Karachi Kay Transport Masail ..... Kahan Hain Awaam Kay Numainday?
کراچی کے ٹرانسپورٹ مسائل ۔۔۔ کہاں ہیں عوام کے نمائندے؟
تحریر شاہد لطیف
کراچی کے مسائل کیا ہیں؟ کیا اربا بِ اختیار وہ جانتے بھی ہیں؟ آیا کبھی نام نہاد عوامی نمائندوں نے اِن کی نشاندہی اور حل کے لئے کوئی ترجیحی فہرست بنائی ؟ یہ اور ایسے ہی ملتے جُلتے سوالات میں نے اپنے احباب اور پھر کراچی کی بڑی بسوں ، منی بس اور 6 سیٹر مسافر رکشوں میں سفر کے دوران ساتھی مسافروں سے پوچھے۔ سب سے پہلے میں X10 کی مِنی بس سے 20 روپے دے کرڈیفنس شاہباز کمرشل سے صدر گیا۔وہاں سے بڑی بس 4Lمیں25 روپے دے کر العاصف اسکوئر ۔ وہاں سے پیدل جامعہ مسجد بلال کے قریب ہمارے شہر کے صدارتی تمغہ ء حسنِ کارکردگی والے بانسری کے اُستاد سلامت حسین صاحب کی رہائش ہے۔اُن سے ملاقات کی وہاں بھی یہی سوالات زیرِ بحث آئے۔موضوع سے ہٹ کر ایک قابلِ تعریف چیز کا ذکر کرتا چلوں۔واپسی پر مسجد کی حدود ہی میں ایک خاصا بڑا عوامی واش روم نظر آیا۔میں نے یہ استعمال بھی کیا۔اس کی حالت اور صفائی ستھرائی مناسب تھی۔ واضح ہو کہ اس کے ساتھ ہی مارکیٹ بھی ہے۔دُکان داروں اور خریداروں کے لئے یہ مستحسن عوامی خدمت ہے۔بہرحال یہاں سے 200 روپے میں رِکشے میں سخی حسن آیا۔وہاں محترم ڈاکٹر اقبال اختر زبیری(م) کے ہاں کچھ دیر بیٹھا اور باتوں کے علاوہ ان خطوط پر بھی بات ہوئی۔ یہاں سے پیدل شادمان 2 نمبر اسٹاپ آیا۔ایک صاحبِ قلم اور صحافی سے ملاقات کی۔اس موضوع پر بھی بات ہوئی ۔ واپسی کے لئے مین روڈ پر خاصا انتظار کیا۔یہاں سیون ڈے ( صدر ) جانے کی بڑی بس یا منی بس محض دو عدد ہی آئیں جن میں بہت زیادہ رش تھا۔ ہاں!! البتہ 6 سیٹر رکشے ہی بظاہر واحدذریعہ ء آمد و رفت نظر آئے۔ میں اِن پر تو نہیں لیکن دوسرے عام رکشہ پر 200 روپے میں نیرنگ سینما لالو کھیت آیا۔رکشے والے سے بھی مختلف موضوعات اور اِس مسئلے پر بھی گفتگو ہوئی۔نیرنگ سینما سے کسی بڑی بس میں 20 روپے دے کر ایمپریس مارکیٹ صدر آیا۔صدر سے X10 سے 20 روپے میں واپس شاہباز کمرشل پہنچا۔
اگلے روز پھر صبح 10:00 بجے صدر ایمپریس مارکیٹ آیا۔یہاں سے 6 سیٹر مسافر رکشے میں 30 روپے دے کر نیپا پہنچا۔یہاں کچھ پیدل چل کر ایک اور 6 سیٹر میں 20 روپے میں جوہر موڑ آیا۔ یہاں انسٹیٹیوٹ آف کلینیکل سائکولوجی کی انتظامیہ میں خاکسار کے پرانے ساتھی شکیل احمد سے ملاقات ہوئی۔ اِن سے اِس موضوع پر خاصی لمبی چوڑی بات ہوئی جس میں وہاں کے ایک اور صاحب بھی شریک ہوئے۔ انسٹیٹیوٹ کے سامنے سے G10 مِنی بس میں ڈاکخانہ لالو کھیت 20 روپے میں پہنچا۔ یہاں سے پیدل سندھی ہوٹل آیا جہاں کراچی کے ایک نامور بین الاقوامی شہرت یافتہ وائلن نواز سعید احمد سے ملاقات کی۔کچھ دیر بیٹھک بھی رہی۔ پھر پیدل ڈاکخانے آیا۔یہاں سے 20 روپے میں جامع کلاتھ مارکیٹ بندر روڈ آیا۔چونکہ رات خاصی ہو چکی تھی لہٰذ ا رکشے میں شاہباز کمرشل واپسی ہوئی۔
ان دو دنوں میں گھوم پھر کر کراچی کی خاموش اکثریت کو قریب سے دیکھنے اور بات چیت کے مواقع ملے۔کچھ ناقابلِ یقین کرایوں کا ذکر کرتا ہوں۔ چھ سیٹر مسافر رکشے کورنگی سے سُرجانی کے 80 روپے فی مسافر لے رہے ہیں۔ کورنگی سے گلشن کے فی مسافر 50روپے۔یہ کہانی ایک آدھ ہفتے کی نہیں ۔ یہ تقریباََ پانچ سال سے ہو رہا ہے۔آپ خود اندازہ لگائیے کہ ایک مسافر کے 80 یا 50 روپے ہوں توپانچ چھ افراد پر مشتمل فیملی کے 960 یا 600 روپے محض آنے جانے ہی کے لگ جائیں گے۔کیا یہ کھُلم کھُلا ظلم نہیں؟ پہلے بڑی بسوں کو بتدریج کم کر دیا گیا اور اِن کی جگہ مِنی بسیں آ گئیں۔اِن کے بعد چنگچی رکشوں کو متعارف کرایا گیا۔اب یہ چھ سیٹر مسافر رکشہ ۔۔۔ کیا یہ سب اتفاق ہے یا کسی منظم منصوبہ بندی کا حصہ؟ شکیل احمد نے کیا خوبصورت بات کہی۔ وہ کہتے ہیں: ’’ ایسا لگتا ہے کہ کراچی کی عوام ’ بے حِس ‘ ہو چکی ہے‘‘۔بات کوئی ایسی غلط بھی نہیں کہی۔ کہیں سے اس ظلم کے خلاف کوئی آواز سُنائی نہیں دیتی۔
اِن دو دنوں میں خاکسار کی جِن جِن خواتین و حضرات سے عوام کے آمد و رفت کے مسائل پر بات ہوئی اکثریت نے یہی کہا کہ اِس صورتِ حال کے ذمہ دار نام نہاد عوامی نمائندے ہیں۔بعض افراد تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اِن کو عوامی نمائندے کہنا عوام کی توہین ہے۔یہ بھلا کیسے عوام کے نمائندے ہیں جو کبھی عوام میں آتے ہی نہیں۔بھلا عوام کے مسائل یہ کیا جانیں!! کیا کبھی اِن میں کسی ایک کو بھی بڑی بسوں، مِنی بسوں، چھ سیٹر مسافر رکشوں میں سفر کرتے دیکھا گیا؟۔کیا کبھی اِن نمائند وں نے عوامی سطح پر عوام کے مسائل جاننے کی کوئی کوشش کی؟
لیاری ایکسپریس وے بنا تو دی گئی لیکن صرف خواص کے لئے۔یہاں عوامی ٹرانسپورٹ ، جیسے بس، منی بس اور رکشہ کا آنا ممنوع ہے۔ البتہ کار میں30 روپے ٹول ٹیکس دے کر پندرہ سے بیس منٹ میں آپ سہراب گوٹھ سے ماڑی پور پہنچ سکتے ہیں۔عام آدمی جس کا ذریعہ آمدو رفت صرف بس ہے کیا بس کا سفر بھی اُس کی دسترس سے اب دور کیا جا رہا ہے؟ نام نہاد عوامی نمائندے اور ٹی وی ٹاک شو میں بحث کرنے والے کراچی کے ٹریفک میں بڑھتی ہوئی موٹر سائیکلوں کا تو ذکر کرتے ہیں لیکن ایک بہت بڑی خاموش اکثریت جس کے پاس سائیکل بھی نہیں اُس کی کوئی بات نہیں کرتا۔ اِس بھاری اکثریت کا ایک بہت بڑا مسئلہ پبلک ٹرانسپورٹ ہے۔یہ لوگ انسان ہیں اور شعور رکھتے ہیں۔فی الحال یہ کچھ نہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں لیکن کراچی کے نام نہاد عوامی نمائندے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب ظلم کی انتہا ہو جاتی ہے تو اُس کے بعد کیا ہوتا ہے۔۔۔
یہ گرین لائن بس منصوبہ ’ اگر ‘ کبھی بن بھی گیا تو کیا پور ے کراچی کے ٹرانسپورٹ مسائل حل ہو جائیں گے؟ کورنگی، لانڈھی ملیر، سعود آباد، بھینس کالونی، قائدآباد، پپری، اسٹیل ملز، بِن قاسم، محمودآباد، اختر اور منظور کالونی ، کورنگی انڈسٹریل اور شیر شاہ سائٹ ایریا، نیو کراچی،نارتھ اور ناظم آباد، نارتھ کراچی، بفر زون، گولی مار، ڈرگ روڈ، شاہ فیصل کالونی،سولجر بازار، لیاری، صفورا گوٹھ، جام کنڈہ گوٹھ، ابراہیم حیدری، کیماڑی اور بہت سے علاقوں میں روزانہ آنے جانے والے بے چارے کِس کِس طرح سے سفر کرتے ہیں کیا کبھی اِن ’’ عوامی نمائندوں ‘‘ نے جاننے کی کوئی کوشش کی؟
اب جب کہ کراچی سرکلر ریلوے کے پرانے گڑے مُردے زندہ کیے جا رہے ہیں کتنا ہی اچھا ہوتا کہ عوام کی صحیح نمائندگی کرتے ہوئے پورے کراچی میں ٹرین سے سستاترین سفر ممکن بنایئے جانے کا قابلِ عمل منصوبہ بنایا جاتا۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا میں بڑے شہروں میں آمدو رفت کے لئے ٹرین سے زیادہ سستا کوئی اور ذریعہ نہیں ۔ کراچی میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ بالکل ہو سکتا ہے!! جہاں غیر یقینی میں رہتے ہوئے اتنا عرصہ ہو گیا وہاں عوام ایسے منصوبوں کے لئے صبر و شکر کے ساتھ کچھ اور انتظار بھی کر سکتی ہے۔مگر کوئی عوام دوست عوامی نمائندہ بھی تو ہو؟ کراچی کے عوام بھی انشاء اللہ وقار سے سستا ترین سفر کریں گے۔یہ کسی مجذوب کا خواب نہیں۔ایسا عین ممکن ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
Comments