کیا وہ فریبِ نظر تھا ۔۔۔؟





کیا وہ فریبِ نظر تھا ۔۔۔؟

تحریر شاہد لطیف

یہ واقعہ تقریباََ تیس سال قبل خود میرے ساتھ پیش آنے والے حقائق ہیں جب میں انسپکٹر آف اسکول کی حیثیت سے محکمہء تعلیم سے وابستہ تھا۔میں مستقل حالتِ سفر میں رہتا جس کو بعض احباب زندگی گزارنے کا بے ڈھنگا پن کہا کرتے ۔ شروع میں مجھے ضلع کے نسبتاََ بڑے قصبوں میں تعینات کیا گیا۔ چند سال گزر گئے۔ پھر مجھے ضلع کے کم ترقی یافتہ حصوں میں بھیجا گیا۔حیرت انگیز طور پر مجھے یہاں کا ماحول، شب و روز اور زندگی اتنی پسند آئی کہ میں نے محکمہ کو لکھا کہ میں بخوشی ضلع کے دور دراز علاقوں میں جا سکتا ہوں۔ تواُنہوں نے بھی مجھے ایک پس ماندہ ترین پہاڑی علاقے میں بھیج دیا جہاں کی آبادی بہت کم تھی اور اسکولوں کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ تھا۔ یہاں آنا میرے لئے مہم جوئی سے کم نہ تھا ۔جب میں پسماندہ جگہوں پر جاتا تھاتو وہاں کے اسکول میرے معائنوں کو بہت اہمیت دیتے تھے ۔ مجھے لوگوں میں زیادہ گھلنا ملنا پسند نہیں لیکن اکثر اِ ن معائنوں کے بعد وہ مجھے کسی نہ کسی مقامی تقریب کا مہمانِ خصوصی بنا دیتے تھے۔ اور اِس دفعہ۔۔۔اِس پہاڑی علاقے میں میرا آنا بہت ہی ہنگامہ خیز رہا۔

مجھے اپنے ضلع کے انتہائی شمالی علاقے میں دو مختلف گاؤں کے اسکولوں کا دورہ کرنا تھا ۔ اِن کے درمیان میلوں کا ویران علاقہ تھا۔ وہاں کسی ایک سواری کے ذریعہ نہیں جا سکتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ جلد از جلد یہ کام مکمل کر لوں ۔ سردیوں کی آمد آمد تھی اور کھلے علاقوں میں ویسے ہی سردی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ پہلا گاؤں ریلوے اسٹیشن سے ۳۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا۔میں شام کو پہنچا، وہاں پیشگی اطلاع دی جا چکی تھی لہٰذا رات بسر کر نے کا مناسب انتظام تھا۔صبح اسکول گیا اور معائنہ مکمل کر لیا۔اب اگلے گاؤں جانا تھا۔یہ پہاڑ کے اوپر واقع تھا۔ میں نے اُس کے بارے میں ہیڈ ماسٹر اور مقامی افراد سے معلومات لیں اور اپنے سفر کا آغاز کر دیا۔ پہلے ۲۳ کلو میٹر ریل گاڑی میں طے ہوئے۔پھر بس کے ذریعے میں گاؤں تک پہنچ گیا جہاں سے ٹانگہ میں منزلِ مقصود تک جانا تھا۔ کوچوان ایک چھوٹے سے کچے پکے راستے پر جا رہا تھا۔پہاڑی علاقے میں کبھی کبھارکسی قدر اُٹھی ہوئی زمین کا چوڑا چپٹا رقبہ بھی دکھلائی دے جاتا ۔وہ وسط نومبر کی سہ پہر تھی اور مجھے بتلایا گیا تھا کہ یہاں ایسے موسم میں اکثر سورج کی روشنی مغرب سے گھنٹہ پہلے ہی معدوم ہونے لگتی ہے۔

’’ ابھی اور کتنا سفر باقی ہے؟‘‘۔میں نے کوچوان سے سوال کیا۔

’’ تقریباََ ۸ کلو میٹر‘‘۔یہ کہتے ہوئے اُس نے گھوڑے کی رفتار ہلکی کر دی ۔ ’’ اِس جگہ سے پرانی محصول چنگی کی جانب پیدل جا ئیں تو آدھا وقت بچ سکتا ہے کیوں کہ یہ بہت مختصر راستہ ہے‘‘۔اس کے ساتھ ہی اُس نے پہاڑوں میں جاتی ایک پگڈنڈی کی طرف اشارہ کیا۔

میں نے بقیہ سفر پیدل طے کرنے کا ارادہ کر لیا تا کہ شام ہونے سے پہلے منزلِ مقصود تک پہنچ سکوں۔ میں نے درمیانی رفتار سے پیدل مارچ شروع کر دی۔ پگڈنڈی بتدریج پہاڑی پر بلند ہوتی جا رہی تھی ۔ چلتے چلتے مجھے خیال آیا کہ یہاں کسی محصول چنگی کا کیا کام!! پھر میں نے سوچا کہ ہمارے ملک میں تو اوٹ پٹانگ نام رکھنے کا رواج ہے، یہ بھی ایسا ہی لگتا ہے۔کچھ ہی دور گیا ہوں گا کہ ایک موڑ مُڑتے ہی دور سے کسی کھنڈر نما عمارت کے آثار نظر آنے لگے۔وہاں پہنچ کر پگڈنڈی بھی کُشادہ ہو گئی ۔ پتہ نہیں یہ واقعی کوئی محصول چنگی تھی یا ۔۔۔ آثار تو بتا رہے تھے کہ شاید یہاں کبھی کسی قسم کی کوئی تجارتی آمدورفت رہی ہو۔ آہستہ آہستہ ہلکی سی دھند چھانے لگی جس سے محسوس ہونے لگا جیسے سورج غروب ہوا چاہتا ہے۔میں نے اپنی رفتار کم کر لی کیوں کہ کم روشنی میں راستے سے بھٹکنے کا امکان تھا۔اب دو قدم کے فاصلہ کی اشیاء بھی بمشکل نظر آتی تھیں ۔ خوش قسمتی سے اُس راستے کے ساتھ ساتھ لکڑی کا بنا ایک ٹوٹا پھوٹا جنگلا نظر آیاتو مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں نے اِس کے ساتھ ساتھ اعتماد سے چلنا شروع کر دیا۔حالاں کہ میرے پیروں میں موٹے تلے کے جوتے تھے لیکن جب وہ گیلے پتوں کے ڈھیر پر پڑتے تو ٹھنڈک کا احساس ہو تا۔ جلد ہی ایک دوراہا آ گیا۔ایک راستہ جنگلے کے ساتھ جا رہا تھا اور دوسرا سامنے کھلی چرا گاہ میں سے ہو کر جاتا دکھائی دیا۔’’ مجھے کس راستہ پر جانا چاہیے؟‘‘ میں نے سوچا ۔اگر جنگلے کے ساتھ جاؤں تو شاید کسی قریبی مکان تک جا پہنچوں۔لیکن کتنا دور۔۔۔یہ بھی تو ممکن تھا کہ میں مخالف سمت جا نکلتا۔ زیادہ سوچنے کا وقت نہیں تھا۔میں اللہ کا نام لے کر سامنے چراگاہ والے راستہ پر ہو لیا جِس کا دوسرا کنارہ دبیز دھند میں نظر نہیں آ رہا تھا۔اب تک مجھے کوئی ذی روح نظر نہیں آیا جس سے میں ر ا ستہ پوچھ سکتا ۔ ایسے میں مجھے ایک شخص سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ قریب آنے پر اندازہ ہوا کہ وہ بائیں ٹانگ سے لنگڑا کر چل رہا تھا۔اُس وقت دھند قدرے کم ہو گئی اور چند گز کے فاصلے سے اُس کے خد وخال نظر آنے لگے۔ مزید قریب آنے پر میں نے اُس سے پوچھا :’’ جناب کیا اسکول کو یہی راستہ جاتا ہے؟ ‘‘۔اتنے میں وہ میرے قریب سے گزرتا ہوا آگے کو چلا گیا گویا کہ اُس نے مجھے دیکھا ہی نہیں۔ میں مُڑا اور مزید بلند آواز سے دوبارہ پوچھا۔لیکن و ہ شخص لنگڑاتے ہوئے آگے ہی بڑھتا گیا۔میں نے ایک مرتبہ اور کچھ کہنے کو مونہہ کھولا ہی تھا کہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ۔۔۔ابھی وہ شخص میرے پاس سے گیا اوردیکھتے ہی دیکھتے منظر سے غائب ہو گیا۔ وہ شخص کہاں گیاجو چند ثانیہ پہلے میرے پاس سے گزرا تھا۔وہ تو لنگڑا رہا تھا پھر کس طرح اور کہاں برق رفتاری سے چلا گیا؟ حیرت پر حیرت یہ کہ اب اُس کی جگہ ایک لڑکا پگ ڈنڈی پر اُسی راستہ سے آ رہا تھا جدہر سے میں آیا تھا۔۔۔ اُس کے کاندھے سے مچھلی پکڑنے کی راڈ لٹک رہی تھی ۔ ایک تو پہلے ہی بہت دھند تھی پھر وہ آنے والا لڑکا تیزی سے گزرا ۔ میں کچھ ایسا مبہوت ہوا کہ اُس لڑکے سے کچھ پوچھ ہی نہ سکا۔یہ سب کچھ سیکنڈوں میں ہو گیا۔ کیا میں خواب دیکھ رہا تھا؟

لمحہ بہ لمحہ روشنی کم ہوتی جا رہی تھی۔۔۔اب یہ خواب تھا یا حقیقت، مجھے جلد تاریکی چھانے سے پہلے اسکول تک پہنچنا تھا۔میں اللہ کا نام لے کر اُسی راستے پر چلتا رہا ۔ بہ مشکل نظر آنے والا راستہ گھومتا ہوا ایک ڈھلوان پر جا نکلا جس کے دامن میں مکانات کی روشنیاں نظر آنے لگیں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

؂     ’’ مجھ سے پہلے اُس گلی میں میرے افسانے گئے۔۔۔‘‘ کے مصداق یہاں میرے پہنچنے کی اطلاع تھی اور قیام و طعام حاضر تھا ۔یہ دور افتادہ ضرور تھا لیکن کوئلہ کی کانوں کی وجہ سے یہاں کے عوام آ سودہ حال نظر آتے تھے۔ یہاں کے بڑے سردار ملک صاحب زیادہ تر لاہور میں رہتے تھے جو اُس روز بستی میں موجود تھے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ ملک صاحب علم دوست اور مہمان نواز ہیں۔ یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ اسکول تھے۔ اگلی صبح پہلے مجھے ۹ سے گیارہ بجے لڑکوں کے اسکول کا معائنہ کرنا تھا۔
صبح موسم بہت خوشگوار ہو گیا۔سورج نکلا ہوا تھا لیکن فضا میں خنکی تھی۔ مکا نات پہاڑی کے ساتھ سا تھ بنائے گئے تھے جبکہ اسکول اور مسجد نسبتاََ بلندی پر واقع تھے۔اسکول انتظامیہ کا ایک شخص مجھے لینے آیا ۔ اسکول پہنچ کر میں صدر دروازے پر رُک گیا اور وہاں لگی تختی پڑھنے لگا جِس پر لکھا تھا ’’ یہ اسکول ملک ۔۔۔نے دوبارہ تعمیر کرائے۔بتاریخ۔۔۔‘‘

’’ السلام علیکم ! خدا ملک صاحب کا سایہ ہم پر قائم رکھے۔یہ اسکول کے سرپرست ہیں‘‘۔کسی نے نرم لیکن خوشامدی لہجے میں میر ے پیچھے سے کہا۔میں نے گردن گھما کر دیکھا تو ایک سُتے ہوئے چہرے والا شخص کھڑا دکھائی دیا۔نووارد ہاتھوں میں اسکول کی کاپیاں لئے ہوئے تھا۔ ’’ آپ اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔حالاں کہ مجھے اُن کا نام معلوم تھا لیکن اُن کے چہرے نے سب کچھ بھلا دیا ۔
’’ آپ نے صحیح اندازہ لگایا۔بشیر صاحب ! ‘‘۔ سلام کا جواب دے کر اُس نے مجھے میرے نام سے پکارا۔میرے دماغ میں الجھن پیدا ہونے لگی۔۔۔ میں نے اِسے کہاں دیکھا ہے؟ میں نے محسوس کیا کہ وہ میری کیفیت دیکھ کر کچھ پریشان ہے۔’’ میں اس اسکول کا ہیڈ ماسٹر فرقان حیدر ہوں‘‘۔اِس پر میں آنے والے خیالات جھٹک کرپوری طرح متوجہ ہو گیااور سرکاری خط اُن کے حوالے کیا ۔ ہم اسکول کے اندر داخل ہو گئے ۔ جونہی ہیڈ ماسٹر صاحب چلے میرے ذہن میں آندھیاں چلنے لگیں۔میں نے دیکھا وہ بائیں ٹانگ سے لنگڑا کر چل رہے تھے۔ اُسی لمحہ میں جان گیا کہ یہ وہی شخص ہیں جو مجھے کل شام دھند میں ملے تھے۔

’’ فرقان صاحب ! کل شام آپ پہاڑی راستے پر سے گزرے تھے ‘‘۔میں نے اُن سے اسکول میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ 

’’ کل شام کو؟‘‘۔اُنہوں نے اُلٹا مجھ ہی سے سوال کر دیا۔

’’اور آپ نے تو مجھے دیکھا تک نہیں ‘‘ ،میں نے لاپرواہی سے کہا۔’’ میں نے آپ کو پکارا بھی لیکن آپ نے جواب ہی نہیں دیا‘‘۔

’’یقیناََ وہ کوئی اور ہو گا جناب !‘‘، ہیڈ ماسٹر صاحب بولے۔’’ میں تو کل شام کہیں نہیں گیا ‘‘۔ 

میں چُپ ہو گیا۔کیا میں چہرہ دیکھ کر دھوکہ کھا گیا؟لیکن۔۔۔بائیں ٹانگ سے لنگڑانا، اب اِس کو کیا کہوں؟یہ اتفاق نہیں ہو سکتا۔

’’ مجھے سانس کی تکلیف رہتی ہے۔کل بہت دھند تھی اس لئے میں شام کو کہیں نکلا ہی نہیں ‘‘۔ہیڈ ماسٹر نے کہا۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اِن کو جھوٹ پہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی؟’’ آئیے معائنہ شروع کریں فرقان صاحب‘‘ ،میں نے بے زاری سے کہا۔اُترے ہوئے چہرے کے ساتھ وہ میرے ساتھ چل پڑے۔ اسکول کے معائنے کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ فرقان صاحب کے جھوٹ اپنی جگہ لیکن لڑکوں اور اسکول کے اساتذہ پر موصوف نے بہت محنت کی ہوئی ہے۔ پڑھائی کا معیار اعلیٰ تھا۔فارغ ہونے کے بعد فرقان صاحب نے درخواست کی کہ اگر میں مناسب سمجھوں تو حکومتی گرانٹ تجویز کر دوں جو کہ میں نے فوراََ کر دی۔ اِس کے بعد میں نے لڑکیوں کے اسکول کا معائنہ کیا۔جب میں وہاں سے باہر نکلا تو فرقان صاحب کو دروازے کے باہر انتظار کرتے پایا۔ کہنے لگے کہ لڑکوں کے کھیل کے میدان کی جگہ کم ہے اِس میدان کے ساتھ ہی اُجاڑ زمین ہے، اِس میں سے اگر تھوڑی بہت مِل جائے تو لڑکوں کا بھلا ہو جائے گا ۔اور یہ کہتے ہوئے وہ مجھے موقع کی زمین پر لے گئے۔

’’ کیا یہ سرکای زمین ہے؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔ 

’’ نہیں جناب ! یہ ملک صاحب کی زمین ہے۔‘‘

’’پھر اُن کے سامنے معاملہ پیش کیوں نہیں کرتے؟وہ اِن اسکولوں کے سرپرست ہیں ۔ مجھے یقین ہے وہ اس ویران زمین میں سے کچھ لڑکوں کے کھیل کے میدان کے واسطے دے دیں گے‘‘۔ 

’’ میں اُن سے بات کرنے کا مجاز نہیں ہوں ‘‘۔ہیڈ ماسٹر نے آہستہ سے کہا۔

’’ میں اپنی رپورٹ میں کھیل کے میدان کے لئے ملک صاحب کی زمین خرید نے کی تجویز نہیں دے سکتا ! البتہ ایک راستہ ہو سکتا ہے۔۔۔‘‘ میں گفتگو کرتے کرتے یک دم رُک گیا اور اپنے پیچھے دیکھنے لگا۔

’’ کیسا راستہ؟‘‘ اسکول کے ہیڈماسٹر فرقان حیدر نے دلچسپی لیتے ہوئے سوال کیا۔

’’ ایسا لگتا ہے کہ یہاں ہم دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا شخص بھی ہے‘‘۔میں نے اُن کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

’’ تیسرا شخص؟‘‘ہیڈماسٹر نے حیرانی سے سوال کیا۔

’’میں نے وہاں سامنے اپنے اور آپ کے سائے کے ساتھ ایک اورسایہ دیکھا ہے ‘‘۔

’’ سایہ‘‘؟ اُنہوں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ ’’ ناممکن ! ‘‘۔

عجیب بات تھی ! ہم دونوں کے علاوہ وہاں ایسی کوئی شے تھی ہی نہیں جس کا سایہ ہمارے سایوں کے ساتھ پڑتا لیکن یہ میرا وہم بھی ہر گز نہیں تھا۔ ’’ یہ دیکھئے ! ایک تیسرا سایہ ! کیا آپ کو دکھائی نہیں دے رہا ؟‘‘۔ میں نے کہا۔

اُنہوں نے نفی میں سر ہلایا۔’’ نہیں‘‘، وہ نہایت کمزور آواز میں بولے۔’’ کیسا سایہ ہے؟‘‘۔یہ سوال پوچھتے ہوئے اُن کے ہونٹ کپکپا کر رہ گئے۔اتنے میں وہ سایہ غائب ہو گیا۔

’’ مجھے یقین ہے یہ ضرور کوئی لڑکاہے اور اب کہیں چھپ گیا ہے ‘ ‘۔میں نے کہا۔

’’ لڑکے کا سایہ !‘‘، گھُٹی گھُٹی آواز میں اُنہوں نے میرے الفاظ دہرائے۔’’ مگر چھُپنے کی تو یہاں کوئی جگہ ہی نہیں‘‘۔

’’ جگہ ہے یا نہیں‘‘، میں نے قدرے غصہ سے کہنا شروع کیا۔’’اُس کو ہاتھ آ لینے دو۔۔۔دیکھنا کیا سبق سکھاتا ہوں ! ‘‘۔یہ کہتے ہوئے میں نے آگے پیچھے ہر جانب دیکھنا شروع کیا ۔ میرے ساتھ ساتھ ہیڈماسٹر صاحب بھی ناہموار زمین پر لنگڑاتے ہوئے چل رہے تھے۔ واقعی دور دور تک چھپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ 

’’ مگر وہ تھا کیا؟‘‘ میں نے دِق ہو کر کہا۔

’’ معافی چاہتا ہوں ! شاید فریبِ نظر ہو ‘‘۔ہیڈماسٹر صاحب نے خوفزدہ ہو کر کہا۔

’’ مگر۔۔۔ کیا واقعی آپ کو تیسرا سایہ نظر نہیں آیا ؟‘‘۔میں نے کہا۔

’’نہیں جناب! میں نے تو کچھ نہیں دیکھا‘‘۔اُن کی آنکھیں اُن کے جھوٹے ہونے کی چغلی کھا رہی تھیں۔مجھے یقین ہو گیا کہ اُنہوں نے نہ صرف سایہ دیکھا بلکہ وہ اِس کے بارے میں کچھ جانتے بھی تھے ۔ میں نے اس کو اپنی اور اپنے محکمے کی بے عزتی سمجھالیکن غصہ ضبط کرتے ہوئے بغیر کچھ کہے سُنے اسکول سے واپس نیچے اپنی رہائش گاہ کی جانب چل پڑا۔

میں اپنے کمرے میں پہنچا توایک صاحب کو منتظر پایا۔اُنہوں نے اپنا تعارف ملک احد کے نام سے کرایا۔یہی وہ ملک صاحب تھے جو اِن اسکولوں کے سرپرست اور اُس علاقے کے سردار تھے۔اُن کی عمر یہی کوئی پچاس برس ہو گی۔ نہایت اپنائیت اور گرمجوشی سے ہاتھ ملایا جِس سے اُن کی اچھی صحت کا اندازہ ہو گیا۔ اور ساتھ ہی کہا کہ چونکہ میں تعلیم سے متعلق ہوں لہٰذا جب تک میں یہاں ہوں، اِن کا مہمان ہوں گا ۔ میں نے اُن کا بہت شکریہ ادا کیا اور انہیں بتایا کہ یہاں میرا کام مکمل ہو گیا ہے۔اور کل میری روانگی ہے ۔لیکن انہوں نے محبت اور اصرار سے ایک آدھ روز مزید رُکنے پر زور دیا۔ اس کے ساتھ ہی قریب کھڑے شخص کو میرا سامان اُن کے مکان پر بھجوانے کا کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک صاحب کا مکان پرانی طرز کی حویلی تھی۔اِس کی طرزِ تعمیر، اند رونی اور بیرونی تزئین اور سب کچھ بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ میں نے پرانی فلموں میں دیکھا اور کتابوں میں قدیم حویلیوں کے بارے پڑھا تھا۔دوپہر کے کھانے کے بعد انہوں نے اپنے باغات کی سیر کرائی اور رات کے کھانے کے بعد کمرے میں بیٹھ کر ہم نے قہوہ پیا جہاں دیواروں پر ہرنوں کے سر ٹنگے ہوئے تھے جو یقیناََ اُن کے باپ دادا کا شوق ہوں گے۔گئے زمانے کی توڑے دار بندوق اور ایک تلوار بھی ٹنگی نظر آئی۔

میں نے ایک سرسری نگاہ دیواروں پر ڈالی اور بغیر تبصرہ کئے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتا رہا۔جِس سے اُنہوں نے اندازہ لگا یا کہ میں شکار وغیرہ کا شوق نہیں رکھتا۔کچھ دیر بعد مسکراتے ہوئے کہنے لگے : ’’کبھی کوئلہ کی کان میں جانے کا اتفاق ہوا ہے ؟ ‘‘ اِس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا ، کہنے لگے:’’ کل آپ کو اپنی کوئلے کی کان میں لے چلوں گا۔شاید یہ آپ کے لئے ایک نیا تجربہ ہو ۔ اِس تمام علاقے میں زیرِ زمین کوئلہ موجود ہے۔اِس مکان کے نیچے بھی جہاں اس وقت  میں اور آپ بیٹھے ہیں ، ایک چوتھائی میل کے رقبے میں چالیس آدمی کام کررہے ہیں۔کان کنی کا کاروبار میرے والد نے پچیس سال قبل شروع کیا تھا۔ تب سے اب تک مسلسل یہ کام ہو رہا ہے ‘‘۔

’’ پھر توآپ شہزادے کی طرح کی زندگی گزارتے ہوں گے‘‘۔میں نے کہا۔ 

’’ ہا ہا ہا ۔ اب ایسا بھی نہیں !‘‘ اُس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہنا شروع کیا۔’’ دوسروں کی طرح میں نے بھی روپے پیسے سے ’ خوشی‘ حاصل کرنے کی کوشش کی تو تھی اورگزشتہ دس سالوں سے میں نے اِس سلسلے میں کچھ خرید بھی کی ۔ آیئے میں آپ کو دکھاتا ہوں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے مجھے قدیم غلام گردشوں میں سے لے کر ایک ہال نما کمرے میں لے آئے جہاں جا بجا مختلف سائز اور اقسام کے لکڑی کے بڑے بڑے ڈبے رکھے نظر آئے جن پر غیر ملکی بندرگاہوں اوروہاں کے ایجنٹوں کے لیبل لگے ہوئے تھے۔میں سوچنے لگا نہ جانے اِن میں کیا ہو؟

’’ دیکھو ! یہ اطالیہ اور یونان سے منگوایا ہوا سنگِ مرمر ‘‘، ملک صاحب نے بولنا شروع کیا۔’’ اپنے وقت کے مشہور یورپی استادوں کی بنائی ہوئی انمول اور بے مثال تصویریں، دجلہ، فرات اور نیل کے نوادرات، ایرانی مینا کاری، چین سے منگوائے گئے چینی مٹی کے برتن، کانسی کے جاپانی ظروف،پیرو کے عجیب و غریب مجسمے۔۔۔‘‘ ۔ بظاہر میرا دھیان ملک صاحب کی گفتگو پر تھا لیکن مجھے اِن میں دلچسپی نہیں تھی ۔ اِس سب گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ موصوف نے دس سالوں میں جو خزائن جمع کئے تھے وہ اپنے ڈبوں سے کبھی باہر ہی نہیں نکلے ! کتنا اچھا ہوتا اگر یہ سب وہ عجائب گھر میں قوم کے لئے وقف کر دیتے۔

اُس رات ہم دونوں رات کو دیر تک باتیں کرتے رہے۔میں تو مبہوت ہو کر اُن کے سمندری اورزمینی سیاحت کے قصے سنتا رہا۔ اِن میں خطرناک مہمات، صحرائی سفر، کھنڈرات تک جانے کے دشوار سفر، برفانی تودوں سے بال بال بچنے کا واقعہ وغیرہ۔یوں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہو سکا اور صبح کے قریب محفل برخواست ہوئی اور اگلی صبح کوئلہ کی کان میں جانے اور اُس کے بعد کوئی پندرہ میل کے فاصلے پر واقع کسی قلعہ کے کھنڈرات میں جانے کا پروگرام بنا کر ہم سونے چلے گئے۔

میری آنکھ لوگوں کی بلند آواز میں باتیں کرنے سے کھلی ۔ باہر نکل کر دیکھا تو دس بارہ افراد ملک صاحب کے پاس کھڑے نظر آئے۔ اِن سب کے چہرے بتا رہے تھے کہ معاملہ گڑ بڑ ہے۔مجھے دیکھ کر ملک صاحب بولے:’’ پہاڑی جھیل کی تہہ میں شگاف پڑ جانے سے جھیل کے ایک حصے کا پانی ہماری ایک کان میں آ گیا ہے۔‘‘

’’ اللہ کی مہربانی ہے کہ پانی رات کو آیا ، دن کو آتا تو کان کے اندر کام کرنے والے مر گئے ہوتے‘‘ ۔ایک کان کُن نے کہا۔ 

’’ یہ صحیح ہے ! ‘‘، ملک صاحب بولے۔’’ واقعی تب بہت برا ہوتا۔چلو اب پمپوں سے یہ پانی نکالنے کا کام فوراََ شروع کر دو‘‘۔

یہ سب کچھ میرے لئے نہایت حیران کُن تھا۔جھیل کے ایک حصے کا پانی راتوں رات غائب ہو جانا۔۔۔ نا قابلِ یقین لگ رہا تھا۔ مجھے پریشان دیکھ کر ملک صاحب نے بتایا کہ جھیل کے پانی کا تہہ میں غائب ہو جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ایسا کبھی کبھار ہو جاتا ہے۔یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ پانی کان میں جا گھسا، ورنہ ایسی بھی مثالیں ہیں کہ دریاؤں اور جھیلوں کے پانی نے پورے پورے گاؤں کھنڈر بنا دیے ۔

تھوڑی دیر میں ملک صاحب کے ساتھ میں بھی موقع پر پہنچ گیا۔متاثرہ کان کے دھانہ پر لوگ پمپوں سے پانی نکال رہے تھے۔ اِس کے بعد ہم لو گ جھیل کی طرف چلے ۔کان اور پہاڑی جھیل کے درمیان تھوڑا فاصلہ تھا اور کنارے پر درخت موجود تھے۔ ہم لوگ جھیل کی طرف چلے ہی تھے کہ میرے پاؤں زمین میں گڑ گئے۔۔۔دائیں جانب کی چھوٹی پگ ڈنڈی سے ایک لڑکا اپنے کاندھے پر مچھلی پکڑنے کی راڈ لئے آیا اور درختوں کے پیچھے غائب ہو گیا۔۔۔میں نے اُسے فوراََ پہچان لیا۔ یہ وہی لڑکا تھا جو یہاں آتے ہوئے ہیڈ ماسٹر کے بعد پراسرار انداز میں میرے قریب سے گزرا تھا۔

’’ عجیب بات ہے ! دیکھئے یہ لڑکا جھیل میں مچھلی پکڑنے جا رہا ہے ! کیا اسے علم نہیں رات کیا ماجرا ہوا؟ ‘‘۔میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے ملک صاحب سے کہا۔

’’ لڑکا؟ کو ن سا لڑکا؟‘‘۔ملک صاحب نے پہلے مجھے پھر اپنے اِدہر ادہر دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ وہی لڑکا جو ابھی ابھی وہاں سامنے سے گزرا۔۔۔‘‘۔میں نے اُس سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔’’ کیاآپ نے نہیں دیکھا ؟‘‘۔

’’ نہیں۔ میں نے تو کوئی لڑکا نہیں دیکھا ! ‘‘۔ملک صاحب نے جواب دیا۔

’’ ہائیں ! آپ نے نہیں دیکھا؟ ایک دبلا پتلا اور لمبا لڑکا ، جس نے کاندھے سے مچھلی پکڑنے کی راڈ لٹکا رکھی تھی۔ اور اُن درختوں کے پیچھے چلا گیا !‘‘۔میں نے بے بسی سے کہا۔

’’ جاگتے میں خواب تو نہیں دیکھ لیا؟‘‘، ملک صاحب نے میری طرف دیکھ کر حیرانی سے کہا ۔

’’جاگتی آنکھوں بھلا کیا خواب دیکھنا ! ‘‘۔میں نے کھسیا کر جواب دیا۔

’’ ہا ہا ہا ۔۔۔‘‘ ، ہنستے ہوئے اُنہوں نے کہنا شروع کیا۔’’ آنکھیں کھُلی تھیں یا بند ! یا پھرآپ فریبِ نظر کا شکار ہو گئے ہیں‘‘۔

فریبِ نظر۔۔۔بالکل یہی لفظ اسکول کے ہیڈماسٹر نے بھی میرے لئے استعمال کیا تھا۔کیامجھے کچھ ہو گیا ہے ؟ ایسے ہی پریشان کن سوالات ذہن میں کلبلانے لگے 
۔ 

’’ ارے !دیکھو تو کیسا عجیب و غریب منظر ہے‘‘ ۔ملک صاحب بیساختہ چِلّا اُٹھے۔میں نے غور کیا تو پتہ لگا کہ درخت پار کر کے ہم جھیل پر موجودتھے ۔ہمارے سامنے اُس کی کیچڑ زدہ تہہ تھی ۔ پہلے جاگتی آنکھوں خواب کی باتیں،پھر کل تک جہاں جھیل تھی آج وہاں کہیں کہیں برائے نام پانی نظر آ رہا تھا ۔میں ابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ ایک شور اُٹھا۔میں نے بھی اپنی توجہ وہاں مرکوز کی۔جھیل کے کنارے کچھ لوگ کھڑے تھے ایک دو افراد جھیل کے اندر جانے کی کوشش کر رہے تھے۔پتا چلا کہ جھیل کے کیچڑ میں اِن لوگوں کو ایک لاش نظر آئی ہے جِس کے قریب جانا بہت دشوار کام ہے ، کیوں کہ وہ لاش جھیل کے گہرائی والے حصہ کی تہہ میں ہے ۔’’اُدہر تو کافی کیچڑ ہے، خدا جانے کہیں دلدل نہ ہو‘‘۔ملک صاحب گویا ہوئے۔

’’ وہاں تو فٹوں کے حساب سے کیچڑ ہو گا؟‘‘۔ملک صاحب نے اپنے عملہ سے پوچھا۔

’’ جناب ہم نے نشان زدہ بانس ڈال کر معلوم کیا ہے ۔ اندازاََ پانچ فٹ تک کیچڑ ہو سکتا ہے" ۔ کسی آدمی نے کہا۔

ملک صاحب نے ایک آدمی کو پولیس کی طرف روانہ کر دیا۔ اِس سے قبل ہی کچھ لوگوں نے محض اللہ کی خاطر اپنی خدمات لاش کو احترام کے ساتھ لانے کے لئے پیش کر دیں۔ متوقع دلدل میں دھنسنے سے بچاؤ کے لئے جانے والوں نے دونوں ہاتھوں میں بانس تھام رکھے تھے۔ 

ابھی چند قدم ہی جھیل میں اترے ہوں گے کہ ٹخنے تک کیچڑ اور مٹی نظر آنے لگی۔ وہ تینوں افراد کیچڑ زدہ مٹی میں ہر قدم پر گہرائی میں اندر کی جانب دھنستے چلے جا رہے تھے ۔کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ کمر کمر تک دھنس گئے۔آفرین ہے اِن پرکہ پھر بھی آگے ہی بڑھتے رہے ۔دیکھنے والے اپنی اپنی جگہ مبہوت کھڑے تھے۔صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اب ایک ایک قدم بڑھانے میں بہت طاقت استعمال ہو رہی ہے۔ ابھی وہ لاش سے کوئی بیس گز کے فاصلے پر ہوں گے کہ ان تینوں کی صرف گردن ہی مٹی کیچڑ سے اوپر نظر آنے لگی۔۔۔ شاید وہی جھیل کا سب سے زیادہ گہر ا حصہ تھا کیوں کہ اب جو بھی قدم آگے کی جانب بڑھ رہا تھا وہ اُن افراد کو سطح سے بلند کر رہا تھا۔جس طرح ہر قدم پر وہ گہرائی میں جا رہے تھے اب معاملہ اُس کے اُلٹ ہو گیا۔بالآخر وہ لاش تک پہنچ گئے۔کوئی اور موقع ہوتا تو قصبہ والے تحسین و آفرین کے ڈونگرے بھی برسا دیتے لیکن سب لوگ دم بخود کھڑے تھے۔کنارے پر کھڑے تمام افراد ، منتظرتھے کہ یہ کِس بد نصیب کی لاش ہے کیوں کہ اِس بستی اور قرب و جوار سے بھی ایک لمبے عرصے سے کسی کے ’ غائب‘ ہونے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔جان ہتھیلی پر رکھ کر وہاں جانے والوں نے اُس بد نصیب کو کیچڑ سے اوپر اُٹھایا ہی تھا کہ ہچکچاہٹ کے ساتھ دوبارہ واپس رکھ دیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ آپس میں مشورہ کر رہے ہیں پھر کنارے کی طرف آنے لگے۔ابھی چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ اِن میں سے ایک واپس مُڑا اور لاش کے پاس سے کسی لکڑی نُما چیز کو کیچڑ سے کافی زور لگا کر نکالا اور باقی دو افراد کے ساتھ آن ملا ۔جس طرح سے یہ گئے تھے بالکل اُسی طرح سر سے پیر تک کیچڑ میں لت پت واپس کنارے پر آئے او ر بتایا کہ طویل عرصہ زیرِ آب رہنے کی وجہ سے لاش کی حالت خراب ہو رہی ہے۔ بہتر ہو گا کہ کسی اسٹریچر پر باندھ کر وہاں سے اُٹھایا جائے نیز یہ کہ دیکھنے میں وہ کسی لڑکے کی لاش لگتی ہے جس کے ساتھ وزن بندھا ہوا ہے۔گفتگو کے بعد وہاں سے آنے والوں نے کہا کہ لاش کے ساتھ ہی ایک مچھلی پکڑنے کی راڈ بھی وزن کے ساتھ اٹکی ہوئی تھی جو وہ لے آئے ۔’’یقیناََ یہ اِسی لڑکے کی راڈ ہو گی‘‘۔وہاں سے آنے والوں میں سے ایک نے اُسے زمین پر رکھ دیا اور میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔

یہاں تک کے واقعات کا تو میں خود چشم دید گواہ ہوں۔ اِس کہانی میں آگے کیا ہوا؟ اُس کی معلومات مجھے اُس خط سے معلوم ہوئیں جو مجھے چند ہفتوں بعد موصول ہوا۔خط ملک احد صاحب کی طرف سے تھا:
بتاریخ 20 دسمبر ۔۔۔ 19
گاؤں ۔۔۔
جناب محمد بشیر احمد،
السلام علیکم
حسبِ وعدہ خط بھیج رہا ہوں گر چہ دیر ہو گئی ۔ پہاڑی جھیل میں پیش آنے والے سانحے کی مکمل معلومات حاصل ہونے میں کئی دِن لگ گئے ۔بہرحال میں وہاں سے شروع کرتا ہوں جِس دِن آپ واپس گئے۔یعنی کان میں پانی آنے اور لاش ملنے کے اگلے دِن۔ آپ گئے ہی تھے کہ پولیس انسپکٹر آ گئے۔ مگر جب تک لاش کی باقیات کنارے تک نہ آتیں پولیس انسپکٹر اور ہم لوگ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔کئی دن کیچڑ میں بڑے بڑے پتھروں سے عارضی راستہ بنا نے میں لگ گئے تب کہیں جا کر وہ لاش کنارے پر لائی جا سکی ۔قصہ مختصر یہ کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق وہ لاش۱۴ یا ۱۵ سال کے لڑکے کی تھی۔اس کا سر پیچھے سے تین انچ لمبا ئی میں چٹخا ہوا تھا جو بد نصیب کی موت کا باعث بنا۔یہ سر کا چٹخنا کسی چوٹ یا حادثہ کی وجہ سے بھی ہو سکتا تھا لیکن لاش کے ساتھ لوہے کے سریے مضبوطی سے بندھے ہوئے تھے جو قتلِ عمد کا مونہہ بولتا ثبوت تھا۔پھر قاتل کو یہ علم بھی تھا کہ جھیل کا یہی سب سے زیادہ گہراٍ حصہ ہے۔اس نے خیال کیا کہ اتنی گہرائی میں نہ کوئی جائے گا نہ لاش ہی اوپر آئے گی۔مگر اُس کی بد قسمتی کہ جھیل کا پانی وہاں سے بہہ کرہماری کان میں چلا گیا اور اُس کا جرم عیاں ہو گیا۔ گل سڑ جانے کے باعث لاش نا قابل شناخت تھی۔البتہ سر کے بھورے بالوں سے اندازہ ہو ا کہ وہ فوجی کٹ تھے ۔پولیس کی تفتیش کے مطابق سال ڈیڑھ سال قبل، لڑکوں کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر فرقان حیدر صاحب کے ہاں ایک لڑکا، جس کو وہ اپنا بھتیجا کہتے تھے،رہنے کے لئے آیا۔بتایا جاتا ہے کہ وہ لڑکا دبلا پتلا بھورے بالوں والااورلمبے قد کاٹھ کا تھا جوندی نالوں، نہروں اور جھیل میں مچھلیاں پکڑنے کا شوقین تھا۔ بستی کے جُفت ساز کو جب لاش کے جوتے دکھائے تو وہ فوراََ پہچان گیا کہ یہ اُس نے بنائے تھے ۔ایک دو گواہان نے بتایا کہ انہوں نے دو تین دفعہ دیکھاکہ چچا اپنے بھتیجے کو بُری طرح سے ڈانٹ ڈپٹ کر رہا ہے۔ بالآخر فرقان صاحب نے اپنے جُرم کا اعتراف کرلیا۔وجہ قتل کیا تھی؟ یہی اِس کہانی کاسب سے اہم حصہ ہے۔وہ بے چارا لڑکا ہیڈ ماسٹر صاحب کا بھتیجا نہیں بلکہ دور پار کے کسی غریب اور ضرورت مندرشتہ دار کا لڑکا تھا۔لڑکے کے والدین گزر چکے تھے اور وہ اپنی نانی کے ہاں پرورش پا رہا تھا۔وہ بوڑھی عورت غریبی کی زندگی گزار رہی تھی ، تب فرقان حیدر صاحب میدان میں آئے اور لڑکے کی تعلیم اور روز مرہ اخراجات کے لئے سالانہ وظیفہ مقرر کر دیا . پھر کچھ عرصہ بعدنانی نے اُن سے درخواست کی کہ لڑکا اِن ہی کے پاس رہے تا کہ اِس کی تعلیم و تربیت بہتر ماحول میں ہو سکے۔ اپنے اعترافی بیان میں فرقان صاحب نے کہاکہ لڑکے نے اُنہیں بہت مایوس کیا اوراُس کے لئے ہیڈماسٹر صاحب کے دل میں ناپسندیدگی پیدا ہو گئی جوآگے چل کر نفرت میں بدل گئی۔

لڑکا ذہنی طور پر پسماندہ تھا۔ اُسے قاعدے قانون کا کچھ پتا نہ تھا ۔البتہ مچھلی پکڑنے کا خبط اُس پر سوار رہتا تھا، اسی لئے وہ سارا سارا دن کاندھے سے مچھلی پکڑنے کی راڈلٹکائے، مارامارا پھرتا رہتا ۔یہ بات فرقان صاحب کو بہت بری لگتی تھی۔وہ چاہتے تھے کہ لڑکا کچھ پڑھ لکھ جائے۔پڑھائی نظر انداز کرنے کی وجہ سے وہ اُسے اکثر ڈانٹتے تھے۔اِس بات کی کئی ایک لوگوں نے گواہی دی ۔ بتا نے والوں نے یہ بھی بتایا کہ جس قدر اُس کو مچھلی پکڑنے پر ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی اُسی قدر وہ ڈھیٹ ہوتا چلا گیا۔ فرقان حیدر کے بیان کے مطابق مچھلیاں پکڑنے سے منع کرنے کے باوجود ایک روز جھیل کنارے انہوں نے اُسے مچھلیاں پکڑتے دیکھ لیا ۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور غصہ کی شدت میں، درخت کی گری ہوئی ایک موٹی شاخ سے اندھا دھند لڑکے کی دھنائی شروع کر دی ۔ البتہ ہیڈماسٹر صاحب مسلسل یہ کہتے رہے کہ اُن کا ارادہ اسے قتل کرنے کا ہر گز نہیں تھا۔جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا تب اُن کو پتہ چلا کہ وہ لڑکا تو ختم ہوچکا ۔انہوں نے بہتیری کوشش کی کہ اس کی سانسیں چلنا شروع ہو جائیں لیکن۔۔۔ کیسے ہوتیں؟ وہ تو دنیا سے گزر چکا تھا ۔ اُنہوں نے تسلیم کیا کہ اِس کے فوراََ بعد جو پہلا خیال آیا وہ پچھتاوے کا نہیں بلکہ اپنے تحفظ کا تھا۔ اُنہوں نے لاش کو گھسیٹ کر قریبی جھاڑیوں میں چھپا دیا اور اپنے گھر چلے آئے۔رات گئے جب پڑوسی سو گئے تو وہ لمبی مضبوط رسی ، لوے کے چند پرانے کٹے ہوئے سریے اور ایک شکاری چاقو لئے دبے پاؤں جھیل کی جانب چل دیے۔اُنہوں نے احتیاطاََ ایک لمبا راستہ اختیار کیا۔ جھیل کے کنارے ایک چھوٹی کشتی بندھی ہو تی تھی ۔فرقان صاحب نے کشتی کا رسہ کھولا اور گھما کر اُس مقام تک لے گئے جہاں لاش تھی۔ لاش کو اُٹھا کر کشتی میں ڈالا اور اپنی دانست میں جھیل کے گہرے ترین حصہ میں لے گئے۔ یہاں لاش کے ساتھ سریے کے کٹے ہوئے پانچ چھ راڈ، رسے کی مدد سے باندھ دیے اور لڑکے کی مچھلی پکڑنے کی راڈ بھی رسے میں اٹکا کر جھیل میں ڈال دیا۔ جیسا کہ عام طور پر مجرم اور قاتل سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے زبردست انتظام کر لیا اب ’ دریافت‘ ناممکن ہو گی۔

اگلے روز انہوں نے مشہور کر دیا کہ لڑکا واپس اپنی نانی کے ہاں چلا گیا کیوں کہ وہ یہاں کے اسکول میں باوجود کوشش نہیں چل سکا ۔ ویسے بھی اُس کا اِس بستی میں کسی کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا تھا ہی نہیں لہٰذااُن کی بات کو سب ہی نے مان لیا۔فرقان صاحب کا کہنا ہے کہ بظاہر تو حادثاتی طور پر اُن کے جُرم سے پردہ اُٹھا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ قتل اُن کے ذہن پر ناقابلِ برداشت بوجھ بن چکا تھا۔نظر نہ آنے والے آسیب کی موجودگی سے وہ تنگ آ چکے تھے۔وہ آسیبی وجود ان کے ساتھ نتھی ہو کررہ گیاتھا۔جہاں بھی جاتے، وہاں ’وہ ‘ہوتا ۔ کلاس میں پڑھاتے ہوئے ان کے پیچھے ہوتا۔حتیٰ کہ سونے کے لئے بستر پر لیٹتے ہوئے بھی اُس آسیبی سائے کی موجودگی محسوس ہوتی۔گو کبھی دکھائی نہیں دیا لیکن ہر وقت اُس کی موجودگی محسوس ہوتی ۔ کبھی تنہائی میں دیوارپر ایک سا یہ بھی نظر آیا کرتا۔ 

یہ اب تک کی معلومات ہیں۔اِن کا باقاعدہ مقدمہ آئندہ ماہ متوقع ہے۔اِسی دوران میں بھی لاہور جاؤں گا۔
آپ کا مخلص
ملک احد

اہم بات: میں یہ خط بند کرنے ہی والا تھا کہ مجھے ٹیلی گرام موصول ہوا کہ تھانے میں ہیڈ ماسٹر فرقان حیدر صاحب نے خودکشی کر لی۔ یوں یہ عجیب و غریب کہانی اختتام کو پہنچی۔ہاں ۔۔۔ایک اور بات کہنی ہے۔۔۔وہ آپ کا متجسس فریبِ نظر بھی خوب تھا جب ہم جھیل کی جانب جا رہے تھے اور آپ نے ایک لڑکا دیکھا تھا۔ کیا وہ فریبِ نظر تھا؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فی الحال میرے پاس کوئی جواب نہیں!
 ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ پراسرار کہانی جون کے ماہنامہ قومی ڈائجسٹ میں شائع ہوئی۔

 

 

Comments

Popular posts from this blog