Ghalat Ko Saheeh Saabit Karnay Ka Nouha !
جامعہ کراچی کی کمزور انتظامیہ۔۔۔ غلط کو صحیح ثابت کر دینے کا نوحہ !
تحریر شاہد لطیف
یقین کیجئے آج کے موضوع پر بات کرتے ہوئے دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ یہ وہ مادرِ علمی تھی جہاں 70 کی دہائی میں،میں نے اور آپ نے اپنے وقت کی بہترین میسر تعلیم حاصل کی تھی۔جہاں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور ڈاکٹر محمود الحسین جیسے شیخ الجامعہ تھے۔انتظامیہ کا نظم و نسق مثالی تھا۔اُس زمانے کا اسٹاف ٹاؤن بھی قابلِ رشک تھا۔گو کہ اُس کے ایک طرف مشہورِ زمانہ ’ کیفے ڈی پھوس ‘موجود تھا لیکن بدنمائی کے زمرے میں نہیں تھا۔مین لائبریری، تمام فیکلٹیز، کینٹین، الغرض تمام ہی جامعہ واقعی ایک صاف ستھری درس گاہ تھی۔ ٹرانسپورٹ کا انتظام جو بھی بہترممکن ہو سکتا تھا وہ نظر آتا تھا۔ سب سے بڑھ کر اساتذہ کا ایک وقار تھا۔طلباء یونین بھی تھی اور بعد میں شاید اساتذہ یونین بھی بن گئی تھی لیکن یہ دونوں اپنی حدود میں تھیں۔ ایسا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ناجائز کاموں کو زبردستی منوانے یا ترقی کا شارٹ کٹ استعمال کرنے کے لئے جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ ، انتظامیہ اورسینڈیکیٹ کو بلیک میل کی دھمکیوں سے دبا لیا جائے۔اور اب۔۔۔اب اخبارات کی خبریں دیکھئے:’’ اسٹاف کالونی میں بھینسوں کے باڑے دوبارہ قائم کر دیے گئے۔۔۔ (گویا یہ پہلے بھی قائم تھے) کیمپس سیکیورٹی نے باڑوں کی چھتیں ہٹائیں لیکن باڑے چھوڑ دیے۔۔۔قبضہ مافیا میں جامعہ کے ملازمین شامِل‘‘، ’’ جامعہ میں ڈسپلن لانے کے خلاف اساتذہ اور ملازمین متحد۔۔۔ احتجاج کی دھمکی۔۔۔ سینڈیکیٹ جامعہ اوقات میں دیگر اداروں میں اساتذہ کی تدریس پر پابندی سمیت اہم فیصلے ہوں گے‘‘، ’’جامعہ کی انتظامیہ نے اہم نوعیت کے فیصلوں کی تیاری کر لی۔۔۔10 نومبر کو ہونے والے سینڈیکیٹ اجلاس میں حاضری نظام، اساتذہ کی قابلیت جانچنے اور دیگر اہم معاملات رکھے جائیں گے۔۔۔ایجنڈے کو اساتذہ و ملازمین دشمن قرار دے کر دونوںیونین نے جلسہء تقسیمِ اسناد کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی‘‘ ۔کراچی کے اخبارات کی یہ چنگھاڑھتی ہوئی سُرخیاں آخرکیا خبر دے رہی ہیں؟
جامعہ کی انتظامیہ کے خلاف اساتذہ اور ملازمین کی یونین اُس وقت سرگرم ہو گئیں جب انتظامیہ نے اساتذہ اور ملازمین کا ایک باقاعدہ حاضری نظام قائم کرنے ، جامعہ اوقات میں کسی دوسری جگہ پڑھانے یا کام کرنے پر پابندی عائد کرنے ، اساتذہ کی قابلیت جانچنے کے لئے پرفارما متعارف کرانے ، اسٹاف ٹاؤن میں رہنے والوں سے مینٹی نینس کی وصولی، بجلی کے میٹروں کی تنصیب کو سینڈیکیٹ میں زیرِ بحث لانے کا فیصلہ کیا۔اِس کو روکنے کے لئے اساتذہ اور ملازمین کی یونین متحد ہو کر اس کو ناکام بنانے کے لئے متحد ہو گئیں۔تفصیلات کے مطابق یہ اتحادجامعہ کراچی انتظامیہ کو بلیک میل کرنے کے لئے کیا گیا۔10 نومبر کو ہونے والے سینڈیکیٹ کے اجلاس کے اس ایجنڈے کو اساتذہ اور ملازمین دشمنی قرار دے کر انتظامیہ کو کانووکیشن کے بائیکاٹ اور احتجاج کی دھمکی دی ہے۔یہ بلیک میلنگ نہیں تو اور کیا ہے؟
چونکہ بعض اساتذہ اور کچھ غیر تدریسی عملہ جامعہ کے اوقات میں دیگر جگہوں پر بھی کام کر رہے ہیں لہٰذا اس اجلاس میں ایک مربوط حاضری نظام لاگو کرنے کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ہمارے ذرائع کے مطابق جامعہ کی گزشتہ انتظامیہ نے منظورِ نظر افسران اور ملازمین کو نوازتے ہوئے غیر قانونی ترقیاں بھی دی تھیں ۔ یوں کئی ایک پوسٹیں اَپ گریڈ ہو گئیں۔سینڈیکیٹ میں ایسی تمام اَپ گریڈپوسٹوں کو ملک کی دیگر جامعات میں قائم اسامیوں کے گریڈ کے برابر لانے کا فیصلہ کیا جانا تھا۔با وثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی انتظامیہ کی جانب سے ایسی تمام پوسٹیں ڈی گریڈ ہونے پر ماضی میں غیر قانونی طور پر ترقی پانے والے افسران اور ملازمین کی تنزلی ہونے والی تھی۔ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اساتذہ یونین کے نمائندہ وفد نے شیخ الجامعہ اور انتظامیہ پر دباؤ ڈالتے ہوئے یہ دلیل دی کہ اساتذہ کی قابلیت جانچنے کے لئے دیے جانے والے پرفارما کے فیصلے میں سنڈیکیٹ کمیٹی کے تمام ممبران کی رضا شامل نہیں لہٰذا یہ تو زیرِ بحث ایجنڈے میں شامل ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اجلاس سے پہلے ہی اس نمائندہ وفد کو کمیٹی کے ممبران کی ’’ رضا ‘‘ کیسے معلوم ہو گئی۔ واہ!! کیاخوب دلیل دی ہے۔ اچھا! ذرا یہ تو بتائیے کہ ہمارے ذرائع کے مطابق جب 11 جون2018 کو شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان نے جامعہ کے نامساعد مالی حالات کے باوجود اساتذہ کے لئے عید الاؤنس کی منظوری دی تھی۔ تب آپ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ نہیں ہم تو یہ عید الاؤنس نہیں لیں گے کیوں کہ اِس کے لئے تمام سینڈیکیٹ ممبران کی رضا کا ہونا بہت ضروری ہے۔جب آپ کا فائدہ ہو تو سب کچھ ٹھیک لیکن جب پیروں تلے زمین سرکنے لگے تو ۔۔۔
لیکن جامعہ کے اساتذہ اور ملازمین یونین ہی جامعہ کے خراب نظم و نسق کے ذمہ دار نہیں۔اِس کے ذمہ دار سب سے پہلے تو شہر کے سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ہیں ۔ گورنر جامعہ کراچی کا چانسلر ہوتا ہے۔شیخ الجامعہ اُس کا نائب۔ماضی بعید میں جامعہ کے امور میں مداخلت مختلف طرح سے کی جاتی رہی لیکن اُس وقت شیخ الجامعہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور ڈاکٹر محمود الحسین جیسے مظبوط قوتِ ارادی کے لوگ تھے۔یہ بہترین مدرس ہونے کے ساتھ بہترین منتظم بھی تھے۔کوئی اِن کو بلیک میل کر نے، دھونس سے دبا کر اپنی بات منوانے یا شارٹ کٹ میں ترقی حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس لئے کہ یہ اور اس قبیل کے لوگ ہر لحاظ سے اس عہدے کے قابل تھے۔ کسی سفارش یا کہنے سننے سے نہیں آئے تھے۔ اِس بات کو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بد قسمتی سے ان کے بعد وہ لوگ اس عہدے پر بٹھائے گئے جو، بصد معذرت، اس عہدے کے لئے ناموزوں ثابت ہوئے ۔ وائس چانسلر پوری جامعہ کا منتظمِ اعلیٰ ہوتا ہے۔اس کا عکس بتدریج نیچے کی جانب آتا ہے۔میں 1973سے1977کے عرصہ میں شعبہ تاریخِ عام کا طالبِ علم رہا۔ شعبے کے سربراہ ڈاکٹر صدیقی نہایت قابل شخص اور زبردست منتظم تھے۔ہمارے پروفیسروں میں بین الاقوامی شہرت یافتہ پروفیسر امریطس ڈاکٹر ریاض الاسلام اور ڈاکٹر ایف اے خان جیسے لوگ تھے جو بہترین منتظم بھی تھے۔کم و بیش یہی حال جامعہ کے تمام شعبوں اور انتظامیہ کا تھا۔اس کی وجہ موزوں شخص کا عہدے پرفائز ہونا تھا ۔ خاکسار کو لکھتے ہوئے شرم آ رہی ہے کہ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اوپر سے نیچے جامعہ کراچی میں وہ لوگ اہم عہدوں پر بٹھائے گئے جو اُن عہدوں کے لائق نہیں تھے۔ میری اس بات کو تاریخ سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔اعلیٰ ترین عہدے پر بیٹھنے والا شخص جب خود یہ جانتا ہے کہ وہ اس عہدے کے لائق نہیں تو قوتِ ارادی تو اُسی وقت فوت ہو جاتی ہے۔ اُس شخص کو اپنی ملازمت اور کرسی بچانے کے لئے اپنے بٹھانے والوں کی تمام جائز و ناجائز باتیں ماننا ہوتی ہیں۔یہی صورتِ حال شعبوں کے سربراہ کے ساتھ پیش آ ئیں۔طلباء کی حاضری کم بھی ہو تو ۔۔۔اساتذہ بے جا فائدہ اُٹھانے لگے۔پھر دیگر غیر تدریسی ملازمین بھی اپنی مرضی سے کام کرتے تھے ۔ ستم بالا ستم یہ کہ ہمارے ذرائع کے مطاق جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے اساتذہ اور ملازمین کی یونین کے دباؤ میں آ کر سینڈیکیٹ میں بحث کے لئے پیش ہونے والے ایجنڈے سے بایؤ میٹرک حاضری، اور گزشتہ انتظامیہ کی دی جانے والی غیر قانونی ترقیاں اور اسی طرح کی مزید بے قاعدگیاں خارج کر دی ہیں۔اب کوئی اس پر کیا نوحہ پڑھے! اناللہ و انا الیہ راجعون۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 10 نومبر کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کے صفحہ 11 پر کالم ' اُلٹ پھیر ' میں شائع ہوئی ۔
Comments