سپریم کورٹ کا بنایا گیا واٹرکمیشن اور افسر شاہی





سپریم کورٹ کا بنایا گیا واٹرکمیشن اور افسر شاہی 

تحریر شاہد لطیف

قیامِ پاکستان سے پہلے انگریزوں نے سرکاری عہدوں پر مقامی بھرتیوں کے لئے پبلک سروسوں کے جو امتحان مقرر کیے جن کا پاس کرنا آسان نہ تھا۔اس کے بعد انگریز حکّام اِن کامیاب امیدواروں کی تربیت کرتے تا کہ وہ ان کے ذریعے عوام پر اپنی حکمرانی مضبوط رکھ سکیں۔وہ اِن کو مقامی سطح پر اتنے زیادہ اختیارات دے دیتے کہ وہ خود کو بادشاہ سمجھنے لگتے۔افسوس صد افسوس کہ یہ طریقہ کار اور رویے آزادی کے 71 سال بعد بھی جوں کے توں قائم ہیں۔ہمارے ہاں اب بھی سی ایس ایس اور پی ایس ایس کے کامیاب اُمیدوار بھی کم و بیش اپنے آپ کو ملک کے اصل حاکم ہی خیال کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی لیڈران اور فوجی حکمران برسرِ اقتدار رہے لیکن انہوں نے اسے بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ شاہانہ سوچ اب تک قائم ہے ۔اسی لئے ان عہدوں کے لئے نوکر ’شاہی‘ یا افسر ’ شاہی‘ کی اصطلاح زبان زدِ عام ہو گئی۔یہ ’شاہی‘ اس قدر منہ زور ہے کہ خود کو کسی کے آگے جواب دہ ہی نہیں سمجھتی حالاں کہ ملک کا وزیرِ اعظم جو ملک کے سیاہ و سفید کا ذمہ دار ہے وہ بھی قانون کی زد میں آ کر سزا بھگت سکتا ہے لیکن یہ افسر شاہی تو قانون کو پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں دیتے۔


اس کی تازہ مثال کراچی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم سے بننے والے پانی، صحت اور صفائی کمیشن سے افسر شاہی کا ہر طرح سے عدم تعاون ہے۔سمندر سے قریب ترین واقع ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے افسران بار بار طلبی پر بھی کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور اب کی دفعہ ایک لاء افسر کو بھیج کر فرض ادا کر دیا۔ یہ اتھارٹی ، ساحل اور سمندر کو آلودہ کرنے میں پیش پیش ہے۔ جہاں تک پانی کا تعلق ہے تو یہاں کے کئی فیزوں phases میں لائن کا پانی سرے سے آتا ہی نہیں، پانی کے ٹینکر منگوائے جاتے ہیں، جیسے فیز6 کے خیابانِ بدر کا علاقہ جہاں میرے بڑے بھائی رہتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا۔ یہاں کے مکین بھی ڈی ایچ اے انتظامیہ سے لائینوں میں پانی نہ آنے کی شکایت کر کر کے تھک گئے لیکن ۔۔۔ کیا اس میں خود ڈی ایچ اے بھی ملوث ہے؟۔


کاروائی کے دوران کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے ساحلِ سمندر پر کچرے کے ڈھیراور گندگی پر سخت برہمی کا اظہار کیا، اُنہوں نے ڈی ایچ اے سے سوال کیا : ’’ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کیا اسی لئے بنائی گئی ہے کہ سارا گند سمندر میں ڈال دیا جائے۔ڈی ایچ اے کے افسر کمیشن کے روبرو پیش ہی نہیں ہو تے، کیا وہ آسمان سے آئے ہیں؟‘‘ ۔ ڈی ایچ اے کے وکیل نے موقف اختیار کیا: ’’ متعلقہ افسر ہی اس کی وضاحت کر سکتا ہے‘‘۔ کیا دل خوش کُن جواب دیا گیا۔واہ واہ! اس معصومانہ جواب پر واری ہو جانے کو دل چاہتا ہے۔ اس پر کمیشن کے سربراہ نے پوچھا : ’’ لوگ وہاں تفریح کے لئے آتے ہیں اور آپ نے اس جگہ کو گندگی کا ڈھیر بنا دیاہے۔ 3 نالوں سے آنے والا سیوریج کا گندہ پانی، فلٹریشن /صاف کیے بغیر سمندر میں ڈالا جا رہا ہے۔آپ لوگ ڈی ایچ اے کی پوری سیوریج لائن ساحل میں بہا رہے ہیں ۔ لوگ ساحل پر پکنک منانے آتے ہیں جب کہ یہ ساحل، ساحل ہی نہیں لگتا۔ اس کا بہت برا حال کر دیا ہے‘‘۔ ڈی ایچ اے کے افسرِ قانون نے اس سلسلے میں اپنی لا علمی ظاہرکی اور کہا : ’’مجھے یہ پتہ ہی نہیں کہ وہاں کیا حال ہے‘‘۔ اس بات پر ان سے پوچھا گیا : ’’جب آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں تو پھر یہاں کیا لینے آئے ہیں؟ ‘‘۔


جس بات کے لئے ادارے یا محکمہ کو نوٹس دے کر بلوایا جاتا ہے جب اُسی کے وکیل یا لاء افسر یہ بھونڈی دلیل دیں کہ ہمیں تو اِس بات کا علم ہی نہیں، یہ تو آپ سے معلوم ہوا ‘‘۔ تواس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسے اداروں اور محکموں کو عوامی نوعیت کے معاملوں سے رتی برابر دلچسپی نہیں ۔ان کا کام محض تاریخیں لینا اور کیس کو اتنا الجھانا کہ۔۔۔کیا یہ افسر شاہی نہیں؟


کمیشن کے سامنے ایک خاتون شہری نے کہا کہ سمندر میں سیوریج کا اتنا زہریلا پانی ڈال دیا گیا ہے کہ مچھلیاں مر رہی ہیں، ڈی ایچ اے کی طرف سے تاویلات دی گئیں کہ یہ تو بارشوں کا پانی ہے تو کمیشن نے کہا : ’’ آئیے! ابھی میرے ساتھ چلیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ بارش کا پانی ہے یا سیوریج کا ، میں اس گندے پانی میں سے خود گزرا ہوں‘‘۔ اُنہوں نے کہا :’’ ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ بورڈ کو ساحل پر صفائی کا بھی کوئی خیال نہیں لہٰذا کمیشن کو اس معاملے میں بہت سنجیدہ اقدامات کرنا پڑیں گے ‘‘ ۔ ڈی ایچ اے کی جانب سے ایک ہفتے کی مہلت طلب کر لی گئی۔کمیشن نے ریمارکس دیے کہ اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو مزید کاروائی 15 مئی کو کی جائے گی۔کمیشن نے ا س سلسلے میں ایک ماہر، ڈاکٹر مرتضیٰ کو حکم دیا کہ ساحلِ سمندر پر جن مقامات سے گندہ پانی چھوڑا جا رہا ہے وہاں سے پانی کے نمونے لئے جائیں ۔

دوسری طرف کراچی میں فراہمی آب میں کوتاہی کی شکایات پر کمیشن نے واٹر بورڈ پر برہمی کا اظہار کیا : ’’ آپ نے تو پورا نظام ہی تباہ کر دیا‘‘۔کمیشن نے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر واٹر بورڈ کو تمام شکایات کرنے والوں کو اپنے ساتھ لے جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا : ’’ آج ہی ان سب کے مسائل حل کر کے رپورٹ پیش کریں۔ آپ بھی اپنے ایئر کنڈیشن کمروں سے باہر نکلیں ۔ہم سڑکوں پر دھکے کھاتے ہیں اور آپ دفتر سے باہر نہیں نکلتے۔ ہر روز شہری اپنے پانی کے مسئلے لے کر یہاں آ رہے ہیں لیکن واٹر بورڈ کے افسران ،باتوں کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ویب سائٹ پرٹینکر ملنے کا اعلان کر دیا لیکن کسی کو کوئی ٹینکر نہیں مل رہا۔فون نمبر تو دے دیے مگر کوئی فون ہی نہیں اُٹھاتا ، مذاق بنا رکھا ہے۔ کمیشن کی ہدایات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ایک ٹکے کا کام نہیں ہوا ، اوپر سے نیچے تک سب بے ایمان بیٹھے ہوئے ہیں۔ابھی تک پمپنگ اسٹیشنوں کی تفصیل ویب پر نہیں ڈالی گئی، ان سے تو ویب سائٹ تک نہیں بنتی‘‘۔ کام نہ ہونے پر ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر واٹر بورڈ نے کہا: ’’ data /اعداد و شمار جمع کر رہے ہیں ، جلد کام ہو جائے گا‘‘۔اس پر کمیشن نے کہا : ’’یہ اعداد و شمار کیا لندن سے لینا ہیں؟ ۔ایم ڈی واٹر بورڈ نے دو ہفتے پہلے کہا تھا کہ ویب سائٹ پر تفصیل جاری کر رہے ہیں لیکن۔۔۔اب تو مجھے پکا یقین ہو گیا ہے کہ جب تک کسی کو جیل نہ بھیجا گیا کوئی کام نہیں ہونے کا ! اب مزید برداشت نہیں کر سکتے۔مجھے ٹھیک کرنا آتا ہے ۔یا وہ ٹھیک ہو جائیں گے یا میں گھر چلا جاؤں گا۔اب بھی اگر عملدرآمد نہیں کیا گیا تو آپ کے خلاف criminal /فوجداری کاروائی ہو گی‘‘۔ اِس کے ساتھ انہوں نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا۔اور یہ ریمارکس دیے کہ اگر کمیشن اُن کی و ضاحت سے مطمئن نہ ہوا توایم ڈی واٹر بورڈ کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی ہو گی۔ انہیں 14مئی تک جواب دینے کا حکم دے دیا۔


کراچی کی افسر شاہی نے جب کوئی کام نہیں کرنا ہو تو یہ مخصوص جملے کہے جاتے ہیں: ’ دیکھ لیں گے، کر لیں گے، ہو جائے گا‘ ، لہٰذا یہ کام بھی ’ہو جائے گا‘۔

کراچی کے بڑے مسائل میں فراہمی آب سرِ فہرست ہے۔سپریم کورٹ کے حالیہ اقدامات اور واٹر بورڈ والوں کی سخت سرزنش کے بعداُمید ہو چلی ہے کہ شاید اب یہ دیرینہ مسئلہ حل ہونے کے قریب ہے۔ اور ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ کوئی اس افسر شاہی کو بھی لگام دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 12 مئی کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر  کالم " اُلٹ پھیر" میں شائع ہوئی۔










 

Comments

Popular posts from this blog

خالدہ ریاست کردار میں ڈھل جانے والی اداکارہ