سیر کو سوا سیر





رِچرڈ آسٹن فری مین Richard Austin Freeman 
( 11 اپریل 1862 سے 28 ستمبر 1943)

یہ پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر اورساتھ ہی برطانیہ کے مشہور مصنف گزرے ہیں ۔ سراغ رسانی اور جاسوسی کہانیاں اِن کی وجہ شہرت بنیں ۔اِن کی کہانیوں کا مرکزی کردار ایک خیالی سراغ رساں ،ڈاکٹر جان ایولِن تھارن ڈک Dr John Evelyn Thorndyke تھا ۔ یہ کردار میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ میڈیکو لیگل کیسوں کے سلسلے میں عدالتوں میں بھی نظر آتا ہے۔ آج کل کی اصطلاح میں یہ اُس زمانے کا ’ فورینسِک ‘ سائنس دان تھا۔آسٹن فری مین کی کہانیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ لکھتے ،پہلے خود اُس کا تجربہ کرتے کہ حقیقت میں ایسا ہو بھی سکتا ہے؟
درج ذیل کہانی 1923 میں شائع ہونے والی کتاب DR. THORNDYKE'S CASE BOOK (The Blue Scarab) ) کی ساتویں اور آخری کہانی THE FUNERAL PYRE سے ماخوذ ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیر کو سَو ا سیر

تحریر شاہد لطیف

تنویر کو کبھی اخبار سے دلچسپی نہیں رہی۔ اُس کے خیال میں اخبار بینی ایک فضول شوق تھا۔یہی وجہ تھی کہ جب میں اخبار پڑھتے پڑھتے دفتر میں داخل ہوا تو اُس نے سخت ناپسندیدہ نگاہ سے مجھے دیکھا۔

’’ لرزہ خیز ! لرزہ خیز ! ۔۔۔ واردات ہو گئی ! لرزہ خیز ! ‘‘ میں نے بالکل اخبار بیچنے والوں کے انداز سے صدا لگائی۔

’’ کیا ہو گیا! ‘‘ اُس نے زِچ ہو کرسوال کیا۔

’’ یہ تو مجھے پتا نہیں۔۔۔ لیکن ہے یہ اپنی ہی لائن کی خبر‘‘۔میں نے ارادتاََ تنویر کو چھیڑتے ہوئے کہا۔

’’ ہاں سناؤ ! میں اس کو برداشت کر لوں گا ! ‘‘ اُس نے جواب دیا۔

اِس حوصلہ افزائی پر میں نے اطمینان سے اخبار پھیلا کر خبر پڑھنا شروع کی:
’’ بستی کے قریب رات دو بجے گشت پر معمور پولیس کے سپاہی نے کٹے ہوئے کھیتوں میں غلے کے ڈھیر کو آگ کی لپیٹ میں دیکھا۔جب وہ اس کے نزدیک پہنچا تو اُوپر کا حصہ دھڑا دھڑ جل رہا تھا۔ اکیلا سپاہی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ تھوڑی دور واقع آبادی میں پہنچا اور لوگوں کو بیدار کیا۔کچھ لوگ پولیس والے کے ساتھ موقع پر پہنچے۔تیز ہواؤں سے غلے کا ڈھیر بہت تیزی سے جل رہا تھا۔بستی والے چاہتے ہوئے بھی جلتے ہوئے غلے کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کر سکے ۔ چوں کہ جلتے ڈھیر کے قریب کوئی اور غلہ کا ڈھیر نہیں تھا لہٰذا سب لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے‘‘۔ 

میں نے خبر پڑھتے پڑھتے ایک نظر تنویر کو دیکھا اور بیان جاری رکھا۔ 

’’ صبح آٹھ بجے وہی پولیس والا جب دوبارہ موقع پر پہنچا تو وہ ڈھیر انگاروں اور راکھ میں تبدیل ہو چکا تھا۔قریب پہنچ کر اُس نے اُچٹتی ہوئی نظر راکھ اور انگاروں پر ڈالی تو ایک انسانی کھوپڑی نظر آئی ۔ قریب جانے پر انسانی جسم کی مزید ہڈیاں دکھائی دیں۔ معلوم ہوا کہ غلے کے ڈھیر پر ابھی کام ہو رہا تھا کیوں کہ اُس کے ساتھ سیڑھی بھی پائی گئی ۔امکان یہ ہے کہ کوئی بے گھر یا موالی موقع سے فائدہ اُٹھا کر سیڑھی کے ذریعے غلے کے ڈھیر کے اوپر جا کر لیٹ گیا۔ٹھنڈی ہوا میں سگریٹ پیتے میں آنکھ لگ گئی اور دھوئیں سے سوتے میں ہی سانس بند ہو گئی ‘‘۔
’’ یہ ہے خبر جوبظاہر سادا سی کہانی لگتی ہے‘‘۔ میں نے اخبار تہہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ ہوں !! بظاہر یہ ممکن بھی ہو سکتا ہے لیکن۔۔۔‘‘۔تنویر نے ارادتاََ بات ادھوری چھوڑ دی۔

’’ لیکن کیا؟‘‘،میں نے بے تابی سے سوال کیا۔

’’ لیکن یہ سراسر ایک کمزور مفروضہ ہے۔البتہ اِس شخص کے آگ میں جل مرنے کے پیچھے یہ تین ممکنات ہو سکتی ہیں۔حادثہ، خودکشی یا قتل‘‘۔

’’ اور ہمیں ان ممکنات میں سے خودکشی کے امکان کو نکال دینا چاہیے کیوں کہ خودکشی کے آسان طریقوں کو چھوڑ کر کوئی بھی شخص’ روسٹ ‘ ہو کر مرنا پسند نہیں کرے گا‘‘۔ تنویر نے بات مکمل کی۔ 

میں نے اثبات میں سر ہلایا۔

میں وسیم وارثی پیشے کے لحاظ سے وکیل ہوں اور کئی ایک سالوں سے تنویر خالد کے ساتھ دوستانہ ہے۔تنویر بنیادی طور پر ڈاکٹر ہیں اور اپنا ذاتی مطب کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے وکالت کی سند بھی حاصل کر رکھی ہے اور میڈیکو لیگل کیسوں کی پیروی عدالتوں میں کرتے ہیں۔ ہیں بہت کمال کے آدمی ۔ 

’’ نہیں وارثی! میں اِس اخباری تجزیے سے متفق نہیں ۔مجھے ایک میڈیکو لیگل کیس یاد آیا۔جو کسی حد تک یہاں صادر آتا ہے۔ زندگی سے مایوس کسی سائنس کے پروفیسر نے اپنی زندگی کا بیمہ کرایا اور موت کا ساماں سوچنے لگا ۔ بیمہ شدہ شخص کی موت اگر خودکشی ثابت ہو جائے تو انشورنس پالیسی کالعد م ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا اُس نے تیز تر اثر کرنے والا زہر پوٹاشیم سائی نائڈ potassium cyanide منتخب کیا اور موقع کی تلاش میں پھرنے لگا۔پھر کم و بیش اسی طرح کے پس منظر میں اُس کی موت واقع ہو گئی۔ آگ نے زہر خوردنی کے تمام ثبوت مٹا دیے۔اُس کی موت پر بھی شک و شبہے کا اظہار کیا گیا لیکن خودکشی ثابت نہیں کی جا سکی۔ پھر انشورنس کمپنی کو مرنے والے کے لواحقین کو بیمے کی رقم ادا کر تے ہی بنی‘‘۔ 

’’ ہا ہا ہا ۔۔۔ کہاں کی مثال لے آئے تم بھی۔۔۔‘‘۔میں نے تنویر کی بات کو مذاق میں لیتے ہوئے کہا۔

’’ دیکھو ! تم نے آتے ہی اخبار کی یہ سنسنی خیز سناتے ہوئے کہا تھا کہ اپنی لائن کی خبر ہے۔ یہ تو واقعی دلچسپ کہانی کا تانا بانا بنتا نظر آ رہا ہے! اخبار میں بے گھر فرد کا جو مفروضہ پیش کیا ہے وہ قرینِ قیاس ہے۔ لیکن وقت گزرنے پر کچھ اور باتیں سامنے آئیں گی اور نئے مفروضات قا ئم کر دیے جائیں گے ۔ ابھی تک تو ایسا کوئی اشارہ نظر نہیں آیا کہ یہ کوئی خودکشی ہے۔ کیا پتا یہ قتل کا کیس نکلے؟ بہر حال ۔۔۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا! ‘‘۔تنویر نے حسبِ عادت نپی تلی گفتگو کر کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے روز اخبارات کو بے گھر فرد والا نظریہ ترک کرنا پڑا کیوں کہ جل کر مر جانے والے کے آس پاس جو اشیاء برآمد ہوئیں وہ اسے کھاتا پیتا شخص ثابت کر رہی تھیں ۔مثلاََ کچھ جلا ہوا کچھ سلامت مُڑا تُڑا ٹین کا بنا ہوا 555 سگریٹ کا کیس ۔سونے کی بنی ہوئی کلائی کی گھڑی کی کچھ باقیات۔گھڑی کی چین جس کی کئی کڑیاں بہتر حالت میں ملیں۔ اِن کی بناوٹ میں ایک کڑی سونے اور ایک پلاٹینم کی تھی ۔اس قدر بھڑکتی ہوئی آگ بھی پلاٹینم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکی۔ کچھ مصنوعی دانت مرنے والے کی ہڈیوں کے قریب پائے گئے۔ اسی سلسلے میں ایک اور معمہ سامنے آیا۔ بد قسمت شخص کی ہڈیوں سے 200 گز کے فاصلے پر ایک گڑھے کے قریب اوپر کے مصنوعی دانت بھی پائے گئے۔ اِن میں دو دانتوں کی خالی جگہ موجود تھی۔جب پولیس سرجن نے موقع پر پائی گئی کھوپڑی سے اِن ملنے والے مصنوعی دانتوں کا موازنہ کیا تو ان میں مطابقت پائی گئی۔ پہلے ملنے والے نیچے کے مصنوعی دانت بھی اسی بد نصیب کے ثابت ہوئے۔اوپر کے مصنوعی دانتوں کا اتنے زیادہ فاصلے پر ملنا ایک پریشان کُن سوال تھا۔اس کی کوئی قابلِ قبول توجیہ پیش نہیں کی جا سکی ۔

’’ یہ معاملہ تو پراسرار ہوتا جا رہا ہے ! ‘‘ ، میں نے کہنا شروع کیا ’’ تمہاری فوری اثر کرنے والے زہر کی بات پر بھی سوچنا پڑے گا۔ ایک شخص کو غلے کا ڈھیر نظر آیا ۔ گڑھے کے پاس اُس نے زہر منہ کے ذریعے پی لیا۔ زہر کی تیزی اور جَلن کی وجہ سے اُس کو شدید کھانسی ہوئی اور اُوپر کے مصنوعی دانت وہیں کہیں گر گئے۔ اُس کی خوش قسمتی تھی کہ غلے کے ڈھیر اور اُس کے ساتھ سیڑھی نظر آ گئی۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔۔۔فوراََ اوپر چڑھ کر ڈھیر کو آگ دکھا دی اور ساتھ قصہ ختم ہو گیا‘‘ ۔

’’ اس کے علاوہ بھی ممکنات ہو سکتی ہیں۔ابھی تو یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ کہ وہ بد نصیب ہے کون؟‘‘۔تنویر نے کہا۔

اس کے بعد وہ کچہری کے لئے اور میں اپنے کام سے چلا گیا۔دن بھر کی مصروفیات نے مجھے اس کیس پر لمحہ بھر کے لئے بھی غور نہیں کرنے دیا۔ شام کو میں تنویر کے دفتر میں پہنچ گیا۔وہاں پہلے سے ہم دونوں کا مشترک دوست فیض قریشی بھی موجود تھا۔ 

’’ ایسا لگتا ہے گویا میرا ہی انتظار ہو رہا ہے۔۔۔‘‘ میں نے بیٹھتے ہوئے کہا۔

’’ اِن کی سنو یہ کیا کہہ رہے ہیں ! ‘‘۔تنویر نے فیض کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ ارے بھئی ! میں نے کیا کہنا ہے ! تم تو جانتے ہی ہو کہ پرسوں ایک شخص جل کر ہلاک ہو گیا تھا۔ اُس کی شناخت رحیم داد کے نام سے ہو گئی ہے جو کپڑے کا بروکر تھا۔مجھے اُس سے یوں دلچسپی ہے کہ اُس نے ہماری انشورنش کمپنی سے لائف انشورنس کی پالیسی لے رکھی تھی ‘‘۔ فیض قریشی نے کہا۔

’’ انشورنس کمپنی نے یہ پالیسی کب جاری کی تھی؟‘‘۔تنویر نے سوال کیا۔

’’ اوہ ! یہی تو سخت غصہ دلانے والی بات ہے‘‘، فیض نے سخت بے بسی کے انداز میں کہنا شروع کیا۔’’ یہ پالیسی چند ماہ قبل ہی جاری ہوئی تھی۔ابھی تو صرف ایک ہی پریمیم دیا گیا ہے ۔اب تو بیمہ شدہ تمام رقم دینا پڑے گی‘‘۔

’’اور تم میرے پاس صلاح مشورے کے لئے آئے ہو۔۔۔مگر کِس مشورے کے لئے ؟‘‘ ۔تنویر نے فوراََ سوال کر دیا۔

’’ مجھے تو دال میں کالا نظر آ رہا ہے ! اس کہانی میں بہت سے بے تُکے نکات ہیں۔مثلاََ شہر کے رہنے والے اِس شخص کا رات کے دو بجے شہر سے بہت دور مضافاتی بستی میں اکیلے آنا۔ پھر غلے کے ڈھیر پر لیٹ کر سگریٹ پی کے جل کر بھُن جانا۔۔۔ یہ بات کم از مجھے ہضم نہیں ہو رہی ! ‘‘۔فیض قریشی نے اپنا شک ظاہر کیا۔ 

’’ بے شک! میں تم سے اتفاق کرتا ہوں‘‘، تنویر نے گفتگو میں دلچسپی لیتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

’’ اس معاملے کے حالات و واقعات خاصے غیر معمولی ہیں۔ وہ شخص تو مر چکا اب تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘۔

’’ میں اِس سلسلے میں کچھ نہیں کہتا ! البتہ میری کمپنی چاہتی ہے کہ اس شخص، رحیم داد کی موت کی تفتیش پر نظر رکھی جائے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ آج سے اس کیس پر تم میری کمپنی کے لئے کام کرو۔ پولیس کی تفتیش یا کسی اور جانب سے کوئی بھی پیش رفت ہو ، تم اُس سے با خبر رہو۔ عدالتی تحقیقات کے موقع پر تمہاری وہاں موجودگی ہمارے لئے باعثِ اطمینان ہو گی۔اگر یہ موت خودکشی ثابت ہو جا تی ہے تو میری کمپنی بیمے کی رقم ادا کرنے کی پابند نہیں ہو گی‘‘۔ 

’’ تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ خودکشی کا کیس ہے؟‘‘۔تنویر نے بیساختہ سوال کیا۔

’’ تم کِس بنیاد پر کہتے ہو کہ یہ خود کشی کا کیس نہیں ہے؟‘‘۔فیض قریشی نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا۔ 

’’ کسی بنیاد پرنہیں ! ‘‘، تنویر نے فی الفور جواب دیا۔’’ تمہیں خودکشی ثابت کرنے کے لئے ٹھوس ثبوت فراہم کرنا ہوں گے یا پھر بیمے کی رقم دینے کو تیار رہو !! ‘‘۔

’’ یہ میں جانتا ہوں۔اِس وقت یہ بات کرنا فضول ہے کیوں کہ سرِ دست ہمارے پاس اس کیس کے سلسلے میں بہت کم معلومات ہیں۔میں اسی لئے یہاں آیا ہوں کہ تم آج ہی سے میری کمپنی کے لئے کام کرو۔کل پرسوں رحیم داد کی موت کی عدالتی تفتیش اور تحقیقات ہوں گی۔میں چا ہتا ہوں کہ تم وہاں موجود رہو! ‘‘۔ فیض قریشی نے کہا۔

’’ ٹھیک ہے ! ‘‘۔تنویر نے جواب دیا۔

’’ چلو ایک کام تو ہوا ! ‘‘۔فیض نے نشست سے اُٹھتے ہوئے کہا اور خدا حافظ کرتے ہوئے کمرے سے باہر چلا گیا۔

اُس کے چلے جانے کے بعد میں نے تنویر سے کہا : ’’ دیکھا ! فیض بھی وہی خودکشی کا اشارہ دے گیا جو تم نے سوچاتھا‘‘۔

’’ بھئی ! اس میں حیرانگی کی کون سی بات ہو گئی؟ فیض قریشی گھاگ شخص ہے۔اُس کو جب کوئی غیر معمولی بات نظر آئی ہے تو لازماََ ہم اُس کی توجیہہ ضرور معلوم کر یں گے۔یہاں مفروضات نہیں چلیں گے۔اگر ہم خودکشی کے شواہد سامنے نہ لا سکے، جو فی الحال دور دور نظر نہیں آ رہے، تو عدالت اسے حادثاتی موت قرار دے دی گی ۔ اِس طرح فیض قریشی کی انشورنس کمپنی کو بیمے کی رقم ادا کرنی ہی پڑے گی‘‘ ۔ تنویر نے بات ختم کی۔

’’ میرے خیال سے تم عدالتی تحقیقات کے نتائج سامنے آنے سے پہلے کچھ نہیں کر سکو گے‘‘۔میں نے تنویر سے پوچھا۔

’’ ہاں! میرا خیال ہے کہ ہمیں موقع پر خود جانا چاہیے۔ہمارے پاس اب تک کی محض سنی سنائی معلومات ہی ہیں۔کیا پتا بظاہر بالکل معمولی لیکن اہمیت کی حامل کوئی شے عین سامنے ہو اور کسی نے اہمیت نہ دی ہو ! کل میری کوئی خاص مصروفیات نہیں ۔کیوں نہ ہم علی الصبح وہاں کے لئے نکل جا ئیں؟ اورجائے وقوعہ کو اپنی آنکھوں سے خود دیکھیں‘‘۔

’’ کیا تمہارے ذہن میں کوئی خاص چیز ہے؟‘‘۔میں نے تنویر سے پوچھا۔

’’ نہیں فی الحال تو کوئی نہیں ! حالات تو تینوں جانب لے جا سکتے ہیں۔حادثہ، قتل یا خودکشی۔اس وقت تو میں خالی ذہن لے کر جائے وقوعہ دیکھوں گا۔کیا بعید ہمیں وہاں پر کوئی ایسا سراغ مل جائے جو اِس گتھی کو سلجھانے میں مدد دے‘‘۔ تنویر نے جواب دیا۔

اگلی صبح ہم دونوں متعلقہ بستی کے ریلوے اسٹیشن اترے۔ تنویر نے مریض دیکھنے والے ڈاکٹر کے ادویات کے بیگ کی طرح چلتی پھرتی سائنسی تجربہ گاہ اُٹھا رکھی تھی۔جبکہ میرے کاندھے پر کیمرہ تھا۔ پلیٹ فارم پر چائے کاکھوکا تھا۔ سوچا کہ یہاں سے جائے وقوعہ کا معلوم کیا جائے۔ابھی میں نے بات شروع ہی کی تھی کہ کھوکے والا مسکراتے ہوئے بولا کہ ہم سے پہلے بھی کئی ایک اخبار والے اُس جگہ کا پوچھتے ہوئے آئے تھے جہاں مبینہ شخص جل کر مر گیا تھا۔ہمارے ساز و سامان کو دیکھ کر اُس نے ممکنہ پیشے کا اندازہ کوئی غلط بھی نہیں لگایا ۔۔۔ جائے وقوعہ یہاں سے میل بھر کے فاصلے پر تھا۔ کھوکے والا شاید تنویر کو ڈاکٹر سمجھا اور مجھ سے کہا کہ وہاں پیدل جانے کا ایک اور مختصر راستہ بھی ہے اور یہ کہتے ہوئے اُس نے ریلوے اسٹیشن سے کچھ دور لائنوں کے پار ایک پگ ڈنڈی کی جانب اشارہ کیا۔ تنویر نے حسبِ عادتجیب سے ڈائری نکال کر کچھ لکھا اور ہم دونوں اسٹیشن سے باہر نکل آئے۔اسٹیشن کے قریب تانگے سواریوں کے لئے تیار نظر آئے۔
ہم دونوں اس پگ ڈنڈی پر ہو لئے۔ایک جگہ جا کر یہ اسی سڑک پر جا نکلی جوعام راستہ تھا۔

’’ فیض قریشی کے خدشات کوئی ایسے بے بنیاد بھی نہیں ‘‘، تنویر نے کہنا شروع کیا۔’’ دیکھو ! یہ سڑک تو یہیں ختم ہو رہی ہے۔آگے درختوں کے جھُنڈ کے پیچھے دریا ہے۔میں بھی کم و بیش یہی سوچنے پر مجبور ہوں کہ شہر سے اِس علاقے میں آدھی رات کو آخر کوئی کیوں آئے گا؟ہمیں اسی سوال کے جواب سے اپنا کام شروع کرنا ہو گا‘‘۔ 

یہاں سے دائیں جانب کچھ فاصلے پر کھیتوں کا سلسلہ نظر آیا ۔اِن میں زیادہ تر کی کٹائی ہو چکی تھی۔ سامنے سے ایک بیل گاڑی آتی دکھائی دی۔قریب آنے پر میں نے گاڑی والے سے جائے وقوعہ دریافت کیا تو اُس نے اُس سمت اشارہ کر کے سمجھایا۔ہم دونوں اُس کی بتائی ہوئی سمت میں چلنے لگے۔ تھوڑی ہی د ور لوگ کدالیں اور دیگر آلات لئے راکھ کریدتے ہوئے دکھائی دیے۔قریب جانے پر ایک پولیس انسپکٹر بھی اِن کو احکامات دیتا نظر آیا ۔ہمیں دیکھ کر اُس نے اپنا کام چھوڑ ا اور پوچھنا شروع کر دیا ۔

’’ تم لوگ کیوں آئے ہو ! پریس والوں کے سوال جواب سے ہمارا کام متاثر ہوتا ہے ۔۔۔‘‘۔

’’ میرا نام تنویر ہے ‘‘ ۔اپنا تعارف کرواتے ہوئے تنویر نے کہنا شروع کیا ۔’’ ،میں ایک انشورنس کمپنی کی جانب سے اس کیس کی تفتیش کر رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ پولیس سے ہر ممکن تعاون ملے گا‘‘۔

’’ ٹھیک ہے ! ہماری طرف سے تعاون کیا جائے گا‘‘۔ انسپکٹر نے سُکھ کا سانس لیتے ہوئے بات جاری رکھی ۔ ’’ یہ اخبار والے تو ہماری جان کا عذاب بن جاتے ہیں کہ یہ کیوں ہوا ، کیسے ہوا، کیا یہ خودکشی ہے؟ بھئی جو بھی ہوا کیا مجھ سے پوچھ کے ہوا ۔۔۔‘‘

میرے حلیہ کو دیکھ کر اُسے فوراََ احساس ہو گیا کہ میں بھی فوٹوگرافر ہوں اور پریس قبیلے سے ہی تعلق ہے۔فوراََ موضوع بدلا ۔ ’’ کیا آپ لوگ کسی خاص چیز یا سراغ ڈھونڈنے آئے ہیں؟‘‘۔انسپکٹر نے براہِ راست مجھ سے سوال کر دیا۔ میں نے جواب دینے کے بجائے تنویر کے منہ کی جانب دیکھا۔

’’ اِس کیس سے متعلق اب تک جو چیزیں بھی دستیاب ہوئی ہیں۔میں وہ سب دیکھنا چا ہوں گا‘‘۔تنویر نے جواب دیا۔

’’ مرنے والے کی باقیات مُردہ خانے میں جا چکیں البتہ باقی اشیاء ادھر ہی موقع پر موجود ہیں‘‘ ۔

یہ کہتے ہوئے اُس نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کو کہا۔کچھ فاصلے پر ایک خیمہ نظر آیا جیسا پولیس ناکوں یا تعمیراتی کمپنیوں کے سائٹ آفس پر نظر آتا ہے۔ اِس کے داخلی دروازے پر ایک سپاہی کھڑا تھا۔ ہم تینوں خیمے کے اندر داخل ہو گئے۔

’’ یہ وہ اشیاء ہیں جو یہاں سے ملی ہیں‘‘۔ انسپکٹر خیمے کے وسط میں رکھے ہوئے ایک میز کی جانب چلا جس پر سفید کاغذ بچھا ہوا تھا۔ میز پرقرینے سے کئی ایک اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔’’ اب تک دریافت ہونے والی بس یہی چیزیں ہیں۔پچھلے ایک گھنٹے سے تو کچھ بھی نہیں ملا ‘‘۔ انسپکٹر نے کہا۔ 

تنویر نے بغور ایک ایک چیز دیکھنا شروع کی۔کچھ سلامت کچھ جلا ہوا 555 کا مُڑا تُڑا سگریٹ کیس، آتش زد ہ چابیاں، کلائی کی گھڑی کی چین، جس کی پلاٹینیم والی کڑیاں اصل حالت میں جبکہ بچ رہنے والی سونے کی بنی ہوئی کڑیاں پگھل کر چپٹی ہو گئی تھیں ۔پھر آخر میں مرنے والے کے مصنوعی دانت تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے ہم سے پہلے کوئی ماہر دندان یہ دانت ترتیب سے لگا کر گیا ہو ۔

’’ میں چاہتا ہوں کہ اِن دانتوں کا مرنے والے کی کھوپڑی سے موازنہ کروں اور۔۔۔‘‘ ۔حسبِ عادت تنویر نے بات مکمل نہیں کی ۔

’’ وہ کیسے ؟ ‘‘۔انسپکٹر کی حیرانگی قابلِ دید تھی ۔

’’ میں پلاسٹر اور موم سے اِن دانتوں کی ڈائی بناؤں گا۔فکر کی کوئی بات نہیں۔اصل دانتوں کو کچھ نہیں ہو گا‘‘۔تنویر نے انسپکٹر کو نرمی سے جواب دیا۔

’’ یہ تو افسرانِ بالا کی اجازت سے ہی ہو سکے گا‘‘، پولیس انسپکٹر نے روایتی بحث اور تاویلات شروع کر دیں۔ کافی تکرار کے بعد وہ نیم رضا مند ہو گیا۔ ’’ صرف ایک شرط پر اجاز ت دوں گا کہ یہ کام میرے سامنے کیا جائے ‘‘۔ 

’’ ہاں ! کیوں نہیں ! بھلا اس میں مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ! ‘‘۔تنویر نے لوہا گرم دیکھتے ہوئے فی البد یہہ جواب دیا۔

’’ میں تو یہ سمجھا تھا کہ یہ تمہارا کوئی خفیہ طریقہء کار ہو گا جو تم کسی کے سامنے نہیں کرو گے‘‘۔انسپکٹر نے اپنے دل کی بات سچ سچ کہہ دی۔ 

تنویر اپنا تحقیقاتی بیگ کھولتے ہوئے مسکرایا۔’’ انسپکٹر صاحب ! وہ شعبدہ باز لوگ ہوتے ہیں جو اپنا اصل راز عوام سے چھپاتے ہیں۔کیوں کہ وہ اگر کسی بچے کے سامنے بھی کھُل جائے تو وہ بھی ویسا ہی کرے ۔ پھر اِن کا شعبدہ ہی کیا رہے گا ! ایسا کرنا اُن کی مجبوری ہے‘‘۔باتوں کے دوران ہی اُس نے اپنے بیگ میں سے ایلومینیم کی چھوٹی سی کڑاہی نکالی۔اس میں کچھ پانی ڈالا پھر دندان سازوں کے دانت کی ڈائی بنانے والاپلاسٹر ڈالا اور ایک چھوٹے ا سپرٹ لیمپ کے شعلے کے اوپر رکھ دیا۔انسپکٹر یہ تمام مراحل بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔اِس دوران اُس نے تنویر سے کئی سوال جواب بھی کیے۔دانتوں کی ڈائی تیار ہو گئی ۔اس کو سخت ہونے کے لئے تھوڑا وقت درکار تھا لہٰذا تنویر نے موقع سے ملنے والی اشیاء کی ایک فہرست اپنی جیبی ڈائری میں لکھ لی۔اُس نے اِس ضمن میں ایک دو سوال انسپکٹر سے بھی کیے لیکن انسپکٹر نے بتایا کہ اُس کی ڈیوٹی تو صرف ملنے والی اشیاء کو ایک جگہ جمع کرنے کی ہے۔کیس کی معلومات خود اُسے بھی صحیح طور پر معلوم نہیں۔ہم دونوں جائے وقوعہ پر گئے۔ہر طرف گہری نظروں سے دیکھا لیکن کوئی قابلِ ذکر چیز نظر نہیں آئی۔مزدور بھی شاید کام کر کر کے تھک گئے تھے ۔وہ بھی اوزار چھوڑ کر سستا رہے تھے۔ہم واپس خیمے میں آ گئے،تنویر نے دانتوں کی ڈائیوں کو دیکھا۔یہ سخت ہو چکی تھی۔ تنویر نے نہایت احتیاط کے ساتھ ڈائیاں کھولیں۔مرنے والے کے مصنوئی دانتوں کا بہت شاندار سانچہ بن گیا ۔

’’ اصل اور سانچے کو ساتھ رکھ کر دیکھیں تو صرف رنگ ہی کا فرق ہے‘‘۔پولیس انسپکٹر نے تنویر کے کام کی کی تعریف کی۔’’ لیکن اس سے تمہیں بھلا کیا مقصد حاصل ہو گا؟‘‘،انسپکٹر نے پوچھا۔ 

’’ مجھے موقع ملا تو مردہ خانے میں رکھی کھوپڑی سے اِن سانچوں کا موازنہ کروں گا کہ آیا یہ اُسی کے ہیں یا۔۔۔‘‘ ۔حسبِ معمول تنویر نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

’’ انسپکٹر برائے مہربانی کیا وہ جگہ بتا سکتے ہو جہاں نیچے کے دانتوں کی مصنوعی بتیسی پائی گئی؟ ‘‘، ایک خیال کے تحت میں نے سوال کیا۔

’’ تم یہاں سے دیکھ سکتے ہو‘‘،اُس نے سامنے کی جانب اشارہ کیا۔’’ گیٹ کے سامنے جو گڑھا ہے اُس کے پاس سے ملی ‘‘ ۔

’’ شکریہ انسپکٹر‘‘، تنویر نے بڑی احتیاط سے دانتوں کے سانچے کو ایک نرم و ملائم کپڑے میں رکھا اور دیگر اشیاء واپس بیگ میں ڈالیں:’’ میرے خیال میں ہم وہ جگہ بھی دیکھتے ہوئے چلتے ہیں‘‘۔

’’ انسپکٹر ! تمہارے خیال میں آگ میں جل مرنے والا کِس طرف سے آیا ہو گا؟‘‘۔تنویر نے سوال کیا۔

’’ اِن دو کھیتوں کے درمیان پگ ڈنڈی سے ‘‘۔

’’ تم یہ بات اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘۔میں نے بھی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔

’’ اس لئے کہ بستی کے رہائشی وہ سامنے تین اطراف میں رہتے ہیں ۔کسی کا رات کو چوری چھپے یہاں سے گزرنا ممکن ہی نہیں ۔اگر کوئی قسمت کا مارا بستی کے نزدیک آتا تو یہاں کے کتے بھونک بھونک کے قبر کے مُردے بھی جگا دیتے۔اب واحد یہ ہی سمت رہ جاتی ہے جہاں سے کوئی آ سکے۔لیکن آپ لوگ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘۔

’’اِس لئے کہ شاید آنے والے کے قدموں کے نشان مل جائیں ! ‘‘۔تنویر نے جواب دیا۔

’’ہوں ! ۔۔۔اگر یہ اتنے ہی اہم ہیں تو پھر آپ لوگ سامنے والے اور اِس کھیت کے درمیان منڈیر پر جا کر تلاش کر سکتے ہیں‘‘۔ 

انسپکٹر نے ستائشی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔

’’وہاں تو اُس شخص کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں کے قدموں کے نشانات ہوں گے۔۔۔ ‘‘۔میں نے بے ساختہ سوال کیا۔

’’ بستی والوں کے لئے سب سے اہم بات یہی آگ لگنا تھی۔لہٰذا تب سے اب تک وہاں کے لوگ بس اسی راکھ کے ڈھیر کے آس پاس ہی منڈلاتے رہتے ہیں ۔شاید ہی کوئی اِس جگہ سے آگے گیا ہو ! ‘‘۔پولیس انسپکٹر نے جواب دیا۔

’’ ہاں ! پھر تو نشان مِلنے کا امکان ہے ! ‘‘۔ یہ کہتے ہوئے تنویر نے گرم جوشی سے پولیس انسپکٹر سے ہاتھ ملایا اور ہم خیمے سے باہر آ گئے۔ اور کھیت کی منڈیرکی جانب چل پڑے۔ منڈیر پر بہت واضح تین اقسام کے نشانات نظر آئے۔میں نے اِن کی تصاویر جبکہ تنویر نے حسبِ معمول پلاسٹر سے ان کے سانچے بنانے شروع کر دیے ۔ پھر ہم دونوں وہیں منڈیر پر بیٹھ گئے۔ تنویر نے اپنی ڈائری نکالی اور کچھ لکھنے لگا۔ادھر اُس نے رام کہانی لکھنا بند کی اُدھر جوتوں کے نشانات کے سانچے بھی تیار ہو گئے۔ اُس نے نشانات کے سانچوں کو دیکھا اور تسلی کرنے کے بعد انہیں احتیاط سے کپڑے میں لپیٹ کر اپنے بیگ میں رکھا۔ ہم دونوں پُل پر بنے گیٹ کی جانب چل پڑے۔ 

’’ تم نے ایک بات نوٹ کی ! ‘‘، تنویر نے گیٹ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ کیا بات؟ ‘‘۔

’’ یہ کہ اگر یہ مصنوعی دانت اِسی شخص۔۔۔ کیا نام بتایا تھا انشورنس والے فیض قریشی نے !‘‘۔تنویر نے کہا۔

’’ رحیم داد بتایا تھا‘‘۔میں نے جواب دیا۔

’’ ہاں ! اگر تو یہ رحیم داد کے دانت ہیں تو جائے وقوعہ سے پہلے اتنے زیادہ فاصلے پر کیوں پائے گئے۔گیٹ کے پاس گڑھے کے قریب ملنے کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ دریا کی سمت سے آ رہا تھا۔مگر کہاں سے اور کیوں؟پھر یہ مصنوعی دانت ہوش و حواس میں منہ سے بلا وجہ گر ہی نہیں سکتے ! ‘‘۔ اِن سوالات پر غور کرنا ہو گا۔

’’ فی الحال تو کوئی جواب نہیں ہے کیوں کہ ہمارے پاس معلومات اور حقائق نہ ہونے کے برابر ہیں‘‘۔میں نے جواب دیا۔

’’ تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا‘‘۔تنویر نے گیٹ کے پاس اپنا بیگ رکھتے ہوئے کہا۔یہ دراصل اُس پُل کے راستے کا گیٹ تھا جو اُسی گڑھے کے اوپر بنایا گیا تھا۔
’’وہ دیکھو وارثی ! ‘‘، اُس نے کہنا شروع کیا۔’’ ایک راستہ گیٹ سے دائیں جانب کچھ دور جا کر ختم ہو گیا ہے۔ جبکہ دوسرا راستہ گیٹ سے نکل اور پُل سے گزر کر ۔۔۔وہ دیکھو۔۔۔ نیچے اُترائی میں دریا تک جا رہا ہے۔ امکان تو یہی ہے کہ وہ دریا کی سمت سے اِس پُل کو عبور کر کے آیا لیکن دانشمندی یہ ہو گی کہ ہم اس گڑھے کی دونوں اطراف چند سو گز کا علاقہ خوب اچھی طرح دیکھ ڈالیں‘‘۔

تنویر جو کچھ کہہ رہا تھا وہ اُسے اونچائی پر کھڑے ہونے کی وجہ سے صاف دکھائی دے رہا تھا۔

’’ بہتر ! ایسا کرتے ہیں کہ میں گیٹ عبور کر کے گڑھے کے پار کا علاقہ دیکھتا ہوں ۔تُم گڑھے سے ادھر دائیں اور بائیں کا علاقہ دیکھو ! ہاں اس سامان کا کیا کریں؟ ‘‘۔میں نے کہا۔

’’ سامان کا کیا کرنا ہے ! گیٹ کے پاس ہی رکھ دو ! جاتے ہوئے لیتے جائیں گے‘‘۔تنویر نے جواب دیا۔ 

میں گیٹ سے گزر کر دوسری طرف آ گیا۔پُل کے پار ڈیڑھ سو گز تک تو سخت مٹی کی گزرگاہ تھی جس پر قدموں کے کوئی نشان نظر نہیں آئے۔ہاں ! البتہ اس سے آگے نرم مٹی بکثرت تھی جس پر قدموں کے بہت واضح نشانات نظر آ رہے تھے۔یہ نشان دریا سے پُل کی طرف آ رہے تھے۔میں نے فوراََ اِن کے قریب نشانی کے طور پر درخت کی ایک سوکھی ہوئی ٹہنی زمین پر گاڑھ دی۔اس کام سے فارغ ہو کر تنویر کی طرف روانہ ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ بظاہر تو ایسا ہی دِکھتا ہے کہ یہ قدم دریا کی جانب سے آ رہے ہیں ! ‘ ‘ ۔تنویر نے قدموں کے نشانات دیکھ کر کہا۔

میں نے اِن قدموں کے نشانات کی تصاویر کیمرے سے کھینچیں ۔تنویر نے منڈیر سے لئے گئے سانچے اپنے بیگ سے نکالے اور اُن کا اِن نشانات سے موازنہ کرنے لگا۔

’’ نشانات گُڈ مُڈ ہیں۔۔۔ ایک آ دھ بہتر ہے جو کسی حد تک رحیم داد کے جوتے سے مماثلت رکھتا ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ کوئی اور امتیازی سراغ یا شے مل جائے تو کچھ بات بنے ‘‘۔ تنویر نے کہا۔

اس مقام سے آگے گھاس کا قطعہ شروع ہوگیا۔ہم دونوں تقریباََ ایک چوتھائی میل راستے کو غور سے دیکھتے گئے لیکن قدموں کے کوئی نشان نظر نہیں آئے۔جب ہم نا اُمید ہو کر پلٹنے ہی والے تھے تو راستہ بتدریج نشیب میں جاتا محسوس ہوا۔یہی مقام تھا جہاں نرم گھاس کے بجائے کچھ نرم کچھ سخت کیچڑ تھا جس پر واضح قدموں کے نشانات دکھائی دے رہے تھے۔
یہاں بالکل واضح دو الگ الگ افراد کے جوتوں کے نشانات تھے۔پھر کئی ایک جگہوں پر بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے بھی نشانات تھے۔

’’ یہاں تو یک نہ شُد دو شُد والا معاملہ نظر آ رہا ہے ! ‘‘۔ میں نے بیساختہ کہا۔

’’ بیشک ! ایسا ہی ہے ! ‘‘، تنویر نے میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ’’ اس کیس میں امید کی کرن نظرآ تو رہی ہے لیکن ابھی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔یہ کہتے ہوئے تنویر نے رحیم داد کے جوتوں کے سانچے سے اِن نشانات کا موازنہ کرنا شروع کیا۔کوئی زیادہ دیر نہیں لگی ہو گی جب تنویر نے اپنا کام ختم کر لیا۔

’’ بھئی ! اِس سانچے کے حساب سے تو ایک شخص رحیم داد ہے لیکن دوسرا۔۔۔؟ اِس راز سے پردہ ہٹانا بہت ضروری ہے۔ اِس شخص کے جوتے کا سول اور ایڑھی ربڑ کی ہے‘‘۔تنویر نے کہا۔

’’ کیا اِس دوسرے شخص کے جوتوں کے نشا نات کے بھی سانچے بنانا ضروری ہیں؟ ‘‘۔میں نے سوال کیا۔

’’ ہاں ! اب تو تم سانچے بنانے کے ماہر ہو گئے ہو۔ دوسرے شخص کے جوتوں کے سانچے آج تُم تیار کرو۔میں اس دوران کاغذ پر اِن قدموں کے نشانات کی حرکات اور سمت نوٹ کرتا ہوں‘‘۔یہ کہہ کر تنویر اپنے کام میں جُت گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ دیکھو وارثی ! میں نے وقت کے لحاظ سے ان کی درجہ بندی کی ہے۔سب سے پہلے اُس دوسرے شخص کے قدموں کے نشان آتے ہیں۔پھر بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے نشانات جو کہیں کہیں اُس شخص کے نشانات پر سے گزرتے نظر آتے ہیں۔اس کے بعد پھر رحیم داد کے قدموں کے نشان ہیں جو دوسرے شخص اور ریوڑ کے نشانات کو روندتے ہوئے بالکل صاف اور الگ تھلگ دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں افراد دریا کی سمت ہی جاتے نظر آتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اِن دونوں افراد کے قدموں کے نشانات دریا کی جانب سے واپس آتے دکھائی دیتے ہیں ۔اب کی دفعہ یہ دونوں افراد ساتھ ساتھ چل رہے ہیں کیوں کہ مسلسل کچھ فاصلے تک یہ ایک ہی سمت میں متوازی اور قدرے لہراتے اور بل کھاتے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے کے نشانات کو نہیں روند رہے۔البتہ اس مرتبہ دونوں افراد کے نشانات بکریوں کے نشانات کو روندتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس کے بعد دوسرے شخص کے قدموں کے نشان ہیں جو دریا کی سمت جا رہے ہیں۔یہ بھی اپنے راستے میں آنے والے تمام قسم کے قدموں کے نشانات کو روندتے دکھائی دیتے ہیں۔آخر میں پھر اُسی دوسرے شخص کے قدموں کے نشانات ہیں جو پہلے والے نشانات سے قدرے ہٹ کر دریا کی جانب سے گیٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ اِن نشانات کے گورکھ دھندے نے تو ہمارا معمہ حل کر دیا‘‘۔تنویر نے اپنی بات ختم کی۔

’’ وہ کیسے؟ ‘‘ ، میں نے سوال کیا۔

’’ سب سے پہلے دوسرا شخص اکیلے ہی آیا۔۔۔ کہاں آیا ! یہ دیکھنا باقی ہے۔اس کے بعد۔۔۔کتنی دیر رہا۔۔۔ یہ بھی کہا نہیں جا سکتا۔ پھر رحیم داد آیا۔ کسی جگہ اِن دونوں کی ملاقات ہوئی اور یہ اکٹھے واپس آئے۔رحیم داد کے یہ نشان پھر ختم ہو گئے۔اِس کے بعد دریا کی جانب جاتے ہوئے دوسرے شخص کے قدموں کے نشانات ہیں ۔اِن سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سیدھی سمت میں تیز رفتاری سے جا رہا ہے۔ پھر نا معلوم عرصہ کے بعد وہ شخص واپس آ رہا ہے اور لوگوں کی نظروں سے بچنے کے غیر مستعمل گیٹ والے راستے کی طرف جا رہا ہے ۔بس اب ایک آخری گرہ کھولناباقی رہ گئی ہے کہ اِن دونوں کی ملاقات کہاں ہوئی؟کِس جگہ اکٹھے ہوئے؟ یہ جگہ دریا کے آس پاس ہی ہونا چاہیے ! ‘‘۔تنویر نے اپنا تجزیہ پیش کیا۔ 

اس دوران قدموں کے سانچے تیار ہو گئے۔میں نے احتیاط سے نرم کپڑے میں لپیٹ کے تنویر کی ’ زنبیل ‘ میں ڈال دیے اور دریا کی جانب چلنا شروع کر دیا۔قریب ہی ایک کشتی نظر آئی۔

’’ وہ مارا ! ‘‘، میرے منہ سے بیساختہ نکلا۔

 ’’ یہی وہ جگہ ہے جہاں اِن دونوں افراد کی ملاقات ہوئی ہوگی ! ‘‘۔جواب میں تنویر نے اثبات میں سر ہلا یا ۔

کشتی تک پہنچنے والے لکڑی کے پلیٹ فارم کے پاس زمین پر بعینہٖ اُنہی دونوں کے نشان موجود تھے۔ 

’’ یہ کشتی اُس دوسرے شخص کی ہے‘‘، تنویر نے کہنا شروع کیا۔’’ یہ پہلے یہاں اکیلا ہی آیا۔ہمیں کشتی میں بھی جا کر دیکھنا چاہیے ممکن ہے اس کیس میں کوئی مدد ملے ۔مجھے یہیں ٹہرنے کا کہہ کر وہ کشتی میں داخل ہو گیا ‘‘۔ مجھے وہ کشتی کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے نظر آیا۔پھر چھوٹے سے بنے ہوئے کیبن میں داخل ہو گیا۔ زیادہ دیر نہیں گزری ہو گی کہ وہ دوبارہ نمودار ہوا اور عرشے سے ہوتے ہوئے کشتی کی مختصر سی سیڑھی سے اُتر کر واپس آ گیا۔

’’ یہاں کوئی چونکہ دینے والی تو کوئی چیز نہیں لیکن کچھ تھوڑا بہت قابلِ ذکر ضرور ہے۔تم اپنا کیمرہ لے کر جاؤ اور جو اہم محسوس ہو اُس کی تصاویر بنا لاؤ‘‘۔اپنے مخصوص انداز میں کوئی اہم سراغ ہاتھ لگنے کا تنویر کا یہی ردِ عمل ہوا کرتا تھا۔

اگلے ہی لمحے میں کشتی میں تھا۔عرشے پر کوئی قابلِ ذکر شے نظر نہیں آئی۔پھر میں کیبن میں داخل ہوا۔کیبن کیا تھا ۔۔۔ایک تنگ سا کمرہ تھا جس کی چھت محض چار فٹ اونچی ہو گی۔ اِس میں دو برتھیں تھیں۔ایک کو بیٹھنے کے لئے استومال کیا گیا تھا اور ایک کو دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ حال ہی میں کوئی یہاں سویا تھا۔ایک چھوٹی سی میز پر تاش کے پتے بکھرے ہوئے تھے۔میں نے مختلف زاویوں سے کچھ تصاویر بنائیں اور کشتی سے واپس آ گیا۔

’’ وارثی ! وہ ۔۔۔ بھلا کیانام تھا انشورنس ولے کا! ‘‘، بستی کی جانب واپس جاتے ہوئے تنویر نے سوال کیا۔

’’ فیض قریشی‘‘۔ میں نے جواب دیا۔

’’ ہاں ! اُس کا خدشہ درست ثابت ہو رہا ہے۔یہ خودکشی کا کیس قطعاََ نہیں بلکہ قتل کی واردات ہے۔لیکن ابھی اس کو ثابت نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ تنویر نے کہا۔

’’ ہاں لگتا تو یہی ہے کہ کشتی کا مالک یہ دوسرا شخص ہے‘‘، میں نے کہنا شروع کیا۔’’رحیم داد اس سے ہی ملنے یہاں آیا تھا۔تاش کے پتوں کی کئی ایک گَڈیاں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ یہاں بڑی رقوم کا جوا ہوا۔پھر نشہ پانی بھی کیا گیا۔اس کا ثبوت یہاں سے واپسی پہ لڑکھڑاتی چال کے قدموں کے نشان ہیں۔لیکن نشہ میں بے حال صرف رحیم داد ہی تھاجس کو بحفاظت اونچے نیچے راستے کے خاتمہ تک پہنچانے کے لئے دوسرا شخص ساتھ چلا۔اس بات کا ثبوت دوسرے شخص کے تیزی سے اکیلے واپس آنے کی سیدھی چال ہے ۔میرے خیال سے قتل کا ارتکاب گیٹ کے قریب کیا گیا۔جب اُس کی لاش کو گھسیٹ کر غلے کے ڈھیر پر لایا جا رہا تھا تو اس کاروائی میں اُس کے مصنوئی دانت یہاں گر گئے جو اندھیرے کی وجہ سے قاتل نہ دیکھ سکا۔لاش کو گھسیٹ کر اور پھر کاندھے پہ اُٹھا کر سیڑھی کے ذریعے ڈھیر کے اوپر رکھ دیا۔ پھر چِتا کے کریا کرم کی طرح لاش کو آگ دکھا دی گئی۔ اس کے بعد قاتل نے آرام سے واپس کشتی میں آ کر رات گزاری اور دن کے اجالے میں سڑک کے لمبے راستے بستی میں آ گیا‘‘۔

’’ منطق کے لحاظ سے یہ توجیہہ درست ہے۔اب صرف اُس شخص کا کھوج لگانا باقی رہ گیا ہے۔یہ بھی ہو جائے گا‘‘۔تنویر نے اعتماد سے کہا۔

’’ اب کیا تمہارا اگلا قدم مردہ خانے میں اُ س بد نصیب کی باقیات دیکھنا ہو گا؟‘‘ ۔میں نے سوال کیا۔

’’ نہیں ! اس کی ضرورت نہیں۔اب ہمیں اِس دوسرے شخص کی فکر کرنا چاہیے۔یہی ہماری ترجیح ہے‘‘۔تنویر نے نپا تُلا جواب دیا۔

ہم دونوں واپس اپنے گھر کے قریب پہنچے تو اخبار کے ہاکر اسی کیس کی پیش رفت کی آوازیں لگا رہے تھے۔ہم نے بھی اخبار خریدا اور گھر میں آ گئے۔اخبار کے مطابق ر حیم داد کا وحید ضامِن نام کا ایک شریکِ کاروبار بھی تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ یہ بھی رحیم داد کی موت کے بعد سے غائب ہے۔دفتر کی عمارت کے چوکیدار کا کہنا ہے کہ پیر کی شام کو اُس نے ضامن کو دفتر میں جاتے ہوئے دیکھا تھا۔جب کہ رحیم داد پیر کی صبح دو بجے غلے کے ڈھیر پر جل کر مر گیا تھا۔یہ بھی علم ہوا کی گزشتہ سنیچر کے روز رحیم اور ضامن دونوں ایک ساتھ بینک میں آئے اور معمولی سی رقم چھوڑ کر باقی نکال لی۔

’’ میرے خیال میں اس دوسرے شخص کے اسرار سے پرد ہ اُٹھا ہی چاہتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ دونوں اشخاص چپکے سے روپوش ہونا چاہتے تھے۔رقم دونوں ہی کے پاس موجود تھی۔رات انہوں نے جوا کھیلا۔یہ محض اتفاق ہے کہ رحیم داد جوئے میں ضامن کی کثیر رقم جیت گیا۔ورنہ قتل ہونے کی اور کوئی وجہ نہیں نظر آتی‘‘۔ میں نے دلیل دی۔

’’ ایک حد تک میں تمہاری بات سے متفق ہوں کہ ضامن نے یہ قتل کیا لیکن ہم اخباری رپورٹوں پر اپنے نظریوں کی پرکھ نہیں کر سکتے۔ پولیس سے ایسی خبروں کی تصدیق درکار ہو گی۔چونکہ یہ انشورنس پالیسی کی سرکاری تفتیش کا معاملہ تھا لہٰذا پولیس کی اجازت سے ہم رحیم داد اور ضامن کے دفتر میں گئے ۔ وہاں بھی ایک سپاہی ڈیوٹی دے رہا تھا۔دفتر میں اُن کے حساب کتاب کے کھاتوں سے یہ علم ہوا کہ وہ کوئی معاملہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بد نصیب رحیم داد کی موت کی عدالتی تفتیش میں ہم دونوں بھی موجود تھے۔ابتدا کی کاروائی دوسروں کے لئے دلچسپی کا باعث ہو سو ہو ہمارے لئے توکوئی بھی نئی بات سامنے نہیں آئی۔سب وہی باتیں تھیں جو اب تک اخبارات میں شائع ہو چکی تھیں۔ دل چسپی اُس وقت  پیدا ہوئی جب مقامی ماہرِ دندان یا ڈینٹل سرجن نے تصدیق کی کہ یہ مصنوعی دانت اور ڈینٹل پلیٹ اس کاسہء سر میں بالکل درست بیٹھتے ہیں لہٰذا یہ اسی بد نصیب کے ہیں۔ 

’’ مجھے اس تصدیق پر بہت خوشی ہے‘‘۔تنویر نے ڈینٹل سرجن کے بیان ختم ہونے پر کہا۔

میں اس کی بات پر حیران ہوا۔اگلے گواہ کی آمدنے مجھے کچھ کہنے سننے کا موقع ہی نہیں دیا۔یہ بائی فوکل چشمہ لگائے ، گھنی مونچھوں والے اختر مرزا تھے۔ اِن کے دائیں گال پر ایک تِل بھی نمایاں تھا۔ یہ خاصے چوق و چوبند نظر آ رہے تھے۔

’’ یہ میں ہی تھا جس نے مرنے والے کی شناخت بحیثیت رحیم داد کے کی ! ‘‘۔

عدالت میں اس کا بیان شروع ہوا۔ ’’ جب میں نے اخبارات میں مرنے والی کی چند نشانیوں کا پڑھا جیسے ملاٹینیم اور سونے کی کڑیوں والی چین اور مصنوئی دانت تو میرے ذہن میں رحیم داد کا نام آیا۔اِس کے ساتھ میرے تعلقات تھے۔ ایک سال سے زائد عرصہ تک وہ میرا کاروباری حصہ دار رہا ۔شراکت داری ختم ہونے کے باوجود ہم میں دوستانہ رہا۔ہماری شراکت داری یوں ناکام ہوئی کہ اُس کو جوئے کی لت پڑ گئی اور اُس کا ذہن کاروبار سے ہٹتا چلا گیا۔میں کب تک اُس کے نقصانات برداشت کرتا۔کاروبار کی کیا بات کروں خود میں نے اُس کو مختلف مدوں میں قرض دے رکھا تھا ۔اُس کے پاس پیسہ رکتا ہی نہیں تھا کہ میرا قرضہ اتارے۔جب ہم نے اپنی شراکت داری ختم کی تو میں نے اُس کی زندگی کا بیمہ کروایا اور اُس سے پکے کاغذ پر لکھوا لیا کہ اُس کی موت کے بعد میں اُس کی بیمہ شدہ رقم کے بڑے حصہ کا حق دار ہوں گا۔جو اُس پر میرا قرض تھا‘‘۔

’’ کیا تم اس کی موت کو مبینہ خود کشی سمجھتے ہو‘‘۔عدالت نے سوال کیا۔

’’ بالکل بھی نہیں جناب ! ہماری شراکت کے خاتمے کے بعد اُس نے کسی وحید ضامن نامی شخص سے پارٹنر شپ کر لی۔جُوا پھر بھی چلتا رہا۔ تقریباََ ایک ہفتہ قبل ہماری ملاقات ہوئی تو اُس نے بتایا کہ وہ اپنے نئے شراکت دار کے ساتھ خوش ہے اور عنقریب یہ دونوں ایک ہفتے کے لئے اپنے پارٹنر کی کشتی میں تفریح کے لئے جا رہے ہیں۔یہی ہماری آخری ملاقات تھی‘‘۔

گواہ کا بیان ختم ہوا تو تنویر نے اپنے تعارف کے بعد عدالت سے گواہ سے ایک سوال کرنے کی اجازت مانگی۔

’’ ابھی آپ نے ایک کشتی کا ذکر کیا۔ وہ کشتی کہاں پر ہے؟‘‘۔

’’ مجھے علم نہیں ‘‘۔گواہ نے جواب دیا۔

’’ خود ضامن کے بارے میں کچھ بتا سکیں گے؟‘‘۔تنویر نے سوال کیا۔

’’ میں کوئی بہت زیادہ تو نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ خود بھی فضول خرچ اور تھوڑا بہت جواری ہے‘‘۔

’’ کیا یہ بہت زیادہ سگریٹ پینے والا ہے؟‘‘۔

’’ نہیں وہ سگریٹ نہیں پیتا البتہ ۔۔۔‘‘ ،بات مکمل ہنے سے پہلے ہی سوال بے محل ہونے کا اعتراض اُٹھایا گیا اور تنویر اپنی نشست پر واپس آ گیا۔

اگلا گواہ اُس عمارت کا چوکیدار تھا جہاں رحیم داد اور ضامِن کا دفتر واقع تھا۔اُس نے بیان کیا :’’ گزشتہ پیر کی رات سات بجے ضامن چابی سے تالا کھول کر اپنے دفتر میں داخل ہوا۔اب وہ کتنی دیر رہا یہ نہیں پتا کیوں کہ پھر اُس کے بعد انہیں نہیں دیکھا۔میں کام ختم کر کے چلا گیا ‘‘۔ 

عدالت کی اجازت سے تنویر نے گواہ سے سوال کیا: ’’ کیا تم نے ضامن کی چال ڈھال، چہرے مہرے سے کوئی غیر معمولی بات تو نہیں دیکھی؟‘‘

’’ میں کچھ کہہ نہیں سکتا کیوں کہ اُس طرف تو میرییٹھ تھی۔میں تو زینہ چڑھ کر اُوپر جا رہا تھا جب میں نے کمرہ کھلنے کی آواز سنی۔اُن کی بھی پیٹھ تھی۔چہرہ مجھے نظر نہیں آیا‘‘۔

’’ لیکن تم کو اُنہیں پہچاننے میں کوئی دِقّت محسوس نہیں ہوئی !‘‘۔ تنویر نے سوال کیا۔

’’ میں تو اُن کی ویسٹ کوٹ سے میلوں دور سے پہچان سکتا ہوں۔کتھئی اور ہلکے سبز رنگ کی چیک دار و یسٹ کوٹ اس عمارت میں اور کوئی بھی نہیں پہنتا‘‘۔

’’ اُن کے قد سے متعلق تم کیا کہتے ہو؟‘‘

’’ آپ کے قد کے برابر ہو گا‘‘۔تنویر کی طرف دیکھتے ہوئے چوکیدار نے جواب دیا۔

’’ یعنی پانچ فٹ اور آٹھ انچ‘‘۔تنویر نے سوال کیا۔

کسی سرکاری اہلکار کی جانب سے عدالت کو کہا گیا کہ ضامن کے سوال جواب پولیس سے کیے جائیں۔یہاں ضامن کی بات نہیں بلکہ رحیم داد کی موت کیسے ہوئی ؟ صرف اس مسئلہ پر ہی بات کی جائے ! 

’’ دیکھو ! اِس اعتراض میں جو بات کہی گئی اُس میں کچھ وزن ہے‘‘۔عدالت کی جانب سے کہا گیا۔

’’ مجھے کہنے کی اجازت دی جائے کہ اِس میں سرے سے کوئی وزن ہی نہیں۔اس لئے کہ ہم رحیم داد کی موت کے اسباب جاننے کے لئے نہیں بلکہ اُس شخص کے لئے جمع ہوئے ہیں جس کی باقیات جلے ہوئے غلے کے ڈھیر سے برآمد ہوئیں‘‘۔

’’ مگر اُس کی تو رحیم داد کے نام سے شناخت ہو چکی ! ‘‘۔ کسی سرکاری اہلکار کی جانب سے کہا گیا۔

’’ تو پھر یہ شناخت بالکل غلط ہوئی ! میرے مطابق تو مرنے والا وحید ضامن ہے ! میں ایک گواہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوں جومیری اس بات کو سچ ثابت کرے گا ‘‘۔تنویر نے یہ کہہ کر سب کو چکرا کر رکھ دیا۔

’’ مگر ابھی ہم نے ایک گواہ کا بیان سُنا جس نے غلے کے ڈھیر کے جلنے کے 18 گھنٹے بعد وحید ضامن کوپنے دفتر میں جاتے دیکھا‘‘۔ 

’’ گواہ نے اُس کی علامتی ویسٹ کوٹ سے وحید ضامن کو پہچانا۔گواہ نے خود کہا کہ وہ چہرہ نہیں دیکھ سکا‘‘۔تنویر نے دلیل دی۔

چند لمحہ کو عدالت میں موجود تمام افراد ہکا بکا رہ گئے۔پھر عدالت سے تنویر کو اپنا گواہ پیش کرنے کو کہا گیا۔تنویر نے تعظیماََ جھک کر شکریہ ادا کیا اور اپنے گواہ کو عدالت کے روبرو آنے کو کہا۔

’’ میرا نام ڈاکٹر نصیر الدین ہے۔میں پیشے کے لحاظ سے ڈینٹل سرجن ہوں۔تقریباََ دو سال قبل وحید ضامن میرے زیرِ علاج رہا۔ میں نے اُس کے اوپر اور نیچے دونوں جبڑوں سے کچھ خراب دانت نکال کر اوپر اور نیچے کی دو ڈینٹل پلیٹیں بنائی تھیں‘‘۔

’’ کیا آپ اُن کی نشاندہی کرسکتے ہیں؟ ‘‘۔تنویر نے سوال کیا۔

’’ جی ہاں ! میں ایک پلاسٹر کا ماڈل لایا ہوں جس سے اُس شخص کی ڈینٹل پلیٹیں بنائی تھیں ‘‘۔یہ کہتے ہوئے اُس نے اپنا اپنا بیگ کھولا ۔ اوپر اور نیچے کے جبڑوں کا ماڈل نکالا۔دونوں جبڑوں کو دھاتی تار سے جوڑا ہو تھا تا کہ جبڑوں کو کھولا اور بند کیا جا سکے۔

’’ یہ ماڈل ہو بہو میرے اُس مریض، وحید ضامن کے جبڑوں کا ہے جس کے لئے میں نے ڈینٹل پلیٹیں بنائی تھیں‘‘۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کو جائے وقوعہ سے ملنے والے مصنوعی دانت دکھائے گئے۔ ہر ممکنہ طریقے سے اِن کو ماڈل کے دانتوں سے پرکھا جانچا گیا۔

’’ کیاآپ اِس ڈینٹل پلیٹ کو پہچانتے ہیں؟ تنویر کے سوال کیا۔ 

’’ ہاں کیوں نہیں ! میرے ہی بنوائے ہوےء دانت ہیں۔یہ مذکورہ مریض کے نچلے جبڑے کے لئے بنوائے تھے‘‘۔ ڈاکٹر نصیر الدین نے کہا۔

تنویر نے جج صاحب کی طرف دیکھا جس پر اُس نے اثبات میں سر کو جھکایا۔’’ یہ شہادت بہت نتیجہ خیز ہے ‘‘۔ تنویر کے اس جملے سے تھوڑی دیر کے لئے کمرہ میں ہلکی پھلکی آوازیں آئیں اُس کے بعد مکمل سناٹا چھا گیا۔ 

’’ مجھے کچھ کہنے کی اجازت دی جائے‘‘۔ اجازت ملنے کے بعد تنویر نے بولنا شروع کیا۔ 

’’ اس کیس میں شروع ہی سے ایک دو چیزیں میری نظروں میں کھٹک رہی تھیں ۔ مثلاََ آگ کی تپش سے محفوظ رہنے والی اشیا کا موقع پر ملنا اور تپش سے متاثر ہونے والی اشیاء کا آگ سے کئی سو گز کی دوری پر ملنا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے کسی نے یہ سب ارادتاََ کیا تا کہ اِن چیزوں کی مدد سے جل کر مرنے والے کی جلد نشاندہی ہو سکے ۔رحیم داد سے متعلق یہ وثوق سے کہا جا رہا تھا کہ وہ عادی سگریٹ نوش ہے ۔ جب میں نے متوفی کے زیرِ استعمال ڈینٹل پلیٹ دیکھی تو یہ چونکا دینے والا انکشاف ہوا کہ یہ تو سگریٹ پینے والے کے دانت ہی نہیں۔ سِگریٹ پینے والوں کے دانتوں میں دھبے ہوتے ہیں‘‘۔ 

کمرے میں موجود سب خواتین و حضرات یک سو ہو کر تنویر کے چونکہ دینے والے انکشافات سُن رہے تھے۔

’’ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ دانت کثرت سے تمباکو نوشی کرنے والے رحیم بخش کے قطعاََ نہیں ۔ پولیس سرجن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ جل کر مرنے والے والے کی کھوپڑی اور جبڑے میں یہ بالکل صحیح بیٹھتے ہیں لہٰذا یہ جل کر مرنے والے ہی کے ہیں۔منطق کے لحاظ سے اگر دانت رحیم داد کے نہیں ہیں تو پھر کھوپڑی بھی اُس کی نہیں اس لئے باقی دستیاب ہڈیاں بھی اُس کی نہیں۔کلائی کی گھڑی البتہ رحیم داد کی ہے جس کا ایک گواہ نے ذکر بھی کیا ہے۔جان بوجھ کر ایک ایسی شے موقع پر رکھ دی گئی جو آگ سے خاصا محفوظ رہے۔اب دھوکے پہ دھوکہ یہ ہوا کہ کسی اور شخص کو جعلی رحیم داد بنا کر پیش کیا گیا۔ جہاں سے ڈینٹل پلیٹ ملی وہیں ایک شخص قتل ہوا جس کی لاش کو چِتا بنا کر آگ برد کردیا۔اہم سوال یہ ہے کہ یہ کس نے اور کیوں کیا؟‘‘۔

’’ مجھے حال ہی میں علم ہوا کہ رحیم داد نے اپنی زندگی کا بیمہ کروایا تھا۔اُس کی موت کی صورت میں کون رقم لینے آئے گا ؟ اس سلسلے میں میں نے اپنے طورپر کچھ تحقیقات کیں ۔۔۔‘‘ یہاں تنویر نے اختصار سے اب تک کی کی گئی تحقیقات کا نچوڑ سامنے رکھ دیا۔’’ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُس رات دو افراد اکٹھے کھیت میں غلے کے ڈھیر کی جانب گئے۔ان میں سے ایک شخص وہ تھا جو اِس ڈھیر پر جل کر مر گیا۔ وہ دوسرا شخص جو یہاں سے واپس اکیلا گیا ۔۔۔ وہی شخص ہے جو انشورنس کمپنی سے رحیم داد کی انشورنس پالیسی کا کلیم لینے آئے گا‘‘۔

’’ آپ نے کیا رائے قائم کی ہے؟ وہ کون شخص ہو سکتا ہے؟‘‘۔عدالت نے استفسار کیا۔

’’ جی ! مجھے رتّی برابر شک نہیں کہ وہ شخص رحیم داد ہے !! ‘‘۔

’’ لیکن ابھی یہاں گواہ اختر مرزا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ رحیم داد کی موت کی صورت میں اُس کو انشورنس کمپنی کی جانب سے ملنے والی رقم کا ایک بڑا حصہ ملے گا ! ‘‘۔عدالت کی جانب سے کہا گیا۔

’’ بلا کم و کاست آپ نے صحیح کہا ‘‘۔تنویر نے کہا۔

عدالت اور دیگر سرکاری اہلکار تنویر کے اس جواب سے حیران رہ گئے۔
کچھ دیر کے لئے پورے کمرے میں سنّاٹا چھا گیا۔

سامری کا سحر اُس وقت ٹُوٹا جب تنویر نے کمرہ عدالت میں متلاشی نگاہوں سے دیکھا اور بلند آواز میں پکارا: ’’ اختر مرزا کہاں ہیں؟ ‘‘۔

فوراََ ہی ایک عدالتی اہلکار اور پولیس انسپکٹر مطلوبہ شخص کو لئے کمرہ میں آئے۔

اِس سے پہلے کہ اس کے بارے میں سوال جواب ہوتا، تنویر نے کچھ کہنے کی اجازت مانگی۔

’’ میں نے آج کی عدالتی کاروائی شروع ہونے سے قبل ہی ڈیوٹی پر موجود پولیس انسپکٹر سے درخوست کی تھی کہ عدالت کی کاروائی ختم ہونے سے پہلے کسی بھی گواہ کو کمرہ عدالت سے باہر نہ جانے دیا جائے۔ گواہان میں سے اختر مرزا واحد گواہ ہے جو میرے اس رواں بیان کے دوران کمرہ عدالت سے موقع پا کر کھسک گیا‘‘۔

’’ تو گویا آپ اختر مرزا پر رحیم داد کے قتل کا شبہ کر رہے ہیں ! ‘‘۔عدالت سے کہا گیا۔

’’ نہیں ! بلکہ۔۔۔ رحیم داد تو قتل ہی نہیں ہوا ! اختر مرزا اور رحیم داد ایک ہی شخصیت ہیں‘‘۔ ایک لمحہ کو تنویر نے گفتگو روکی اور رحیم داد اور وحید ضامن کے دفتر کے چوکیدار کی جانب رُخ کر کے بولنا شروع کیا۔’’ رحیم داد اور ضامن تقریبا ایک سے قد کاٹھ کے مالک تھے۔اب غور سے دیکھو کہ کیایہ رحیم داد ہیں؟‘‘۔

’’ میرے خیال سے تو نہیں ! ‘‘۔چوکیدار نے بمشکل جواب دیا۔

’’ وہ کیسے؟ ‘‘۔تنویر نے سوال کیا۔

’’ شاید قد کاٹھ تو دونوں کے ایک جیسے ہوں لیکن اِن کی گھنی مونچھیں ہیں جبکہ رحیم داد کی نہیں تھیں۔اِن کے گال پر نمایاں تِل ہے رحیم داد کے نہیں تھا۔یہ بھاری شیشوں والی عینک پہنے ہے جبکہ رحیم داد عینک نہیں پہنتا تھا‘‘۔

ابھی سوال جواب جاری تھے کہ حیرت انگیز پھرتی سے اختر مرزا نے اپنے آپ کو انسپکٹر سے چھڑایا ۔پولیس انسپکٹر اور عدالتی اہلکار ا اُس کی جانب لپکے ۔لیکن اس سے پہلے ہی گولی چلنے کی آواز آئی اور اختر مرزا یا رحیم داد۔۔۔ جو بھی ہو ۔۔۔ فرش پر گر چکا تھا۔گرتے گرتے اُس کی عینک اُتر چکی تھے اور مصنوعی گھنی مونچھیں آدھی لٹکی ہوئی تھیں۔کنپٹی کے قریب جہاں اُس نے اپنے آپ کو گولی ماری تھی، خون رس رہا تھا۔پستول اُس کے ہاتھ سے نہیں چھوٹ کر فرش پر گراہوا تھا۔

اگلے روز میں تنویر کے دفتر میں داخل ہوا تو انشورنس والا فیض قریشی پہلے سے موجود تھا۔’’ لو بھئی ! یہ بالآخر خود کشی ہی ثابت ہوئی‘‘۔فیض قریشی نے لا پروائی سے چائے پیتے ہوئے کہا۔

اور میں سوچنے لگا کہ فیض قریشی نے اپنی انشورنس کمپنی کے لئے دلجمعی سے کام کیا اُس کو اس کا صلہ ملا۔تنویر نے اِس مشکل کیس کو محنت اور یک سوئی سے حل کیا اُس کو دلی اطمینان ملا۔خود مجھے ۔۔۔ مجھے کچھ سیکھنے کو ملا۔لیکن رحیم داد کو کیا ملا؟۔۔۔ اُس نے بھی محنت کی، پیسہ کی خاطر ایک جان بھی لی مگر اُس کو کیا ملا؟؟؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام 
یہ کہانی جنوری کے ماہنامہ قومی ڈائجسٹ لاہور میں شائع ہوئی
































 

Comments

شاہد صاحب کے پختہ قلم سے نکلی ہوئی یہ ایک نہایت عمدہ جاسوسی کہانی ہے۔ گو ترجمہ ہے لیکن اتنا عمدہ ہے کہ اصل ہے۔ انہوں نے زبان اور بیان دونوں کے لوازمات کو خوبی سے نباہیا ہے۔
ulatphair said…
جناب یمین الاسلام زبیری صاحب
کہانی " سیر کو سوا سیر " پسند کرنے کا شکریہ۔
نوازش
خیر اندیش
شاہد لطیف

Popular posts from this blog