PDF فارمیٹ میں کالم ' اُلٹ پھیر' ۔ " ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی تین سِول جج خواتین"







ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی تین سِول جج خواتین۔۔۔ کنول راٹھی، ثُمن بودانی اور ڈائینا کُماری


تحریر شاہد لطیف

جب سے میں نے ہلکا پھُلکا کالم لکھنا شروع کیا ہے خبروں سے متعلق تحقیق و تفتیش میرا دلچسپ مشغلہ بن گیا ہے۔انٹرنیٹ نے اِس مشغلے کو مہمیز دی اور وہ شوق کے درجے کو پہنچ گیا۔ ناشتے سے پہلے اور بعد کا زیادہ وقت ملکی اور غیر ملکی اخبارات کی سیر میں گزرتا ہے۔سیاسی سنسنی خیز خبریں، سیاسی شوشے، تبصرے بیانات پھر ان سب کی تصدیق کبھی تردید۔۔۔پورے سوشل میڈیا میں عام ہے۔اِس پر مستزاد اخبارات کی عمومی حالات سے لاعلمی اور بغیر تحقیق کے ایک خبر کو آگے چلاتے جانا۔۔۔ہمارا شعار بن چکا ہے۔ایسا ہی دو دن قبل میرے ساتھ ہوا۔خبر آئی کہ پاکستان میں’’ پہلی ‘‘ ہندو خاتون ثُمن بودا نی سِول جج بن گئی ہیں۔بہت خوشی ہوئی۔حسبِ عادت غیر ملکی اخبارات کھولے۔بھارت کے ایک اخبار میں پہلی خبر ہی یہ پڑھی کہ پاکستان کی پہلی ہندو خاتون سِول جج محترمہ کنول راٹھی، 2015 میں منتخب ہوئی تھیں۔ اِن کا تعلق عُمر کوٹ سے تھا اور یہ میر پور خاص میں سِول جج ہیں۔مجھے بھارتی اخبار سے علم ہوا کہ محترمہ ثمن بودانی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی دوسری سول جج منتخب ہوئی ہیں ۔نیز اِن کے ساتھ ساتھ ایک اور ہندو خاتون ’ ڈائیانا کُماری ‘ بھی سول جج منتخب ہوئی ہیں۔
 چنانچہ فوراََ انٹرنیٹ پر سِول جج جیوڈیشنل مجسٹریٹ کے منتخب افراد کی مکمل فہرست دیکھی۔تحقیق کی تو واقعی یہ بات ’ صحیح ‘ نِکلی کہ سندھ ہائی کورٹ کی جاری کردہ قابلیتی فہرست میں محترمہ ثُمن بودانی کے بعد ایک اور ہندو خاتون ڈائیانا کُماری بھی ہیں ۔سندھ ہائی کورٹ نے سِول جج جیوڈیشنل مجسٹریٹ   کے امتحان میں کامیاب اُمیدواروں کی جو فہرست جاری کی ہے ، اِن میں ثُمن بودانی رول نمبر 2299 ، سِول جج تقرری کے امتحان میں 54 ویں جب کہ ڈائیانا کُماری رول نمبر 598 مذکورہ فہرست میں 87 ویں نمبر پر رہیں۔اب کامیاب ہونے والے خواتین و حضرات جیوڈِشری اکیڈمی کراچی میں تربیت حاصل کریں گے۔اس کے بعد ان کی با ضابطہ بنیادی پے اسکیل 18 تعیناتی ہو گی۔

اِس مثال سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ بھارتی میڈیامیں تحقیق و تفتیش کا کام ہمارے ہاں سے کہیں بہتر ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟؟ یہی لمحہ فِکریہ ہے !! حالاں کہ ہمارے ہاں بھی ہر ادارے میں اپنا کام بہتر طور پر کرنے والے موجود ہیں۔ اگر صحیح سیاق و سباق کے ساتھ یہ خبر شائع اور نشر کی جاتی تو اچھا ہوتا۔ ماضی قریب میں سندھ کے پس ماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی کرشنا کماری ، پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سینیٹر منتخب ہوئی ہیں۔قبل ازیں جسٹس بھگوان داس بھی چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان میں نہ صرف ہندو اقلیت کو تعلیم کے بھر پور مواقع حاصل ہیں بلکہ اعلیٰ ملازمتوں میں جانے کے مواقع بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح حاصل ہیں۔

 یوں لگتا ہے گویا ہمارے ہاں آج کل خبر کی بھی ’’ زندگی ‘‘ مان لی گئی ہے جو عام طور پر ایک سے دو دن پر محیط ہوتی ہے۔اِس دوران دن رات اسی خبر کا ڈھول پیٹا جاتا ہے ۔ کبھی خبر غلط ہو تو نشر کرنے والے شاذ و نادر ہی ’ معذرت ‘ کرتے ہیں۔اور اگر ادھوری خبر نشر ہو جائے تو کسی معذرت کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ ویسے بھی دو تین دن بعد ’’ رات گئی بات گئی‘‘ والی بات ہو جاتی ہے۔بہر حال بات محترمہ ثُمن بودانی کے سِول جج منتخب ہونے کی ہو رہی ہے۔ یہ واقعی بہت خوشی کی بات ہے کہ ہندو برادری کی ایک بچی نے اِسبات کو ثابت کر دکھایا کہ اس کی برادری کی بچیاں ڈاکٹر اور تعلیم و تدریس ہی کے شعبے کے علاوہ دیگر پیشوں میں بھی کامیاب ہو سکتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ثُمن بودانی نے انٹر ضلع قَنبرَ شہداد کوٹ سے کیا اور بے چارے لوگوں کو انصاف دلوانے کا سوچا اور وکالت کے شعبے میں جانے کی ٹھانی ۔پھر حیدرآباد سے وکالت/ ایل ایل بی کرنے کے بعد کراچی کے زیبسٹ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے ایل ایل ایم کے امتحان میں نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور طلائی تمغہ کی حق دار ٹہریں ۔اِس کے بعد وہ کراچی میں مشہور قانون دان جسٹس ( ر) رشید رضوی کی لاء فرم سے منسلک رہیں اور یہاں 2 سال پریکٹِس کی ۔اکثر دیکھا گیا کہ سندھ میں ہندو برادری سے متعلق لڑکیاں زیادہ تر ڈاکٹر بننے یا تعلیم کے شعبے سے منسلک ہونے کو ترجیح دیتی ہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ثُمن نے کہا کہ اُس کی برادری نے لڑکی ہونے کی وجہ سے اُس کا وکالت کے میدان میں جانا قبول نہیں کیا حالاں کہ ہندو برادری نے سندھ میں نامور مَرد وکلاء پیدا کیے۔


ثمن بودانی کی تفصیل تو انٹر نیٹ پر موجود ہے لیکن بسیار کوشش کے با وجود ڈائنا کُماری سے متعلق کسی قسم کی کوئی معلومات میڈیا پر نہیں مل سکیں۔یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ہی عہدے پر ایک برادری کی دو خواتین منتخب ہوئیں تو اُن میں سے ایک کی تفصیل میڈیا پر پائی جاتی ہے اور دوسری کی نہیں۔ہم تو یہی سمجھیں گے کہ ڈائینا کُماری معاشرتی اعتبار سے کسی ’’ اونچے گھرانے ‘‘ سے تعلق نہیں رکھتی۔جب میڈیا چاہتا ہے تو کسی بھی شخصیت کو ہزار پردوں میں سے بھی نکال لیتاہے ۔کیا ڈائینا کُماری کے تعارف میں بھی میڈیا سے پھُرتی کی کوئی توقع رکھی جا سکتی ہے؟؟ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختتام

یہ تحریر 2 فروری کے روزنامہ نوائے کراچی کے صفحہ 11 پر کالم " اُلٹ پھیر " میں شائع ہوئی۔

  

Comments

Popular posts from this blog