کراچی کے ’ پتھارے زون ‘ ۔۔۔
کراچی کے ’ پتھارے زون ‘ ۔۔۔
تحریر شاہد لطیف
رمضان جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے ویسے ویسے کراچی کے مختلف علاقوں میں تجاوزات، ٹھیلے اور پتھارے بڑھتے جا رہے ہیں۔لیاقت آباد ، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، اورنگی ٹاؤن، کورنگی ٹاؤن، نارتھ کراچی، قائد آباد، لانڈھی، برنس روڈ، رنچھوڑ لائن، کھارادر سمیت اولڈ سٹی ایریا اور شہر کے مختلف تجارتی مراکزکے اطراف اور خاص طور پر صدر میں سینکڑوں نہیں ہزاروں پتھارے لگ گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹریفک پولیس فی پتھارا /ٹھیلا 200 سے1000روپے یومیہ بھتہ یا رشوت وصو ل کر رہی ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ غیر قانونی چارجڈ پارکنگ پر اور موٹر سائیکل اور کاروں کو لفٹر سے اُٹھانے کے پولیس کروڑوں روپے لے رہی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ر مضان کیا آیا ، کراچی پتھارہ مافیا کا شہربن گیا۔اور صدر ۔۔۔ ’’ پتھارہ زون‘‘۔
جی ہاں! آپ نے ماضی میں اسلام آباد میں ہونے والے عوامی تحریک اور پاکستان تحریکِ انصاف کے 126 روزہ دھرنے میں ریڈ زون کا نام بار بار سُنا ہو گا۔لیجئے اب اہلِ کراچی کے پاس بھی ایک ’ زون ‘ ہو گیا۔ بیشک کراچی میں صدر کے علاقے کو پتھارہ زون کہا جا سکتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق رمضان کی آمد سے پتھاروں میں ڈیڑھ گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ کاروباری علاقوں میں کوئی سڑک ایسی نہیں جہاں فٹ پاتھ اور آدھی سڑک پر ٹھیلے پتھارے نہ لگا دیے گئے ہوں۔یہاں آنے جانے والے ، خریدار، راہ گیر اور عورتیں بچے فٹ پاتھ پر پتھاروں کے قبضے کی وجہ سے سڑک پر چلنے پر مجبور ہیں۔ایک اور عذاب فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کے لئے یہ ہے کہ دوکانوں، دفاتر اور بینکوں نے اپنے بڑے بڑے غیر قانونی ڈیزل جنریٹر لگا رکھے ہیں ۔ پھر جو خریدار موٹر سائیکلوں اور کاروں میں بازار آتے ہیں ،وہ پارکنگ نہ ہونے پر جہاں سینگ سمائے گاڑیاں کھڑی کر کے ٹریفک کے سسکتے ہوئے بہاؤ کو مزید تکلیف دہ بنا دیتے ہیں۔مزے کی بات یہ کہ ڈیوٹی پر موجود ٹریفک پولیس کے اہلکار یہ سب ’ بخوشی‘ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔جب گاڑی /موٹر سائیکل پارک ہو جاتی ہے تو وہ خراماں خراماں لفٹر کی مدد سے بہت ہی سُست روی کے ساتھ اُٹھاتے ہیں تا کہ گاڑی والا دوڑتا ہوا واپس آئے اور ۔۔۔
یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ اِن علاقوں میں قانونی کاروبار کم اور ناجائز کی بھرمار ہے۔شہریوں کے لئے قدم قدم پر جائز کاموں کے لئے رکاوٹیں جب کہ غیر قانونی کاموں کے لئے راستے کھلے ہیں۔ اصلاحات کا ہر عمل دکھاوے کے لئے جاری ہے۔ایک سروے کے مطابق کراچی میں 700سے زائد مارکیٹیں جب کہ چھوٹی بڑی 5 لاکھ دکانیں ہیں۔اُدھر پتھارے ، سڑکوں ، فٹ پاتھوں، زمینوں پر غیر قانونی قبضے سے کیے جانے والے کاروبار کی تعداد 10لاکھ سے زیادہ ہے۔ذرائع کے مطابق آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کا کہنا ہے کہ کم و بیش پورے شہر میں عام طور پر اور صدر کے علاقے میں خاص طور پر یہ غیر قانونی کاروباراس قدرمضبوط ہو چکا ہے کہ عدالتِ عالیہ کے حکم سے کئی مرتبہ انسدادِ تجاوزات آپریشن بھی کامیاب نہ ہو سکا۔اِس ناکامی کا سبب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسدادِ تجاوزات، کے ایم سی اور دیگر متعلقہ ادارے بشمول پولیس اسے کامیاب کرنا ہی نہیں چاہتے !! ۔
دوسرے الفاظ میں جب تک دودھ کی چوکیداری پر بلّے بیٹھے رہیں گے نتائج صفر ہی رہیں گے۔چند اہم علاقوں میں تجاوزات کو ہٹانے کی خانہ پوری کر دی جاتی ہے اور اگلے ہی روز پہلے کی طرح پتھارے دوبارہ براجمان۔ اس بات پر کوئی توجہ نہیں کہ کے ایم سی کے اہلکار مستقل بنیادوں پر مصروف علاقوں کی نگرانی کریں۔ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ تجاوزات ہٹانے کا کام بلا تفریق نہیں کیا جاتا۔’اِن ‘ کو نہ چھیڑو یہ ’ فلاں ‘ کے لوگ ہیں۔اِس بات کو ختم ہوتے دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایم اے جناح روڈ، نشتر روڈ، گارڈن، صدر، طارق روڈ، حیدری، ناظم آباد، لانڈھی ملیر، اولڈ سٹی ایریا، لیاقت آباد، برنس روڈ، جامع کلاتھ اور اہم کاروباری مراکز سے ترجیحی بنیادوں پر رُکاوٹیں ہٹائی جائیں، جہاں کاروبار عملاََ دوکانوں کے بجائے فٹ پاتھ اور سڑکوں پر ہو رہا ہے۔ہر قسم کی تجاوزات فی الفور ختم کروائی جائیں۔ ایک بہت بڑی غلط بیانی میڈیا میں وائرس بن کر پھل چکی ہے یعنی ’’ نا جائز تجاوزات ‘‘ کی اصطلاح کا بار بار استعمال۔گویا کوئی ’’ جائز تجاوزات ‘‘ بھی ہوتی ہیں۔ میڈیا کے احباب اور اینکر پرسنوں سے درخواست ہے کہ وہ برائے کرم اِن چھوٹی لیکن اہم باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھا کریں۔برسبیلِ تذکرہ خاکسار کا کچھ عرصہ قبل لاہور کے ایوانِ عدل (یہاں کی سٹی کورٹ) میں جانا ہوا۔ایک بڑا سا پینا فلیکس نظر آیا جس پر یہ عبارت تحریر تھی’’ غیر قانونی رشوت طلب کرنے والے کے نام کی اطلاع نیچے لکھے ہوئے نمبر پر کیجئے‘‘۔گویا یہاں کوئی جائز رشوت بھی نافذ العمل ہے ۔: ’’ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔۔۔‘‘
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایم اے جناح روڈ، نشتر روڈ، گارڈن، صدر، طارق روڈ، حیدری، ناظم آباد، لانڈھی ملیر، اولڈ سٹی ایریا، لیاقت آباد، برنس روڈ، جامع کلاتھ اور اہم کاروباری مراکز سے ترجیحی بنیادوں پر رُکاوٹیں ہٹائی جائیں، جہاں کاروبار عملاََ دوکانوں کے بجائے فٹ پاتھ اور سڑکوں پر ہو رہا ہے۔ہر قسم کی تجاوزات فی الفور ختم کروائی جائیں۔ ایک بہت بڑی غلط بیانی میڈیا میں وائرس بن کر پھل چکی ہے یعنی ’’ نا جائز تجاوزات ‘‘ کی اصطلاح کا بار بار استعمال۔گویا کوئی ’’ جائز تجاوزات ‘‘ بھی ہوتی ہیں۔ میڈیا کے احباب اور اینکر پرسنوں سے درخواست ہے کہ وہ برائے کرم اِن چھوٹی لیکن اہم باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھا کریں۔برسبیلِ تذکرہ خاکسار کا کچھ عرصہ قبل لاہور کے ایوانِ عدل (یہاں کی سٹی کورٹ) میں جانا ہوا۔ایک بڑا سا پینا فلیکس نظر آیا جس پر یہ عبارت تحریر تھی’’ غیر قانونی رشوت طلب کرنے والے کے نام کی اطلاع نیچے لکھے ہوئے نمبر پر کیجئے‘‘۔گویا یہاں کوئی جائز رشوت بھی نافذ العمل ہے ۔: ’’ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔۔۔‘‘
ایک بات بہت اہم ہے کہ تجاوزات ہٹانے کی کوئی بھی کوشش علاقے کی تاجر تنظیموں کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ تاجر برادری کو بھی اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ خود بھی سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے قائم کردہ تعمیرات و تجاوزات ختم کر دیں۔جب ٹریفک رواں دواں ہو گا تو اُن کا کاروبار بھی ترقی پائے گا۔پھر حکومتِ سندھ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پتھاروں اور ٹھیلے والوں کو متبادل جگہوں پر منتقل کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ پچھلی کئی دہایوں سے صرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی کام نہیں ہو سکا۔ہمیں اِس سنگین مسئلے کے حل کے لئے چین، یورپ یا امریکہ کی جانب رجوع کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک عمل کی ضرورت ہے ۔۔۔ بلا تفریق قانون کا سب پر یکساں ’ نفاذ‘۔اہلِ وطن کے لئے یہ جوئے شیر لانے سے کم تو نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں۔ اب یہ کرے گا کون؟ ۔کئی سول حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، فوجی سربراہ کو بھی دیکھ لیا لیکن یہ مسائل جوں کے توں رہے۔۔۔تو اب کیا کیا جائے؟ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ میسر سیاسی قیادت کے بس کا یہ روگ نہیں۔اب تو کسی حجاج بن یوسف کا انتظار کرنا چاہیے جو بلا تفریق حکومت کی رِٹ گلیوں اور بازاروں میں یکساں اور بلا تفریق نافذ کرے۔ یہاں حجاج کا نام علامتی ہے، مقصد صرف سختی کے ساتھ احکام کے نفاذ کا ہے۔ہاں ہو گا صرف یہ کہ پھر عوام و خواص میں سے کئی ایک کی گردنیں سروں پر موجود نہیں رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 2 جون بروز منگل، 2018 کو روزنامہ نوائے وقت کراچی اور کوئٹہ کے صفحہ 11 پر بیک وقت شائع ہوئی۔
Comments