کراچی کی موسیقی کے گمنام ستارے
کراچی کی موسیقی کے گمنام ستارے
موسیقی جِن کی مرہونِ مِنت ہے
تحریر شاہد لطیف
گراموفون ریکارڈ ، آڈیوکیسٹ ، آڈیو سی ڈی ، ریڈیو پر لگنے والے فِلمی اور غیر فِلمی گانے یا ٹیلی وژن کے گیت و غزل کے پروگرام ۔ اسٹیج پر یا موسیقی کی لایؤ محافل، سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ میوزیشن یا سازندے ہیں۔ یہ ہیں .... تو موسیقی کا جہاں بھی آباد ہے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ گیت و غزل خود سازندوں کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ اِس میں قطعاََ کوئی مبالغہ نہیں کہ کسی گیت /غزل کو گانے والا تو شہرت کی بلندی کو چھونے لگتا ہے جبکہ اُس نغمہ کے شاعر اور موسیقار عام طور پر اُتنے مشہور نہیں ہو تے اوروہ میوزیشن، جو اُس مشہور ہونے والے گیت کے جِسم و روح ہوتے ہیں اُن کا ذکر اخبارات میں ویسے نہیں ہوتا جیساکیا جانے کا حق ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ 70 کے اوائل تک تو مجھے بھی اچھی طرح سے یاد ہے کہ کسی غم کے موقع پر ریڈیو پاکستان کراچی سے سائیں مرنا کا نام لے کر ’ اِک تارہ ‘ کی ٹیپ چلائی جاتی تھی۔ موسیقی کے پروگراموں میں گلوکار/گلوکارہ کے نام کے ساتھ شاعر، موسیقار اور تمام سازندوں کے نام لئے جاتے تھے۔سارنگی نواز اُستاد امراؤ بندو خان صاحب، اُستاد نتھو خان صاحب سارنگی نواز، اُستاد عبدالجبار کلارنیٹ نواز، لال محمد بانسری نوازکے نام سے ہر خاص و عام واقف تھا۔
خاکسار نے بھی ہفتہ وار بچوں کے پروگرام کے حوالے سے ریڈیو پاکستان کراچی کی عظیم درس گاہ میں آنا جانا شروع کیا۔یہیں میرے ساتھ نعت خواں خورشید احمد، ابرار احمد ، اور رونا لیلیٰ بھی ہوتی تھیں۔سازندوں کی کیا عزت و توقیر ہوا کرتی تھی، راقِم نے خود پروڈیوسر ظفر اقبال اور مہدی ظہیر صاحبان، رضی اختر شوق صاحب، ڈراموں کے صوتی اثرات دینے والے جناب ایم۔اے۔ رزاق صاحب، اور دیگر بہت سے نامور ڈرامہ آرٹسٹ اوراُس وقت کے ریجنل ڈائرکٹر طاہر شاہ صاحب کو خود اِن کی تکریم کرتے ہوئے دیکھا :
اب وہ بہاریں کہاں اے دِل ......
پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں شعبہ پروگرام کے طفیل ایک مرتبہ پھر .... بھر پو ر طریقہ سے سازندوں کو قریب سے کام کرتے دیکھا۔میری خواہش ہے کہ میں ان صاحبان کا مختصر سا تعارف اِن صفحات پر پیش کروں۔
ابتداء وائلن سے کرتا ہوں۔ مظہر حسین المعروف مظہر بھا ئی، اُس گروپ کے لیڈر تھے جِس میں افضل حسین، مقصود حسین، سعید، منظور حسین اور سلیم صاحب ہوا کرتے تھے ۔ مظہر بھائی میوزک نوٹیشن لکھ اور پڑھ سکتے تھے ۔لہٰذا بڑی اہمیت کے حامِل میوزیشن تھے۔ نہایت مخلص اور اِنسان دوست شخص تھے۔ اِس گروپ نے موسیقار سُہیل رعنا کے ساتھ بچوں کے پروگراموں میں مستعدی سے حصہ لیا۔ منظور حسین اور سعید اب بھی کراچی میں ماشا ء ا للہ بہت فعال ہیں اور کراچی میں مسلسل مشرقی موسیقی کی بقاء کے لئے کوشاں ہیں ۔ 1984 سے لے کر آج تک کراچی شہر میں نفرتوں کے نام پر کیا کیا نہیں ہوا، پھر بھی جب موقع ہوا سنگیت سے انہوں نے پیار کے ہی چراغ جلائے۔جہاں لاؤڈ میوزک، راک وغیرہ نے بھاری اکثریت کو اپنی طرف کھینچ لیا وہیں موسیقار زیڈ۔ایچ۔فہیم نے کراچی اسٹیج اورنجی ٹی وی چینلوں پر ہارمونیم، وائلن، مینڈولین، طبلہ ، نال، کی بورڈ، کلارنیٹ، گٹار وغیرہ سے، کانوں کو بھلی لگنے والی موسیقی کو، آہستہ آہستہ دوبارہ رواج دے دیا۔ اِس میں وائلن نواز منطور اور سعید کے سولو آئٹم بہت پسند کئے جا رہے ہیں۔ پچھلے دِنوں منظور سے میری گفتگو رہی۔اُس کا کہنا ہے کہ جدید موسیقی کے شائقین میں سے تقریباََ 40 فی صد واپس مشرقی موسیقی کی طرف آ گئے ہیں۔
1980 کی دہائی میں دو سِتارنواز بھائی فِدا حسین اور امداد حسین بہت مشہورتھے ۔ میرے پروگراموں میں زیادہ تر یہ ساز امداد سے بجوایا گیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امداد نے ریکارڈنگ کی دنیا میں نیا نیا قدم رکھا تھا۔ وہ ماشاء اللہ بہت ذہین تھا۔چھوٹا بڑا ، آسان مشکل ہر قِسم کا پیس بہت جلد یاد کر لیا کرتا تھا۔
ڈھولک/نال: میرے پروگراموں کی تقریباََ ساری صدابندی ستّار نے کی۔صرف پروگرام ’ سُر سنگم ‘ میں بزمی صاحب کی ریکارڈنگ میں نال، اُن کے اپنے معاون ، جناب فضل کریم نے بجائی تھی۔ستار بہت زندہ دِل آدمی تھا اور وقت کا بہت پابند۔جب کہ اُس وقت اُس کے کام کی بھر مار تھی۔ریڈیو، ٹیلی وژن اور کبھی کبھار فلموں اور اُن کی پس منظر موسیقی کا کام بھی آ جاتا تھا ، اِس پر اسٹیج کے تقریباََ روزانہ کے فنکشن علیحدہ۔اِن سب کے باوجود اسے ہر وقت مسکراتے ہوئے ہی دیکھا۔آج کل حیدرآباد میں نقل مکانی کر گیا ہے۔ کراچی میں ڈھولک اور نال کے فن کا ایک اور بڑا نام جناب اُمید علی کا تھا۔راقم کی اُن سے کافی ملاقاتیں ہوئیں لیکن اُن کے ساتھ صدابندی کا کبھی موقع نہ مِلا۔میرے ٹیلی وژن میں آنے سے قبل یہ کی بورڈ پلیئر ارشاد علی کے ساتھ مِل کر اُمید علی ارشاد علی کے نام سے بطور موسیقار اپنی اہمیت منوا چکے تھے۔
طبلہ: اُس وقت کے سینئیر جناب بشیر خان اور خورشید صاحبان کا بڑا نام تھا۔دونوں رکھ رکھاؤ والے لوگ تھے اور بیشک اپنے فن میں یکتا۔ یہ کم کم ہی ٹی۔وی۔ اسٹیج کو وقت دیتے تھے۔ٹی۔وی۔میں اُس زمانے میں طبلہ نواز ارشد صاحب کا بہت نام تھا۔ میرے پروگراموں کی کافی صدابندی اُنہوں نے ہی کروائی۔ موٹی موٹی شرارتی آنکھیں طبلہ کی مشکل چلت اور تالوں میں بھی سدا ویسی ہی رہا کرتی تھیں۔ماشاء اللہ اِن کے ہاتھ میں بھی جناب ا ستاد امیر سلطان والی بات نظر آیا کرتی تھی۔
ڈرم سیٹ: طفیل صاحب نے میرے پروگراموں کی خاصی ریکارڈنگ کرائی۔ چونکہ کمزور ہو چکے تھے لہٰذا پھر اُن کا بیٹا اسلم آنے لگا۔ بہت جلد یہ بھی جیسا موسیقار نے چاہا ویسا بجانے لگا ۔ ایک اور ڈرمر منصور لاکھانی نے . موسیقار اختر اللہ دتہ صاحب کے ساتھ بہت اچھا کام کیا۔یہ نوجوان بہت محنتی تھا۔بعد میں آنے والے شاہد ڈرمر نے تقریباََ ہر ایک موسیقار کے لئے اچھاکام کیا ۔ لاہور سے کی بورڈ پلیئر اظہر حسین اور گٹارسٹ حنیف کے آنے کے بعدشاہد ڈرمر نے اِن کے ساتھ مِل کر کراچی اسٹیج کو بہت رونق بخشی۔الاعظم اسکوائر، 10 نمبر لیاقت آباد میں گرمیوں میں راقِم نے اِن تین میوزشنوں کے ساتھ بارہا مرزا غالب کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے بالٹی میں برف کے لگے ہوئے ٹھنڈے ٹھنڈے آم بہت کھائے ہیں۔آم ہوں، بہت ہوں اور کسی سُریلے میوزیشن کے ہاں ہوں تو .... آجکل شاہد صاحب دِل کا بائی پاس کروانے کے بعد ڈرم سیٹ کے بجائے آکٹاپیڈ Octapad استعمال کر رہے ہیں۔
کانگو : کانگو کا نام ذہن میں آتے ہی پہلا نام محبوب کا آتا ہے۔دُبلے پتلے سے مسکراتے چہرے والے۔ایک سندھی فلم ’ محبوب مِٹھا ‘ کے نام سے یہ ہر خاص و عام میں محبوب مٹھا کے نام سےجانے جاتے تھے ۔ ٹیلی وژن کی ریکارڈنگ سے زیادہ یہ کراچی اسٹیج کے میوزک پروگراموں کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے۔
کی بورڈ پلیئر ارشاد علی نے سب سے زیادہ میرے ساتھ کام کیا۔ وقت کے پابند ایک خوش حال میوزیشن تھے جو اپنی سوزوکی بولان میں اپنے ہنستے مسکراتے معاون ، نذیر مارٹن کے ساتھ، ہر دفعہ وقت سے پہلے آیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ موسیقار جناب جاوید اللہ دتہ صاحب کی ایک کمپوزیشن: " جانِ من تو آجا میرے دل میں سما جا" میں بہت ہی تیز چلت کا ایک پیس بجایا جانا تھا جو ارشاد علی صاحب نے دو ریہر سلوں کے بعد پہلی ہی ٹیک میں صدا بند کروا دیا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ! ایک اور کی بورڈ پلیئر سلیم ، زیادہ تر ریڈیو پاکستان کراچی کی ریکارڈنگ یا اسٹیج شو کیا کرتا تھا لیکن جب بھی ضرورت پڑی وہ آیا اور میرے بعض پروگراموں کی صدا بندی میں حصّہ لیا ۔اب ایک ایسے نام کی طرف آتا ہوں جِس نے واقعی بعد میں اپنے والد کا نام روشن کیا۔یہ روبن جون ہے۔ اِن کے والد ، سنی بینجیمن جون ، المعروف ایس ۔بی ۔جون ، جو 1959 میں بننے والی فِلم ’ سویرا ‘ کے گیت : " تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے ..... ٗٗسے بہت مشہور ہوئے۔اِس لازوال گیت کو فیاض ہاشمی صاحب نے لکھا اور منظور حسین شاہ عالمی والے کی موسیقی تھی۔روبن نے جی توڑ کر مشق کر رکھی تھی۔ٹیلی وژن کی ریکارڈنگ میں میوزیشن اپنے پیس میں محدود رہتا ہے جبکہ میں نے روبن کو اسٹیج پر لایؤ کی بورڈ بجاتے دیکھا اور سُنا ۔غم اور خوشی کے گیتوں کے ا نٹرول میوزک، انترے میں چھوٹی چھوٹی باریں ، اِس قدر خوبصورتی سے بجاتا کہ لگتا تھا کہ گیت موسیقی کی صورت بہہ بہہ کر کانوں کے ذریعہ دِل میں جا رہا ہو۔حالاں کہ وہ بہت شوخ و چنچل لڑکا تھا۔آج کل کینیڈا منتقل ہو گیا ہے۔ کی بورڈ کا ایک اور بڑا نام اظہر حسین کا ہے۔یہ اُس زمانے میں گراموفون کمپنی آف پاکستان میں ریکارڈنگ کروا رہے تھے۔گو کہ اُنہوں نے میرے پروگراموں کی کوئی زیادہ صدا بندی نہیں کروائی لیکن اِن کی شخصیت، اُن کے ہاتھ، اُن کی آنکھیں غرض سراپا ہی ایک منجھے ہوئے میوزیشن کا تھا۔کراچی اسٹیج پر اِن کی آمد بہت مفید رہی۔ اِن کے آ نے کے بعد سے کراچی کا میوزک ، سُننے والوں سے باتیں کرنے لگا۔مثلاََ اُس وقت بھی لوک گیت " لال موری پت رکھیو بھلا ..... "شوق سے سُنا جاتا تھا۔ اِس گیت کی استھائی اور انتروں میں جا بجا چھوٹی چھوٹی خالی جگہیں آتی تھیں۔اظہر حسین اُن سب کو یہ بہت خوبصورتی سے بھرا کرتے۔یہ اُس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
گٹار : شاہد علی ناشاد، پاکستانی فلموں اور پرانی بھارتی فلموں کےنامور موسیقار ناشاد صاحب کے بیٹے تھے۔ لمبے قد کا خوش خوش رہنے والا شاہد علی ناشاد ردھم، لیڈ اور بیس تینوں سے کام لیا کرتا تھا۔اِس کے ساتھ میرا دوستانہ لمبے عرصہ رہا۔
پھر دو گٹارسٹ بھائی ، ناصر حسین اور اُن کے چھوٹے بھائی صابر حسین نے میرے پروگراموں میں بہت حصّہ لیا۔ بعد میں ناصر بھی کیسٹ ریکارڈنگ میں موسیقار ہو گیا۔
ایک بیس گٹارسٹ بوبی تھا جو آنکھوں سے نابینا تھا۔کریم شہاب الدین اپنی ریکارڈنگ میں اکثر بیس انہی سے بجواتے۔بوبی کام میں بھر پور تھا۔
ایک اور گٹارسٹ فرخ عابد .... بہت ذہین لڑکا تھا۔ 5th اور میجر /مائنر 7th کورڈ وہ ایسے لگاتا جیسے کوئی سر پر پانی کا بھرا پیالہ رکھ کر دوڑتا ہوا آئے جائے اور ذرا سا بھی جھٹکا محسوس نہ ہو۔من موجی شخصیت کا مالک تھا، طبیعت میں بے چینی بدرجہ اتم موجود تھی۔ میں اکثر اُسے کہتا کہ تمہیں تو شاعر ہونا چاہیے تھا.....گٹار کی تاروں پراُس کی گرفت ناقابلِ یقین حد تک مضبوط تھی۔اِس کی سند اِس بات سے دوں گا کہ بزمی صاحب نے جب میرا پروگرام کرنے کی حامی بھری تو چند میوزیشنوں کے نام دیے کہ اِن کو بلوا لو۔اُس لسٹ میں فرخ عابد کا نام دیکھ کر میں خوش اورحیران ہوا۔خوش اِس بات پر کہ میرا اندازہ اِس نوجوان میوزیشن کی حیرت انگیز مہارت کا بالکل درست تھا اور حیران اِس بات پر کہ بزمی صاحب نے بھی 7th کی بات کی۔
قمر اللہ دتہ کراچی کا بہت اچھا میوزیشن تھا NAPA میں وہ گٹار کی کلاسیں بھی لیتا تھا، انہوں نے میرے ٹیلی وژن پروگراموں میں بہت کام کیا مگر نہایت افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ یہ ذہین موسیقار ٹارگٹ کلنگ کی بھینٹ چڑھ گیا۔
گٹار کے سلسلے میں شہزاد اور عشرت ، دونوں بھائیوں نے اختر اللہ دتہ کی موسیقی میں میرے ساتھ دن رات کام کیا۔شہزاد نے نئے زمانے کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے بیس گٹار کے نئے نئے پیٹرن بجائے۔ اِن دونوں بھائیوں نے اپنے بڑے بھائی اختر اور جاوید اللہ دتہ کے ساتھ مِل کر کراچی اسٹیج میں گلوکار محمد علی شہکی کے ساتھ ایک باقاعدہ بینڈ کے تصور کو رواج دیا۔اِن ہی پروگراموں کی وجہ سے کراچی اسٹیج میں ورائیٹی شوز کی ایک دفعہ اور بہار آ گئی جو 70 کی دہائی سے بہت کم رہ گئی تھی۔بہت جلد شہزاد اور عشرت ریاست ہائے متحدہ امریکہ نقلِ مکانی کر گئے۔عشرت جامعہ کراچی میں مجھ سے جونیئر ہوا کرتا تھا۔امریکہ میں اپنے قیام کے دوران راقم بھی ایک دفعہ عشرت سے ملنے شکاگو گیا۔ وہیں شہزاد سے بھی ملاقات ہوئی۔
حنیف گٹارسٹ کے نام کے بغیر گٹار کا ذکر ادھورا رہے گا۔گورا چٹا رنگ، دراز قد، مسکراتا چہرہ۔حنیف کی تیاری فلم میوزشن کی تھی۔اِن کے بڑے بھائی الیاس لاہور کی فلمی صنعت کے صفِ اوّل کے وائلنسٹ میں شمار ہوتے تھے۔یہ خود بھی لاہور سے آیا تھا اور اِسی لئے بزمی صاحب نے اُسے نام لے کر اپنی ریکارڈنگ میں بلوایا ۔پورے گیت کی صدابندی میں وہ ایسے ا طمینان سے بیس بجاتا گویا گٹار کی تاروں کو پیار کر رہا ہو ۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کمال کا میوزیشن تھا۔جلد ہی یہ بھی امریکہ چلا گیا۔نیو یارک میں اپنا گھر اور ریکارڈنگ اسٹوڈیو ہے۔موسیقی کی تعلیم بھی دیتا ہے۔
سنتور : میں خوش قِسمت ہوں کہ اِس ساز کو بجانے والے فنکار جناب کامل کو دیکھا اور بات چیت کی ۔اب تو کراچی میں نہ سنتور رہا نہ سنتور نواز۔کامل صاحب کم گو دبلے پتلے نہایت وضع دار شخص تھے۔کبھی اِن کے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی۔اے کاش میرے پاس اِن عظیم لوگوں کی یادگار تصاویر ہوتیں اور میں اپنے نواسوں نواسیوں کو بتاتا کہ بچو ! یہ ہماری موسیقی تھی۔
وائبروفون: راقم نے شروع شروع میں عبدالقادر کو ٹیلی وژن کی ریکارڈنگ میں وائبروفون بجاتے دیکھا پھر جلد ہی یہ کی بورڈ بجانے لگے کیوں کہ اب شاید اِس ساز کی اہمیت کم ہو گئی تھی۔حالاں کہ بعد میں کریم بھائی اور اختر اللہ دتہ صاحبان نے الیکٹرانک کی بورڈ سے وائبروفون اور سنتور کے ایفیکٹ خودبجائے۔لیکن اصل ساز اصل ہے۔خاکسار نے اصل کو سُنا ہے وائبروفون سے گیت روشن روشن لگتا تھا۔
بانسری : مجھے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ جب بھی ضرورت پڑی، بانسری نواز اُستاد سلامت صاحب نے ریکارڈنگ میں آ کر میرے پروگراموں کو چار چاند لگا دئے۔علاوہ ازیں پروڈیوسر حیدر امام رضوی صاحب کے ساتھ ڈرامہ سیریز ’ سہارے ‘ کی پس منظر موسیقی کے لئے ان کی بانسری پر راگ دیس، راگ بہار ، ر اگ پیلو اور صبح کا راگ بھیرو بھی ریکارڈ کروایا۔پروڈیوسر مرغوب احمد کے ساتھ کلاسیکل موسیقی کے پروگرام ’ راگ رنگ ‘ میں کئی دفعہ اِن سے پروگرام کروائے۔
ڈبل بیس: بابا ڈِک وہ واحد میوزیشن تھے جن کو میں نے یہ ساز لائیو بجاتے دیکھا۔کریم شہاب الدین کی ریکارڈنگ میں یہ اکثر آیا کرتے۔بابا اِس کم تر سے بہت پیار کیا کرتے تھے اور بیتے دنوں کی یادوں کا ذکر بہت خوبصورتی سے کیا کرتے۔اِن کے اِس ساز سے گانے کے ردھم اور چال میں ایک خوشگوار نکھار آ جاتا تھا۔مجھے اختیار ہو تو اِس خوش آواز ساز سے بہت زیادہ کام کرواؤں۔
منڈولین : میں نے سب سے پہلے نثار بزمی صاحب کی ریکارڈنگ میں نواز صاحب کو مینڈولین بجاتے د یکھا۔ پھر 2008 میں کراچی کلب کے ایک پروگرام میں موسیقار ز یڈ۔ایچ۔فہیم کی نگرانی میں اِن کو مینڈولین بجاتے سُنا : " جانِ بہاراں رشکِ چمن ......" سلیم رضا کے اِس گیت کے دوران اصل مینڈولین پیس سُن کر مزا آ گیا۔
میوزیشن کسی گیت کی دھن میں کیسے رنگ بھرتے ہیں اِس کی مِثال جناب اسد محمد خان صاحب کے لکھے نغمہ کی دیتا ہوں جِسے روبینہ بدر نے گایا تھا: " تم سنگ نیناں لاگے مانے ناہیں جیا را ، پیا پیا بولے پیا ، من کا پپیہا را ...." اِس گیت کو پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے پروڈیوسر جناب عارفین نے پروڈیوس کیا اور کامیڈین، گلوکار، میوزیشن اور موسیقار جناب خالد نظامی نے دھُن بنائی۔ جب اِس میں وائلنوں کا پورا بیچ ، ستار، وائبروفون، چیلو، بانسری، گٹار ، طبلہ پرکشن، مجیرہ وغیرہ کا استعمال کروایا گیاتو پھر ایک لازوال گیت تیار ہوا۔
پچھلے دِنوں پاکستان سپر لیگ2017 کے میچوں میں گلوکار علی عظمت ، فاخر وغیرہ ٹیلی وژن اسکرین پر کھلاڑیوں اور عوام کا حوصلہ بڑھاتے نظر آ رہے تھے، اگر وہ قومی نغمات گنگناتے جیسے کلیمؔ عثمانی کا لکھا اور بزمی صاحب کی طرز میں مہدی حسن کا یہ گیت: " یہ وطن تمہارا ہے تُم ہو پاسبان اِس کے ...." تو زیادہ بہتر ہوتا، کیوں کہ اُن کو دیکھ کر ننھے بچے بھی شوق سے گاتے پھرتے۔
ایک زمانے میں ساحرہ کاظمی ، شاہد اقبال پاشا ، شاہین انصاری وغیرہ نے پاکستان ٹیلی وژن کراچی سے جاوید اللہ دتہ، لال محمد اقبال اور نثار بزمی صاحبان کی موسیقی میں 30 سے 35 میوزیشن کے ساتھ علاقائی روما نوی داستانوں کو بہت خوبصورت انداز سے پیش کیا تھا ایسے پروگراموں کی اب دوبارہ اشد ضرورت ہے۔نجی ٹی۔وی۔والے تو بقول شخصے ، یہ ’ فضول ‘ پروگرام پیش نہیں کرنے والے، اِس کام کے لئے اب بھی بہترین جگہ پاکستان ٹیلی وژن ہی ہو گی۔
ماضی میں ہمارے ہاں معیاری موسیقی ہر خاص و عام کے دِل میں گھر کر لیا کرتی تھی ۔ساحرہ کاظمی ، سلطانہ صدیقی ، میرے اُستاد جناب عشرت انیس انصاری صاحب، امیر امام ، ظہیر خان، بختیار احمد، مرغوب احمد اور شعیب منصورصاحبان نے کراچی کے کئی ایک مقبول پروگرام کئے۔ اگر رواں دور کے پاپ اور لائٹ کلاسیکل فنکار اصل مشرقی سازوں کے ساتھ نئے گیت گائیں۔مثلاََ علی ظفر سلیم رضا کی طرح کے انداز میں نئی کمپوزیشن سُنائیں جِس میں 15 وائلن، 2 کلارنٹ، ستار، بانسری، سارنگی، سرود، مینڈولین، رباب، طبلہ، نال، چیلو، گٹاریں، پرکشن و غیرہ صحیح طور پر استعمال کرائے جائیں تو پاکستانی موسیقی کی موجودہ صورتِ حال بہت بہتر ہو جائے گی۔
اب چند اختتامی جملے عرض کرنا چاہوں گا کہ پاکستان میں موسیقی کو جنہوں نے جو نقصان پہنچانا تھا وہ پہنچا دیا گیا اب سب کچھ بھول کر ایک درخشان سنہری دور میں ہمیں وقار کے ساتھ داخل ہونا ہو گا۔اور اِس سفر میں ہمیں موسیقی کے جسم اور جان یعنی میوزیشن / سازندوں کو اُن کی توقیر اور عزت دوبارہ دینا ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
Comments