Wazir-e-Railway Zara Idhar Bhi



وزیرِ ریلوے ذرا اِدھر بھی۔۔۔۔۔۔

تحریر شاہد لطیف

شیخ رشید صاحب نے پہلے بھی ریلوے کے وزیر کی حیثیت سے پاکستان ریلوے اور پاکستانی عوام کے لئے قابلِ تعریف کام کیے۔اب پھر ماشاء اللہ وہ اسی عہدے پر فائز ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ وفاقی اور صوبائی وزارتوں اور نظامتوں میں متعلقہ محکمے سے متعلق تمام اخباری خبریں جمع کر کے محکمہ کے ذمہ داروں کی میز پر پہنچا دی جاتی تھیں۔اِن میں تعریف اور تنقیدی دونوں طرح کی خبریں اور رپورٹیں ہوتی تھیں۔ لگتا ہے کہ شیخ صاحب کو سب اچھا ہے والی رپورٹیں ہی مل رہی ہیں!! 
خاکسار اپنے نئے سال کے پہلے ریلوے سفر کے سلسلے میں کچھ معروضات وزیرِ ریلوے کے لئے پیش کرنا چاہتا ہے: کوئی سال بھر پہلے میں نے راولپنڈی اسٹیشن سے کراچی کینٹ کے لئے گرین لائن نامی ریل گاڑی سے سفر کیا تھا۔چمکتے دمکتے بالکل نئے ڈبے تھے ۔ماشاء اللہ بہت پُر لُطف سفر رہا۔گاڑی سوا تین بجے روانہ ہوئی ۔ سب سے پہلے تمام مسافروں کو گرین لائن ٹرین سروس کی جانب سے ایک خوبصورت ڈبہ پیش کیا گیا جس میں سفری ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش، کنگھا، صابن وغیرہ موجود تھا۔پھر ساڑھے پانچ بجے چائے / کافی اور سینڈ وچ پیش کئے گئے۔ پھر منرل پانی کی بڑی بوتل کے ساتھ رات کا کھانا ڈنر بکس میں پیش کیا گیا ۔رات گزارنے کے لئے اُجلے کمبل اور تکیے مسافروں کو پیش کیے گئے۔ 

اِس دوران کم از دو مرتبہ ہر ایک کمپارٹمنٹ میں باوردی اسٹاف آ کر مسافروں سے پوچھتا رہا کہ کوئی پریشانی تو نہیں؟ صبح مناسب ناشتہ مِلا۔یہ سب ٹکٹ کی قیمت میں شامل تھا۔پاکستان ریلوے اور گرین لائن ٹرین انتظامیہ کی مسافروں کی خدمت کی بہترین مثال تھی۔یقیناََ تمام مسافروں نے اپنے اپنے حلقوں میں اس قابلِ تعریف ریل سروس کا خوشی خوشی ذکر کیا ہو گا۔مجھے اِس بات کا بھی پورا یقین ہے کہ اِن میں سے بہتوں نے مذکورہ ٹرین میں سفر کر کے اسی طرح سینکڑوں خوتین و حضرات میں اپنا خوشگوار تجربہ بتلایا ہو گا اور ۔۔۔ یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا ہو گا۔پھر ہوا یوں کہ ریلوے نے اپنی تمام ریل گاڑیوں کے کرایے کم کئے۔پھر ایک روز خبر آئی کہ مذکورہ ٹرین میں مسافروں کو دی جانے والی سہولیات کم کی جا رہی ہیں۔ خاکسار نے 9 جنوری 2019 بروز بدھ گرین لائن ٹرین سے کراچی سے راولپنڈی کا سفر کیا۔ایک وہ سفر تھا اور ایک یہ!! بے زبان ڈبہ اور کمپارٹمنٹ ، بقول شاعر: ’ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے ۔۔۔‘ایک ہی نظر میں بہت کچھ کہہ گئے۔موبائل چارجنگ یونٹ آدھا لٹک کر باہر آ رہا تھا۔پنکھا ، سوئچ آن کرنے کے باوجود ہِل کے نہیں دے رہا تھا۔’ کریں تو کِس سے کریں نا رسا یوں کے گِلے۔۔۔‘۔کافی دیر بعد ایک باوردی شخص کو شکایت کے ازالے کے لئے کہا۔پنکھا تو چلا دیا گیا لیکن راولپنڈی اسٹیشن آ گیااور موبائل چارجنگ کی حا لتِ ز ار ویسی ہی رہی۔بہرحال گرین لائن کے روانہ ہوتے ہی ماضی بعید کے ریل سفر کی یادیں تازہ ہو گئیں ۔مانوس صدائیں آنے لگیں: ’ کھاناگرم۔۔۔‘۔ کچھ دیر بعد ایک باوردی شخص پوچھنے آیا کہ کمبل تکیہ درکار ہے؟ اس کا پوچھنا ہی مشکوک تھا کیوں گزشتہ سفر میں پوچھا نہیں جاتا تھا بلکہ تمام مسافروں کو یہ کمبل تکیہ ٹرین انتظامیہ کی جانب سے فراہم کیا جاتا تھا۔ میں نے اُس شخص سے کہا کہ ہاں مجھے ضرورت ہے۔ اِس کا 100 روپے کرایہ مانگا گیا۔اِس رقم کے عوض ایک میلا کمبل اور ننھا سا تکیہ پیش کیا گیا۔ایسا تکیہ فیصل بس سروس والے اسلام آباد لاہور کی بسوں میں سیٹوں پر رکھتے ہیں۔سفر شروع ہوا تو لاہور تک قیمتاََ سفر کی دعائیں دینے والے، چپس بسکٹ بیچنے والے، آئسکریم والے اور وہ سب سفری سوداگر آتے رہے جو دیگر عوامی ٹرینوں میں ملا کرتے ہیں۔ ہاں ایک بات اچھی ضرور ہے کہ گرین لائن وہ واحد ریل گاڑی ہے جو کراچی سے راولپنڈی 19گھنٹے اور کچھ منٹ میں پہنچتی ہے۔تیز گام بھی 24 گھنٹے سے زیادہ وقت لیتی ہے۔باقی ریل گاڑیاں 27 اور اس سے زیادہ۔

پچھلے دنوں وزیرِ ریلوے کے منسوب ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ مستقبل قریب میں کراچی سے اسلام آباد ایک سُپر لگزری ریل گاڑی چلنے والی ہے ۔اس کا ایک طرفہ کرایہ 10,000/ روپے ہو گا۔ مذکورہ گاڑی میں مسافروں کو ملنے والی سہولیات ایسی ہیں جو اس سے قبل پاکستانیوں نے پاکستان میں کبھی دیکھیں نہ سُنیں ہوں گی!!

شیخ صاحب !! للہ پاکستانیوں کو 5940/ روپے ٹکٹ کے بدلے میں فی الحا ل سال بھر پرانی والی گرین لائن کی سہولیات تو واپس کروا دیں! سُپر لگزری ٹرین بعد میں چلوایئے۔ شاید صوفی غلام مصطفےٰ تبسم نے یہ شعر وزیرِ موصوف ہی کے لئے کہا تھا: ’ یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب، یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو‘ ۔شیخ صاحب !! اللہ اللہ کر کے پاکستان ریلوے کا بھرم قائم ہونا شروع ہوا ہے۔ عوام نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔آپ سے ہم سب کو پاکستان ریلوے کی بہتری کی قوی اُمید ہے۔ سُپر لگزری ٹرین چلانے کا مشورہ بالکل بھی ضروری نہیں۔ پہلے ریلوے کا نظام بہتر تو کیجئے !! کیا کبھی آپ نے ’ ہزارہ ایکسپریس ‘ میں سفر کیا؟ میرا مشورہ ہے کہ آپ بغیر پیشگی اطلاع ، کسی روز پنڈی سے ’ ہزارہ ایکسپریس ‘ میں سفر کیجئے۔جنابِ عالی !! میں نے جس ڈبے میں سفر کیا تھا اُس کی کھڑکیوں کے شیشے پوری طرح سے بند نہیں ہوتے تھے۔ یخ بستہ ہواؤں میں اُترنے چڑھنے کا دروازہ بھی اپنے آپ کھلتا اور بند ہوتا رہا۔ بقول تنویر ؔ نقوی: ’ کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں، ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا بتاؤں‘۔خدا کا نام لیجئے!! اپنے قریبی مشیروں اور احباب کے اُن مشوروں پر کان دھرنا بند کر دیجئے جو آپ کی جگ ہنسائی کا باعث بننے والے ہیں۔ 

یہ سپُر لگزری ٹرین وقت کی قطعاََ ضرورت نہیں۔اِس سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ تمام عوامی گاڑیوں میں نئے ڈبے لگوائیے،دیگر گاڑیوں کے ڈبے بھی جہاں ضروری ہو ٹھیک کروائیں۔ بات گرین لائن ٹرین میں دی جانے والی سہولیات سے شروع ہوئی تھی، اِن کو بحال کیا جائے ۔اگر یہ نا ممکن ہے تو پھر رواں ٹکٹ 5940/ رپے سے کم کر کے مناسب سطح پر لایا جائے۔ آخر میں یہ کہ للہ عوام میں جا کر اُن کی توقعات جا نئیے اور اُن پر پورا اترنے کی کوشش کیجئے۔یقین کیجئے ہم سب آپ کے ساتھ ہوں گے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام 
یہ تحریر 12 جنوری 2019 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی/کوئٹہ  کے صفحہ 11 پر شائع ہونے والے کالم " اُلٹ پھیر " میں شائع ہوئی۔














 

Comments

Popular posts from this blog