PDF فلم اور ٹیلی وژن فنکار گلاب چانڈیو





فلم اور ٹیلی وژن فنکار گلاب چانڈیو

( 6جنوری 1958سے 18جنوری 2019)



 تحریر  شاہد لطیف

شہمیر چانڈیو نام کے گاؤں ، تحصیل نواب شاہ میں سائیں بخش چانڈیو کے ہاں 6 جنوری 1958 کو پیدا ہونے والے گُلاب نے 1980 سے فن کی خوشبو بکھیرناشروع کی۔فن کی اس خوشبو نے کئی رنگ بدلے۔اسٹیج، ٹیلی وژن، اُردو، سندھی ، پنجابی اور ڈبل ورژن کی فلمیں اِس کی مثال ہیں۔میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام سے لگ بھگ جس زمانے میں منسلک ہوا تھا تب گلاب ابھی نیا نیا ٹی وی کی دنیا میں آیا تھا۔ اُس وقت شاید وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ بہت جلد شہرت اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہو گی۔یہ اس کی ابتدا کا زمانہ تھا ابھی اُس نے سندھی ڈراموں میں آنا شروع ہی کیا تھا۔جو چیز گلاب چانڈیو کو اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی وہ اس کے چہرے پر قدرتی مسکراہٹ تھی۔ہر ایک سے نہایت عجز سے ملتا تھا۔میری کئی مرتبہ ٹی وی کنٹین میں اُس کے ساتھ گپ بازی ہوتی تھی۔ پھر یکے بعد دیگرے، مختصر دورانیے کے سندھی ڈرامے میں اُس کے کردار مقبول ہونے لگے۔اس کی ایک قابلِ ذکر مثال دیتا ہوں۔یہ 1981 کا ذکر ہے کہ سینئیر پروڈیوسر بختیار احمد کے ساتھ میں ، فلم کیمرہ مین طارق حمید لودھی اور ٹیم کے دیگر افراد دستاویزی فلم ’ روڈ ٹو ہالہ ‘ کے لئے کراچی سے ہالہ تک تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے حامل مقامات کی عکس بندی اور لوگوں سے بات چیت صدابند کرنے نکلے۔ٹی وی فنکار یار محمد، سندھی ڈراموں میں ایک پہچان رکھتے تھے اور سندھی مزاحیہ پروگرام ’ چہ چِٹھو‘ میں بھی ہر ہفتہ نظر آتے ۔وہ مٹیاری کے رہنے والے تھے جہاں اِن کا اپنا ایک ہوٹل بھی تھا۔ ہماری تمام ٹیم اُن کے ہوٹل میں چائے پینے رُکی۔ اُس وقت لوگ وی سی آر پر ایک سندھی ڈرامہ دیکھ رہے تھے ۔اُس کے ایک سین میں گلاب چانڈیو ڈاکو کے روپ میں زور دار مکالمے بول رہا تھا۔ سب لوگ خاموشی کے ساتھ وہ مکالمے سُن رہے تھے۔جب اگلے سین میں کوئی اور اداکار آئے تو خاموشی کا سحر ٹوٹا اور ہوٹل کی روایتی بھنبھناہٹ شروع ہو گئی۔لوگ آگہی رکھتے ہیں، انہیں علم تھا کہ ہمارے پاس ٹی وی کیمرہ نہیں بلکہ فلم کیمرہ ہے۔ اتنے میں ایک صاحب نے ہماری ٹیم کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ لوگ اِس ( اُس کردار کا نام لیا جو اُس ڈرامے میں گلاب چانڈیو کر رہا تھا) کو لے کر اُردو فلم کیوں نہیں بناتے ؟ یہ گلاب چانڈیو کی مقبولیت کا مونہہ بولتا ثبوت تھا۔

میں نے کراچی واپس آ کر یہ بات یار محمد اور گلاب کو سنائی۔یار محمد مسکرائے اور گلاب نے نہایت عاجزی سے اللہ کا شکر ادا کیا۔پھر ایک مثال یاد آئی۔میں حسن اسکوائر میں رہتا تھا۔ محلہ کے بچوں نے سالانہ ورائیٹی پروگرام میں کسی ٹی وی فنکار کو بلوانے کی فرمائش کی۔ اُس زمانے میں گلاب چانڈیو کا کوئی سیریل چل رہا تھا۔میں نے اُس سے کہا کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے کچھ دیر کے لئے آ جانا بچے خوش ہو جائیں گے۔اُس نے اپنے مخصوص انداز سے جواب دیا : ’’حا ضر سائیں!! ‘‘ وہ نہ صرف مقررہ تاریخ پر صحیح وقت پر خود آیا بلکہ اُس ڈرامے کی کاسٹ کے دو افراد کو بھی لایا۔اداکاری میں اپنے منفی کردار کے برعکس عام زندگی میں گلاب نہایت منکسرالمزاج واقع ہوا تھا۔

میری اُس سے آخری ملاقات 2007 میں ہوئی۔میں کسی سے ملنے حسن اسکوائر گیا۔شام کا وقت تھا فُٹ پاتھ پر کرسی میز لگے ہوئے تھے۔لوگ برگر اور تکے کھا رہے تھے۔وہیں گلاب چند دوستوں کے ساتھ بیٹھا نظر آیا۔میں آگے بڑھ کر اُس سے ملا۔وہ بالکل اُسی طرح ملا جیسے 1980 میں ملتا تھا۔غرور نا م کی کوئی شے میں نے اُس میں نہیں دیکھی۔

اب کچھ اُن کے ڈراموں کے متعلق: ان کے ٹی وی ڈراموں میں ’’سچائیاں‘‘،’’ بے وفائیاں ‘‘، ’’ ماروی‘‘، ’’ نوری جام تماچی‘‘ ، ’’ زہر باد ‘‘، ’’ غلام گردش‘‘،’’ ساگر کا موتی ‘‘،’’ جنگل ‘‘ ، ’’زینت‘‘، ’’ ٹیپو سلطان ‘‘ ، ’’ سانس لے اے زندگی ‘‘، ’’ چاند گرہن‘‘ جس میں انہوں نے سندھی وڈیرے کا جان دار کردار ا دا کر کے بے پناہ شہرت حاصل کی ۔شفیع محمد، صلاح الدین تینو اور نور محمد لاشاری جیسے اداکاروں کے ساتھ کامیاب اداکاری کی جو کہ بجائے خود کوئی آسان کام نہیں ۔ جب انہوں نے نہایت کامیابی سے سندھ کے کلاسیکی کرداروں کو ادا کیا تو ہر خاص و عام نے جی کھول کر تعریف کی۔بد قسمتی سے شروع ہی سے ان پر منفی کردار ادا کرنے والے کی مہر لگا دی گئی۔حالاں کہ یہ ایک قدرتی فنکار تھا جو ہر قسم کے کردار احسن طریقے پر ادا کرنے کی خدا داد صلاحیت رکھتا تھا۔

گلاب چانڈیو کو اُن کی فنکارانہ خدمات پر 14 اگست 2015 کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی دیا گیا۔1980سے 1995 تک انہوں نے عروج کا زمانہ دیکھا پھر بتدریج بڑی اور چھوٹی اسکرین پر آنا کم ہو گیا۔ جبکہ آخری وقت تک یہ اداکاری سے وابستہ رہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق انہوں نے 300 سے زائد اُردو سندھی ڈراموں میں فن کے جوہر دکھائے۔

گلاب نے اُردو، سندھی، سرائیکی اور بلوچی ز بانوں میں اداکاری کی۔اُن کی 18 فلمیں ریلیز ہوئیں ۔ جن میں 10 سندھی، 5 اُردو، 2 پنجابی ار ایک ڈبل ورژن فلم شامل ہے۔ سندھی فلمیں یہ ہیں : مزاحیہ فلم ’’ سوہنا سائیں‘‘ (1986)، ’’ دشمن‘‘ ( 1988 ) ، ’’ نادِر گوہر ‘‘ ( 1988)، ’’ علی گوہر ‘‘ ( 1988 )، ’’ محب شیدی‘‘ ( 1992 )، ’’ داؤد یندو ( دیکھا جائے گا ) ) 1994) یہ گلاب کی بحیثیت ہیرو آخری فلم تھی۔اُن کی اُردو فلمیں : ’’ راز ‘‘ (1992 ) ، فلمساز اور ہدایتکار سید نور کی کراچی میں سلور جوبلی فلم ’’ سرگم ‘‘ ( 1995 )، ’’ صاحب بی بی اور طوائف‘‘ ( 1998 )، ’’ میری توبہ‘‘ ( 2000 ) ، ’’ شاہ‘‘ (2015 ) عالمی شہرت کے حامل پاکستانی باکسر حسین شاہ کی زندگی پر بننے والی اس فلم میں گلاب چانڈیو کا جان دار کردار تھا۔یہ اُن کی زندگی کی آخری ریلیز شدہ فلم ہے۔گلاب کی پنجابی فلمیں: فلم ’’ طوفان ‘‘ (1983 )، ’’ نام کی سہاگن‘‘ (1995 )،ڈبل ورژن فلم ’’ الزام‘‘( 1993 ) ۔ گلاب چانڈیو کی فلموں کی یہ تفصیلات اسد کورائی کے مضمون ’’ خوشبو کا محور، گلاب چانڈیو اور اُن کی ریلیز کردہ فلمیں‘‘ صفحہ نمبر 8، نگار ویکلی مورخہ 25 جنوری2019 سے شکریہ کے ساتھ لی گئیں۔ اسد کورائی صاحب نے یہ مضمون گلاب کے انتقال سے چند ہفتے قبل تحریر کیا تھا۔



گلاب آخر تک فن سے منسلک رہے۔ کچھ عرصے سے گلاب کو شوگر ،بلڈ پریشر اور عارضہ قلب کی شکایت تھی۔دواؤں سے علاج بھی جاری تھا لیکن وہ جو کہاوت ہے کہ ’ جو آئے وہ جائے، رہے نام اللہ کا۔۔۔‘گلاب کی مغفرت اور جنت میں اعلیٰ مقام کو کئی ایسے بھی ہاتھ اُٹھے ہوں گے جن کا فن سے دور کا بھی تعلق نہیں۔وہ کئی لوگوں کی بے لوث مدد کیا کرتا تھا۔اللہ گلاب چانڈیوپر اپنا کرم کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختتام

یہ تحریر روزنامہ نوائے وقت کراچی کی 12 فروری کی اشاعت میں صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔















 

Comments

Popular posts from this blog