Sarkari Mulazmaton Ki Pur-kashish Saholiyaat Bahaal Ki Jayain
سرکاری ملازمتوں کی پُر کشش سہولیات۔۔۔
بحال کی جائیں
تحریر شاہد لطیف
ایک زمانہ تھا کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت کی یہ کوشش ہوا کرتی تھی کہ وہ یا اُن کی اولاد کسی بھی سرکاری محکمے میں ملازم ہو جائے۔سرکاری ملازمت میں تنخواہ تو کوئی ایسی زیادہ نہیں ہوتی تھی البتہ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کا ملنا، بڑے بچے کو اُس کی قابلیت کی مناسبت سے اُسی محکمے میں ملازمت کا ملنا اور اگر باپ سرکاری کواٹر میں رہ رہا ہے تو وہی کواٹر بچے کے نام الاٹ ہو جانا بہت بڑی بات مانی جاتی تھی۔دیکھا جائے تو یہ کوئی ایسی غلط سوچ بھی نہ تھی۔صبر شکر کے ساتھ گزارا ہونا اور سر پر مضبوط چھت کا ہونا بہت بڑی نعمت تھی ۔ اگر دورانِ ملازمت کوئی سرکاری ملازم انتقال کر جاتا تو اُسکے بچے اگر چھوٹے ہوں تواُس کی بیوہ کو ملازمت اور سرکاری کواٹر ملتا تھا۔میرے والد محکمہ ء صحت کراچی ائرپورٹ میں تھے۔ میں نے ایسی کئی ایک مثالیں محکمہء صحت، محکمہ شہری ہوا بازی اور پاکستان کسٹمز میں ہوتے دیکھیں۔ ایک مثال تو ایسی تھی کہ ایک صاحب پاکستان کسٹمز میں دورانِ ملازمت انتقال کر گئے، ان کے بچے چھوٹے تھے لہٰذا بیوہ کو پاکستان کسٹمز میں کراچی ائر پورٹ پر ہی ملازمت ملی اور وہی سرکاری مکان بھی اب ان کے نام الاٹ ہو گیا۔انہوں نے اُس وقت تک ملازمت کی جب تک بچے کسی قابل ہو گئے۔پھر یہ ریٹائر ہو گئیں اور ان کے بیٹے کو ’ سَن کوٹے ‘ میں اپنی قابلیت کی بنیاد پر ملازمت مل گئی۔ یہ چیز ایک عرصہ ہمارے گردوپیش میں نظر آتی رہی۔ اب اُس کی مثالیں کم کم نظر آتی ہیں۔
میرا اُٹھنا بیٹھنا بڑی مدت سے کے ڈی اے، اِس کے ماسٹر پلان ، ٹریفک انجینئیرنگ بیورو، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ( جو آج کل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کہلاتی ہے) ، کے ایم سی کی کچی آبادی کا شعبہ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی میں رہا۔ بعض احباب دنیا فانی سے کوچ کر گئے بعض ریٹائر ہو گئے۔ لوگ پہلے بھی ریٹائر ہوتے تھے اب بھی ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی کم زیادہ اسی تعداد میں ریٹائر ہوں گے۔ لیکن جس تیزی سے 70 ک اور 80 کے عشرے میں ’ سَن کوٹے ‘ کے حوالے سے ملازمین کے بچوں کو ملازمتیں ملا کرتی تھیں وہ اب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
تازہ ترین یہ ہے کہ میری سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے ریٹائر ہونے والے ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔حال احوال پوچھنے پر انہوں نے بتایا : ’’ ’ ایس بی سی اے ‘ میں بائی لاز حکومتِ سندھ والے ہی استعمال ہوتے ہیں۔ سَن کوٹے پر بھرتیوں کی حکومتِ سندھ نے منظوری دے رکھی ہے لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں اس کا نفاذ نہیں ہو رہا ہے۔ میرے بیٹے نے سن کوٹے میں ملازمت کی درخواست دے رکھی ہے جس کو سال ہا سال کا عرصہ گزر گیا۔بچے کے دو انٹرویو بھی ہوئے لیکن ابھی تک چکر ہی لگوائے جا رہے ہیں۔میرے بیٹے اور اس جیسے کئی بچوں کی درخواستوں کی فائلیں اِدھر سے اُدھر اور کبھی فنانس کے شعبے میں بس گھومتی ہی رہتی ہیں۔حکومتِ سندھ نے یہاں کے اُن تمام ملازمین کو اَپ گریڈ کرنے کو کہا تھا جن کی ملازمت کو 10سال یا اس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ سَن کوٹے کی ملازمتیں اور یہ اَپ گریڈیشن ، دونوں باتیں ابھی تک ’ ہوا ‘ میں ہیں۔ یہاں کی یونین بھی یہ مسئلہ لے کر افسرانِ بالا کے پاس گئی ۔ اِس کو بھی جلد مسئلہ کر دینے کا یقین دلا کر چلتا کر دیاگیا ‘‘۔ خاکسار کو ڈر ہے کہ کہیں ایسا ’ بڑوں ‘ کو خوش کرنے کے لئے تو نہیں کیا جا رہا کہ دیکھیں صاحب ہم نے کتنی بچت کر دکھائی!!
سن کوٹے کے ایسے ہی مسائل کے ڈی اے اور کے ایم سی کے ملازمین کے ساتھ بھی درپیش ہیں۔البتہ پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن میں ایک قابلِ تعریف مِثال نظر آئی۔میرے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز کے دوست ،فیاض نبی شعبہ ڈیزائن میں سیٹ ڈیزائنر تھے۔ دورانِ ملازمت اِن کا انتقال ہو گیا۔اِن کی صاحبزادی نے ’ معذورین ‘ کے کوٹہ میں اپنی قابلیت کے لحاظ سے کسی سرکاری نوکری کی درخواست دی۔ بچی کو 2004 میں وزارتِ اطلاعت و نشریات سے خط موصول ہوا کہ دی گئی درخواست پر غور کیا جا رہا ہے۔پھر ایک اور خط سے ان کو پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز انٹرویو دینے کا کہا گیا۔اُس وقت اطہر وقار عظیم صاحب جی ایم تھے۔اِس بچی کو ملازمت مل گئی اور آج کل ماشاء اللہ یہ پی ٹی وی کراچی مرکز کے پروگرام منیجر کی پی اے ہیں۔
بی سی اے ہو، کے ڈی اے ہو یا کے ایم سی، سن کوٹے اور 10 سال سے ملازمت کرنے والوں کو اَپ گریڈ کرنے کے مسئلے پر عوام کو اُٹھتے بیٹھتے یہی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ ہر طرف لوٹ مار ، بد عنوانی اور اقرا پروری کا چلن ہے ۔ حکومت عوام کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں وغیرہ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے عدالتوں، اور حکومتِ سندھ نے اِس کی اجازت دے رکھی ہے۔ رکاوٹ حکومت کی جانب سے نہیں بلکہ خود متعلقہ محکمے کے افسران کی جانب سے ہے۔یہی سائلین کو ایک میز سے دوسری میز، ایک افسر سے دوسرے افسر اور فنانس کے شعبے کے فضول چکر لگوا رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے گویا یہ بے رحم افسران سدا اپنی کرسیوں پر براجمان رہیں گے۔کیا کبھی اِن کو خود ریٹائر نہیں ہونا؟ جو سلوک وہ دوسروں کے ساتھ کر رہے ہیں اگر وہی سلوک اِن کی ریٹائرمنٹ کے بعد اِن سے کیا جائے تو وہ کیسا محسوس کریں گے؟ ا للہ کی دراز رسی کی مہلت کِس نے دیکھی! کیا ایسے افسران نے یہ مِثال نہیں سنی:
’ آج جو کچھ بوئے گا ،کاٹے گا کل۔۔۔ ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 19 جنوری کے روزنامہ نوائے وقت کراچی/کوئٹہ کے صفحہ 11 پر کالم
" اُلٹ پھیر" میں شائع ہوئی۔
Comments