آیک دفعہ کا ذکر ہے




ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک قومی ہوائی کمپنی پی آئی اے تھی۔۔۔

تحریر شاہد لطیف

دادیاں، نانیاں اور امّائیں ہم کو جو کہانیاں سنایا کرتی تھیں وہ ’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔ سے شروع ہوا کرتی تھیں۔اسمارٹ فونوں کی موجودگی میں اب بھی ہمارے بچوں کے بچے ’ ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ والی کہانیاں بہت شوق سے سنتے ہیں۔ اسی طرح۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نئے بننے والے ملک، پاکستان میں ایک ہوائی کمپنی اورینٹ ائر ویز کے نام سے بنائی گئی۔ملک نیا تھا لوگ بھی مخلص تھے لہٰذا جلد ہی یہ کمپنی پھلنے پھولنے لگی۔بعد میں اِس کا نام پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن ہو گیا۔پی آئی اے کے سربراہ خود بھی محنتی تھے اور کمپنی کے کام چور اور نکھٹو لوگوں کو بھی محنتی بنا دیتے تھے۔ پی آئی اے نے دن رات محنت کر کے پوری دنیا میں اپنے نام کا ڈنکا بجا دیا۔ سمندر پار ملائشیا کی حکومت کو بھی خیال آیاکہ کیوں نہ ہم بھی پی آئی اے جیسی ہوائی کمپنی بنا ئیں ۔اِس کے لئے انہوں نے با ضابطہ حکومتِ پاکستان سے بات کی۔اس کے جواب میں پی آئی اے نے اپنے کچھ ماہر ملائشیا بھیجے جنہوں نے بڑی محنت سے ملائشین ائر لائین بنانے اور چلانے میں مدد کی۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے متحدہ عرب امارات کی ہوائی کمپنی ایمریٹس ائر لائین اور مملکتِ مالٹا کی ہوائی کمپنیاں بھی بنا کر چلائیں۔آج یہ کامیاب ہوائی کمپنیاں مانی جاتی ہیں۔ 

وہ جو کہاوت ہے کہ بگاڑ جب آتا ہے ’ اوپر ‘ سے آتا ہے ،پی آئی اے پر صادر آتا ہے۔ جس دن سے پی آئی اے کے اوپر والے سیاسی بنیادوں، سفارش، دوستی اور رشتہ داری کی بنیاد پر بھرتی ہونے لگے اُسی دِن سے اس قومی ہوائی کمپنی کا زوال شروع ہو گیا۔جب اہلیت اور معیار صرف سفارش اور سیاسی تعلق ہی رہ جائے تو جو ہو وہ کم ہوتا ہے۔ 

کالم، تجزیہ،فیچر اور رپورٹیں چھوڑئیے میں خود چشم دید گواہ ہوں جب ضیائی دور میں ایک سیاسی جماعت کی تنظیم پی آئی اے کی سودا کاری یونین تھی۔وہاں پی آئی اے ٹریفک اور کارگو کی ملازمتیں ’’ تقسیم ‘‘ ہو رہی تھیں۔کیسی اہلیت؟ کہاں کا معیار؟ صرف اُس سیاسی پارٹی کی ممبر شپ ہی اہلیت تھی ۔۔۔حیرت کی بات یہ ہے کہ بعد میں ، اور اب بھی اُسی سیاسی پارٹی کے ذمہ دار پی آئی اے کا بیڑا غرق ہونے کا سبب ’’ نا اہل لوگوں کا بھرتی ہونا ‘‘ کہتے نہیں تھکتے۔

پی آئی اے کے حالات بتدریج تباہی کی جانب جا رہے تھے۔کون سی حکومت ایسی تھی جس نے اس بہتی گنگا میں اپنے سفارشی لوگ داخل نہیں کئے۔خسارہ ایسے ہی نہیں ہو جاتا۔اتنے بڑے قومی ادارے میں جب بگاڑ شروع ہوا تو ہم کیسے مانیں کہ حکومتِ وقت کے بزرجمہروں کو علم نہ ہو سکا۔بھلا ایسا ادارہ جو منافع میں چل رہا تھا ۔۔۔وہ بلور دور کا پاکستان ریلوے کیوں کر بن گیا؟ 

اب پی آئی اے کے نوحے کی بازگشت سُپریم کورٹ میں بھی سنائی دینے لگی ہے جب پی آئی اے کے ایک کرپشن کیس کی سماعت کے دوران ادارے کی دس سالہ خصوصی آڈِٹ رپورٹ پیش کی گئی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ائر لائن کا خسارہ دسمبر 2008 میں 72 ارب روپے تھا جو 2017 میں بڑھ کر 360 ارب پہنچ گیا۔پی آئی اے کے پاس 2009 میں 34 جہاز تھے جو 2017 میں گھٹ کر صرف 12 رہ گئے۔یہ بھی بتایا گیا کہ قومی ائر لائن کا عالمی مارکیٹ میں حصہ 41 فی صد سے گھٹ کر 22 فی صد پر آ گیا ہے۔خود اندرونِ ملک پی آئی اے کا مارکیٹ میں حصہ 13 فی صد کم ہوا ہے۔اعلی عہدوں پر غیر پیشہ ور افراد کو مقرر کیا گیا۔اس کے علاوہ بہت سی غیر ضروری بھرتیاں کی گئیں۔سائبر نامی سافٹ وئر کی خریداری سے 5.5 ارب روپے کا نقصان ہوا۔سفارشی انجنیئر اور غیر ضروری مرمتوں کی وجہ سے 31 ارب روپے کا نقصان ہوا۔رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ ارب روپے کے غیر ضروری فالتو پُرزے لئے گئے۔اس کے علاوہ انتظامیہ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے 8.5 ارب روپے کا نقصان ہوا۔رپورٹ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ 457 ملازمین اور اعلی افسران جعلی ڈگریوں والے ہیں۔اِن میں 16 کپتان اور 33 ہوائی میزبان خواتین بھی شامل ہیں۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ جعلی ڈگریوں کی فہرست میں 52 ائرکرافٹ انجینیئر بھی شامل ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق اس لسٹ میں 67 اعلیٰ افسران بھی جعلی ڈگری والے ہیں۔چھوٹے بڑے ملازمین کو مستقل کرنے کی پالیسی کا بھی بہت زیادہ غلط استعمال ہوا۔اس رپورٹ کا حیرت انگیز نکتہ یہ ہے کہ پی آئی اے میں بھرتیوں کے لئے سرے سے کوئی ’ میریٹ پالیسی ‘ ہی نہیں۔یہ رپورٹ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم بڑے بڑے نامی گرامی افراد کے چہرے بھی دیکھ رہے ہیں۔

پی آئی اے کے بنانے والوں میں ائر مارشل نورخان  کا نام سرِ فہرست آتا ہے۔یہ اس عظیم ادارے میں 1959 سے 1965 تک سربراہ رہے۔اِن کے بعد جو نام سب سے زیادہ معتبر ہے وہ ائر مارشل اصغر خان  کا ہے۔یہ 20 اگست 1965 سے 30 نومبر 1968 تک رہے۔پھر آہستہ آہستہ اس پائے کے سربراہ آنا کم ہوتے گئے اور پھر۔۔۔چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ 

گھر کو آگ گھر کے ہی چراغ سے لگا کرتی ہے۔سو یہاں بھی یہ سب کچھ ہوا اور ہنوز جاری و ساری ہے۔حالات بالکل اُسی نہج پر جا رہے ہیں جس پر پاکستان اسٹیل ملز یا کچھ عرصہ پہلے کا پاکستان ریلوے ۔یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کا کوئی انجام نہیں۔ 

ہم نے سوچا تھا کہ دادی نانی کی طرح اس کہانی کا بھی کوئی انجام ہو گا۔دادی نانی کی ہر ایک کہانی کا اختتام اس فقرے سے ہوتا ہے ’’ ۔۔۔ اور وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘۔افسوس کہ اگر ہم اس فقرے پر کہانی کا اختتام کریں تو ’’ وہ سب ‘‘ وہ ہوں گے جو پی آئی اے کا بیڑا غرق کر کے ہنسی خوشی رہنے لگے تھے۔ نہ جانے عوام کب ہنسی خوشی رہے گی !!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام 
یہ تحریر 6  اکتوبر کے روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ  کے صفحہ 11 پر شائع ہوئی۔















  

Comments

Popular posts from this blog