قابلِ تعریف پاکستان پوسٹ




قابلِ تعریف پاکستان پوسٹ 

تحریر شاہد لطیف

ویسے تو یہ بات خاصی حد تک درست ہے کہ عام طور پر سرکاری محکموں کا تاثر عوام میں کوئی زیادہ اچھا نہیں لیکن کبھی کبھی گرمیوں میں ٹھنڈی ہوائیں بہت بھلی لگتی ہیں بعینہٖ آج کے دور میں کسی سرکاری محکمے میں عوام سے سیدھے مونہہ بات بھی کر لینا ایک نئی بات لگتی ہے۔ یہ تمہیدی جملے پاکستان پوسٹ کے لئے لکھے گئے ہیں جہاں راقم کو ایک بہت خوشگوار تجربہ حاصل ہوا۔ مجھے ۳ اپریل بروز پیر ، پی۔ ڈبلو۔ ڈی سوسائیٹی، واقع اِسلام آبادکے پاکستان پوسٹ، یعنی ڈاک خانہ ، کچھ کتابیں کراچی پارسل کرنے کی معلومات کے لئے جانا پڑ گیا۔ مذکورہ ڈاکخانے کے عملے نے وہ معلومات بہت توجہ سے دیں۔پھر جب میں وہ کتابیں کپڑے کے تھیلے میں پارسل کی صورت لایا تو ڈاکخانے کا عملہ مجھ سے پہلے آنے والوں سے بہت احسن طریقے سے معاملہ کرتا نظر آیا۔میری باری آنے پر مجھے بھی مناسب وقت دیا اور اطمینان دلایا گیا کہ یہ پارسل آج شام کو نکل جائے گا اور اُمید ہے کہ انشاء اللہ جمعرات کو کراچی میں بھیجے گئے پتے پر موصول ہو جائے گا۔گو کہ یہ جھٹکا ہی کافی تھا کہ پاکستان کے ایک سرکاری دفتر میں عام آدمی سے کوئی حسنِ اخلاق سے پیش آئے، اُس پر دوسرا جھٹکا یہ لگا کہ میرے بڑے بھائی کو یہ پارسل آج، یعنی ٹھیک تیسرے دِن بارہ بجے کے لگ بھگ موصول بھی ہو گیا۔تیسرا اور سب پہ بھاری جھٹکا یہ لگا کہ پارسل صحیح سلامت پہنچا۔یہ صحیح سلامت کا ذکر اِس لئے بھی کیا گیا کہ مجھے کئی ایک صاحبان نے کہا کہ کیا بے وقوفی کر دی فلاں کورئیر سروس سے بھیج دیتے پیسے ضرور زیادہ لگتے لیکن صحیح سلامت اور وقت پر ملنے کی ضمانت تو ہوتی نا ! آئیے پہلے اِس پر بات ہو جائے۔پاکستان پوسٹ سے 6.185kg وزن کے بھیجے گئے پارسل کے Rs180 بنے ۔ایک معروف کورئیر سروس سے پوچھنے پر بتلایا گیا کہ 10kgتک کے Rs1900 ہوتے ہیں اور اگر پارسل آپ خود بناکر لائیں تو 7 دنوں میں موصول ہو گا جِس کے Rs300 ہوں گے۔

اِس ساری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ اوّل مجھے پاکستان پوسٹ کی مذکورہ برانچ کے عملہ نے اپنے سلوک سے متاثر کیا دوسرے یہ کہ وصول ہونے کے بارے میں جو کہا گیا ویسا ہی کر دِکھایا لہٰذا تعریف کیوں نہ کی جائے۔پاکستان پوسٹ کے بارے میں منفی تاثر، کہ ترسیل وقت پر نہیں ہوتی، کتابیں رسائل کے پارسل کھلے ہوئے ملتے ہیں، اور سب سے برا تاثر کہ معلوم نہیں بھیجا گیا آئٹم ملتا بھی ہے کہ نہیں ....... اِس کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے.... ورنہ جنگل میں مُور ناچا کِس نے دیکھا ....

آپکے قرب و جوار میں جگہ جگہ کئی ایک معروف کورئیر سروس والوں کے فرنچائزنظر آتے ہیں۔ ٹھیک ہے اتنی بڑی تعداد نہ سہی لیکن پاکستان پوسٹ کو کچھ تو مسا بقت میں آنا ہی پڑے گا ۔ دس نمبر لیاقت آباد سے تین ہٹی کی جانب جائیں تو وہاں ایک پورے علاقے کا نام ڈا کخانہ ہے۔ یقیناََ ماضی بعید میں اِس مقام کی شہرت ڈاکخانے کی وجہ ہی رہی ہو گی ۔اب وہ اصل ڈاکخانہ کیا ہوا؟ لوگوں کو اِس سے دلچسپی ہی نہیں رہی۔ یہ مانا کہ خاکسار کی اس تحریر کو پڑھ کر کچھ لوگ دوبارہ پاکستان پوسٹ کی جانب آنا چاہیں گے مگر ...... اُن کے قرب و جوار میں
کوئی ڈاکخانہ بھی تو ہو .....حکومتیں اتنے اللے تللے کیا کرتی ہیں ، انتخابی نعروں میں عوام کے لئے آسمانی تارے زمین پر لانے کی باتیں، کبھی کراچی کو پیرس بنانے کی باتیں....... مگر عملاََ؟ ......

ایک زمانہ تھا کہ ایک مخصوص تعداد کی آبادی کے لئے ایک ڈاکخانہ مختص کیا جاتا تھا۔ پھر آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹاؤن اور ہاوسنگ سوسائٹیاں وجود میں آ نے لگیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر ایک نئی سوسائیٹی اور ٹاؤن میں باقی سہولیات کے ساتھ ایک ڈاکخانہ بھی قائم کیا جاتا۔بد قسمتی سے اِس طرف توجہ نہیں دی گئی ۔

80کی دہائی سے کورئیر سروس کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں پورے مُلک میں کئی ایک کور ئیر سروسوں کا جال بچھ گیا۔ یہ سب کاروباری ادارے ہیں۔اوّل دِن سے ہی ان کی کم سے کم فیس پاکستان پوسٹ سے کئی گنا زیادہ تھی اس کے باوجود عام آدمی، چھوٹے بڑے نجی ادارے، بینک وغیرہ اِن ہی کے ذریعہ خطوط اور پارسل کی ترسیل کرنے لگے۔آخر وہ کیا وجوہات تھیں جنہوں نے اِن کورئیر کو پاکستان پوسٹ کے مقابلے میں چند سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور پاکستان پوسٹ دور پیچھے کہیں رہ گیا۔ اِس میں سب سے بڑی وجہ ان کی اشتہاری مہم تھی۔جس میں وہ آپ کے خطوط اور پارسل کوصحیح سلامت اور مقررہ و قت پر پہنچانے کی ضمانت د یتے تھے ۔ دوسری طرف غیر محسوس طریقے سے پاکستان پوسٹ کے خلاف ایک مہم شروع ’ کروائی ‘ گئی کہ خطوط اور پارسل کی سلامتی اور وقت پر پہنچنے کی کوئی ضمانت نہیں۔

پوسٹ آفس کے اعلیٰ افسران اور متعلقہ وزارت کے ذمہ داران ایسے نازک وقت میں کہاں تھے؟کیا ہم یہ سمجھیں کہ اُن کے مونہہ بند کر دئے گئے تھے؟جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اُنہوں نے پاکستان پوسٹ کے مستقبل کی پیش بندی کے لئے کیا کیا؟

بلاشبہ پبلسٹی کی اہمیت مسلمہ ہے اور حکومتی ادارہ ہونے کے باعث اس کی پبلسٹی کا خر چہ کو ئی مسئلہ نہیں ہے۔پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو پاکستان حکومتی ادارے ہیں جبکہ پیمرا گھر کی لونڈی۔کیا وزارت و اطلاعات و نشریات کا یہ فرض نہیں کہ وہ پاکستان پوسٹ جیسے تاریخی اور اہم ادارے کی اہمیت کو اجاگر کرے؟ اس کے ماتحت شعبہ جات کے بارے میں عوام کو آگاہی دے۔کور ئیر کے مقابلے میں کہیں زیادہ کم قیمت میں وقت پر صحیح سلامت پہنچنے کی ضمانت دے۔خود حکومت اپنے اس ادارے کے ذر یعہ ہی اپنے سرکاری احکامات اور خطوط ارسال کرے۔جیسا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تمام سرکاری کاغذات صرف US Mail سے ہی بھیجے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ تارکینِ وطن اگر اپنے پاسپورٹ امریکی کورئیر سروسوں سے بھیجنا چا ہیں تو خود کور ئیر والے لینے سے انکار کر د یتے ہیں کیوں کہ وہاں کا قانون پاسپورٹ اور تمام سرکاری کاغذات کو US Mail سے بھیجنے کا پابند کرتاہے۔ حکومتِ پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتی؟تھوڑی سی توجہ اور محنت سے حکومت کا ایک ادارہ عوام کو بہترین سہولیات فراہم کر سکتا ہے۔

ایک زمانے میں عوامی مراکز میں ڈاکخانے بھی نظر آتے تھے ، اب بھی ایسا ہو سکتا ہے اُن سرکاری عمارات میں جہاں عوام کا آنا جانا لگا رہتا ہے وہاں صدر دروازے ، یا استقبالیہ کے قریب لازماََ ایک ڈاکخانہ بھی ہونا چاہیے۔

ٹھیک ہے کہ ایزی پیسے کا آج کل بہت چرچا ہے اور منٹوں میں پیسے پورے ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں لیکن اب بھی پاکستان پوسٹ سے منی آرڈر بھیجنا پہلے ہی کی طرح مقبول ہے۔کیوں؟ ... بھروسہ .... للہ میری پاکستان پوسٹ اور متعلقہ وزارت سے درخواست ہے کہ وہ اِس بھروسے کو مت توڑیں .... ڈاک خانہ، ڈاک تقسیم کرنے والے، منی آرڈر کی ترسیل ... یہ ہماری ثقافت تھی۔اب بھی کچھ نہیں بگڑا بس ایک ذرا توجہ اور احساس کی ضرورت ہے۔دیکھا گیا ہے کہ کچھ عرصہ سے یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ سیاست دانوں کی تقریر ہو، ٹی۔وی۔ ٹاک شو ہوں، کالج، اکیڈمیوں کے ٹیچر یا اعلی تعلیمی اداروں کے مدرسین ہوں ، تان یا تو شروع اِس سے ہوتی ہے یا پھر اِسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ ہمارے ملک کا تو نظام ہی درست نہیں، یہ ٹھیک نہیں وہ ٹھیک نہیں .... یہی بات دینی حلقے بھی کہتے رہتے ہیں ۔ سوال ہے کہ صاحب ! تو آپ ہی کوئی فارمولا بتا دیجئے کہ بگاڑ کو ٹھیک کیسے کیا جائے؟ تنقید اپنی جگہ درست لیکن اگر کسی سرکاری ادارے میں کبھی کوئی اچھی کارکردگی نظر آئے تو کھُلے دِل سے اُس کی تعریف بھی ضرور کرنا چاہیے۔ورنہ بقول مسرور انور :
یہی ہے تمنا یہی التجا ہے اور اس کے سوا ہم بھلا کیا کہیں گے

بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں ختم بھی ہونا چاہیے۔ پاکستان پوسٹ ہمارے ملک کا ایک اہم ادارہ تھا، ہے اور انشاء اللہ رہے گا۔حکومت کی معمولی سی توجہ اُسے ایک بے مِثال سرکاری ادارہ بنا دے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ سے 8  اپریل 2017 کو کالم اُلٹ پھیر میں شائع ہوئی تھی۔


















 

Comments

Popular posts from this blog