واپسی




جون بکنJohn Buchan پرتھ، آسٹریلیا میں 1875 میں پیدا ہوئے۔یہ اسکاٹ لینڈ کے مصنف، ناول نگار، تاریخ دان اور سیاست دان تھے ۔کچھ عرصہ وکالت کی پھر جنوبی افریقہ کی نوآبادیاتی انتظامیہ میں پرائیوٹ سیکریٹری ہو گئے۔دوسری بوئر جنگ ، 11 اکتوبر 1899 سے 31 مئی 1902 کے دوران جنگی تشہیر کے شعبے میں کام کیااور جلد ہی ڈائریکٹر انفارمیشن ہو گئے۔ 1935 میں ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں شاہ جارج پنجم نے کینیڈا کا گورنر جنرل بنا دیا ۔یہ 11 فروری 1940 کو انتقال کر گئے۔درج ذیل ،ان کی کہانی
 THE STRANGE ADVENTURE OF MR. ANDREW HAWTHORN سے ما خوذ ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپسی 

تحریر شاہد لطیف

کوئی بھی گمشدگی اپنے اندر ایک دلچسپ تجسس لئے ہوتی ہے ۔اگر یہ ناقابلِ فہم ہو تو دلچسپی دو چند ہو جاتی ہے۔بیٹھے بٹھائے کوئی سراغ چھوڑے بغیر اچانک غائب ہو جانا اور پھر واپس آجانابہت پراسرار ہوا کرتا ہے۔ روز مرہ زندگی میں ہمارے اطراف سے خاص اور عام افراد غائب ہوجاتے ہیں یا پھر کر دیے جاتے ہیں ۔عموماََ وہ واپس نہیں آتے اور اپنے پیچھے ایک بے نشان اسرار چھوڑ جاتے ہیں ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ واپس آ جاتے ہیں۔ اس تمہید کے بعد پیش کی جانے والی کہانی اسکاٹ لینڈ کے دیہات کے ایک سادہ شخص کی ہے ۔ 200 سال قبل پیش آنے والا ایک سچا واقعہ ہے جسے جون بکن نے لکھا ہے ۔ 

32 سالہ مضبوط جسم کے مالک ، دانیال نے شادی نہیں کی۔یہ اپنی بہن بابرا کے ہمراہ ’ ایڈنبرا‘سے دس بارہ میل کے فاصلے پر رہا کرتا تھا۔گو کہ وہ معمولی قابلیت کا حامل شخص تھا لیکن اپنے کام میں سخت محنت کے بعداُس نے نوادرات کے میدان میں اپنے آپ کو منوا لیا اور قدرے خوشحال زندگی بسر کرنے لگا۔

اُس کے معمولات گھڑی کی سوئیوں کی طرح تھے مثلاََ وہ صبح کا ناشتہ ٹھیک سات بجے اپنی بہن کے ساتھ کرتا تھا۔یہ اس کا معمول تھا کہ ناشتہ کرنے کے بعد تھوڑی دیر چہل قدمی کرتا اور ٹھیک آٹھ بجے اپنے کام پر ہوتا۔ اس کو اس بات سے سخت چِڑ تھی کہ ناشتہ یا دودھ وغیرہ ضرورت سے زیادہ گرم ہو، اگر ایسا ہوتا تو وہ ناشتہ سے پہلے ہی چہل قدمی کو چلا جاتااور واپس آ کر ناشتہ کرتا۔مئی کی ایک خوشگوار صبح دانیال ناشتہ کرنے پہنچا تو میز پر بہن بھائی کے تیز گرم ناشتے موجود تھے جس پر جھِلاتے ہوئے اُس نے چِلّا کر اپنی بہن سے کہا جو کہیں اوپر کی منزل پر کام میں مصروف تھی :

’’ ناشتہ بہت گرم ہے بابرا ! کتنی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ میرے ناشتے پر آنے سے کچھ دیر پہلے ناشتہ میز پر نکال دیا کرو ! میں تھوڑی دیر باہر چہل قدمی کر کے آتا ہوں ۔تب تک یہ کھانے کے قابل ہو جائے گا ‘ ‘۔ 

یہ کہہ کر وہ باغ میں چلا گیا اور پانچ سال بعد ناشتہ کرنے واپس آیا ۔
وقت کا اتنا پابند شخص جب ناشتہ کرنے نہیں آیا تو اُس کی بہن نے اسے ڈھونڈنا شروع کیا ۔ سب طرف اُس کی ڈُھنڈیاپَٹی۔کہاں کہاں تلاش نہیں کیا گیا ۔ زمین کھا گئی یا آسمان ،کچھ پتا نہیں لگ سکا۔ اپنی بہن کے علاوہ دانیال کاکوئی عزیز یا رشتہ دار نہیں تھا۔اُس کے وکیل نے د انیال کی کوئی خبر لانے والے کو ایک مناسب رقم دینے کا اعلان کر دیا ۔ لیکن کوئی اتا پتا ہوتا تو اس کا سراغ بھی ملتا۔ایسے میں لوگوں نے گُمان کر لیا کہ دانیال مر چکا ہے۔ اُس کی بہن جو اُس کی جائداد اور نوادرات کی قانونی وارث تھی، اُس نے دانیال کی موت کے نظریہ یا مفروضے کو ماننے سے انکار کر دیا۔اُ سے یقین تھا کہ دانیال ضرور واپس آئے گا۔اِس یقین کی اُس کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اس کے باوجود بھی ہر ایک صبح وہ ٹھیک سات بجے دو فراد کا ناشتہ تیار کیا کرتی ایک اپنا ایک دانیال کا ۔جیسے وہ کسی بھی وقت باغ میں سے نمودار ہو کر چِلّاتا ہوا آ جائے گا کہ میرا ناشتہ کہاں ہے؟ بابرا کو اب بھی اس بات کا خیال تھا کہ سات بجے سے کچھ دیر پہلے ناشتہ میز پر آ جائے تا کہ دانیال اُس کو آرام سے کھا سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیال صبح کی تازگی کا مزہ لیتے ہوئے باغ کے کونے تک پہنچاہی تھا کہ اسے پرانا واقف کار ’ بِل ‘ نظر آیا جواُسے چھوٹے موٹے نوادِر لا کر دیا کرتا تھا۔

’’ دیکھو دانیال میں تمہارے لئے کیا لایا ! ‘‘۔اُس نے یہ کہتے ہوئے اپنی جیب سے دو عدد سکے نکالتے ہوئے کہا، ’’ غالباََ یہ رومن زمانے کے ہیں‘‘۔
’’ میرے ساتھ آؤ میں تم کو وہ جگہ دکھاؤں جہاں سے یہ برآمد ہوئے‘‘۔یہ کہتے ہوئے بِل نے ایک جانب چلنا شروع کر دیا ۔دانیال اُس کے پیچھے ہو لیا۔راستے سے ہٹ کر ایک گڑھے میں بِل اُتر گیا۔دانیال نے بھی اس کی تقلید کی۔ گئی تہذیب کے ظروف اور دھات کے بنے زیورات دیکھ کر دانیال کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہیں اکڑوں بیٹھے بیٹھے اُس نے ایک برتن کی گرد جھاڑی اور نیچے کی دھات اور اُس پر کھدے ہوئے نقش و نگار کا معائنہ کرنے لگا۔دانیال اِس میں ایسا کھویا کہ ناشتہ واشتہ سب بھول گیا۔

مگر واہ ری قسمت ! بِل پیٹ کا ہلکا تھا۔اِس دفینے کی خبر وہ اپنے تک نہ رکھ سکا۔گو کہ یہ نوادرات سونے یا چاندی کے بنے ہوئے نہیں تھے پھر بھی لفظ ’’ نوادر ‘‘ ہی کافی تھا۔کچھ اُٹھائی گیر پہلے ہی سے بِل کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور سائے کی طرح مسلسل اُس کے آس پاس منڈلاتے رہتے تھے۔یہ اُس وقت بھی بِل سے کچھ فاصلے پر درختوں کی اوٹ میں کھڑے تھے جب وہ دانیال سے دفینے کا ذکر کر رہا تھا۔اب جب دانیال اور بِل دفینے پر موجود تھے تب وہ اِن کے عین سر پر آن پہنچے۔ 

’’ بِل ! واقعی یہ قدیم ظروف ہیں اور یقیناََ مناسب رقم دے جائیں گے۔ایسے ظروف تو پورے اسکاٹ لینڈ میں کہیں نہیں‘‘۔دانیال نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’ کیا واقعی! ‘‘۔ بِل نے بیساختہ کہا۔

’’ بے شک ایسا ہی ہے ‘‘۔دانیال نے کہا۔

اُٹھائی گیر جو قریب ہی چھپے ہوئے تھے، اُن کے لئے اتنا سننا ہی کافی تھا۔وہ اِن دونوں سے بھِڑ گئے۔لاٹھی کا پہلا وار غریب بِل نے اپنی گردن اور سر کے پچھلے حصہ پر سہا۔دانیال پر بھی اچانک حملہ آور آن پڑے تھے لیکن اُس نے مضبوط جسم ہونے کی وجہ سے خاصا سخت مقابلہ کیا۔مگر جلد ہی اُس کے سر کے پچھلے حصہ پر ایک ضرب لگی اور وہ بے ہوش ہو گیا ۔ یہ اُٹھائی گیر بد معاش دور اندیش بھی تھے ۔ اِس مختصر دفینے پر قبضہ کے بعد وہ اطمینان سے نہیں بیٹھے ۔اُن کو تمام شواہد مٹانا تھے ۔بِل کی حالت بہت مخدوش ہو گئی، دانیال کی حالت بھی کوئی اچھی نہیں تھی ۔ چونکہ یہ اُٹھائی گیروں کے چہرے دیکھ چکے تھے لہٰذا ان دونوں کا یہاں زخمی حالت میں چھوڑ جانا پرلے درجے کی حماقت ہوتی۔

اِن لوگوں کے پاس بند چھکڑا تھا جس کو یہ لوگ اپنے مذموم کاروبار میں استعمال کیا کرتے تھے ۔ ان لوگوں نے نشانہ بننے والے دونوں افراد کو کاندھوں پر اُٹھایا اوراحتیاط کے ساتھ چھکڑے میں لاد دیا ۔ شام سے پہلے ہی وہ ایک دور افتادہ مقام پر پہنچ چکے تھے۔بِل اِس تشدد کی تاب نہ لا سکا اورغمِ زندگی سے آزاد ہو گیا۔
دانیال ہوش میں تو آ گیا لیکن سر میں شدید تکلیف محسوس ہونے لگی اور حلق سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ اُس نے آنکھیں کھول کر پانی مانگا۔ اسے جو پانی د یا گیا اُس میں بے ہوشی کی کوئی شے تھی جِس کو پیتے ہی وہ دوبارہ حواس سے بے گانہ ہو گیا۔ اِس دوران غریب بِل کو خفیہ طور پر دفنا دیا ۔یہ بات وہ اُٹھائی گیر اچھی طرح جانتے تھے کہ ایک غریب اور اکیلے رہنے والے شخص کی گمشدگی اتنی جلدی اُن کے لئے تشویش کا باعث نہیں بنے گی ۔ البتہ دانیال کا معاملہ مختلف تھا۔اُس کے گم ہوتے ہی ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی تھی اور اطراف میں اُس کی تلاش میں لوگ دوڑ دھوپ کر رہے تھے۔اُٹھائی گیروں کو اب جلد از جلد اُس سے جان چھڑانا تھی۔پہلے پہل اُس کے قتل کا خیال آیا لیکن پھر ایک بہتر متبادل سامنے آیا ۔ وہ پہلے بھی مضبوط کاٹھی کے افراد کو ملک سے اسمگل کروا کر غلاموں کے طور امریکی کاشکاروں کے ہاتھ فروخت کر چکے تھے۔اِس کاروبار میں بعض جہازران اُن کے شریکِ کار تھے۔ انہوں نے ایک رات دانیال کو بھی بحرِ اوقیانوس کے ذریعے غلام کی حیثیت سے پانی کے جہاز میں اسمگل کروا دیا ۔کم از کم وہ زندگی کے پار نہیں ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیال کی کہانی کی تفصیلات طویل ہیں ۔یہاں خاص خاص باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست کیرولائینا میں تمباکو کی کاشت کرنے والے کے پاس پہنچ گیا۔ ایک خاص مدت تک اسے وہاں غلام کی حیثیت سے ہی رہنا تھا۔اِس دوران دانیال کی یادداشت اور دماغی حالت قدرے بہتر ہونا شروع ہوئی جو اُن اُٹھائی گیروں کے تشدد اور نامعلوم بے ہوش کرنے والی اشیاء سے بری طرح متاثر ہوئی تھی۔جو چیز اُس کی یادداشت میں نقش ہو کر رہ گئی تھی وہ اُس کا گرم گرم ناشتہ تھا جو اُس کے گھر میں کھانے کے کمرے میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس سے آگے کے واقعات دانیال کو دھندلے خواب جیسے یاد تھے۔وہ مضبوط جسم اور قوتِ ارادی کی وجہ سے جلد ہی کاشتکاری کی سختیاں برداشت کرنے کے قابل ہو گیا۔دوسرے وہ خاصا محتاط واقع ہوا تھا۔ شاید یہ اُس کے نوادرات کے کاروبار نے سکھلایا تھا جو اب اس کی ذات کا حصہ بن چکا تھا۔جلد ہی وہ جان گیا کہ فی الحال حالات سے سمجھوتا کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لہٰذا بہتر ی اسی میں ہے کہ کام سے کام اور اپنی سوچ اپنے تک رکھے۔اُس کے (غلام)ساتھی زیادہ تر بد لحاظ برطانوی قیدی تھے شروع ہی میں دانیال سے لڑائی جھگڑے میں انہیں خوب اندازہ ہو گیا کہ یہ آسانی سے زیر ہونے والا نہیں، اس طرح بتدریج وہ اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گیا۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ وہ خوب جی لگا کر اپنا کام کر تا جس سے اُس کا نِگران /سُپروائزر بہت خوش تھا۔ 

رقبے کا مالک دِن بھر کھیل کود ، خاص طور پر گھوڑ دوڑ میں مشغول رہا کرتا۔ دانیال نے کئی دفعہ سوچا بھی کہ اپنا معاملہ اُس کے سامنے رکھے مگر اسے مناسب موقع نہ مل سکا ۔لیکن یہ طے ہے کہ اس نے اپنے کام ، چال ڈھال اورگفتگوسے مالک کو ضرور متاثر کیا۔اِس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ خانساماں کے گردن میں شدید جھٹکا آنے اور معذور ہوجانے کے بعد دانیال کو اُس کی جگہ مقررکر دیا گیا۔ یہاں سے قسمت نے یاوری شروع کی۔ہوا یوں کہ پڑوسی زمیندار کی اِن کے ہاں کھانے کی دعوت تھی ۔ مہمان ہر ایک لحاظ سے دانیال کے مالک سے مختلف اور گفتگو میں سیاستدان اور فلسفی لگتا تھا۔ایک موقع پر مہمان نے میزبان سے کسی قدیم تہذیب کا ذکر کیا جِس سے وہ نا واقف تھا۔ مہمان کو اس وقت بہت حیرت ہوئی جب میزبان کے خانساماں نے اُس تہذیب اور اُس زمانے کے سِکوں پر تفصیلی بات کی ۔اس واقعہ کا بہت خوشگوار رد عمل ہوا۔مہمان نے دانیال سے اُس کے یہاں آنے تک کا ماجرا ہمدردی سے سنا اور اُس پر یقین بھی کیا۔ وہ دانیال کے مالک سے معاملات طے کر کے اس کو اپنے ساتھ ہی ایک بہتر ماحول میں لے گیا۔

نئی جگہ نیا مالک، یہاں دانیال نے اطمینان کے ساتھ کچھ عرصہ گزارا۔اس کی درخواست پر نئے مالک نے اسکاٹ لینڈ میں اُس کے آبائی قصبہ کے حالات معلوم کروا لیے جب دانیال دن کی روشنی میں ایک دم بیٹھے بٹھائے غائب ہو گیا تھا۔اُس کی گمشدگی کا اب بھی وہاں چرچا تھا۔یہ دلچسپ بات بھی معلوم ہوئی کہ اس کی بہن بابرا اسی گھر میں رہتی ہے اور اب بھی پُر امید ہے کہ اس کا بھائی ایک دن لوٹ کر آئے گا۔ دانیال نے اِس سے آگے کوئی کاروائی کرنے سے منع کر دیا۔وہ اِس کہانی کا ایک ڈرامائی انجام چاہتا تھا۔چونکہ وہ نہایت پر اسرار حالات میں غائب ہوا تھا لہٰذا وہ چاہتا تھا کہ اُس کی واپسی بھی کچھ اِسی قسم کی ہو ۔ امریکہ سے اسکاٹ لینڈ واپس جانے کے سفر ی اخراجات کے لئے ایک معقول رقم جمع ہونے تک اُسے یہیں کام کرنا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر کار وہ دن بھی آن پہنچا جب وہ ذ ہنی اور معاشی طور پر پُر مشقّت سفر کے لئے تیار ہو گیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب فرانس کے ساتھ جنگیں جاری تھیں اور بحرِ اوقیانوس کے پار جانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ابھی اُسے اپنے وطن پہنچنے میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا تھا۔سب سے پہلے تو اُس جہاز کو جِس میں وہ سفر کر رہا تھا، فرانسیسی اپنے ساتھ فرانس لے گئے۔تمام مسافروں کو قیدی بنا لیا ۔یہاں اُس پر توڑے گئے ظلم و ستم نے کیرولائنا کی سختیاں بھُلوا دیں ۔پھرایک ایسا مرحلہ آیا کہ وہ آر یا پار کے مِصداق وہاں سے فرار ہو گیا اور کئی ماہ فرانس کی سڑکوں پر مفرور کی حیثیت سے چھپتاپھرا ۔ اس دوران اس نے کچھ فرانسیسی سیکھ لی اور کچھ اسکاٹ قومیت نے کام دکھایا کہ اسکاٹ لینڈ اور فرانس میں قدیم دوستانہ تھاتو لوگ اس کے بارے میں زیادہ پوچھ گچھ نہیں کرتے تھے۔پھر ایک پادری سے علیک سلیک ہوئی جِس نےدار الحکومت پیرس تک پہنچانے میں اس کی معاونت کی۔یہاں نوادرات کی خریدوفروخت کے سلسلے میں دانیال کا ایک جاننے والا موجود تھا، پوچھتے پاچھتے بالآخر وہاں تک پہنچ ہی گیااور مدد کی درخواست کی۔اس نے مدد کا وعدہ کیا لیکن وہ ایسا وقت تھا کہ فرانس سے باہرنکلنا دانشمندی نہیں تھی۔اس طرح دانیال کو مجبوراََ کئی ماہ پیرس میں قیام کرنا پڑا۔ اس دوران یہاں پر اس نے محنت مزدوری کر کے کچھ رقم پس انداز کر لی۔ 

جب وطن روانگی کا وقت آیا تو اسمگلروں نے اُسے بحری راستہ سے سَسیکس Sussex کے کنارے پہنچا دیا۔ اُس کے پاس خاصی رقم تھی جِس سے وہ ٹھاٹھ کے ساتھ شمال میں واقع اپنے قصبہجا سکتا تھا لیکن بھلا ہو اُس کی فرانس میں قید و بند کا جس نے اسے کفایت شعاری سکھلا دی لہٰذا دانیال سستے ترین ذرائع آمدورفت اور ارزاں ترین قیام و طعام کرتا ہوا مئی کی ایک شام لکڑی کے نقل و حمل والی ایک کشتی میں اپنے قصبہ پہنچ گیا۔اس کا حلیہ تبدیل ہو چکا تھا اس لئے ایک نظر میں پہچاننا مشکل تھا ۔ وہ رات اس نے ایک سرائے میں بسر کی اور نور کے تڑکے اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔

وہ ایک معتدل لیکن روشن دن تھا، کم و بیش اُسی طرح کا جب وہ سالوں پہلے یہاں سے گیا تھا۔ دانیال جس لمحے اپنے باغ سے ہوتا ہوا گھر میں داخل ہوااُسی لمحہ گھر کے اند کہیں دیوار پر لگے گھنٹے نے صبح کے سات بجنے کا اعلان کیا۔کھانے کی میز پر ناشتہ کی دو رکابیاں موجود تھیں جن سے بھاپ اُٹھ رہی تھی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ یہ ابھی بہت گرم ہے۔اپنی عادت کے مطابق کمرے میں ٹہلتے ہوئے اُس نے چِلّاتے ہوئے کہا: 

’’ کتنی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ناشتہ میرے آنے سے کچھ دیر پہلے میز پر رکھا کرو ! ‘‘۔لیکن اب کی دفعہ وہ ناشتہ ٹھنڈا ہونے کے انتظار میں باغ میں ٹہلنے نہیں گیا۔
’’ ٹھیک ہے ! ٹھیک ہے ! میں یہیں اس کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کر لوں گا ! ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
یہ کہانی جنوری 2018 کے ماہنامہ  قومی ڈائجسٹ میں شائع ہوئی۔ 






 

Comments

Popular posts from this blog