پاکستانی فلمی دنیاکے نامور موسیقار اے حمید PDF فارمیٹ میں





" ہم بھول گئے رے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے"

 "نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے "

" رحم کرو یا شاہِ دو عالم صلی اللہ الیہ وسلم "

" چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے، حال میرے دل کا تمام لکھ دے "
" کیا ہوا دل پہ ستم تم نہ سمجھو گے بلم "
" اے دنیا کیا تجھ سے کہیں جا چھیڑ نہ ہم دیوانوں کو "
" اِس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے، یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے "
جیسی دھنیں بنانے والے
پاکستانی فلمی دنیاکے نامور موسیقار اے حمید
( 1933 سے 20 مئی 1991)

تحریر شاہد لطیف

سَن 1933 میں ’ دَیو سماج ‘کالج امرتسر کے موسیقی کے پنڈِت، پروفیسرشیخ محمد مُنیر کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ نومولود کے چچا ایم اسلم بھی بمبئی میں اُس وقت جانے پہچانے اداکار تھے۔بچے کا نام شیخ عبدالحمید رکھا گیا۔ ابتدا ہی سے اس بچے نے موسیقی میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ !! خودبچے کے والدموسیقی کے پنڈت، پروفیسرشیخ محمد مُنیرکو بھی موسیقی سے حد درجہ شوق تھا۔موصوف نے غیر منقسم ہندوستان میں 2 فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی: ’’ آخری غلطی ‘‘ اور ’’ اندر راج‘‘ ۔اِن کے پاس موسیقی پر بہت سی نایاب کتابوں کا خزانہ موجود تھا ۔ وہ جو محاورہ ہے ’’ ہونہار بروا کے چِکنے چِکنے پات ‘‘ اِس بچے پر صاد ر آیا۔یہ بچہ تھوڑا بڑا ہواتو اُس کے جوہر چچا پر بھی کھُلے۔چچا چونکہ بمبئی میں اثر و رسوخ والے تھے لہٰذا انہوں نے مناسب وقت پر اپنے ہونہاربھتیجے کو بمبئی بلوا لیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد ’ فلم انسٹی ٹیوٹ پونا ‘ میں داخلہ دلوا دیا۔شیخ عبدالحمید کے اساتذہ میں نامور فلمی موسیقار ’ سی رام چندرا ‘( 1918 سے1982 ) اور اُستاد محمد علی شامِل تھے۔سی رام چندرا کی موسیقی اُس دور میں بہت پسند کی جاتی تھی۔یہ جاتے زمانے اور آتے زمانے کا ایک حسین امتزاج تھی۔اِن کی دھنوں میں اِن دونوں زمانے کی موسیقی بہت واضح محسوس ہوتی ہے۔ سی رام چندرا غیر محسوس طریقے سے پیانو بکثرت استعمال کرتے تھے۔نوجوان عبدالحمید پونا سے بہت ذوق و شوق سے موسیقی کے اسباق حاصل کر کے آئے تھے۔کتابی علم کے ساتھ اب پیانو کے استعمال کا وقت آ گیا۔ یہاں اُن کی پیانو بجانے میں مہارت کام آئی ۔ یوں بمبئی میں پیانو میوزیشن کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ موسیقار ماسٹر غلام حیدر کے معاون کے طور پر بھی کام کیا۔ماسٹر غلام حیدر 1953 کے لگ بھگ لاہور سے بمبئی منتقل ہوئے تھے۔ اِن کے ساتھ کام کرنے پر سیانوں کے کان کھڑے ہو گئے کہ یہ نوجوان ’ پیانسٹ ‘ مستقبل کا ایک اچھا موسیقار بننے والا ہے۔ واضح ہو کہ بمبئی میں ہر زمانے میں کسی نئے میوزشن کو جگہ بنانے میں سخت محنت اور ایک عرصہ لگتا ہے لیکن عبدالحمید نے جلد ہی پیانِسٹ کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کروا لی۔ بمبئی کے میوزشنوں اور فلمی موسیقی کے کرتے دھرتوں میں یہ اے حمید پیانِسٹ کے نام سے مشہور ہو گئے۔

پچھلے دنوں میری ایک نشست بانسری کے اُستاد سلامت حسین سے ہوئی۔موسیقار اے حمید کا ذکر چل نکلا تو میں نے اِن کے پیانو بجانے سے متعلق پوچھا۔انہوں نے جواب دیا: ’’ بیشک یہ بہترین پیانِسٹ تھے۔موسیقار خواجہ خورشید انور کے مشہور طربیہ گیت ’’ مہکی فضائیں گاتی ہوائیں،مہکے نظارے سارے کے سارے تیرے لئے ہیں‘ میں اِن ہی کا بجایا ہوا پیانو ہے‘‘۔ یہ گیت سُپر ہِٹ فلم ’’ کوئل‘‘ ( 1959 ) کا ہے جسے تنویرؔ نقوی نے لکھا اور نورجہاں نے ریکارڈ کروایا تھا۔یہ بعد میں بہت سے کی بورڈ پلیئروں ،  جیسے روبن جون، اظہر حسین،نزار لالانی، روح الدین خان المعروف رَونی وغیرہ نےلایؤ یا بعد کے آنے والے گلوکاروں کی آوازوں میں ری ریکارڈ کروایا۔  اصل گیت میں موسیقار اے حمید کا بجایاہوا پیانو ہر زمانے کے سیکھنے والوں کے لئے سدا بہار سبق ہے۔گیت کے ماحول اور بولوں کے امتزاج سے خواجہ خورشید انور نے پیانو کے جو پیس، فلاش، باریں اور انٹرول میوزک بنایا اُس کو خواجہ صاحب کی سوچ کے قریب ترین رہ کر بجانا اے حمید ہی کا خاصا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں سلامت بھائی نے کہا: ’’ یہ جلد گھُلنے مَلنے والے نہیں تھے لیکن خوش اخلاق اور خوش مزاج تھے۔میں اور دوسرے میوزیشن اکثر ریہرسل اور ریکارڈنگ کے بعد اے حمید سے کہتے کہ اب آپ یہ پورا گیت پیانو پر بجائیے۔وہ مسکرا کر جب بجاتے تو کیا میوزیشن اور کیا دیگر اسٹوڈیو ہنرمند سب ہی محظوظ ہوتے۔ ماشاء اللہ کیا انگلیاں تھیں!! واقعی کسی پیانِسٹ والی انگلیاں!! ‘‘۔

موسیقار اے حمید نے تقریباََ 70 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔انہوں نے 2 پنجابی فلمیں بھی کیں : فلم ’’ پنوں دی سسی ( 1972) اور فلم ’’ سوہنی ماہیوال‘‘ (1976)۔پاکستان میں اے حمید کی کچھ یادگار فلمیں: فلمساز و ہدایتکار جعفر شاہ بخاری کی فلم ’’ انجام‘‘ ( 1957) اے حمید کی بطورموسیقار اولین فلم ہے۔اِس فلم کی گیتوں کی تفصیل تو ملتی ہے لیکن کوئی گیت دستیاب نہ ہو سکا۔ مذکورہ فلم میں7گیت تھے۔اِن میں 3مشیرؔ کاظمی، 2 ساغرؔ صدیقی، 1 سِکندر بہزاد طالب اور 1 سیف الدین سیفؔ نے لکھا۔ گلوکاروں میں کوثر پروین، پُکھراج پپو اور زبیدہ خانم شامل تھے۔فلم ’’ بھروسہ ‘‘ (1958) اور فلم ’’ فیصلہ ‘‘ (1959) یہ ابتدائی فلمیں ہیں لیکن ان کے گیت صحیح معنوں میں قبولِ عام حاصل نہ کر سکے۔ کراچی کی بنی ہوئی سلور جوبلی فلم ’’ رات کے راہی‘‘ ( 1960) وہ فلم ہے جِس نے اے حمید کی قسمت کا دروازہ کھولا۔اِس فلم کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اداکار ابراہیم نفیس کی یہ پہلی فلم ہے۔مذکورہ فلم کے ہدایتکار اقبال یوسف اور فلمساز نور الدین کیسیٹ کے اشتراک میں اقبال یوسف خود تھے۔تمام گیت فیاضؔ ہاشمی نے لکھے اور عکاس ریاض بخاری تھے۔


سُپر ہِٹ سدا بہار گیت: ’ کیا ہوا دل پہ ستم تم نہ سمجھو گے بلم ۔۔۔ ‘ آواز زبیدہ خانم۔ اِس گیت کے بارے میں پاکستانی فلمی صنعت اور پاکستان ٹیلی وژن کے نامور بانسری کے اُستاد سلامت حسین صاحب نے مجھ کو بتا یا : ’’ ۔۔۔ لاہور سے موسیقار اے حمید کراچی میں اقبال یوسف کی فلم ’’ رات کے راہی ‘‘ کے گانے ریکارڈ کرنے آئے ہوئے تھے ۔اُنہوں نے مجھے بلوا کر زبیدہ خانم کی آواز میں فیاض ہاشمی کا یہ سُپر ہٹ گیت ریکارڈ کرایا :
کیا ہو ا دِل پہ سِتم تُم نہ سمجھو گے بلم
بے وفا نہیں ہیں ہم ، اِس محبت کی قسم 
’’ اس گیت میں میری بجائی ہوئی بانسری ہے‘‘۔



اسی فلم کا ایک اورگیت بھی ریڈیو پر سُپر ہِٹ تھا: ’ اے بادلوں کے راہی، کس کا پیغام آیا۔۔۔‘ آواز زبیدہ خانم، گولڈن جوبلی فلم ’’ سہیلی ‘‘ (1960): ’ہم بھول گئے رے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے، کیا کیا ہوا دل کے ساتھ مگر تیرا پیار نہیں بھولے‘ گیت نگار فیاضؔ ہاشمی، آواز نسیم بیگم۔یہاں ایک بات کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ہماری ’’ سہیلی ‘‘ کی ریلیز کے 29 سال بعد بھارتی فلمساز و ہدایتکار ساون کمار نے فلم ’’ سوتن کی بیٹی‘‘ 27 جون 1989 کو نمائش کے لئے پیش کی۔ اِس فلم میں لتا منگیشکر کا ایک گیت ’ ہم بھول گئے رے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے‘ فیاضؔ ہاشمی کے گیت پر بنایا اور فلمایا گیا ہے۔ ساون کمار ہی نے یہ گیت لکھا ہے۔ موصوف نامور بھارتی خاتون موسیقار اوشا کھنہ کے شوہر بھی رہے بعد میں ان میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ بھارتی گیت میں استھائی کے بول اور دھن ہماری والی ہی رکھی گئی ہے البتہ موسیقار ’ وَید پَال ‘ نے انترا اور سنچائی بدل دی ۔
بہر حا ل ذکر ہو رہا ہے پاکستانی فلم ’’ سہیلی ‘‘ کا۔اِس کے اور گیت بھی مقبولِ عام ہوئے ۔ جیسے: ’ کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا۔۔۔‘ گیت فیاضؔ ہاشمی، آوازیں سلیم رضا اور نسیم بیگم، ’ مُکھڑے پہ سہرا ڈالے آ جاؤ آنے والے، چاند سی بنو میری تیرے حوالے‘ گیت فیاضؔ ہاشمی ، آوازیں نسیم بیگم اور ساتھی، ’ ہم نے جو پھول چُنے دل میں چُبھے جاتے ہیں۔۔۔‘ غزل فیا ض ؔ ہاشمی ، آواز نسیم بیگم، گولڈن جوبلی فلم ’’ اولاد ‘‘ (1962) : ’ نام لے لے کے تیرا ہم تو جیے جائیں گے، لوگ یوں ہی ہمیں بدنام کیے جائیں گے‘، گیت فیاضؔ ہاشمی ، آواز نسیم بیگم، ’ لا الہ الا اللہ حق لا الہ الا اللہ، فرما دیا کملی والے نے۔۔۔‘ قوالی کے انداز کا گیت فیاضؔ ہاشمی، آوازیں، سلیم رضا، مُنیر حسین اور سائیں اختر حسین اور ہم نوا، ’ تم ملے پیار ملا، اب کوئی ارمان نہیں۔۔۔‘ گیت فیاضؔ ہاشمی، آوازیں منیر حسین اور نسیم بیگم، ’ تُم قوم کی ماں ہو سوچو ذرا، عورت سے ہمیں یہ کہنا ہے۔۔۔‘ گیت فیاضؔ ہاشمی ، آواز نسیم بیگم، گولڈن جوبلی فلم ’’ توبہ ‘‘ (1964): تمام گیت فیاضؔ ہاشمی نے لکھے۔’ نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے ، ٹھکانا ہی نہ تھا کوئی ہمارا ہم کہاں جاتے‘ قوالی کا انداز ، آوازیں، منیر حسین، سلیم رضا، سائیں اختر حسین اور ہم نوا، ’ او رے صنم دل یہ کیسے پُکارے، پیار میں بیری ہو گئے اپنے پرائے‘، آواز نورجہاں، سلور جوبلی فلم ’’ آشیانہ‘‘ ( 1964 ) تمام گیت فیاضؔ ہاشمی نے لکھے: ’ بڑے سنگدل ہو بڑے نا سمجھ ہو، تمہیں پیار کرنا سکھانا پڑے گا‘ آوازیں احمد رشدی اور مالا، ’ دیکھا جو اُنہیں دل نے چپکے سے کہا ہائے، اس بات کا ڈر ہے یارو کہیں پیار نہ ہو جائے‘، آوازیں احمد رشدی اور مالا، ’ جا رے بیدردی تو نے کہیں کا ہمیں نہ چھوڑا، جس دل میں تو ہی تو تھا اُس دل کو تو نے توڑا‘ آواز مالا، ’ جو دل کو توڑتے ہیں اُن کا بھی جواب نہیں۔۔۔‘ آواز منیر حسین، کامیاب فلم ’’ پیغام ‘‘ ( 1964)۔تمام گیت فیاضؔ ہاشمی: ’ تیری خاطر جل رہے ہیں کب سے پروانے ، پیار کیا ہے کیا بتائیں تجھ کو دیوانے ‘ آواز نورجہاں، ’ وفاؤں کی ہم کو سزا تو نہ دو گے، بس اتنا بتا دو دغا تو نہ دو گے‘ آوازیں مالا نسیم بیگم اور ہم نوا، ’ سلور جوبلی فلم ’’ شبنم ‘‘ (1965) تمام گیت فیاض ؔ ہاشمی: ’ چُن لیا میں نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا، پیار نہ کرنا یہ دل کہتا رہا کہنے دیا‘ آواز نورجہاں، سلور جوبلی فلم ’’ عید مُبارک‘‘ ( (1965: تمام گیت فیاضؔ ہاشمی: ’ رحم کرو یا شاہِ دو عالم صلی اللہ الیہ وسلم، نظرِ کرم یا نورِ مجسّم صلی اللہ الیہ وسلم‘ نمایاں آوازیں مالا، نذیر بیگم اور ہم نوا۔یہ نعت ریڈیو پر بہت مقبول تھی اور آج بھی رمضان اور ربیع الاول میں ریڈیو پاکستان اور ایف ایم اسٹیشنوں پر سنوائی جاتی ہے۔فلم ’’ میں وہ نہیں ‘‘ (1967) ’ نوازش کرم شکریہ مہربانی، مجھے بخش دی آپ نے زندگانی‘ گیت نگار حمایتؔ علی شاعر، آواز مہدی حسن، سلور جوبلی فلم ’’ سہاگن‘‘ (1967) ’ اے دنیا کیا تجھ سے کہیں جا چھیڑ نہ ہم دیوانوں کو، پگھلی ہوئی اس آگ میں جل کر مرنے دے پروانوں کو‘ گیت فیاضؔ ہاشمی، آواز مہدی حسن،گولڈن جوبلی فلم ’’ بہن بھائی‘‘ (1968): ’ ہیلو ہیلو مسٹر عبد الغنی۔۔۔‘ مزاحیہ گیت سیف الدین سیفؔ ، آوازیں آئرین پروین اور احمد رشدی، ’کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا ،میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا‘ گیت (غالباََ) فیاضؔ ہاشمی ، آواز احمد رُشدی، فلم ’’ شریکِ حیات‘‘ (1968): ’ بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی، جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی‘ غزل بہادر شاہ ظفرؔ ، آواز مہدی حسن، ’ کسے آواز دوں تیرے سوا ڈھونڈ رہا ہے تجھے پیار میرا ‘ گیت نگار فیاضؔ ہاشمی، آواز مالا، ’ تیرے لئے او جانِ جاں لاکھوں ستم اُٹھائیں گے، یوں ہی سہیں گے درد و غم زخمِ جگر چھپائیں گے‘ غزل فیاضؔ ہاشمی، آواز نورجہاں، سلور جوبلی فلم ’’ بہو رانی‘‘ (1969): ’ تقدیر کی گردش پہ نہ رو اے میرے محبوب، رونے سے بدلتے نہیں حالات کسی کے ‘۔

70 کی دہائی موسیقار اے حمید کے لئے تازگی کا باعث بنی۔ڈائمنڈ جوبلی فلم ’’ دوستی ‘‘ (1971 ) : ’ آ رے آ رے دل کے سہارے، دل کی ہر دھڑکن تجھ کو پُکارے‘ گیت نگار کلیم ؔ عثمانی، آواز یں نورجہاں اورمجیب عالم ، ’ بس گیا تو سوتنیا کے دوار سجنا، کہاں ہے تیرا پیار سجنا‘ گیت قتیلؔ شفائی، آواز نورجہاں، ’ چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے، حال میرے دل کا تمام لکھ دے‘ گیت نگار تنویرؔ نقوی، آواز نورجہاں، ’ روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چلی آئی‘گیت کلیمؔ عثمانی، آواز نورجہاں، ’ یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں پوچھتی ہیں کب بنے گی تو دلہن، میں کہوں جب آئیں گے میرے سجن ۔۔۔‘ گیت قتیلؔ شفائی، آواز نورجہاں، فلم ’’ غرناطہ‘‘ (1971) ’ کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا، کیوں تم کو دیکھتے ہی دل کھو گیا ہمارا‘ گیت تنویرؔ نقوی، آواز نورجہاں، ’ میں ہوں یہاں تو ہے وہاں ، ہیں درمیاں یہ فاصلے یہ دوریاں‘ گیت تنویر ؔ نقوی، آواز مہدی حسن ، پنجابی فلم ’’ پُنوں دی سسّی‘‘ ( 1972) ’ اُٹھ جاگ نی سسّیے، سُتی ایں، تیر ا لُٹیا ای شہر بھنمبھور۔۔۔‘ گیت احمدؔ راہی، آواز مسعود رانا، ’ تیرے ملنے دی آس لَے کے میں ٹُر پےئی۔۔۔‘ آوازیں رونا لیلیٰ اور مسعود رانا، فلم ’’ خواب اور زندگی‘‘ ( 1973) ’ میرا کچھ حق تو نہیں ہے تیرے جلووں پہ مگر، میں تجھے جانِ وفا پیار تو کر سکتا ہوں‘ گیت قتیلؔ شفائی، آواز مہدی حسن، فلم ’’ زخمی‘‘ ( 1973) کا ایک گیت، میرے مطابق موسیقار اے حمیدکے خوبصورت ترین گیتوں میں سے ایک ہے: ’ اِس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے، یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے‘، گیت نگار حبیب جالبؔ ، آواز مہدی حسن، سلور جوبلی فلم ’’ سماج ‘‘ ( 1974) ’ چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں دنیا کے رسم و رواج چھوڑ دیں۔۔۔‘، آوازیں مہدی حسن اور مالا، ’ فلم ’’ جواب دو‘‘ ( 1974) ’ زندگی جا چھوڑ دے پیچھا میرا، آخر میں انسان ہوں پتھر تو نہیں‘ گیت تنویرؔ نقوی، آواز نورجہاں، فلم ’’ ثریا بھوپالی‘‘ ( 1976 ): تمام گیت سیف الدین سیفؔ : ’ جس طرف آنکھ اُٹھاؤں تیری تصویراں ہے، نہیں معلوم یہ خواباں ہیں کہ تعبیراں ہیں‘ آواز ناہید اختر، قوالی کی طرز کا گیت ’ تھا یقین کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی۔۔۔‘ آواز ناہید اختر، فلم ’’ ماضی حال مستقبل ‘‘ ( 1978) ’ زندگی تو نے ہرقدم پہ مجھے ایک سپنا نیا دکھایا ہے۔۔۔‘ آواز غلام عباس، ’ فلمساز و ہدایتکار ظفر شباب کی پلاٹینم جوبلی فلم ’’ آواز ‘‘ ( 1978) ’ تو میرے پیار کا گیت ہے تو میرے دل کی آواز ہے، میرے ہونٹوں پہ نغمےتیرے میرے نغموں کا تو ساز ہے‘ گیت نگار شبابؔ کیرانوی، یہ گیت فلم میں 3 جگہ تین مختلف آوازوں میں ہے: مہدی حسن، ناہید اختر اور اسد امانت علی خان۔عوام اور ریڈیو پر یہ تینوں ہی گیت یکساں مقبول رہے۔فلم ’’ نیا انداز‘‘ ( 1979 ) ’ ضد نہ کر اِس قدر جانِ جاں۔۔۔‘ گیت قتیلؔ شفائی، آواز اے نیر۔

موسیقار اے حمید کو فلم ’’ دوستی ‘‘ (1971 ) کے گیت ’ چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے، حال میرے دل کا تمام لکھ دے‘ پر سال کے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔

موسیقار اے حمید 80 کے اوائل میں پاکستانی فلمی دنیا کے اہم مرکز لاہور چھوڑ کر راولپیڈی میں نیشنل کونسل آف آرٹس، اسلام آباد سے منسلک ہو گئے۔ اُس وقت یہاں خالد سعید بٹ ہوا کرتے تھے۔سلامت بھائی بھی ایک عرصہ اس ادارے سے وابستہ رہے۔اِن کا کہنا ہے کہ موسیقار اے حمید یہاں بہت لگن سے موسیقی سکھاتے تھے۔میرا اُس زمانے میں اپنے ساتھی پروڈیوسر شاکر عزیر سے ملنے دو تین مرتبہ پاکستان ٹیلی وژن اسلام آباد مرکز جانا ہوا ۔میں نے اُن سے موسیقار اے حمید سے ملاقات کی خوہش بھی ظاہر کی لیکن یہ ہو نہ سکی۔ البتہ لوک گلوکار طفیل نیازی ( 1916سے 1990) سے ملاقات ہو گئی۔

پاکستانی فلموں کے سنہری دور کا یہ دمکتا تارا 20 مئی 1991 کو راولپنڈی کے ڈھوک کھبّہ قبرستان میں غروب ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اختتام


  

Comments

Naseem Khan said…
Aap ki tahreeroon say Kam as Kam in namwar sitaroon Kay kaam ka pata chal raha hay maray khayal main zaroorat is baat ki hai kah hamara electronic media is silsilay main koi amli qadam uthaay or in shahkar loogoon ka kaam nai nasal Tak pohnchaay.
ulatphair said…
جناب نسیم صاحب
آپ نے صحیح کہا۔ کاش کہ ایسا ہو جائے۔

نوازش
خیر اندیش شاہد لطیف

Popular posts from this blog