La-zawaal Mosiqar khalil Ahmed





’’ میں نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں کیوں صدا آ رہی ہے چھنن چھنن‘‘
’’ انشاء جی اُٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا‘‘
’’کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو‘‘ 
اور
’’ خدا وندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں‘‘ جیسی دھنوں کے خالق
موسیقار خلیل احمد
( 3 نومبر1936 سے 21 جولائی 1997)

تحریر شاہد لطیف

3 نومبر1936 کو آگرہ شہر میں پیدا ہونے والے خلیل احمد خان یوسف زئی کو زمانہ پاکستانی فلموں اورپاکستان ٹیلی وژن کے نامور موسیقار خلیل احمد کے نام سے جانتا ہے۔اِن کے بعض تذکروں میں پیدائش کی تاریخ 3 مارچ اور شہر گورکھ پور بھی ملتا ہے ۔ ابتدا ہی سے گلوکاری سے رغبت رہی۔طالبِ علمی کے دور میں گیت گانے کے مقابلوں میں میں حصہ لیا اور انعامات بھی حاصل کئے۔انہی تذکروں میں آ گرہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے 1952 میں پاکستان ہجرت کرنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔یہ پاکستان بننے کے بعد ڈھاکہ ، مشرقی پاکستان چلے آئے۔یہیں وہ ریڈیو پاکستان ڈھاکہ کے شعبہء موسیقی سے منسلک ہو ئے ۔روز مرہ بنگلہ زبان اور بنگالی لوک اور روایتی موسیقی بھی سیکھی ۔ پھر وہ کراچی منتقل ہو گئے۔یہاں ایک پٹرولیم کمپنی ’ کالٹیکس ‘ سے وابستگی اختیار کی پھر مالی حالات میں بہتری آنے پر ایک دفعہ پھر سے اپنے اندر کے خلیل احمد کے شوق کو پورا کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان کراچی سے منسلک ہو گئے۔اُس وقت ریڈیو پاکستان کراچی کے شعبہء موسیقی میں پنڈت کے درجے کے موسیقار،پنڈت غلام قادر جو مہدی حسن کے بڑے بھائی تھے اور مہدی ظہیر جیسے ماہرِ موسیقی موجود تھے۔ خاکسار کو مہدی ظہیر صاحب کی جوتیاں سیدھی کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ دونوں نامور موسیقار حمد و نعت، منقبتوں، گیتوں اور غزلوں کی دھنیں بناتے تھے۔مہدی ظہیر صاحب نے اُس وقت کی کمرشل سروس کے مقبول ترین غنایہ اشتہارات Jingles بھی بنائے۔مجھے قوی اُمید ہے کہ خلیل احمد نے ریڈیو پاکستان کراچی میں اِن کو کام کرتے دیکھا ہو گا۔ اس بات کا بھی روشن امکان ہے کہ موسیقار بننے کی خواہش بھی یہیں پیدا ہوئی ہو گی۔ایسا ہونا عین فطری اور منطقی بات ہے۔ 
میں آج، 20 جنوری بروز اتوار موسیقار خلیل احمد سے متعلق مزید معلومات لینے سلامت بھائی سے خاص طور پر ملا۔ اُستاد سلامت حسین، بانسری کے اُستاد ہیں۔انہیں صدارتی تمغہء حسنِ کارکردگی، پی ٹی وی ایوارڈ سمیت کئی ایک ایوارڈ مل چکے ہیں۔سلامت بھائی نے کراچی اور لاہور میں بننے والی فلموں میں پاکستان کے نامور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا ہے۔ ماشاء اللہ بہت اچھی یاد داشت ہے اور معلومات کا خزانہ ہیں۔ سلامت بھائی نے بتایا: ’’ خلیل احمد کی مہدی ظہیر سے بہت گاڑھی چھِنتی تھی ۔ اِن میں موسیقی کا رحجان تھا۔ جب یہ گانا گاتا تو آواز میں بنگالی موسیقی کی مٹھاس محسوس ہوتی ‘‘۔میں نے سوال کیا : ’’ ریڈیو پاکستان کراچی میں کیا کبھی آپ نے محسوس کیا کہ خلیل احمد آگے چل کر فلموں میں موسیقار بن جائیں گے؟‘‘۔اِس کے جواب میں سلامت بھائی نے کہا: ’’ مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ مستقبل قریب میں خلیل احمد کا کیا منصوبہ ہے !! حالاں کہ اکثر میں، لال محمد، مہدی ظہیر، بلند اقبال اور خلیل ریڈیو کی کینٹین میں بیٹھا کرتے تھے۔لال محمد تو اکثر دھنیں بنایا کرتا تھا لیکن میں نے کبھی خلیل احمد کو دھنیں بناتے نہیں دیکھا ‘‘۔ پھر خلیل احمد لاہور چلے گئے۔ آیا اُن کو کسی فلم کی پیشکش ملی تھی؟ اس بات کا سلامت بھائی کو علم نہیں۔البتہ سلامت بھائی جب خود لاہور منتقل ہوئے تو اُس وقت خلیل احمد کی دو فلمیں بطور فلمی موسیقار آ چکی تھیں۔ فلم ’’ آنچل ‘‘ ( 1962 ) اور فلم ’’ دامن ‘‘ ( 1963)۔حمایت ؔ علی شاعر سے سلامت صاحب کا ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے زمانے سے دوستانہ تھا لہٰذا جب تک سلامت بھائی کی فیملی کراچی سے لاہور نہیں آئی اُس وقت تک وہ باری اسٹوڈیو میں حمایتؔ علی صاحب کے دفتر میں قیام پذیر رہے۔ 

سلامت صاحب نے لاہور میں اپنے پہلے فلمی گیت کے بارے میں بتلایا :’’ لاہور میں میرا پہلا فلمی گیت فلم ’’ خاموش رہو ‘‘ ( 1964 ) کے لئے ریکارڈ ہوا۔اِس کے موسیقار خلیل احمد تھے۔گیت نگار حبیب جالبؔ تھے۔ گلوکارہ مالا تھیں‘‘:
میں نے تو پریت نبھائی
سانوریا رے نکلا تو ہرجائی
کہنے لگے : ’’ ایک روز شاہ دین بلڈنگ میں واقع گراموفون کمپنی آف پاکستان میں کام کر کے فارغ ہوا تو ایک وجیہہ قد کاٹھ اور گورے چٹے شخص نے میرا نام لے کر کہا: ’’ سلامت کیا تو نے خلیل احمد کے پیسے دینے ہیں جو اُسی کا ہی کام کرتا ہے؟ ‘‘ ۔ اور ساتھ ہی اپنا تعارف کروایا ۔ یہ مشہور موسیقار خواجہ خورشید انور تھے۔پھر اُس دِن کے بعد وہ مجھ سے ہی فلمی گیتوں میں بانسری بجوایا کرتے تھے۔ عجب اتفاق ہے کہ لاہور میں میرا پہلا فلمی گیت موسیقار خلیل احمد کے لئے تھا اور آخری بھی اُن ہی کی فلم’’ خاندان ‘‘ ( 1980 )کے لئے تسلیمؔ فاضلی کا لکھا یہ گیت تھا جسے نورجہاں نے گایا:
آئے ہو ابھی بیٹھو تو سہی جانے کی باتیں جانے دو
جی بھر کے تمہیں میں د یکھ تو لوں اِن باہوں میں آنے دو

’’ میں نے لاہور میں اپنے قیام کے دوران فِلموں کے ساتھ ساتھ خلیل احمد اور دوسرے موسیقاروں کے ساتھ پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز میں بھی کافی کام کیا‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا : ’’ فلموں کے کامیاب موسیقار مشہور ہونے کے بعد بھی خلیل احمد کے سلوک، مزاج اوربرتاؤ میں کوئی فرق نہیں آیا۔بلا سبب بار بار ریکارڈنگ کو نہیں کہتے تھے۔ میوزیشنوں کے ساتھ بہت میٹھے انداز سے پیش آتے تھے‘‘۔

فلم ’’ لوری ‘‘ ( 1966 ) کے گیتوں کی تخلیق کے بارے میں سلامت بھائی نے بتایا: ’’ حمایتؔ علی شاعر نے گیتوں کے بول پہلے لکھے اور دھنیں بعد میں بنیں۔ایک گیت کی کئی کئی طرزیں بنتی تھیں۔ ڈائرکٹر ایس سلیمان بھی موجود ہوتے۔مہدی حسن کی غزل : ’ خدا وندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں۔۔۔‘ کی بھی کئی ایک استھائیاں بنی تھیں‘‘۔ 

فلمی گیتوں کی صدا بندی کے سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ خلیل احمد تیز کام کرتے تھے۔عام طور پر وہ اچھی خاصی تعداد میں میوزشنوں کے ساتھ ریکارڈنگ کروا تے تھے۔ میوزیشن اور گلوکار سب ایک ساتھ ریہرسل اور ریکارڈنگ کرتے تھے۔اُس زمانے میں ٹریک ریکارڈنگ کا چلن نہیں تھا۔ 

پاکستان ٹیلی وژن لاہور میں خلیل احمد کے کام کے بارے میں اُستاد سلامت حسین کا کہنا ہے: ’’ خلیل احمد نے فلم کے ساتھ ساتھ پھر ٹیلی وژن کا بھی کام کرنا شروع کر دیا۔میں نے بھی ایک سال خلیل اور دوسرے موسیقار وں کے ساتھ لاہور ٹی وی میں کام کیا‘‘۔ 

موسیقار خلیل احمد خوش قسمت تھے کہ اپنی پہلی ہی فلم ’’ آنچل‘‘ ( 1962 ) میں سال کے بہترین موسیقار ( اُردو فلم ) کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔یہ احمد رشدی کی آواز میں حمایتؔ علی شاعر کے گیت ’ کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو۔۔۔‘ پر دیا گیا۔پھر اگلے سال بھی قسمت کی دیوی اِن پر مہربان رہی۔ فلم ’’ دامن ‘‘ ( 1963) میں بھی انہیں سال کے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔یہ بھی حمایتؔ علی شاعر کے گیت ’ نہ چھُڑا سکو گے دامن نہ نظر بچا سکو گے۔۔۔‘ پردیا گیا جس کو نورجہاں نے ریکارڈ کروایا۔ سال 1965 بھی خلیل احمد کے لئے اچھا ثابت ہوا۔اِس سال کے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی انہوں نے حاصل کیا۔یہ علی سفیان آفاقی اور حسن طارق کی مشترکہ فلمسازی میں بننے والی فلم ’’ کنیز‘‘ کے گیت ’ جب رات ڈھلی تم یاد آئے۔۔۔‘اِس گیت کے نغمی نگار بھی حمایتؔ علی شاعر ہی تھے۔ 

جناب علی سفیان آفاقیؔ سے 2010 میں ہونے والی ایک نشست میں موسیقار خلیل احمد کا ذکر چلا۔اِس پر انہوں نے کئی ایک دلچسپ باتیں کیں۔ مثلاََ: ’’ میری خلیل احمد سے اُس وقت سے ملاقات تھی جب اُن کو صرف گلوکاری کا ہی شوق تھا، میٹھی آواز تھی۔اس کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ موسیقار بھی ہیں ۔ فخر سے اپنے اور نورجہاں کے ایک دوگانے کا ذکر کرتے رہتے تھے جو انہوں نے فلم ’’ گلنار ‘‘ ( 1953 ) کے لئے ریکارڈ کروایا تھا‘‘۔وہ گیت قتیلؔ شفائی نے لکھا جس کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی۔ یہ ماسٹر صاحب کی پاکستان میں بحیثیت موسیقار آکری فلم ہے۔اس کے بعد وہ بھارت منتقل ہو گئے۔ بقول آفاقی ؔ صاحب یہ دوگانا خاصامقبول تھا لیکن خلیل احمد نے پھر اس میدان میں طبع آزمائی نہیں کی۔ البتہ موسیقار بن کر نام کمایا۔

آفاقیؔ صاحب نے ایک اور بات بتائی: ’’ خلیل احمد کے ہاں میکلوڈ روڈ پر واقع ایک مکان میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ اس مکان میں فلمی دنیا کے لوگوں کی آمدورفت تھے۔اس مکان کی بہت تاریخی اہمیت تھی۔اوپر جانے والے زینے کے ساتھ ایک چھوٹا سا ’ تھَڑا ‘ تھا۔اسی جگہ پر ایک زمانے میں محمد رفیع بیٹھ کر احباب کو گانا سنایا کرتے تھے۔ گلوکاری کاشوق تھا لیکن گلوکار بننے کا کوئی امکان نہیں تھا‘‘۔ یہ تو موسیقار فیروز نظامی تھے جنہوں نے ان کو بمبئی بلوا یا اور نورجہاں اور سید شوکت حسین رضوی کو کافی بحث مباحثہ کے بعد اس بات پر قائل کیا کہ ایک دفعہ محمد رفیع کو سُن تو لیں۔خیر دل چسپ بات یہ کہ آفاقیؔ صاحب نے بتایا: ’’ ہم لوگ اکثر خلیل کو مذاقاََ کہا کرتے کہ تم بھی نیچے اسی جگہ بیٹھ کر لوگوں کو گاناسناؤ تا کہ محمد رفیع کی طرح گلوکار بن جاؤ !! لیکن خلیل بڑے نخرے والے تھے وہ دوستوں کے علاوہ کسی کی فرمائش پر گانا نہیں سناتے تھے‘‘۔ 

موسیقار خلیل احمد کی پاکستانی فلمی دنیا میں آمد فلم ’’ آنچل ‘‘ ( 1962 )سے ہوئی۔حمایتؔ علی شاعر کا گیت ’ کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو، خدا کرے کسی دل کا قرار بن کے رہو‘ سُپر ہِٹ گیت ثابت ہوا۔گو کہ احمد رشدی فلمی گلو کار کے طور جانے پہچانے تھے لیکن یہ گیت خلیل احمد کے ساتھ احمد رشدی کو بھی مقبول کر گیا۔خلیل احمد نے جس طرح احمد رشدی کی آواز کو استعمال کرایا وہ نہایتقابلِ تعریف بات ہے۔مذکورہ فلم کے تقریباََ تمام گیت ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے تھے مثلاََ:ناہید اور نجمہ نیازی کی آواز میں جناب ناظم ؔ پانی پتی کا گیت ’ چھم چھم چھم ،ملیں ہیں صنم،لُٹ گئے ہم اللہ قسم‘، ’ ہم نے تو محبت میں تم کو بھی خدا جانا۔۔۔‘ غزل حمایتؔ علی شاعر، آواز ناہید نیازی، ’ کھٹی کڑی میں مکھی پڑی ہائے میری امّاں۔۔۔‘ مزاحیہ گیت حمایتؔ علی شاعر، آوازیں احمد رشدی اور آئرین پروین، ’ تجھ کو معلوم نہیں، تجھ کو بھلا کیا معلوم‘ نظم حمایتؔ علی شاعر، یہ نظم ناہید نیازی اور سلیم رضا کی آوازوں میں الگ الگ ریکارڈ ہوئی۔کمال ہے کہ دونوں گیت ایک جیسے ہی مقبول ہوئے۔’ بھولی دلہنیا کا جیا لہرائے۔۔۔‘ گیت حمایت ؔ علی شاعر، آوازیں’ نسیمہ شاہیں اور آئرین پروین۔اس کے بعد فلم ’’ دامن‘‘ ( 1963 ) کی موسیقی بھی خاص و عام نے بہت پسند کی۔مذکورہ فلم میں حمایت ؔ علی شاعر کے لکھے کچھ گیت آج تک مقبول ہیں جیسے: ’ نہ چھُڑا سکو گے دامن نہ نظر بچا سکو گے۔۔۔‘ یہ نورجہاں کی آواز میں خوشی اور غم کا الگ الگ ریکارڈ کیا گیا ۔’ واللہ سر سے پاؤں تلک موجِ نور ہو۔۔۔‘ آواز احمد رشدی۔ پھر فلم ’’ خاموش رہو ‘‘ (1964)نمائش کے لئے پیش ہوئی۔اس کا ایک گیت بے حد مقبول ہوا: ’ میں نے تو پریت نبھائی، سانوریا رے نکلا تو ہرجائی‘۔علی سفیان آفاقیؔ اور حسن طارق کی فلمسازی میں فلم   ’’ کنیز ‘‘ ( 1965)کے گیتوں نے بھی قبولِ عام کا درجہ حاصل کیا: حمایت ؔ علی شاعر کا بچوں کے لئے لکھا گیت ’ ایک تار ا گگو تارا دو تارا گگو تارا۔۔۔‘ آوازیں مالا اور ساتھی۔آغا حشر کاشمیری کی غزل : ’غیر کی باتوں پہ آخر اعتبار آ ہی گیا۔۔۔‘ آواز نسیم بیگم، ’ پیار میں ہم اے جانِ تمنا، جان سے جائیں تو مانو گے۔۔۔‘ گیت حمایتؔ علی شاعر، آوازاحمد رشدی، ’ جب رات ڈھلی تم یاد آئے۔۔۔‘ گیت حمایت ؔ علی شاعر،دوگانا آوازیں مالا اور احمد رشدی۔حمایتؔ علی شاعر اور موسیقار خلیل احمد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران ریلیز ہونے والی فلم ’’ مجاہد‘‘ کے عنوانی جنگی ترانے کو اس جنگ کے دوران جو بے پناہ شہرت حاصل ہوئی وہ قسمت والوں ہی کو ملتی ہے۔یہ گیت ہے: ’ ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن ساتھیو ساتھیو مجاہدو‘ ، آوازیں مسعود رانا، شوکت علی اور ساتھی۔فلمساز حمایتؔ علی شاعر کی سُپرہِٹ گولڈن جوبلی فلم ’’ لوری‘‘ ( 1966)حمایت صاحب اور موسیقارخلیل احمد دونو ں8 کے لئے ایک سنگِ میل ثابت ہوئی۔فلم کے بیشتر گیت عوام میں مقبول ہوئے: ’ اے خدا تو ہی بتا، ظلم کیا میں نے کیا۔۔۔‘ آواز آئرین پروین، ’ چندا کے ہنڈولے میں، اُڑن کھٹولے میں۔۔۔‘ یہ گیت الگ الگ نورجہاں اور ثریا حیدرآبادی کی آوازوں میں صدا بند کیا گیا۔’ ہوا نے چپکے سے کہہ دیا کیا۔۔۔‘ آواز مالا، ’ خدا وندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں، تمنا جو نہ پوری ہو وہ کیوں پلتی ہے سینے میں‘آواز مہدی حسن، ’ میں خوشی سے کیوں نہ گاؤں میرا دل بھی گا رہا ہے۔۔۔‘ آواز مجیب عالم۔ بچوں کے لئے گیت ’ تالی بجے بھئی تالی بجے۔۔۔‘ آواز آئرین پروین اور باتش۔1966 ہی میں پیش ہونے والی فلم ’’ تصویر‘‘ کے بھی کچھ گیت یادگار ہیں جیسے: ’ اے جانِ وفا دل میں تیری یاد رہے گی۔۔۔‘ حمایتؔ علی شاعر کایہ گیت دو دفعہ ریکارڈ کیا گیا۔ایک مہدی حسن اور دوسرے مہدی حسن کے ساتھ مالا کا دوگانا، ’ زندگی کی ہر مسرت آپ کے پہلو میں ہے۔۔۔‘ گیت نگار حمایتؔ علی شاعر ، آواز نورجہاں اور مولانا الطاف حسین حالیؔ کی نعت ’ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا۔۔۔‘ آواز مسعود رانا۔سَن 1966موسیقار خلیل احمد کے لئے اچھا ثابت ہوا اور پاکستانیوں کو بھی اچھے گیت سننے اور دیکھنے کو ملے۔فلم ’’ میرے محبوب‘‘ کی ایک غزل سُپر ہِٹ ہوئی : ’ہر قدم پر نِت نئے سانچے میں ڈَھل جاتے ہیں لوگ، دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ‘ حمایتؔ علی شاعر کی غزل کو موسیقار خلیل احمد نے نورجہاں سے نہایت مہارت کے ساتھ الفاظ اور معنیٰ کو سامنے رکھتے ہوئے ریکارڈ کروایا۔آج بھی اگر اصل گیت سُنا جائے تو ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔فلم ’’ ولی عہد ‘‘(1968)کا ایک گیت خاصا مقبول ہوا۔ اسے حمایتؔ علی شاعر نے لکھا اور آواز رونا لیلیٰ کی تھی: ’ تیری خاطر زمانے بھر کو ہم ٹھکرا کے آئے ہیں۔۔۔‘۔فلم ’’ داستان‘‘( 1969 ) نذیر علی المعروف رتن کمار کی بحیثیت ہیرو آخری فلم تھی۔تمام گیت فیاضؔ ہاشمی نے لکھے: ’ قصہء غم میں تیرا نام نہ آنے دیں گے۔۔۔‘ آواز مہدی حسن۔یہ گیت بے حد مقبول ہوا اور مہدی حسن نجی محفلوں میں یہ سنایا کرتے تھے۔فلم ’’ آج اور کل‘‘(1976) کا(غالباََ) تسلیم ؔ فاضلی ایک گیت بہت پسند کیا گیا: ’ پیار کا وعدہ ایسے نبھائیں۔۔۔‘ آوازیں مہدی حسن اور مہناز۔اسی سال نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ’’ طلاق‘‘ کے کچھ گیت ریڈیو پر بہت سنوائے گئے: ’ تیرے قدموں میں بکھر جانے کو جی چاہتا ہے۔۔۔‘ گیت نگار تسلیمؔ فاضلی،آواز نورجہاں، ’ میری سالگرہ ہے، بولو نا بولو نا بولو نا ۔۔۔‘ گیت تسلیمؔ فاضلی اور آواز بے بی مسرت۔


موسیقار خلیل احمد نے 40 فلموں میں تقریباََ 122گیت تخلیق کیے۔ان میں 2 پنجابی فلمیںبھی شامل ہیں: ’’ ناکہ بندی‘‘ اور ’’ چوراں نوں مور‘‘ ۔انہوں نے سب ہی گلوکاروں کی آوازوں کو استعمال کیا جیسے: نورجہاں، مہدی حسن،مجیب عالم، احمدرشدی، نسیم بیگم،مالا، مسعود رانا، رونا لیلیٰ، ناہید اور نجمہ نیازی، سلیم رضا،نسیمہ شاہین، عشرت جہاں، آئرین پروین،مُنیر حسین،مہناز، اخلاق احمد،ناہید اختر وغیرہ۔ 

خلیل صاحب سے میری دو مرتبہ پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز میں ساتھی پروڈیوسر، آغا ذوالفقار، حفیظ ظاہر کے کمرے میں ملاقاتیں ہوئیں۔ خلیل صاحب بہت کم گو لیکن ہنس مکھ اور خوش اخلاق تھے۔ بات کرتے ہوئے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ہوتی۔وہیں گیت نگار ریاض الرحمن ساغرؔ آ گئے جن کے ساتھ بیٹھ کر خلیل صاحب نے میرے سامنے دھن بنائی۔افسوس کہ اُس گیت کے بول یاد نہیں۔ فلموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے ٹیلی وژن کے لئے بھی کئی یادگار اور سدا بہار گیت بنائے جیسے: تسلیمؔ فاضلی کا گیت ’ میں نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں ، کیوں صدا آ رہی ہے چھنن چھنن۔۔۔‘ اسے فریدہ خانم نے ریکارڈ کروایا۔یہ فریدہ خانم کے امر گیتوں میں شامل ہے۔اسی طرح میرے موسیقی کے استاد، عدنان الحق حقی کے والد جناب شان الحق حقی کی غزل ’ تم سے اُلفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے، ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے‘ کی دھن ہے۔اسے ناہید اختر نے ریکارڈ کروایا۔پھر ابنِ انشاء کا مشہورِ زمانہ گیت جسے اُستاد امانت علی خان نے صدا بند کروایا: ’ انشاء جی اُٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کا لگانا کیا۔۔۔‘ ،یہ 1978 میں پی ٹی وی سے نشر ہوا۔ مسرورؔ انور کا لکھا نغمہ ’ وطن کی مٹی گواہ رہنا۔۔۔‘ آواز نیرہ نور۔مسعود رانا کی آواز میں ملی نغمہ ’ ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح‘۔ وغیرہ بھی خلیل صاحب کی اعلیٰ تخلیق کے نمونے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک عرصہ موسیقار خلیل احمد نے پاکستان ٹیلی وژن لاہور سے بچوں کا پروگرام ’ ہم کلیاں ہم تارے ‘ اور ’ آنگن آنگن تارے‘ کی میزبانی کی۔ بہرحال موسیقار خلیل احمد کے فلم اور ٹیلی وژن کے گیت لا زوال ہیں۔خلیل احمد گو ہم میں نہیں لیکن ان کے بنائے ہوئے ملی اور جنگی نغموں سے اُن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر روزنامہ نوائے وقت کراچی/کوئٹہ کی 22 جنوری کی اشاعت کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔









 

Comments

Popular posts from this blog