PDF فارمیٹ میں ابوظہبی کے عدالتی نظام میں ہندی تیسری سرکاری زبان ہو گئی ۔۔۔ اور اُردو پاکستان میں سرکاری زبان نہ بن سکی




ابوظہبی کے عدالتی نظام میں ہندی تیسری سرکاری زبان ہو گئی ۔۔۔ اور اُردو

 پاکستان میں سرکاری زبان نہ بن سکی

تحریر شاہد لطیف 

ابو ظہبی کے عدالتی نظام میں ہندی کو تیسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو گیا۔اس اقدام کا مقصد ہندی داں افراد کو قانونی کاروائی اور ان کے حقوق و فرائض سمجھنے میں مدد دینا اور انصاف تک رسائی بہتر بنانا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں بھارتی باشندوں کی تعداد 26 لاکھ ہے۔ یہ سب سے بڑی تارکینِ وطن برادری ہیں۔ بھارتی وزیرِ خارجہ سُشما سُوارَج نے اس پر خوشی کا اظہار کیا کہ اس طرح بھارتی تارکینِ وطن کو انصاف کے حصول میں بہت آسانی حاصل ہو جائے گی۔اور پاکستان میں۔۔۔۔۔۔ ہماری ہی اُردو کو کبھی سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل سکا !! نقار خانے میں طوطی کی اور مقتدر طبقوں میں اُردو کی آواز کون سُنتا ہے، لیکن ہم اُردو زبان کو اُس کا حق دِلوانے کے لئے اپنی سی کوشش کرتے رہیں گے ۔ اُردو زبان کا ہم سب پر یہ حق ہے کہ ہم اُ سے اُس کا جائز مقام دِلائیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں بیٹھنے والے افراد اِس کو نافذ نہیں ہونے دیتے ۔ ہر ایک حکومت اُردو ذر یعہء تعلیم میں سب سے بڑی رُکاوٹ بنتی رہی ہے اور اب بھی ہے۔ پچھلے سال ہمارے ملک کی سُپریم کورٹ نے بڑے کروفر سے حکومت کو کہا تھا کہ جلد از جلد تمام تر دفتری لکھت پڑھت اُردو زبان میں کی جائے اور وفاقی و صوبائی سطح کی مُلازمتوں کے تحریری اور زُبانی امتحانات بھی اُردو میں لئے جائیں۔ بجائے اِس کے کہ اِس حکم پر فوری عمل درآمد ہوتا..........خود حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ایسے کاموں کے لئے کچھ مہلت درکار ہو تی ہے........ جو ا بھی تک ختم نہیں ہوتی۔

کمال کی بات ہے کہ حزبِ اختلاف کی سیاسی پارٹیوں اور دیگر ’ تھینک ٹینکوں ‘ کی طرف سے اِس حکم کے نفاذ کے لئے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ وہ تمام چہرے جو مختلف ٹی وی چینلوں پر تواتر سے نظر آتے ہیں ، اِس سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہتے ۔ گویا اُن کی نظر میں اِس کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ آج بھی طلباء کی اکثریت اُردو ذریعہء تعلیم کے تحت ثانوی جماعتوں میں بہترین نمبر لے کر جب اپنی قابلیت کی بُنیاد پر میڈیکل ، انجینیرنگ یا اِس طرح کے دیگر پیشہ ورانہ کالجوں میں آتی ہے تو راتوں رات سب کچھ انگریزی میں پڑھایا جاتا ہے۔چلیں اِن کے اساتذہ اِن کی مُشکلات کو دیکھتے ہوئے اُردو میں سمجھا بھی دیں تو تقریباََ تمام ہی کِتابیں انگریزی میں دستیاب ہیں۔اُردو کے نفاذ میں یہ واقعی ایک بہت بڑی رُکاوٹ ہے۔اور اِسی بات کو اردو زبان میں اعلیٰ تعلیم دینے کی مُخالفت کرنے والے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک کسی بھی زبان میں کی ہوئی تحقیق فوراََ اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے ہیں ۔کیا اعلیٰ تعلیمی کتب اور علم کا ا ردو زبان میں ترجمہ کرنا ناممکن ہے؟ نہ جانے دینی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما اِس مسئلہ پر کوئی بات کیوں نہیں کرتے۔ حیرانگی اِس بات کی ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین درس گاہوں کے حاضر اور ریٹائرڈ اساتذہ ، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کرتا دھرتااور وزارتِ تعلیم کے بزرجمہروں نے بھی کبھی اِس مسئلہ کا حل نہیں سوچا۔کوئی کام نہ کرنے کے سو بہانے مگر قیامِ پاکستان سے قبل آخر جامعہ عثمانیہ حیدر آباد بھارت بھی تو ایک مستند نام تھا۔کیا وہاں اُردو میں اعلیٰ تعلیم نہیں دی جاتی تھی؟ شعبہ تصنیف و تالیف تو جامعہ کراچی میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے زمانے میں قائم ہوا تھا .... ... کیا اب اِس جامعہ یا ملک کی دیگر جامعات میں قابِل لوگوں کی کوئی کمی واقع ہو گئی ہے؟ کیا کوئی ایک بھی ایسا نہیں جِس کے دِل میں قوم کا درد ہو ؟ کیا انجمنِ ترقیء اُردو سے یہ کام نہیں کروایا جا سکتا؟

نظامِ تعلیم کی بات کرنا تو مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ کئی ایک نظام چل رہے ہیں۔ ایک وہ درس گاہیں ہیں جہاں کا عوام سوچ بھی نہیں سکتی، پھر وہ ہیں جہاں کچھ لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ اِس کے بعد گلی محلے کے انگریزی میڈیم اسکول آتے ہیں اور آخر میں سرکاری اسکولوں کا نمبر ہے جہاں 70 فی صد طلباء اور طالبات ہوتے ہیں۔اس اکثریت کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی گئی ۔ نظامِ تعلیم کے تضاد نے واضح طور پر معاشرے میں دو نمایاں گروہ پیدا کر دیے ہیں ۔۔۔ پہلا گروہ اشرافیہ ( ایلیٹ ) طبقہ جو حکومت کرنے کے لئے ہی پیدا ہوا ہے اور دوسرا گروہ باقی 70 فی صد ہیں جو کبھی بھی اعلیٰ عہدوں پر نہیں پہنچ پاتے ا لّا ماشاء للہ ....... کبھی بھی کوئی چیز ناممکن نہیں رہی۔ جب کسی نے کوئی کام کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا تو پھر اُس کو مکمل کرنے میں کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آئی۔اِس کی سب سے بڑی مثال تُرکی کے اتاترک مصطفےٰ کمال پاشا ہیں ۔ اُن کا فیصلہ غلط تھا یا درست ، اِس سے بحث نہیں، لیکن اُنہوں نے جب یہ فیصلہ کیا کہ تُرکی زبان عربی رسم الخط کے بجائے رومن رسم الخط میں لکھی جائے گی تو اِس کے نفاذ میں نہ کوئی دیر ہوئی اور نہ ہی کوئی دقت پیش آئی۔ اور عوام نے نہ صرف اِسے قبول کیا بلکہ بغیر کسی لیت و لعل کے اِس پر عمل درآمد بھی کیا ۔۔۔ کیوں؟ ۔۔۔اِس لئے کہ حکمران ایسا کرنے میں پُر خلوص تھا اور در اصل نفاذ کی طاقت رکھتا تھا۔
اب اگر اُردو زبان کو ذریعہء تعلیم نہیں بنایا جاتا اور مہلت مانگی گئی تو اِس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہمیں کبھی کوئی ایسا حکمران مِلے گا جو کم از کم عدالتی فیصلے کو تو تمام گروہی اور سیاسی مفاد سے بالا تر ہو کر نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہو !! ..... ہر ایک حکومت اپنے وقت کے چھوٹے سیاسی گروپوں / پارٹیوں کے دباؤ میں رہتی ہے۔ملکی مفاد سے زیادہ اُنہیں اپنی کرسی عزیز ہوتی ہے۔ اُردو زبان کا معاملہ تو رہا ایک طرف ...... یہاں تو ملکی ترقی کے بڑے بڑے منصوبوں پر بھی حکومتیں ’ دباؤ ‘ میں آ جاتی ہیں۔پھر بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی ، کوئی نہ کوئی ایسا شخص ضرور آئے گا جو سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر صرف ملکی مفاد کی خاطر فیصلے نافذ کروائے ۔شاید تبھی ہماری پیاری زبان اُردو کو بھی اُس کا حق مِل سکے اور معاشرے کے تمام طبقات کو بھی اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کے یکساں مواقع ملیں۔ کیا عوام میں سے کسی کو افسر شاہی یا نوکر شاہی کا مزہ لینا، تا قیامت شجرِ ممنوعہ رہے گا؟ اب تو ایسا لگتا ہے کہ حکومتوں کے پالیسی ساز عدالتوں سے مزید وقت مانگتے ہی رہیں گے۔ بھلا کبھی گرامر اسکول اور ایچی سن کالج کی پڑھی ہوئی نوکر شاہی، عوام کو اپنے برابر آنے دے گی؟ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے قومی اسمبلی اور سینٹ کی اکثریتی جاگیردار ممبران سے جاگیرداری نظام کے خاتمہ کا قانون بنوایا جائے۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا یہ کہنا کہ اُردو میں نصاب ہے نہ ممتحن تو اِس سلسلہ میں عرض ہے کہ جب تک اُونٹ آپ کی مرضی کی کروٹ نہیں بیٹھتا ، اُس وقت تک مقابلے کا تحریری اور زبانی امتحان انگریزی کے ساتھ اُردو میں بھی لیا جائے تاکہ اُردو میڈیم والے بھی آگے آ سکیں ۔ آخر اسکول ، کالج وغیرہ میں انگریزی کے ساتھ اُردو میں بھی تو پرچے لئے جاتے ہیں اِسی طرح پبلک سروس کمیشن کے امتحان دونوں زبانوں میں کیوں نہیں لئے جا سکتے؟ یہ جو ہم نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں اس کی اصل وجہ تو ابو ظبہی میں ہندی کو تیسری سرکاری زبا ن کا درجہ ملنا ہے ۔یہ کیوں ہوا؟ ہمارے لئے یہ اہم نہیں۔اہم یہ ہے کہ ’’ کیسے ہوا؟ ‘‘ ۔ صرف ایک حکم سے ! ! پھر تو جمہوریت سے بادشاہت اچھی !!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اختتام 
یہ کالم  روزنامہ 16 فروری 2019 کےروزنامہ نوائے وقت  کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہوا

 

Comments

شاہد صاحب نے ایک بہت ہی اہم مسٗلہ اٹھایا ہے۔ زبان کے بارے میں طے کرنا کہ ملک کے دفتروں میں کس زبان میں کام ہوگا ایک کلیدی فیصلہ ہے۔ انسان کوئی نئی بات جب ہی پیدا کرتا ہے جب وہ اپنی توجہ کسی ایک طرف مبذول کرسکے۔ اگر ہم زبان کے بارے میں طے نہ کر پائے تو ہمارے ہونہار طلبہ کی توجہ کو بٹانے والا سب سے پہلا عنصر زبان ہی ہوگا، بلکہ ہے۔ تمام دوسرے شعبوں کی طرح اردو بھی بے توجہی کا شکار ہے۔ ایک کام اس سلسلے کا جو بہت ضروری ہے وہ کمپیوٹر پر اردو سافٹ ویئر میں بہتری کا ہے۔ لگتا ہے یہ سارا کام بھی گوگل ہی کو کرنا پڑرہا ہے۔ ہمارے ہاں جو ادارہ فروغ قومی زبان ہے اس نے اگرچہ کچھ کام کیے ہیں لیکن اس نے بھی سافٹ ویئر پر کوئی کام نہیں کیا۔ انگریزی میں مائکرو سافٹ کی تختیوں پر غلط ہجا کی پکڑ کا انتظام ہے۔مجھے یقین ہے کہ ہندی میں بھی ہوگا۔ انگریزی جاننے والوں کی بھی سب کی ہجا درست نہیں ہوتیں، لیکن انہیں مدد مل جاتی ہے۔ بہت سے لوگ اب جب کہ اردو میں لکھنے کی سہولت موجود ہے نہیں لکھتے کیونکہ انہیں اپنی ہجا پر اعتبار نہیں۔ تو پہلے تو اردو کو اس قابل بنانا ہوگا کہ اس میں لکھنے والے دل لگا کر لکھیں۔

ulatphair said…
جناب یمین الاسلام زبیری صاحب
آپ بالکل صحیح فرما رہے ہیں۔ایسا آج نہیں تو کل، کرنا ہی ہو گا۔
نوازش
خیر اندیش
شاہد لطیف

Popular posts from this blog