نئی سبزی منڈی یا اندھیر نگری ۔۔۔
نئی سبزی منڈی یا اندھیر نگری ۔۔۔
تحریر شاہد لطیف
راقم 1974 سے ایک عرصہ تک حسن اسکوائر میں رہتا رہا ہے۔ سبزی منڈی قریب ہی ہو تی تھی، میں اکثر اپنی والدہ کے ساتھ سبزی پھل لینے جا تا تھا۔ٹھیک ہے! اُس وقت بھی منڈی میں گلی سڑی سبزیاں اور پھل نظر آتے تھے لیکن مجموعی طور پر گذارا چلتا تھا۔پھر کئی سال گزر گئے، زمانہ ترقی کر گیا اور سبزی منڈی کو سُپر ہائی وے پر منتقل کر دیا گیا ۔ تاثر یہی تھا کہ نئی منڈی بہترین منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی ہے۔ایک آدھ مرتبہ ڈایؤو بس کے اڈے جانا ہوا تو دور سے یہ نئی سبزی منڈی دکھائی دی۔پھر گاہے بگاہے اطلاعات ملنے لگیں کہ صفائی، بد انتظامی اور کرپشن کا وہی بھوت ناچ رہا ہے ۔اِن معاملات کی جب ایک عام شخص کو خبر ہو سکتی ہے تو مئیر، وزیرِ صحت ، وزیرِ داخلہ ،گورنر اور وزیرِ اعلی صاحبان کس طرح لا علم رہ سکتے ہیں !
پھل اور سبزیاں خریدنے کے لئے خوردہ فروشوں کا سبزی منڈی کے انتہائی تکلیف دہ ماحول میں آنا تو مجبوری ہے لیکن عام خریدار جوایک مرتبہ اس نام نہاد نئی سبزی منڈی میں آئے تو قوی امکان ہے کہ وہ دوبارہ یہاں اِس بیہودہ انتظام میں آنے کے لئے کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔ منڈی میں بیت الخلاء تک کی سہولت میسر نہیں ۔ بد انتظامی کی انتہا ۔۔۔کہ جب ایک دیوار کی اوٹ پیشاب کے بعد آب دست کی ضرورت تھی تواُس کے لئے بھی پانی خریدنا پڑا ۔لاحول ولا قوۃ۔۔۔ مارکیٹ میں ٹریفک کا نظام مفقود ہے ۔نظام کی بات اس وقت کی جائے جب کوئی نظام تو ہو ! سبزی اور پھل لانے والی گاڑیوں کے مالکان من مانے کرایہ وصول کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں سبزی منڈی کے بیوپاری یہ اضافی اخراجات بھی تھوک کی قیمت میں شامل کر تے ہیں جو براہِ راست عوام کی جیب پر پڑ تا ہے۔ سبزی منڈی کی حدود میں بنے ہوئے غیر معیاری کھانا فراہم کرنے والے چھپر ہوٹل ، تو ہوٹل کہلانے کے مستحق ہی نہیں۔ اِن سے کہیں بہتر تو میرے زمانہ طالبِ علمی میں جامعہ کراچی کا چھپر ہوٹل المشہور ’’ کیفے ڈی پھوس ‘‘ تھاجہاں چائے اور کھانا معیاری ہو تا تھا۔
سبزی منڈی کے بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ ہم دوسروں کی کیا بات کریں ہماری تو اپنی مارکیٹ کمیٹی کی کارکردگی شرمناک ہے۔ محکمہ انسدادِ بد عنوانی ، مارکیٹ کمیٹی کے فنڈ میں مبینہ خورد برد کے معاملات کی تحقیق و تفتیش شروع کر چکا ہے ۔ذرائع نے بتایا کہ سبزی منڈی مارکیٹ کمیٹی ،محکمہ زراعت کے لئے دودھ دینے والی گائے بن چکی ہے۔ یہ بھی بتایا کہ وزارتِ زراعت سندھ کے وہ ملازمین جن کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ رہ جاتے ہیں اُن کا تبادلہ سبزی منڈی کر دیا جاتا ہے تا کہ مارکیٹ کمیٹی کے فنڈ میں جمع ہونے والے پیسوں سے اِن ریٹائرڈ ملازمین کی گریجیوٹی ادا کر دی جائے۔ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت ایکسٹینشن ، سبزی منڈی کی بہتری کے کاموں میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اورمنصوبوں کو شروع کرنے کی منظوری نہ ملنے پر نہ صرف مسائل میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے بلکہ کراچی کی سبزی منڈی کے بیوپاریوں میں مایوسی بھی پھیل رہی ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی سبزی منڈی ہے جہاں صفائی کے ناقص انتظام کی وجہ سے جا بجا گندگی کے ڈھیر دیکھنے کو ملے۔اندرونی سڑکوں کی تباہ حالی پر کیا بات ہو ۔۔۔ سُپر ہائی وے پر واقع اس سبزی منڈی میں بجلی کی ترسیل پچھلے 6 ماہ سے بند ہے ۔بتایا گیا کہ منڈی میں 4000 کے قریب دوکانیں ہیں جو اپنی بجلی کی ضرورت جنریٹروں سے پوری کرتے ہیں۔ عام لوڈ شیڈنگ ہو تو جنریٹر چلانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن جب بجلی سپلائی ہی نہ ہو رہی ہو تو ڈیزل وغیرہ کے اضافی اخراجات بھی عوام کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اگر سبزی منڈی کے مسائل حل نہ ہوئے تو رمضان المبارک میں پھلوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں گی۔ دُکانداروں نے اپنی دُکانوں میں جنریٹر اور سولر سسٹم لگا لئے ہیں۔اِس پر 6سے 12ہزار روپے کا اضافی خرچہ آتا ہے ، ظاہر ہے یہ بھی عوام ہی سے پورا کیا جائے گا۔ تعفن اور غلاظت کی وجہ سے یہاں کوئی بھی زیادہ دیر نہیں ٹہر سکتا اور جیسے تیسے سہی اپنا کام کر کے کثیف اور غلیظ ماحول سے بھاگنا چاہتا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈھنگ سے پھل سبزیوں کی درجہ بندی، نیلامی اور شہر کے مختلف علاقوں میں سبزی اور پھلوں کی ترسیل کا کام متاثر ہو رہا ہے۔
زرعی مارکیٹ کمیٹی کے وائس چیئر مین آصف احمد کہتے ہیں کہ سبزی منڈی میں پچھلے 18سال سے پانی کا کوئی کنکشن نہیں ہے۔منڈی کے دوکانداروں اور بیوپاریوں نے واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) امیر مسلم صاحب سے رجوع کیا ہے اور انہیں منڈی میں سہولتوں کے فقدان کا بتلاتے ہوئے درخواست کی ہے کہ صوبائی اور قومی خزانے میں کروڑوں روپے کے محصولات جمع کروانے والی سبزی منڈی کو بجلی، پانی اور گیس کی سہولت دی جائے ۔ جوتیوں میں دال بٹنے کی وجہ سے منڈی میں تقریباََ 50 ہزار دوکاندار/بیوپاری اور مزدورمتاثر ہو رہے ہیں۔قارئین کو دعوت ہے کہ وہ بھی آج کل میں ایک مرتبہ نئی سبزی منڈی کی حالتِ زار خود اپنی آنکھوں دیکھ آئیں۔خاکسار نے جوتیوں میں دال بٹنے ضرب المثل ایسے ہی نہیں لکھ دی ہے، وہاں کے انتظامات کو دیکھ کر یہ خود بخود زبان پر آ جائے گی۔ وائس چیئر مین نے مزید انکشاف کیا کہ دن بھر میں 1000 سے 1200 گاڑیاں پھل اور سبزیاں لا تی ہیں۔شہر سے پھل اور سبزیوں کو لینے کے لئے آنے والی گاڑیاں اِن کے علاوہ ہیں۔رمضان المبارک میں گاڑیوں کی تعداد اور پھلوں کی ترسیل میں 5گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔شہر سے خریدار بھی 10گنا بڑھ جاتے ہیں۔مارکیٹ کمیٹی کے وائس چیئر مین نے حکومتِ سندھ سے درخواست کی ہے کہ ابھی وقت ہے، رمضان المبارک سے پہلے سبزی منڈی کے مسائل کا کوئی قابلِ عمل حل نکالا جائے تا کہ کمیٹی رمضان میں پھلوں سبزیوں کی قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھ سکے۔
منڈی کے اندرونی راستے اور سڑکیں دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے کسی پرانے زمانے میں آ گئے ہوں ۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ، سیوریج کا نظام بہت خراب، کچرا اُٹھانے کا ناقص ترین انتظام ، جگہ جگہ گلے سڑے پھل8 اور سبزیوں کے تعفن زدہ ڈھیر۔اِس گندگی میں پیدا ہونے والے نقصان دہ جراثیم ،صحیح پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ ہمارے اور آپ کے گھر تک آتے ہیں۔ پھلوں والے حصے میں کھڑا ہونا بہت مشکل ہو رہا تھا لیکن آلو پیازوالی جگہ تو خدا کی پناہ۔۔۔آفرین ہے تجاوزات مافیا پر کہ تعفن زدہ سڑکوں کو بھی نہیں بخشا۔معمولی بارش ہوئی نہیں اور منڈی میں جل تھل ہوئی نہیں۔ایسے میں کئی روز کاروبار معطل رہنا معمول کی بات ہو چکی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ مارکیٹ کمیٹی کے پاس وافر فنڈ موجود ہے تا ہم بنیادی سہولیات کی فراہمی پر کام نہ تو ماضی میں کبھی ہوا اور نہ مستقبل ہی میں ہوتا نظر آتاہے۔ سبزی منڈی کے بیوپاریوں نے منڈی میں ناقص صفائی اورسڑکوں کی حالت بہتر نہ بنانے پر سندھ ہائی کورٹ میں ایک آئینی پٹیشن 3875 بھی دائر کر رکھی ہے لیکن حکومتِ سندھ اور مارکیٹ کمیٹی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ۔منڈی کے تاجروں کے مطابق پھل سبزیاں لانے والی گاڑیوں سے مارکیٹ کمیٹی روزانہ ڈھائی لاکھ روپے داخلہ فیس لیتی ہے۔ یہ رقم کہاں جاتی ہے؟ زبانوں پر تالے ہیں۔۔۔ منڈی کی صفائی کی مد میں ٹھیکیدار کو 10لاکھ روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ ذرائع کہتے ہیں کہ گٹروں اور سیوریج کی صفائی پر دو لاکھ روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔چونکہ مذکورہ ٹھیکیدار سے کمیشن طے ہے لہٰذا صفائی ستھرائی پھر کون پوچھے !!
ہم مئیر کراچی سے درخواست کر تے ہیں کہ وہ اِس معاملے کی شفاف تفتیش کروائیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 5 مئی 2018 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر کالم ' اُلٹ پھیر ' میں شائع ہوئی۔
Comments