سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی۔۔۔محکمہ تعلیم کی نا اہلی
سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی۔۔۔محکمہ تعلیم کی نا اہلی
تحریر شاہد لطیف
۔۔۔ پھر وہی ہوا جِس کا ڈر تھا۔۔۔کراچی کے نجی تعلیمی اداروں نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ور زی کرتے ہوئے نئے سال کے لئے فیسوں میں 25سے 40فی صد اضافہ کر دیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ زیادہ تر نجی اسکو ل انتظامیہ، والدین کونئی کلاسوں کے لئے تمام کاپیاں کتابیں اور یونیفارم بھی’ صرف‘ اسکول ہی سے خریدنے پر مجبور کر رہی ہے۔پیرنٹس ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ اُن اسکولوں کی من مانیوں کے خلاف بھر پور احتجاج کرے گی اور جِن اسکولوں نے فیسوں میں اضافہ کیا ہے اُن کے باہر احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔اِن خیالات کا اظہار پیرنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرمین محمد کاشف صابرانی نے کیا۔اُنہوں نے کہا کہ نجی اسکولوں کے مالکا ن نے سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود فیسوں میں مان مانا اضافہ کر کے اپنے آپ کو قانون سے بالا تر ہونے کا ثبوت پیش کر دیا ۔رواں تعلیمی سال میں، امتحانات سے پہلے ہی والدین سے زبردستی جون اور جولائی کی فیسیں وصول کی جا چکی ہیں اور اب دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ غیر قانونی طور پر بڑھائی گئی فیسوں کے بقایا جات بھی علیحدہ سے ادا کریں ۔ پیرنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ نئے تعلیمی سال کے لئے اسکولوں سے بازار کے مقابلہ میں 100 فی صد زیاد ہ قیمت پر کتابیں کاپیاں خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔جب کہ یونیفارم تو اِس سے بھی زیادہ مہنگی ہے۔
اُٹھتے بیٹھتے جمہوریت کی باتیں کرنے والے سیاسی جماعتوں کے قائدین کیا یہ نہیں جانتے؟ یہ تو کراچی کے ساتھ پورے ملک کا بھی مسئلہ ہے۔ با اثر اور قانون سے بالاتر نجی اسکو ل والے یہ کہتے ہیں کہ کا پیاں بھی اُن کے نام اور مونوگرام والی درکار ہیں۔کیا ہم کسی کمیونسٹ ملک میں رہتے ہیں جہاں والدین کو بازار میں دستیاب عام کاپیاں لینے تک کی اجازت نہیں۔ ہمارے خیال میں یہ عوام پر ظلم ہے۔ لوگوں کی اکثریت اپنے بچوں کو اِن نجی اسکولوں میں بہتر مستقبل کے لئے اپنا پیٹ کاٹ کر داخل کراتی ہے ، اب اِس کے ساتھ ’ ایڈوانس فیس‘ کا بم بھی گرا دیا گیا ہے۔پہلے ہی اِن اسکولوں میں جانے والے بچوں سے ایڈوانس فیس لینے کا بھلا کیا جواز ہے؟فیسوں پہ فیس نے والدین کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ ایسے حالات میں اِن بچوں کی تعلیم کاجاری رکھنا اب مشکل تر بنا دیا گیا ہے ۔اِس طرح تو بچوں سے ان کا تعلیمی حق چھین لیا جائے گا۔وزیرِ اعلیٰ سندھ ، صوبائی وزیرِ تعلیم، اور سیکریٹری تعلیم سے درخواست کی جاتی ہے کہ مستقبل کے معماروں کے اِس مسئلہ کے حل کے لئے کچھ کریں ۔
عجیب بات یہ ہے کی لیاری میں بھی نجی اسکولوں کی بھرمار اور لوٹ کھسوٹ کی لوٹ سیل جاری ہے جِس سے حکومتِ سندھ نے آنکھیں چرا رکھی ہیں۔ لیاری ٹاؤن کے راہنما عارف جلب اور فضلِ ربی نے تعلیم کو تجارت بنانے والے اسکول مالکان کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار بہتر ہوتا تو پرایؤیٹ اسکولوں کی بھر مار اور لوٹ مار نہ ہوتی۔
یہ بات بالکل صحیح ہے کیوں کہ یہی ایک بڑا سبب ہے جس کی بنا پر ایک عام آدمی تک یہ تاثر پہنچ گیا کہ سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار بہت گِر چکا ہے،لہٰذا پہلے نام نہاد گلی محلہ کے انگریزی ناموں والے اسکول قائم ہوئے پھر ہوتے ہوتے بات اِن ’ با اثر‘ اسکولوں تک پہنچ گئی۔ با اثر نجی اسکول چونکہ ’ با اثر ‘ ہیں لہٰذ ا کیسا قاعدہ اورکہاں کا قانون ؟ یہ تو اِن سب سے ماورا ہیں۔اس لئے ان کا استحقاق ہے کہ وہ جو جی چاہے کر یں کوئی اُن سے پوچھ کے تو دکھائے !
نجی اسکول اپنی ٹیوشن فیس میں من مانے اضافے کا حق نہیں رکھتے۔اِن نجی اسکولوں کی انتظامیہ کا کہنا غلط ہے کہ والدین کی رضامندی سے فیسوں میں 5 فی صد سالانہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ نجی اسکول از خود فیسوں میں اضافے کے مجاز نہیں، اِس کے لئے صوبائی محکمہ اسکول ایجوکیشن کے متعلقہ سیکشن ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنزکی منظوری درکار ہوتی ہے ۔ اِن نام نہاد اشرافیہ اسکولوں کی فیسوں میں ناجائز اضافے کے کیس میں ہائی کورٹ نے اپنے حکم نامے میں نجی اسکولوں کی فیسوں میں سالانہ 5 فی صد اضافے کی شِق ختم کر کے نیا’ طریقہ کار‘ وضع کرنے کی ہدایت محکمہ تعلیم کو دی تھی اور فیسوں کے تعین کا ’ طریقہ کار ‘ مسابقت کی بنیاد پر بنا ئے جانے کا بھی کہا تھا۔واضح ہو کہ 5 مارچ کو جاری ہونے والے عدالتی حُکم نامے میں 90دن کے اندر نئی قانون سازی کرنے کو کہا گیا تھا ۔
عدالتی حکم کی روشنی میں قانون سازی کے لئے اب تک متعلقہ محکمہ کی جانب سے سرے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیاجس کے باعث شہر کے’ با اثر‘ نجی اسکولوں نے نئے تعلیمی سال کے لئے فیسوں میں اضافہ کر لیا کیوں کہ کہ اُن کو یقین ہے کہ متعلقہ محکمہ پہلے کی طرح اب بھی اُن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔
عدالتی حکم نامے میں دیے گئے 90 روز ابھی نہیں گزرے کہ شہر کے نجی اسکولوں نے اپنی من مانی فیسوں کا تعین اور اس میں سالانہ اضافہ کر لیا ۔ عدالتِ عالیہ نے تو 5 فی صد سالانہ اضافہ بھی ختم کرنے کو کہا ہے اور یہاں نجی اسکولوں کی فیسوں میں 40فی صد تک کا اضافہ ہوا۔ کیا نجی اسکولوں کی فیسوں میں یہ اضافہ کھلم کھلا توہینِ عدالت نہیں؟نیز کیا اِس توہین میں صوبائی محکمہ اسکول ایجوکیشن کے متعلقہ سیکشن ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز بھی شامل نہیں؟ اس کی منظوری کے بغیر ہی فیسوں میں اضافہ کیوں کر ممکن ہوا؟
کیا اب کی دفعہ والدین کی جانب سے کی جانے والی قانونی جدوجہد ایک مرتبہ پھر ناکام ہو جائے گی! ایسا لگتا ہے کہ کراچی کے نجی اسکول جو پہلے ہی کسی ضابطے قانون کو نہیں مانتے تھے، ا ب اپنی تمام حدود پار کر چکے ہیں ۔
ہم عدالتِ عالیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ اِن بے مہار اسکول مالکان کو قانون کی لگام دی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ تحریر 7 اپریل، 2018، بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر کالم ' اُلٹ پھیر ' میں شائع ہوا۔
Comments