ممی کی بد دعا
لوسا مَے ایلکوٹ : Louisa May Alcott
( نومبر 1832 سے 6 مارچ 1888)
ایک نامور امریکی ناول نگار اور شاعرہ گزری ہیں۔ مندرجہ ذیل کہانی ان کی مشہور مختصر کہانی Lost in a Pyramid, or the Mummy's Curse
سے ماخوذ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممی کی بد دعا
مصر کے پس منظر میں لکھا گیا ایک پراسرار ماجرا
تحریر شاہد لطیف
’’ فیروز یہ کیا ہے؟ ‘‘ نازاں نے سونے کی بنی ہوئی قدیم زمانے کی ڈبیہ کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’ مصر کے فرعونوں کے دور کے نامعلوم بیج‘‘۔یہ کہتے ہوئے فیروز کے چہرے پر خوف کے سائے لہرا گئے۔اُس نے ڈبی کی طرف دیکھا جس میں چند بیج رکھے ہوئے تھے۔
’’ قدیم مصری دور کے بیج؟‘‘۔نازاں نے حیران ہوتے ہوئے سوال کیا،’’ یہ کہاں سے آئے؟‘‘۔
’’ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں ہماری شادی کو۔۔۔بہت ساری چیزیں رفتہ رفتہ جان جاؤ گی‘‘، فیروز نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔’’ یہ ایک عجیب کہانی ہے تمہیں سنائی تو کہیں ڈر ہی نہ جاؤ‘‘ !یہ بات اُس نے اشتیاق کو بڑھا نے کے انداز میں کہی۔
’’ ڈر کو چھوڑو ! مجھے تو عجیب و غریب کہانیاں بہت پسند ہیں‘‘۔
’’ میں نے تو تمہیں خبردار کر دیا ۔۔۔اب آگے تمہاری مرضی۔کیوں کہ مجھے پروفیسر صفوی بتا چکے ہیں کہ یہ کوئی عام قسم کے بیج نہیں بلکہ۔۔۔خیر چھوڑو ! ‘‘۔ فیروز نے سنجیدگی سے یہ جملے کہے ۔
’’ میں سننے کو تیار ہوں‘‘ ۔نازاں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب میں مصر میں تھا‘‘،بہت ہی ہلکی آواز میں فیروز نے بولنا شروع کیا۔’’ایک روز حسبِ معمول میں اور پروفیسر صفوی، مصری گا ئیڈ نبیل کے ہمراہ فرانس کے آثارِ قدیمہ کی نئی دریافت شدہ سرنگ میں پرانے آ ثار اور ممیوں کی تلاش میں نکلے۔ہم لوگ پھونک پھونک کر قدم اُٹھا رہے تھے۔ پروفیسر معمولی قسم کی بھی کوئی چیز دیکھے پرکھے بغیر آگے نہیں بڑھتے تھے ۔ ہر قسم کے خطرات، بھوک پیاس اور تھکاوٹ پر اُن کا اشتیاق حاوی ہو چکا تھا۔ یہ سرنگ نہ جانے آگے کہاں نکلتی ہو گی کوئی پتا نہیں۔ پروفیسر کے لئے تو ہر ایک چیز میں دلچسپی کا سامان تھا۔کہیں پرانے زمانے کی کوئی تصویر کہیں کوئی گئے زمانے کے ظروف ۔۔۔ البتہ میرے لئے تو سرنگ کے اندر ہزاروں سال پہلے کی ہوا اور مٹی ذہن مفلوج کیے دے رہی تھی۔آگے جا کر یہ سرنگ بہت کشادہ ہو گئی۔یوں لگتا تھا کہ جیسے اِس میں سے دائیں بائیں کئی راستے نکلتے تھے۔ سرنگ میں کئی جگہوں پرممیوں کے خالی تابوت نظر آئے، جن کو پروفیسر نے بغور دیکھا۔ پھر وہ چبوترے بھی دکھائی دیے جہاں پر ہزاروں سال پہلے مُردوں کو رکھا جاتا ہو گا۔اس ماحول کی وجہ سے مجھے تو اب آس پاس کسی کی موجودگی بھی محسوس ہونے لگی اور تھکن سے برا حال ہو گیا۔ میں نے پروفیسر سے وقفہ کر کے واپس چلنے کو کہا لیکن وہ ابھی اس زمین دوز کشادہ را ستے پر مزید آگے جانا چاہتے تھے ، کیوں کہ بقول ان کے ایسے موقع بار بار نہیں ملتے۔ہمارے مصری گائیڈ نے میری مشکل کو دیکھتے ہوئے مشورہ دیا : ’’ آپ دونوں فی الحال اسی جگہ ٹہریں ، میں پروفیسر کے لئے دوسرا گا ئیڈ لے کر آتا ہوں اور پھر خود آپ کو واپس لے جاؤں گا ۔ اور ہاں۔۔۔ خبردار ! یہاں سے آگے اکیلے جانے کی کوشش نْقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، میں جلد واپس آ جاؤں گا‘‘۔
’’یہ کہہ کے گائڈ، نبیل چلا گیا‘‘،فیروز نے بات جاری ر کھی۔ ناذاں بہت دلچسپی سے اُس کی گفتگو سن رہی تھی۔ ’’ پروفیسر اپنی رجسٹر نما ڈائری میں کچھ لکھنے لگے اور میں ہزاروں سال پرانی خاک کے فرش پر لیٹ گیا۔ ۔۔۔ سوچتے سوچتے کہ نہ جانے کتنے ہی زندہ اور مردہ یہاں سے گزرے ہوں گے ، گہری نیند سو گیا۔ کچھ ہی دیر سویا ہوں گا کہ ایک عجیب نا قابلِ بیان بے چینی سے ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ میں نے فوراََ اپنے آس پاس نظر دوڑائی لیکن پروفیسر نظر نہیں آئے۔گا ئیڈ جمال جو لائٹ اس زمین دوز گزر گاہ کی دیوار میں لگا گیا تھا وہ میرے سامنے تھی البتہ دوسری طاقتور لائٹ اورپروفیسر موجود نہیں تھے۔ ایک لمحے کو پریشانی محسوس ہو ئی لیکن جلد ہی پروفیسر کا مجھے یوں اکیلا چھوڑ جانے کا غصہ، خوف پر غالب آ گیا ۔ میں جونہی کھڑا ہوا تو میری نظر پروفیسر کے رجسٹر سے پھاڑے ہوئے صفحہ پر پڑی جس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی‘‘:
’’ میں آگے جا رہا ہوں کیوں کہ مجھے ایک سراغ ملا ہے جو مجھ کو کسی گمشدہ اہم آثار تک لے جا سکتا ہے۔میں خود واپس آ جاؤں گا۔ جب تک جمال نہیں آتا میرے پیچھے مت آنا۔تم کچھ دیر اور فرعونوں کی سرزمین پر آرام کر لو۔‘‘
’’ عبارت پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا۔دفعتاََ مجھے زمین پر گرے ہوئے کسی بڑے سنگی مجسمے سے بندھی ہوئی ایک رسی نظر آئی۔ میں سمجھ گیا کہ ہم سے پہلے آنے والے کسی مہم جو یا نوادر چورنے یہ باندھی ہو گی ۔۔۔لیکن پھر اُن مہم جوؤں کا کیا ہوا؟ اگر وہ زندہ سلامت واپس آئے تو اپنا ثبوت، یہ رسی کیوں چھوڑ گئے؟ مجھے دال میں کالا محسوس ہوا لہٰذا فوراََ پروفیسر کے پیچھے جانے کافیصلہ کیا ۔میں نے لائٹ اُٹھائی اور ڈور کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔یہ مختلف بل کھاتے راستوں سے میری راہنمائی کرتی رہی۔میں کئی مرتبہ پوری قوت سے چلّایا بھی کہ شاید میری آواز سنی جا سکے لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔مجھے اُس راستے پر آنے والے ہر ایک موڑ پر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے پروفیسر میرے سامنے زمین پر جھکے ہوں یا دیواروں پر بنی اشکال پر غور کر رہے ہوں گے۔اچانک رسی ختم ہو گئی۔میں نے لائٹ فرش کی جانب کی تو قدموں کے نشان آگے کو جاتے ہوئے دکھائی دیے‘‘۔
’’ پروفیسر کے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے اُن سے کچھ بعید نہیں تھی کہ وہ رسی کی سمت بھی چھوڑ چکے ہوں، اس لئے میں تیز قدموں سے چلنے لگا۔تھوڑی دور ہی چلا ہوں گا کہ مجھے یو ں لگا جیسے کہیں دور سے کوئی پکار رہا ہو۔میں خوف سے لرز گیا کیوں کہ یہ آواز اس گزر گاہ سے خاصی دور کہیں دائیں جانب سے آئی تھی۔ جواب میں پوری قوت سے پروفیسر کا نام لے کر پکارا اور ہمہ تن گوش ہو گیا۔ پھرایک آواز سنائی دی جو پہلے سے بھی ہلکی تھی‘‘۔
’’ لگتا تو کچھ ایسے تھا کہ پروفیسر اپنی صحیح سمت بھول کر دائیں جانب کو کافی اندر کہیں موجود ہیں ۔ مجھے جو کچھ بھی کرنا تھا جلدی کرنا تھا کیوں کہ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔میں نے لائٹ کو وہیں فرش پر رکھ دیا تا کہ واپسی کے لئے یہ دور سے صحیح سمت کی رہنمائی کر دے پھر تیزی سے اس زمین دوز راستے پر دوڑنے لگا ۔اس کے ساتھ پوری قوت سے پروفیسر کا نام لے لے کر پکارتا رہا۔مجھے بھی مجبوراََ اپنے راستے سے دائیں جانب ہٹ کر ، جہاں سے پروفیسر کی آواز کا شبہہ ہو اتھا، جانا پڑا۔کچھ ہی دور چلا ہوں گا کہ مجھے روشنی دکھائی دی۔۔۔اللہ کا شکر ادا کیا۔روشنی کی سمت میں تھوڑا ہی آگے گیا ہوں گا کہ پروفیسر نظر آ گئے۔ اُنہوں نے مضبوطی سے میرے ہاتھ کو تھام لیا جس سے مجھے اندازا ہو گیا کہ اس وقت وہ خوف زدہ اور پریشان ہیں۔
’’چلو ہمیں اس ہیبت ناک جگہ سے فوراََ نکل جانا چاہیے ! ‘‘ ۔پروفیسر نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا ۔یقیناََ اُن کے ساتھ کوئی سنگین معاملہ ہوا ہو گا ورنہ پروفیسر کو میں نے کبھی مصری آثار میں دہشت زدہ حالت میں نہیں دیکھا۔’’ میں اپنی مقرر کردہ نشانی سے زیادہ دور نہیں ہوں۔ وہاں پہنچ کر ہم اُس راستے پر نکل جائیں گے جہاں رسی ختم ہوئی تھی‘‘۔
’’ نازاں !! دیکھ لو اب بھی یہ جملے ادا کرتے ہوئے میرا جسم خوف سے کانپ رہا ہے۔تم اندازہ نہیں کر سکتی کہ مصری زمین دوز بھول بھلیاں کیسی ہوتی ہیں۔کشادہ گزرگاہ سے آپ تھوڑا سا بھی آگے پیچھے ہوئے تو تنگ و تاریک سرنگیں منہ پھاڑے ملیں گی اور بعض تو ا چانک اتنی تنگ ہو جاتی ہیں کہ پیٹ کے بل رینگنا پڑتا ہے۔۔۔اُف۔۔۔‘‘۔
نازاں یہ بات نہایت سنجیدگی سے آنکھیں جھپکائے بغیر سُن رہی تھی۔
’’ ہمارے سامنے بھی یہی صورتِ حال تھی۔ہمارے راستے سے دائیں بائیں کئی سرنگیں نکل رہی تھیں ۔کوئی بھول چوک ہوئی نہیں اور آپ۔۔۔پروفیسر کے اعصاب کا تو ذکر کرنا بیکار ہے اب جو کچھ کرنا تھا مجھے ہی کرنا تھا جب کہ خود میرا حال بھی پروفیسر سے کوئی زیادہ الگ نہیں تھا ۔میں نے احتیاط سے ہزاروں برسوں کی خاک پر ، پروفیسر کے پاس آتے ہوئے اپنے ہی نقشِ پا کو دیکھتے ہوئے چلنا شروع کیا۔دل کو اطمنان تھا کہ میں صحیح سمت ہی جا رہا ہوں ۔ پروفیسر خاموشی سے چپ چاپ کاندھے جھکائے چلنے لگے۔مجھے قدموں کے نشانات پر بھروسا تھا کہ میں جلد اپنی مقرر کردہ نشانی، لائٹ تک پہنچ جاؤں گا۔لیکن جب ہمیں چلتے چلتے کافی دیر ہو گئی تو میں بھی پریشان ہو گیا کہ ہمیں تو کہیں پہلے لائٹ تک پہنچ جانا چاہیے تھا کہیں ہم۔۔۔بھٹک تو نہیں گئے! !ایک لمحہ کو خیال آیا کہ ذرا قدموں کے نشان غور سے دیکھوں، جوں ہی لائٹ کو زمین پر رکھ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر نشانات پر غور کیا تو ۔۔۔پیروں تلے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔۔۔وہ تو ننگے پیروں کے نشانات تھے۔۔۔میں نے تو ایڑی والے بوٹ پہنے ہوئے تھے ۔ جب میں پروفیسر صفوی کو تلاش کر کے واپس چلنا شروع ہوا تھا تب وہ واقعی میرے ہی جوتوں کے نشانات تھے۔پھر نہ جانے کس موڑ پر میں ننگے پیروں کے نشانات کو اپنے قدموں کے نشانات سمجھ کر دھوکہ کھا گیا‘‘۔
’’ میں نے پروفیسر کو اِس بدلی ہوئی صورتِ حال کا بتایا ۔آفرین ہے اُن پر کہ وہ بالکل نہیں گھبرائے اور مجھ سے کہا کہ اِن ننگے پیروں کے نشانات پر ہی چلتے رہو ، امکان تو ہے کہ وہ ہمیں ممیوں کے مقابر میں لے جائیں گے۔ان کی دلیل یہ تھی کہ جس طرح آج ہم اپنی ایک نئی دریافت شدہ سرنگ میں گھوم رہے ہیں بعینہٖ اُسی طرح نہ جانے کون کون ہم سے پہلے اِن کی کھوج میں آیا ہو گا‘‘۔
’’ میرے منہ سے بیساختہ نکلا کہ ہم تو بھٹک گئے اب ہمارا کیا ہو گا؟۔آسمان سے گرے کجھور میں اٹکے، ابھی راہ بھٹکنے کو رو رہے تھے کہ لائٹ کی بیٹریاں بھی کمزور پڑنے لگیں۔میں جس کشادہ زمیں دوز سرنگ سے آیا تھا اُس میں گھُپ اندھیرا نہیں تھا بلکہ ملگجی روشنی تھی، لیکن اب یہ وہ راستہ نہیں تھا بیٹریوں کے ختم ہونے پر کیا ہو گا یہ سوال میرے ذہن کو مفلوج کئے دے رہا تھا۔پروفیسر نے میری ڈھارس بندھائی اور کہا کہ غور سے دیکھو ہم سے پہلے آنے والا بھی اعتماد کے ساتھ ایک رفتار سے چل رہا تھا یقیناًقدیم زمانے کے لوگ اِن بھول بھلیوں کا توڑ بھی جانتے ہوں گے۔پروفیسر باتوں میں اتنے کھو ئے کہ ایک جگہ معمولی سی ڈھلوان آئی اور وہ توازن برقرار نہ رکھ سکنے کی وجہ سے گر گئے ۔ کھڑے ہونے کی کوشش کی لیکن تکلیف کی شدت سے وہ زمین پر بیٹھ گئے۔یہ تو نہایت پریشان کُن صورتِ حال ہو گئی اور میں بھی مایوسی کے ساتھ اُن کے برابر بیٹھ گیا۔اُنہوں نے مجھ سے کہا بھی کہ تم دیر نہ کرو اِن پیروں کو نشان بنا کر چلتے جاؤ کہیں تو نکلو گے ۔ پروفیسر کی حالت دیکھ کر میں نے آگے جانے سے انکار کر دیا‘‘۔
’’ پروفیسر صفوی نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ ہماری طرح مہم جوؤں کی کوئی جماعت مصری بھول بھلیوں میں پھنس گئی تھی پھر انہوں نے آگ جلائی اور اس کے دھویں نے آواز اور روشنی سے زیادہ تیز رفتار کام کیا اور اُن کے گائیڈ کو اُن کی پوزیشن کا علم ہو گیا۔ لہٰذا ہمیں بھی کچھ جلانے کے لئے تلاش کرنا ہو گا۔۔۔اُٹھو دیر نہ کرو۔میں نے تشویش کا اظہار کیا کہ یہاں لکڑیاں کہاں ؟ اِس پر پروفیسر نے برجستہ کہا کہ نظریں دوڑاؤ کوئی تابوت ڈھونڈو۔۔۔‘‘۔
’’ نازاں! پروفیسر ٹھیک ہی کہہ رہے تھے‘‘، فیروز نے ٹھنڈے پانی کا آدھا گلاس پینے کے بعد اپنی بات جاری رکھی ۔’’ہمیں راستے میں کئی ایک جگہ کھلے ہوئے خالی تابوت نظر آئے تھے جن پر کی گئی نقش و نگاری کو پروفیسر نے بہت غور سے دیکھا تھا۔ جلد ہی ہمیں ایک اونچے چبوترے پر نسبتاََ پتلا تابوت نظر آیا۔ حسبِ روایت اس پر جاذبِ نظر مصری نقش و نگار بنے ہوئے تھے جو اس بات کا پتا دیتے تھے کہ یہ ممی کا تابوت ہے۔ میں نے اوپر چڑھ کر اُس کو خالی سمجھتے ہوئے لاپروائی سے نیچے کو پھینکا۔مگر یہ کیا؟۔۔۔وہ تابوت کھل گیا اور اُس میں سے ایک ممی لڑھکتی ہوئی باہر کو گری۔ممیوں اور مصری نوادرات سے میرا واسطہ پڑتا ہی رہتا تھا پھر بھی اس طرح سے کبھی نہیں ہوا کہ کسی مردے کوبے توقیری سے پٹخ دیا گیا ہو۔میں نے فوراََ تابوت کو اپنے جوتوں کی مدد سے توڑا اور سرنگ کے درمیان میں رکھ کر آگ دکھا دی ۔ فوراََ ہی دھوئیں کے ہلکے بادل ہمارے سامنے تین الگ الگ راستوں میں جاتے نظر آئے ۔ اُف۔۔۔کیا غضب کی بھول بھلیاں تھیں اللہ کی پناہ! جب میں اس کام سے فارغ ہوا تو دیکھا کہ پروفیسر اپنی تکلیف اور اِس خطرناک صورتِ حال کو بھول کر اُس ممی کا معائنہ کر رہے تھے۔ایسا شخص میں نے صرف ان ہی کو دیکھا جو موت کے منہ میں بیٹھ کر بھی اپنے جذبے اور اشتیاق میں گُم تھا۔ پروفیسر صفوی بھی عجیب ہی چیز تھے۔مجھ سے کہنے لگے کہ تابوت کے ڈھکن پر بنے نقوش سے اندازہ ہوا ہے کہ یہ کسی خاتون کی ممی ہے ۔اِس ممی کی دریافت میں میرا اور تمہارا نام آئے گا ،ہم دونوں کتنے خوش قسمت ہیں کہ کبھی تاریخ کا حصہ ہوں گے ۔ آؤ میرے سا تھ، اِس پراسرار ممی کے کفن کی پٹیاں کھولو ۔ ہم دونوں ممی کی پٹیاں کھولنے لگے۔ جیسے جیسے یہ کھلتی جاتی تھیں ویسے ویسے بہت ہی تیز مصالحوں کی عجیب خوشبو مدہوش کیے دیتی تھی‘‘۔
’’ یہ کام میں ہچکچاتے ہوئے کر رہا تھا۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ اِن بوسیدہ ہڈیوں کو ہاتھ سے محسوس کرتے ہوئے خوف کا جھٹکا لگتا تھا جیسے کم طاقت کی بجلی کا جھٹکا۔ انہی پٹیوں میں سے کھنکتے ہوئے پرانے زمانے کے سکّے اور کچھ موتی برآمد ہوئے۔جِن کا پروفیسر صفوی نے بغور مطالعہ کیا۔ جب آخری پٹی کھلنی رہ گئی تو ممی کا سر واضح ہوگیا ۔ ہزاروں سال بعد بھی جو چیز بہتر حالت میں نظر آئی وہ اُس کے سر کے بالوں کی چٹیا تھی ۔مجھ پر ایک عجیب سا خوف طاری ہو گیا جو پروفیسر نے بھی محسوس کیا اور مجھے اپنا کام جلد ختم کرنے کو کہا۔ اُس کے دونوں ہاتھ سینے پر دھرے ہوئے تھے جِن کے اوپر چمڑے پر بنا ہوا ایک عورت کا چہرہ اور قدیم مصری علامتی تصویر ی زبان تحریر تھی اور دونوں ہاتھوں کے درمیان یہ سونے کی ڈ بیہ موجود تھی‘‘۔فیروز نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اپنی گفتگو مکمل کی اور پھر دوبارہ پانی پینے کے لئے اُٹھا۔
’’ اوہ !! ‘‘ ۔بیساختہ نازاں کے منہ سے نکلااور ساتھ ہی کپکپائی جِس سے وہ قدیم ڈبیہ نیچے گر پڑی۔
’’ ارے ارے ! اس بے چاری ممی کے خزانے کو اس طرح سے تو نہ ٹھکراؤ؟ ویسے میں بہت شرمندہ ہوں کہ اُس کی چیز وہاں سے لے آیا۔۔۔ یہ چوری ہی تو ہے۔۔۔ اس چوری اور پھر ممی کو آگ میں جھونکے پر اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکتا‘‘۔یہ کہہ کر فیروز ہانپنے لگا گویایہ واقعہ سنا کر خود اُسے تکلیف ہو ئی ہو۔
’’ آگ میں جھونک دیا؟۔۔۔ کیوں؟ ‘‘۔نازاں نے حیرت سے پوچھا ۔
’’ بتاتا ہوں ! پروفیسر اور میں اِس ممی میں کھو کرسب کچھ بھول بیٹھے تھے۔ اچانک میری نطر تیزی سے کم ہوتے ہوئے دھویں اور آگ پر پڑی۔صدیوں کا بنا خشک لکڑی کا تابوت بڑی جلدی جل گیا تھا۔اسی دوراں کہیں دور سے ہلکی ہلکی پکار سنائی دی۔پروفیسر نے چلّا کر کہا کہ لگتا ہے جمال دھوئیں کی مدد سے ہم تک آ رہا ہے ۔جلدی سے آگ مزید دھکاؤ ۔ دھو اں ہر گز کم نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ ہماری بقا کا سوال ہے۔ وائے بد قسمتی!! کہ سارے راستے ہمیں جا بجا ڈھیر کی صورت تابوت نظر آ تے رہے ، اب جب ان کی ضرورت پڑی تو۔۔۔اُدھر آگ اب انگاروں میں تبدیل ہو رہی تھی۔مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا اپنے کپڑے اتار کر انگاروں پر ڈال دیے۔میری دیکھا دیکھی پروفیسر نے بھی ایسا ہی کیا، لیکن۔۔۔ لیکن ان ہلکے پھلکے کپڑوں نے جل کر بھی کوئی خاص دھواں پیدا نہیں کیا۔اِسی دوران پروفیسر ممی کی طرف دیکھ کر چلّائے کہ اِس کو فوراََ انگاروں پر پھینک دو۔میں لمحہ بھر کو ہچکچایا کہ پھر کسی پکارنے والے کی کمزور گونج سنائی دی۔میں نے سوچا کہ ممکن ہے چند بوسیدہ ہڈیاں آگ میں جل کر پروفیسر اور میری جان بچا لیں لہٰذا میں نے بلا تامل ممی کو احترام سے اُٹھا کر انگاروں پر ڈال دیا‘‘۔
’’ انگاروں پر رکھتے ہی ایک چمک پیدا ہوئی اور ایک دم شعلے بلند ہو گئے اور ممی کے جلنے سے بہت زیادہ دھواں پیدا ہوا ۔خدا کی پناہ!! اِس دھوئیں میں کسی اور ہی دنیا کی وہ وہ خوشبوئیں تھیں کہ میرا دماغ ٹھکانے پر نہ رہا ۔محسوس ہوتا تھا کہ پرانے زمانے کے لوگ آس پاس چل رہے ہیں۔میں نے بولنا بھی چاہا لیکن زبان نے ساتھ نہ دیا۔ اور میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا۔‘‘
’’ اوہ !! ‘‘۔ نازاں نے ایک گہری سانس لی ۔
فیروز نے کچھ دیر خاموش رہا پھر کھلکھلا کر ہنسا۔’’ پھر گائیڈ جمال فرشتہء رحمت بن کر آ گیا اور ہمیں بحفاظت باہر نکالا۔پروفیسر صفوی تو نہ جانے کِس مٹی کے بنے ہوئے تھے البتہ میں نے پھر مصر میں قیام کے دوران اہراموں یا کسی بھی نئی کھدائی میں قدم نہ رکھنے کی قسم کھا لی‘‘۔
’’ مگر یہ ڈبیہ ۔۔۔ یہ تو مصری آثارِ قدیمہ ہیں ،یہ تمہاری ملکیت میں کیسے ؟‘‘۔ہزاروں صدیوں پرانی ڈبیہ کو دیکھتے ہوئے نازاں نے پوچھا۔
’’ یہ ۔۔۔میں ممی کی نشانی یا تحفہ سمجھ کر اور پروفیسر صفوی ممی کی انگوٹھی اور چمڑے پر بنی تصویر اور مصری علامتی تحریر واپسی پر ساتھ لیتے آئے ‘‘۔
’’ مگر تم تو کہہ رہے تھے کہ پروفیسر کے بقول اِس ڈبیہ کو اپنے پاس رکھنے والا نقصان اُٹھائے گا ! ‘‘ یہ کہتے ہوئے نازاں نے وہ ڈبیہ کھولی اور اُس میں گہرے سُرخ رنگ کے چند بیج دیکھنے لگی۔
’’ یہ بات مجھے پروفیسر صفّوی نے خود بتائی تھی جب انہوں نے چمڑے پر لکھی قدیم علامتی تحریر کا متن ماہرین سے معلوم کرو ایا تھا ۔ ہم نے جو ممی آگ کی نذر کی تھی وہ اپنے وقت کی مشہور جادوگرنی کی تھی۔چمڑے پر تصویر بھی اُسی کی تھی اور اُس کے آرام اور نیند میں خلل ڈالنے والوں کے لئے یہ وارننگ نما علامتی تحریر میں وصیت ، لعنت، پھٹکار یا بد دعا تھی۔نازاں ۱!! میں بھی اِن خرافات کو نہیں مانتا لیکن۔۔۔‘‘
’’یہی تو آپ لوگوں کا مسئلہ ہے کہ جہاں دل چاہے وہاں’ لیکن‘ لگا کر ا پنے دقیا نوسی نظریات ہی کو مانتے رہیں! ‘‘۔نازاں نے شوخی سے فیروز کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’ میں واقعی اِس توہم پرستی کو نہیں مانتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پھر اُس دن کے بعد سے پروفیسر صفّوی کی خوشحالی اُن سے منہ موڑ گئی۔وہ تو اس موضوع پر بات نہیں کرتے لیکن میں سوچتا ہوں کہ کبھی ممی کی بد دعا مجھے لگ گئی تو؟ کیوں کہ ممی کو میں نے ہی آگ میں پھینکا تھا!اب تمہیں کیا بتاؤں ۔۔۔ میں بھی وہمی ہوتا جا رہا ہوں، یہ ممی کبھی ڈراؤناخواب بن کر بھی آ جاتی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر فیروز کرسی پر نیم دراز ہو گیا۔
کچھ دیر خاموشی رہی پھر نازاں کھل کھلا کر ہنسی اور ڈبیہ ہاتھ میں لے کر کہنے لگی: ’’ تم اِن بیجوں کو زمین میں اگاتے کیوں نہیں؟ ۔۔۔پتا تو چلے کہ کون سا ایسا انوکھا پھول تھا جس کے بیج ممی نے حنوط ہوتے وقت اپنے ساتھ ہی رکھے۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ اِن سے کس قسم کے پھول پیدا ہوتے ہیں !‘‘۔
’’ مجھے تو لگتا ہے کہ اِن بیجوں سے کچھ بھی پیدا نہیں ہو گا۔ نہ جانے کتنی صدیوں سے ممی کے ساتھ یہ اِس ڈبیہ میں بند ، پٹیوں کی تہوں میں دبے رہے ہوں گے ‘‘۔
’’ یہ کیا بات کر دی تم نے ! کیا تم بھول گئے جب آثارِ قدیمہ کی ابتدائی کلاس میں پروفیسر صفّوی نے بتایا تھا کہ ایک ممی کے تابوت سے برآمد ہونے والے گندم کے بیجوں کو اُگانے کا تجربہ کامیاب ہوا تھا ، تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ میں بھی اِن بیجوں کو پھلتا پھولتا دیکھنا چا ہوں گی ! ‘‘۔
’’ نہیں نہیں!! اِس تجربہ کو رہنے دو۔ اِس ساری کہانی پر۔۔۔مجھے تو ایک عجیب احساس ہو رہا ہے کہ ۔۔۔ہمیں اِس بکھیڑے میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ممکن ہے کہ یہ کسی زہریلے پودے کے بیج ہوں یا کسی شیطانی طاقت کے زیرِ اثر ہوں!۔۔۔ وہ جادو گرنی انہیں مقبرے میں ایسے ہی ساتھ نہیں لے گئی۔ دیکھو ۔۔۔ اِن میں کوئی بات ضرور ہے!! ‘‘۔
’’ اب فیروز تم احمقانہ طور پر توہم پرست ہونے کا ثبوت دے رہے ہو ! مجھے تم8 پر ہنسی آ تی ہے۔ ایک بیج اگانے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ ہم بھی دیکھیں کہ اس سے کیا اگتا ہے‘‘۔
فیروز مسکرایا اور ڈبیہ کھول کر بیج سامنے آتشدان میں پھینک دیے اور قدیم سونے کی ڈبیہ نازاں کو دیتے ہوئے کہا: ’’ دیکھو ! تمہاری آئندہ آنے والی سالگرہ کے موقع پر میں اس ڈبیہ میں ایک انگوٹھی تحفہ میں دوں گا لیکن اِن جادوبھرے بیجوں کو تم سے دور کر دینا بہتر ہے لہٰذا اب تم بھی اِن کو بھول جاؤ ‘ ‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعے کے بعد فیروز ملک سے باہر کچھ عرصہ کے لئے کانفرنس میں چلا گیا ۔پھر ایک دن فیروز خوشی خوشی گھر آیا ’’ دیکھو میں ایک ایسی خبر سنانے لگا ہوں جسے سن کر تم حیران رہ جاؤ گی‘‘۔فیروز نے جوشیلے انداز سے کہا۔
’’ ہا ہاہا۔۔۔میرے پاس بھی تمہیں سنانے کے لئے ایک چونکا دینے والی خبر ہے !! ‘‘۔نازاں نے لہک کر ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’ اِس سب کو چھوڑو ۔ پہلے یہ بتاؤ کہ تم کمزور کمزور کیوں لگ رہی ہو؟ خیریت تو ہے نا؟ ‘‘ ۔فیروز نے اپنی بیوی کے زردی مائل چیرے کو دیکھتے ہوئے پریشان ہو کر پوچھا۔
’’ ہاں ! آج کل میں کچھ زیادہ ہی تھک جاتی ہوں۔ حالاں کہ میری نیند بھی پوری ہوتی ہے، کھانا پینا بھی ٹھیک ہے پھر بھی کبھی ذہن پر ایک دُھند سی چھا جاتی ہے۔میری امی کا کہنا ہے کہ یہ گرم موسم کی وجہ سے ہے جب کہ دوپہر میں کبھی باہر نکلوں تو دِن میں بھی کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور رات کو بُخار میں پھنکتی رہتی ہوں ۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔انشاء اللہ یہ ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔
’’ میرا خیال ہے تمہیں کچھ دن چچا کے ہاں پہاڑوں پر بھیج دوں، موسم اور آب و ہوا کی تبدیلی بہتر رہے گی۔واپسی پر تم خود اپنے آپ کوپہلے کی طرح ترو تازہ محسوس کرو گی۔خیر۔۔۔کیا تمہیں اُس حیران کُن خبر کے سننے کا اشتیاق نہیں جو میں تمہارے لئے لایا ہوں؟‘‘ ۔ فیروز نے نازاں کو یاسیت کی سوچ سے نکالتے ہوئے کہا۔
صاف معلوم ہو رہا تھا کہ نازاں کو بات سننے میں توجہ مرکوز کرنے میں مشکل ہو رہی ہے۔
’’ تمہیں یاد ہے نا کہ مصری ممی کے ہاتھوں سے لائے گئے اُن بیجوں کے اگانے کے لئے تم کتنی بیتاب تھیں ؟‘‘۔
’’ ہاں ! ‘‘ ،ایک پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ نازاں نے جواب دیا۔’’ مجھے یاد ہے‘‘۔
’’ اُس روز ڈبیہ کے بیج بظاہر میں نے آتش دان میں ڈال دیے تھے لیکن جب اگلے روز میں اپنی لیبارٹری میں بعض نوادر کا معائنہ کر رہا تھا۔ تو میری نگاہ گہرے سرخ رنگ کے ایک بیج پر پڑی جو میری میز پر ایک طرف پڑا تھا۔مجھے یاد آیا کہ گھر آنے سے پہلے میں نے وہ ڈبیہ یہاں کھولی تھی۔ ممکن ہے تب ہی وہ یہاں گر گیا ہو۔بہرحال۔۔۔ میرے دل میں یکدم خیال آیا اور میں نے وہ بیج پروفیسر صفّوی کو تجربہ کے لئے بھجوا دیا ۔آج پہلی مرتبہ پروفیسر کی جانب سے اطلاع آئی ہے کہ بیج سے حیرت انگیز طور پودا اگا اور اُس میں کلی بھی آئی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر عنقریب منعقد ہونے والی سائنس کانفرنس کے موقع پر پھول تیار ہو گیا تو وہ اُسے کانفرنس میں اپنی مفصل رپورٹ کے ساتھ لے جائیں گے۔وہیں اس کے نام کا صحیح علم ہو سکے گا ۔یقیناََ یہ ایک زبردست خبر ہو گی ۔کیوں کہ پھول کی دریافت میں اِس خادم کا بھی نام لکھا جائے گا۔ یقین کرو اُس پھول کو دیکھنے کے لئے میرا تو اشتیاق بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے‘‘۔
’’ لو بھئی تمہارے اشتیاق اور انتظار کی گھڑیاں میں ختم کئے دیتی ہوں۔آؤ تمہیں اُس کھِلے ہوئے پھول کا دیدار کروا دوں‘‘۔معنی خیز ہنسی کے ساتھ نازاں نے کہا۔۔۔ہنسی ،جو پچھلے کئی ایک دنوں سے اُس سے رخصت ہو چکی تھی۔
ہونقوں کی طرح فیروز کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔نازاں نے اُسے اپنے پیچھے آنے کو کہا ۔خواب گاہ کی کھڑکی کے عین نیچے، سورج کی روشنی میں وہ نامعلوم پودا نظر آیا۔ اس کے شوخ سبز پتے بہت کثرت سے تھے اور شاخیں پتلی اور جامنی رنگ کی ۔پودے کے درمیان ایک اکیلا سفید پھول کھلا ہوا تھا۔پھول کا زردار حصہ ایسے دکھائی دیتا تھا جیسے سانپ کی دو شاخہ زبانیں۔ پنکھڑیوں پر جا بجاچمکدار نقطے تھے جو اوس کے قطروں کی طرح محسوس ہوتے تھے۔
پھول کا سحر ختم ہوا تو فیروز نے کہا: ’’ عجیب پراسرار پھول ہے !کیا اس کی کوئی خوشبو بھی ہے؟ ‘‘۔ سونگھنے کے لئے وہ پھول پر جھکا اور اشتیاق میں پوچھنا بھی بھول گیا کہ یہ پھول آیا کہاں سے ؟ ۔
’’یقین مانو مجھے یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی کہ اِس پھول میں سِرے سے کوئی خوشبو ہی نہیں ۔ جب کہ تم جانتے ہی ہو مجھے خوشبوئیں کتنی پسند ہیں‘‘۔ گفتگو کے دوران نازاں، پودے کے سبز پتوں کو ہاتھ سے پیار کرنے لگی،جن سے پودے کی شاخوں کی رنگت کچھ اور زیادہ جامنی ہوگئی۔
’’ اچھا!! ‘‘، فیروز نے کافی دیر خاموش رہنے کے بعد پوچھا۔’’اب زرا تفصیل سے بتاؤ!! ‘‘۔
’’ اُس روز، اپنی دانست میں تم وہ بیج آتش دان میں پھینک ہی چکے تھے لیکن اگلے روز صفائی کے دوران قالین پر مجھے گہرے سرخ رنگ کے دو عدد بیج دور ہی سے نظر آ گئے۔میں نے نے ایک بیج کو اپنے کمرے کی کھڑکی کے نیچے زرخیز مٹی منگوا کر بو دیا۔ پھر اُس کی پرورش میں پانی، روشنی اور کھاد کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہنے دی۔ اُس کی کونپل نے کیاری سے سر اُٹھایا اور ریکارڈ تیزی سے پروان چڑھنے لگا۔ میں نے کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا کیوں کہ میں تمہیں یہ دکھا کر حیران کرنا چاہتی تھی لیکن اس پھول کی کلی نے کھلنے میں مجھے طویل انتظار کروایا ۔یہ تو بہت ہی اچھا شگون ہے کہ یہ پھول آج ہی کھلا ہے۔ میں بہت خوش ہوں کہ یہ معصوم سا پھول اپنے بالوں میں لگاؤں گی‘‘۔
’’ ارے خدا کا نام لو!! ایسا غضب ہر گز بھی نہ کرنا۔اِس کی معصومیت پر نہ جاؤ ۔یہ تو شیطانی چیز ہے ۔دیکھو تو اِسکے زردانے ! اللہ کی پناہ ۔۔۔جیسے سانپ کی زبانیں، اور۔۔۔اور اس کی پنکھڑیوں پر غیر فطری اوس کے نشانات دیکھو!! پروفیسر کی رپورٹ کے آنے تک ٹہر جاؤ ۔ اگر پھول بے ضرر ہوا تو پھر کوئی حرج نہیں‘‘۔
’’ اُس جادوگرنی نے شاید علامت کے طور پر یہ بیج اپنے ساتھ رکھے ورنہ تم بھی جانتے ہو کہ فرعونوں کے بھی عجیب ہی خیالی تصورات تھے۔خیر تم اور تمہاری توہم پرستی پر میں اب کیا کہوں، لیکن آج اس جادو کو دیکھو میں کیسے نیچا دکھاتی ہوں ‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُسی شام ، نازاں کی سالگرہ کے موقع پر دونوں کے قریبی دوست اور بعض رشتہ دار سرِ شام ہی فیروز اور نازاں کے ہاں جمع ہونا شروع ہو گئے۔جب شام رات میں ڈھلی تو نازاں سب خواتین میں ممتاز نظر آئی۔اُس کا چہرہ انار کی طرح سُرخ اور ہونٹ گلناری محسوس ہوتے تھے ۔سب سے بڑھ کر وہ پہلی سی پھرتی جیسے اُس میں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ۔پھر رفتہ رفتہ مہمان رُخصت ہونے لگے ساتھ ہی نازاں کا یہ روپ اور پھرتی بھی ماند پڑنے لگی۔دیکھنے والوں اور خاص طور پر فیروز نے یہی خیال کیا کہ یہ تقریب کی مہمان داری اور بھاگ دوڑ کا نتیجہ ہے۔جب آخری مہان بھی رُخصت ہو نے کو تھے، تو ایک ملازم نے فیروز کو ایک تہہ کیا ہوا کاغذ دیا جِس پر موٹا موٹا ’’ انتہائی ضروری‘‘ لکھا ہوا تھا۔اُس نے فوراََ کھول کر پڑھنا شروع کیا:
’’جنابِ عالی:
پروفیسر سید آغا جمال صفّوی دو روز قبل سائینٹیفک کلب میں اچانک انتقال کر گئے۔اُن کے آخری الفاظ تھے ، ’ فیروز حسن ترمذی سے کہناوہ ممی کی بد دعا سے خبردار رہے۔کیوں کہ اِس مہلک پھول نے مجھے مار ڈالا ہے‘۔ قابلِ احترام پروفیسر کی موت کا پس منظر بہت عجیب وغریب ہے۔اُنہوں نے ہمیں بتایا کہ پچھلے کئی مہینوں سے وہ ایکنامعلوم پودے کی پرورش کر رہے تھے ۔اُس روز وہ یہ پھول ہمارےسائنسی اجلاس میں لائے تھے تا کہ اس پر بحث ہو سکے۔دوسرے ترجیحی
موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں اور پروفیسر اور اس کے پھول کو ہم لوگبھول گئے کیوں کہ وہ ایجنڈے میں نہیں تھا۔پروفیسر نے وہ پھول اپنےبٹن کے کاج میں لگایا ہوا تھا۔وہ عجیب ساسفید ی مائل پھول تھا جِس کیپنکھڑیوں پر چمک دار نقطے نظر آتے تھے جو ہمارے دیکھتے ہی دیکھتےگلناری ہو گئے اور پھر یوں لگا جیسے ان پر خون چھڑک دیا گیا ہو ۔پھر یہدیکھا گیا کہ وہ پروفیسر جو پچھلے ایک لمبے عرصے سے پژمردہ اور اپنے گھرتک ہی محدود ہو گئے تھے آج توانائی سے بھر پور خوب چاق و چوبند نظرآتے تھے۔ بعض حاضرین اِن کی اس سرگرمی کو ’ غیر فطری‘ کہتے ہیں۔
اجلاس اختتام کے قریب ہی تھا جب پروفیسر صفّوی اچانک فرش پر گرپڑے ۔قریب کھڑے لوگ اسے مرگی کا دورہ سمجھے۔ہم لوگ انہیں انکے گھر لے گئے۔ اِن کے ہوش و حواس جاتے رہے ۔بس ایک مختصرعرصے کے لئے انہوں نے یہ بات کہی جو میں اب آپ کو لکھ رہا ہوں۔پروفیسر بہت تکلیف میں تھے۔ کسی مصری ممی، اہرامِ مصر، سانپ اور کسینہایت مہلک بددعا کا بہکے بہکے انداز سے ذکر ،کر رہے تھے جو انکی جان لے کر پوری ہوئی‘‘۔
’’پروفیسر کے پورے جسم پر انتقال کے فوراََ بعد گلناری دھبے ظاہر ہوناشروع ہو گئے جیسے پھول کی پتیوں پر تھے۔ پھر ہمارے دیکھتے ہیدیکھتے وہ مُرجھائے ہوئے پتوں کی طرح ہو گئے۔میری خواہش پراُس پراسرار پودے کا معائنہ کیا گیاتو علم ہوا کہ سرزمینِ مصر کا یہ بہتمہلک زہریلا پودا ہے جو قدیم جادوگری میں بکثرت استعمال کیا جاتاتھا۔ یہ پودا جسم کے ساتھ مَس ہونے پر دو سے تین گھنٹوں میں پاگلپن یا موت کا سبب بنتا ہے‘‘۔
تحریر کے نیچے بھیجنے والے کا نام وغیرہ لکھا تھا لیکن اس سب کا ہوش فیروز کو کہاں ہونا تھا۔اُس کے ہاتھ سے وہ پرچہ چھوٹ گیا اور وہ اپنی بیوی کو آوازیں دیتا ہوا اندر کمرے کی طرف بھاگا ۔ وہ ایک صوفے پر تھکن سے چُور نیم دراز تھی۔
’’ نازاں! اُٹھو آنکھیں کھولو ۔کیا تم میری بات سُن رہی ہو؟‘‘۔گھبراہٹ میں فیروز نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
نازاں نے اپنی نیم وا آنکھوں سے اُسے دیکھا۔
’’ کیا تم نے اُس نامعلوم پھول کو آج ہاتھ تو نہیں لگایا نا؟ ‘‘۔فیروز نے نازاں کے کان کے پاس سرگوشی کے انداز میں کہا۔
اُسے جواب دینے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ وہ پھول اُس کے ہاتھ میں تھا۔اُس کی پنکھڑیوں پر واضح تازہ خون کے دھبے نظر آ رہے تھے جیسے کسی نے اِن پر اسپرے کیا ہو۔مگر فیروز کے لئے اس سے زیادہ اہم نازاں تھی۔لمحہ بہ لمحہ اُس کا چہرہ مرجھاتا اور کُملاتاجا رہا تھا۔ابھی گھنٹہ بھر پہلے ایک شاداب و منور چہرہ تھا اور اب۔۔۔اللہ کی پناہ بیان سے باہر۔۔۔ ہر ساعت تیزی سے کملاتا ہوا چہرہ۔دیکھتے ہی دیکھتے اُس خونخوار پھول نے نازاں سے بہت تکلیف دہ انداز میں اُس کی رونق چھین لی۔بس ہلکی ہلکی نبض چلنے سے زندگی کا اندازہ ہو رہا تھا۔
افسوس کہ توہم پرستی کا خوف جس کا وہ مذاق اُڑا تی رہی، اُسی کے سامنے آ گیا۔وہ بد دعا جو صدیوں سے پوری ہونے کو بیتاب تھی خود نازاں کے اپنے ہاتھوں پروان چڑھی۔بیوی کی موت کے بعدفیروز کچھ روز تو گم صم رہا پھر اپنا مکان اور مال و اسباب بیچ کر مصر چلا گیا ۔کہا جاتا ہے کہ پھر ایک لمبے عرصہ وہ اُسی پودے کی تلاش میں اہراموں اور صحراؤں کی خاک چھانتا رہا۔اُس کا مشن تھا کہ اگر ایک دفعہ وہ پودا مِل جائے تو وہ اِس پر تحقیق کر کے کئی ایک بیماریوں کا تریاق بنائے گا۔پھر کچھ خبر نہیں ملی کہ وہ کامیاب ہوا یا نہیں۔یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ اُس کی وصیت کے مطابق، اسے مرنے کے بعد اسکندریہ میں کہیں ایک گمنام قبر میں دفنا دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ پراسرار تحریر اگست کے ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کے صفحہ نمبر 104 سےصفحہ نمبر 114پر شائع ہوئی۔
Comments