے مقررہ سلیبز کی نظرِ ثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی کا تو افسوس ہے کہ تمام حکومتیں یہی کرتی آئی ہیں: ’’ کمیٹی بٹھا دی ہے‘‘، ’’ دیکھ رہے ہیں ‘‘، ’’ مسئلہ اتنا شدید بھی نہیں ‘‘، ’’ ہو جائے گا ‘‘۔۔۔معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ’ تو بھی دل سے اُتر نہ جائے کہیں‘ ۔۔۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں!! راولپنڈی کے ایک حلقہ سے نون لیگ کے حنیف عباسی اِس مصرعے کی ایک عبرت انگیز کہانی ہیں۔ان کے حلقے نے ان کو جب دل سے اُتارا تو وہ نہ صرف انتخاب ہار گئے بلکہ پچھلے گڑے مُردے بھی اُٹھ کھڑے ہوئے اور جلد ہی وہ خود حسرت کی تصویر بنے تمام کروفر بھول کر اڈیالہ جیل میں نظر آئے، اور اب بھی ہیں۔ 

پاکستان کے کئی ایک چھوٹے بڑے شہر بشمول اسلام آباد کے ’ عوامی ‘ علاقے۔۔۔ اِن میں سوئی گیس پورے پورے دن نہیں آتی۔اس شدت کی سردی میں یہ عذاب ۔۔۔کبھی کبھار آتی ہے تو چند گھنٹے۔آج جب سوئی گیس تقریباََ پورے دن ہی رہی تو بیساختہ یہ شعر زبان پر آ گیا:
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

ناصرؔ کاظمی کی یہ غزل کیسے کیسے عوام کی بے چارگی اور تکالیف کی غمازی کرتی ہے اس کالم میں بیان کرنا ممکن نہیں۔بس مقطع پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصرؔ
پھریہ دریا اُتر نہ جائے کہیں
عام طور پر دیکھا، سُنا اور پڑھا تو یہ ہی ہے کہ کسی مسئلہ پر لوگ رو دھو کر چپ ہو گئے اور اُس کے عادی ہو گئے۔لیکن صاحب !! ہر اک مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔قوموں کی تاریخ اُٹھا کر دیکھئے !! کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ سیلاب کے بعد جب چڑھے دریا اُترتے ہیں تو وہ اُترتے وقت چڑھے دریا سے زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں۔وہ وہ تباہیاں پھیرتے ہیں کہ الامان الامان ۔ پھر ایسے میں کوئی افسوس، کوئی پچھتاوہ کام نہیں آتا۔عوام اس ’ اُترتے دریا ‘ کو انقلاب کہتے ہیں۔ہمارے صبح کے ٹی وی پروگرام ، معذرت کے ساتھ آج کل ان کا نام مارننگ شو ہے، کے تبصروں میں انقلاب! انقلاب کا شور مچا ہوا ہے۔شاید انہیں علم ہی نہیں کہ انقلابِ فرانس ( 5مئی 1789 سے 9 نومبر 1799) میں بلکتے سسکتے اور ٹیکسوں کے مارے عوام نے سب سے پہلے پارلیمنٹ کے تمام ارکان کو موت کے گھاٹ اُتارا تھا۔اس کا بنیادی مقصد فاقہ زدہ عوام کا روٹی پانی کا حصول تھا۔بادشاہت اور ظالم نظامِ حکومت عوام کے آگے ٹہر نہ سکے۔لہٰذا ہمارے ہاں کے سیاستدان انقلاب کا لفظ سوچ سمجھ کر ادا کریں۔ہمارے ہاں بھی اگر مصنوعی مہنگائی کے ساتھ عام آدمی کی زندگی مزید مشکل تر بنائی جاتی رہی اور تعلیم اور صحت کا حصول نا ممکن بنا دیا جائے ، انصاف اور قانون طاقتور کے لئے الگ اور کمزور کے لئے الگ ہو تو پھر عوام دو میں سے ایک کا انتخاب کرے گی : انقلابِ فرانس یا پھر حجاج بن یوسف کا انتظار۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام 
















 

Comments

ماننا پڑتا ہے کہ شاہد صاحب ادب، تاریخ، اور سیاست کا ادراک رکھتے ہیں۔
ulatphair said…
نوازش یمین الاسلام زبیری صاحب
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ
عزت افزائی کا شکریہ
خیر اندیش شاہد لطیف

Popular posts from this blog