کراچی میں اساتذہ پر لاٹھیاں ۔۔۔
کراچی میں اساتذہ پر لاٹھیاں ۔۔۔
تحریر شاہد لطیف
خبر کے مطابق کراچی کے اساتذہ پر پولیس نے لاٹھی اور شیلنگ کی جِس کی وجہ سے متعدد زخمی ہو گئے ۔تفصیلات کے مطابق کراچی پریس کلب کے باہر کئی روز سے دھرنے پر بیٹھے اساتذہ نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے بلاول ہاؤس جانے کے اعلان کے بعد پیش قدمی شروع کی تو پولیس نے اُنہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔جب اساتذہ نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو پولیس نے اِن پر بد ترین لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ واٹر کینن کے ساتھ ساتھ اِن نہتے اساتذہ پر آنسو گیس بھی داغ دی جِس کے نتیجے میں کئی ایک اساتذہ زخمی ہو گئے۔گرنے والوں کو پولیس نے زبردستی حراست میں لے لیا اور موبائلوں میں بٹھا کر تھانے لے گئے۔ اِس افراتفری کے نتیجہ میں اطراف میں دور دور تک ٹریفک کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا۔ہمیشہ کی طرح پولیس کا یہی موقف تھا کہ مذاکرات کے ذریعے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی گئی لیکن۔۔۔ناکامی پر لاٹھیاں برسا دیں۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اساتذہ اکرام پر پولیس تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے تمام گرفتار اساتذہ کو فوراََ رہا کرنے کا حکم دیااور اپنے وزیرِ داخلہ سہیل انور سیال کو ہدایت دی کہ تشدد میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ جواب میں سیال صاحب نے ڈی آئی جی ویسٹ، ذوالفقار لاڑک کو تفتیشی افسر نامزد کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ داخلہ سندھ دونوں نے کہا: ’’ ۔۔۔اساتذہ بہت محترم اور انتہائی قابلِ عزت ہیں۔۔۔یہ واقعہ انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔اساتذہ کے خلاف پولیس ایکشن کسی بھی طور قابلِ برداشت نہیں۔اسی سلسلہ میں پی ٹی آئی سندھ کے صدراور رکن قومی اسمبلی عارف علوی نے اساتذہ کے احتجاج میں یکجہتی کرتے ہوئے شرکت اور پولیس تشدد کی بھرپور مذمت کی۔
وزیرِ اعلی مراد علی شاہ نے 1992 سے پہلے اور 25 سال سروس مکمل کرنے والے گریڈ 7 کے اساتذہ کو گریڈ 16میں ترقی دینے کا اعلان کرتے ہوئے محکمہ تعلیم و خزانہ کو کہا ہے کہ اس تجویز کو تیار کر کے ایک دن میں مجھ سے دستخط کرانے کے لئے بھیجیں۔اساتذہ کے ٹائم اسکیل کا معاملہ بھی فوراََ حل کیا جائے تا کہ تدریسی عملے کے سامنے کوئی واضح مستقبل ہو اور وہ محنت سے اپنے حصہ کا کام کریں۔ جمعرات کو ٹیچر ایسو سی ایشن کے نمائندہ وفد سے باتیں کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ نے شکوہ کیا : ’’ ۔۔۔ سالانہ 76 ارب روپے تعلیم پر خرچ ہونے کے باوجود نتیجہ خاطر خواہ نہیں۔۔۔اگر میں کہتا ہوں کہ ٹیچر نہیں پڑھاتے تو کچھ لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔۔۔اساتذ ہ تنظیموں کے ساتھ ہر وقت بات چیت کو تیار ہوں۔۔۔لیکن آپ لوگ بھی تو تعلیم پر توجہ دیں۔تعلیم میں بہتری میرے لئے سب سے اہم ہے۔مجھے آپ کی مدد درکار ہے تا کہ ہم اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دے سکیں‘‘۔اُنہوں نے یہ بھی کہا : ’’ اساتذہ کے ٹیسٹ دینے میں کیا حرج ہے؟ اسمبلی ممبران بھی تو ہر 5سال بعد اپنے اپنے حلقے کے عوام کو ٹیسٹ دینے جاتے ہی ہیں۔۔۔اساتذہ کو مستقل کرنے کاعمل سندھ اسمبلی سے ہو گایا پھر انتظامیہ کے حکم نامہ سے۔۔۔اب تو سندھ کابینہ کے منٹس بھی آ گئے ہیں جِس کے تحت اساتذہ مستقل ہو جائیں گے‘‘۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ بچوں کو پڑھانے پر توجہ دیں میں آپ کے مسائل حل کروں گا۔
یہاں کچھ نکات سامنے آتے ہیں۔پہلی بات یہ کہ کسی بھی مسئلہ کو اتنا طول دیا ہی کیوں جائے کہ دھرنوں کی نوبت آ جائے ؟بعد میں کمیٹیوں کو بٹھانے سے کیا فائدہ۔ اِن نام نہاد کمیٹیوں کی رپورٹیں، تو سب جانتے ہیں کہ ایسی کسی رپورٹ پر کبھی کوئی خاطر خواہ ایکشن نہیں لیا گیا۔
رہی بات پولیس کے لاٹھی چارج اور زخمی اساتذہ کی گرفتاریوں کی تو عرض ہے لاٹھیاں جادو کے زیرِ اثر خود بخود نہیں برستیں نہ ہی بغیر حکم کے آنسو گیس چلائی جاتی ہے۔یہ کام مجسٹریٹ کے احکامات کے تحت کیے جاتے ہیں۔مجسٹریٹ از خود یہ احکامات نہیں دیتا اُس کو بھی یہ حکم ’’ اوپر والے ‘‘ دیا کرتے ہیں۔اب یہ اوپر والے کون ہیں؟ اِس پر کچھ لکھنا بیکار ہے کیوں کہ دنیا کو علم ہے کہ اِن احکامات کی زنجیر باالآخر کہاں جا کر رُکتی ہے۔بقول مرزا اسد اللہ خان غالب: ؎
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وزیرِ اعلیٰ صاحب کو احتجاج کے بعد علم ہوا کہ پچیس سال سے اسکول ٹیچر ایک ہی گریڈ میں اٹک کر رہ گئے ہیں؟ اخبارات میں تواتر سے اِس موضوع پر لکھا گیا، انفرادی اور اجتماعی درخواستیں اس کے علاوہ ہیں۔وزیرِ اعلیٰ صاحب آپ درست کہتے ہیں کہ اساتذہ نہایت ہی قابلِ عزت ہیں تو جو اِن کی عزت پامال کی گئی، ان کو گھسیٹ کر پولیس موبائلوں میں ملزمان کی طرح زبردستی ڈالا اور پھر حوالات میں بند کر دیا۔کیا آپ اِس سب کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دلوا سکتے ہیں؟۔۔۔ایسی عبرت ناک سزا کہ پھر کبھی مستقبل میں کوئی پولیس اہل کار ایسا کرنے سے پہلے دس مرتبہ سوچے؟
یہ سب لکھتے ہوئے میرا خیال کچھ عرصہ پہلے فیض آباد راولپنڈی کے دھرنے کی طرف چلا گیا۔پھر اُلٹی ریل گاڑی چلی اور اُس پہلے ریل اسٹیشن پر پہنچ گئی جِس نے دھرنوں کا آغاز کیا تھا۔وہ بھی کیا دھرنے تھے پریس کلب کے سامنے ہاتھوں میں احتجاجی بورڈ اٹھائے خاموشی سے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے تھے۔نہ کوئی توڑ پھوڑ نہ کوئی نقصان، نہ کوئی آنسو گیس نہ کوئی لاٹھی ۔پھر ایک وقت آیاکہ دھرنا ’’ تفریح ‘‘ بن گیا۔تفریح کے ساتھ ساتھ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا گویا اُنہوں نے اپنا حق سمجھ لیا۔اور حال ہی میں پنڈی کے دھرنے نے سرکاری املاک کے ساتھ عوام کے وقت اور مال کو بھی برباد کیا۔ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ’’ اِن لوگوں ‘‘ کو پکڑ کر اندر کیا جاتا اور ان سے کیا گیا نقصان بھرواتے لیکن ۔۔۔ لیکن کچھ بھی نہیں کیا گیا۔اور یہ۔۔۔بے چارے اساتذہ جو زبانی اور تحریری عرصہ دراز سے اپنا حق مانگ رہے تھے اور پھر شنوائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ آخری حربہ استعمال کیاتو اُن کو بری طرح بے عزت کیا گیا ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جائز مطالبات کو آخری نوبت آنے سے پہلے ہی حل کرنے کی کوشش کی جائے۔نیز اب حکومت اپنی کہی ہوئی بات یعنی پولیس تشدد کے ذمہ داروں کو سزا دینا ۔۔۔کا بھرم رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر 6 جنوری 2018 بروز سنیچر، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر کالم : اُلٹ پھیر " میں شائع ہوئی۔
Comments