پاکستانی فلمی صنعت کے سنہری دور کی آفاقی شخصیت ،علی سفیان آفاقی
پاکستانی فلمی صنعت کے سنہری دور کی آفاقی شخصیت ،علی سفیان آفاقی
( 22 اگست1933۔27جنوری 2015 )
تحریر شاہد لطیف
کسی مصنف کے اچھا لکھنے کے کئی پیمانے ہو سکتے ہیں لیکن سب پیمانوں سے بڑا پیمانہ یہ ہے کہ پڑھنے والا جب اُس کی کتاب پڑھنا شروع کرے تو پھر اُس کو ختم کیے بغیر نہ اُٹھے۔بالکل یہی بات علی سفیان آفاقی صاحب کی لکھی ہوئی اور اٹلانٹک پبلی کیشن کی شائع کردہ کتاب ’’ فِلمی الف لیلہ‘‘ کے ساتھ ہوا۔ڈھائی تین سال پہلے خاکسار نے آفاقی صاحب کی یہ کتاب اپنے بڑے بھائی کو بھجوائی۔اِن کا کہنا ہے کہ یہ اتنی دلچسپ تھی کہ ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی۔
میں خوش قسمت ہوں کہ موسیقار نثار بزمی صاحب نے میری ملاقات آفاقی صاحب سے کروائی۔پھر لاہور میں ملازمت کے سلسلے میں آیا تو ماشاء اللہ تقریباََ ہر ہفتہ اِن سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔اپنے بارے میں وہ خود کہا کرتے تھے کہ ’’ میری ابتدائی تعلیم بھوپال میں اور گریجویشن لاہور سے ہوئی۔صحافت کا آغاز 1951 میں جماعتِ اسلامی کے ترجمان ’’ تسنیم ‘‘ لاہور سے کیا۔ یہ اخبار بند ہونے کے بعد ہفت روزہ ’ چٹان ‘ اور روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ لاہور سے وابستگی رہی۔1953میں لاہور میں روزنامہ ’’ آفاق ‘‘ سے وابستگی سے آفاقی ‘‘ مشہور ہوا۔اس روزنامہ سے پاکستانی فلمی صحافت کا آغاز ہوا۔’’ امروز ‘‘، ’’ احسان ‘‘ ، ’’ جنگ ‘‘ اور ہفت روزہ ’’ نگار‘‘میں کالم نویسی بھی کی۔ماہنامہ ’’ سیارہ ڈائجسٹ ‘‘ کا ایڈیٹر رہا اور اب ہفت روزہ ’’فیملی میگزین‘‘میں ایڈیٹرہوں‘‘۔ماشاء اللہ آفاقی صاحب آخر تک اِس پرچے میں ایڈیٹر رہے ۔
فلمی دُنیا:1957 میں علی سفیان آفاقی صاحب نے شباب کیرانوی کی شراکت میں کامیڈی فلم ’’ ٹھنڈی سڑک ‘‘ بنائی جِس نے بہت کامیابی حاصل کی۔غالباََ یہ پاکستان کی اولین کامیڈی فلم ہے۔
فلمی دنیا میں آفاقی صاحب کی اصل شہرت، فلم ’’ فرشتہ ‘‘ اور ’’ شکوہ ‘‘ کے نہایت پُر اثر مکالمے لکھنے سے ہوئی ۔اسی پس منظر میں اُنہوں نے ایک کہانی ’’ کنیز ‘‘ لکھی جو نامعلوم وجوہ کی بنا پر کسی بھی فلمساز کو پسند نہ آ سکی جب کہ آفاقی صاحب کے خیال میں اس پر ایک بہت جان دار فلم بن سکتی تھی۔ بالآخر ہدایت کار حسن طارق کے ساتھ مِل کر اُنہوں نے 1965 میں اس کام کا بیڑا اُٹھا لیا۔اداکار وحید مراد، محمد علی اور زیبا کو لے کر فلم ’’ کنیز ‘‘ بنا ڈالی۔یہ باکس آفس پر بہت کامیاب رہی۔اِس فلم کے مکالموں پر انہوں نے نگار ایوارڈ حاصل کیا اور ثابت کر دیا کہ مزاحیہ فلموں کے ساتھ ساتھ وہ سنجیدہ ڈرامائی مکالمے بھی لکھ سکتے ہیں۔ اِس کے بعد فلم ’’ سوال ‘‘ اور ’’ جوکر ‘‘ کے مکالموں کو فلم بینوں کے ساتھ فلم کے ناقدین نے بھی سراہا۔
1973 میں بننے والی فلم ’’ آس ‘‘ نے تو کمال ہی کر دیا۔یہ بحیثیت ہدایتکار اُن کی پہلی فلم تھی۔ 1971 میں سقوطِ ڈھاکہ کے نتیجہ میں بنگلہ دیش وجود میں آ چکا تھا۔اس فلم کے لئے اُن کے خیال سے اداکارہ شبنم موزوں ترین تھیں۔پڑھنے والے خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اداکارہ شبنم کو ڈھاکہ سے لاہور بلوانا کتنا مشکل رہا ہو گا۔بہر حال یہ ایک سُپر ہِٹ فلم ثابت ہوئی ۔خاکسار نے بھی کراچی میں واقع ’’ شمع‘‘ سینما میں اس فلم کی نمائش کا پہلا شو دیکھا تھا اور آفاقی صاحب کی اولین ہدایت کاری بہت جان دار لگی ۔ اس فلم نے 8عدد نگار ایوارڈ حاصل کیے جِن میں سے 4ایوارڈ خود آفاقی صاحب نے بطور فلمساز،ہدایت کار، مکالمہ نگار اور کہانی نویس کے حاصل کیے۔علی سفیان آفاقی نیشنل فلم ایوارڈ جیوری کے 1988سے 1991تک ممبر بھی رہے۔انہوں نے 30سالہ فلمی دور میں 50سے زیادہ فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے ۔
1958کے ایوب خانی مارشل لاء کے بعد جب صحافت پر پابندیاں لگیں تو وہ صحافت چھوڑ کر کُل وقتی فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئے۔ حسن طارق کا اشتراک کچھ زیادہ نہ چل سکا لہٰذا ان سے علیحدہ ہو کر فلم ’’ سزا ‘‘ بنائی جِس میں پہلی دفعہ روزینہ کو ہیروئن کا موقع دیا۔اسی فلم میں نیا اداکار ’جمیل‘ بھی روشناس کرایا جو بھارتی اداکارہ ’ تبو ‘ اور ’فرح‘ کے والدہیں۔
آفاقی بننے کا پس منظر:آفاقی صاحب نے خود اِس خاکسار کو وہ دل چسپ واقعہ سُنایا جس کی بنا پر یہ آفاقی کہلوائے جانے لگے۔ہوا یوں کہ اداکارہ نگہت سُلطانہ فلمساز و ہدایتکار شوکت حُسین رِضوی کی فلم میں کام کرنے کے لئے اُن کے نگارخانے میں آئی ہوئی تھیں ۔اسی فلم میں نورجہاں ہیروئن تھیں۔کسی دوست نما دشمن نے نورجہاں کے کان بھرے کہ نگہت شوکت حسین رضوی پر ڈورے ڈال رہی ہے جب کہ ایسا نہیں تھا ۔تحقیق کیے بغیر نورجہاں نگارخانے پہنچیں اور بُرا بھلا کہنے کے ساتھ نگہت سلطانہ کو بے عزت کر کے نگارخانے سے نکال باہر کیا۔یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح تمام اطراف میں پھیل گئی۔وقت ضائع کیے بغیر علی سفیان صاحب نے نگہت سُلطانہ کا تفصیلی انٹرویو کیا جو دوسرے ہی روز روزنامہ ’’ آفاق ‘‘ نے پورے صفحہ پر شائع کیا۔قدرتی بات ہے کہ مذکورہ روزنامہ کے مالکان نورجہاں کے اثر و رسوخ سے ڈرے ہوئے تھے لیکن جب اِس انٹرویو کی وجہ سے اخبار کی مزید 10,000 کاپیاں شائع کرنا پڑیں تو روزنامہ ’’ آفاق ‘‘ میں باقاعدہ فلمی ایڈیشن کا الگ سے صفحہ لگنا ضروری خیال کیا گیا اور علی سفیان صاحب کو فلمی صفحہ کا انچارج بنا دیا گیا۔اِس اشاعت انگیز انٹرویو سے جو روزنامہ آفاق کی اشاعت بڑھی تو علی سفیان ’آفاق والے ‘ کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ جلد ہی مختصر ہو کر ’ آفاقی‘ کہلوائے جانے لگے۔آفاقی صاحب نے فلساز، ہدایتکار، مکالمہ نگار، منظرنامہ اور مصنف کی حیثیت سے 38فلمیں کیں۔
بحیثیت فلمساز و ہدایتکار ار 1973 میں بنائی جانے والی فلم ’’ آس‘‘ کو بہترین فلم، بہترین پروڈکشن ،بہترین اسکرپٹ اور بہترین مکالموں پر 4 نگار ایوارڈ ملے۔
1989میں انہوں نے لاہور سے ماہنامہ ’’ ہوش ربا‘‘ ڈائجسٹ نکالا اور شام کا ایک روزنامہ بھی جاری کیا مگر کچھ مسائل کی بنا پر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔اسی دوران نوائے وقت کے ایڈیٹر ان چیف مجید نظامی صاحب نے’ فیملی میگزین ‘ کے اجرا کا سوچا جو پہلے کراچی سے نکلنا تھا لیکن علی سفیان آفاقی صاحب کو مجوزہ پرچے کی ادارت سونپنے کے بعد یہ لاہور سے شائع ہونے لگا۔آفاقی صاحب فیملی میگزین کے بانیوں میں سے ہیں جنہوں نے آخری سانسوں تک اِس زمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا۔
1990کی دہائی میں اُنہوں نے جاسوسی ڈائجسٹ پبلی کیشن کے ’’ سرگزشت ڈائجسٹ‘‘ میں ’’ فلمی الف لیلہ ‘‘ کے نام سے پاکستانی فلمی صنعت کا احوال لکھنا شروع کیا۔اُن کی وفات تک اس سلسلہ کی 250اقساط شائع ہو چکی تھیں۔یہ اتنا کامیاب سلسلہ ثابت ہوا کہ پرچہ کی اشاعت بڑھ گئی۔ بہت سے لوگ صرف اِن کی تحریر کے لئے اگلے مہینے کے پرچے کا انتظار کیا کرتے اور مذکورہ ڈائجسٹ صرف آفاقی صاحب کو پڑھنے کے لئے خریدا کرتے تھے۔ اس کی ہر ایک قسط کے آغاز میں منیر نیازی کے یہ شعر شائع ہوتے تھے:
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہایوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اآڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
انہوں نے کئی ایک سفر نامے بھی لکھے جو خاصے مشہور ہوئے۔یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ آفاقی صاحب پاکستان فلمی صنعت کے بارے میں بھر پور معلامات کا خزانہ تھے، گویا آج کل کی مروجہ اصطلاح کے مطابق ’’ وِکی پیڈیا‘‘تھے۔اٹلانٹس پبلی کیشن سے شائع ہونے والی کِتاب ’’ فِلمی الف لیلہ ‘‘اِن کی آخری شائع شدہ کتاب ہے۔ اِس کتاب کو پڑھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستانی فلمی دنیا پر آفاقی صاحب کا کتنا گہرہ مشاہدہ تھا۔فلمی صنعت کے تقریباََ تمام ہی شعبوں پر انہوں نے لکھا۔آفاقی صاحب کو مختلف حیثیتوں میں 8 عدد نگار ایوارڈ،6 عدد گریجویٹ ایوارڈ حاصل ہوئے۔بے شک فلمی دنیا میں کسی کو کوئی فلمی ایوارڈ ملنا ایک اعزاز کی بات ہے لیکن اس سے بھی بڑا اعزاز عوام اورسینما میں فلمیں دیکھنے والوں کا اعتماداور پذیرائی ہوا کرتا ہے۔مندرجہ زیل فلمیںآفاقی صاحب کی مقبولیت کا مونہہ بولتا ثبوت ہیں:
کنیز، میرا گھر میری جنت،سزا، آس، جاگیر، آدمی، آج کل، فرشتہ، جوکر، قتل کے بعد، ایک ہی راستہ، آسرا، عدالت، شکوہ، دیوانگی، فاصلہ ،آرپار، کبھی الوداع نہ کہنا، نیا سفر، میں وہ نہیں، عندلیب، میرے ہمسفر، مہربانی، گُمنام، بندگی، کامیابی، ہم اور تُم، پلے بوائے، مِس کولمبو، دامن اور چنگاری،دیور بھابھی، دل ایک آئینہ، محبت، الزام، انتظار، اِنسانیت، دوستی، نمک حرام، معاملہ گڑ بڑ ہے، ویری گُڈ دنیا ویری بیڈ لوگ، اجنبی ، صاعقہ وغیرہ۔
خاکسار چند سال ’’ وائب ٹیلی وژن‘‘ لاہور اسٹوڈیو سے وابستہ رہاجہاں ہر ہفتہ باقاعدگی سے وارث روڈ پر واقع وقت نیوز چینل‘ میں ’ فیملی میگزین‘ کے دفتر میں آفاقی صاحب سے ملاقاتیں ہواکرتی تھیں ۔یہ 2009 کا ذکر ہے میں نے اُن سے سوال کیا : ’’ آفاقی صاحب ! آپ نے بطور فلمساز ، کامیاب فلمیں بنائیں پھر اب آپ صرف کہانی نویسی اور مکالمہ نگاری تک کیوں محدود ہو گئے ہیں ؟‘‘ ۔اِس کے جواب میں اُنہوں نے کہا: ’’ ۔۔۔آج کل فلمسازی یا پروڈکشن کے مروجہ غیر شفّاف طور طریقوں کی وجہ سے میں نے اپنے آپ کو صرف کہانی نویسی اور مکالمہ نگاری تک محدود کر لیا ہے ۔۔۔‘‘۔
میں نے آفاقی صاحب کے ساتھ کوئی بہت لمبا چوڑا عرصہ تو نہیں گزارا البتہ جلد اُن کے مزاج سے واقف ضرور ہوگیا۔میرے خیال سے فلمی دنیا سے کنارہ کرنے کی ایک بڑی وجہ اپنے ہمعصروں کا دنیا سے چلے جانا تھا۔وہ اکثر خاکسار کو ایور نیو اسٹوڈیو کے آغا جی اے گُل کی باتیں اور اُس زمانے میں فلمی دنیا کی مصروف زندگی کا ذکر کیا کرتے تھے۔ایسی باتیں کرنے سے حیرت انگیز طور پر اُن کا چہرہ کھِل جاتا تھا اور جسمانی طور پر ایک مثبت تبدیلی نظر آتی تھی۔
خود کہا کرتے تھے : ’’ میاں مجھے تو پیٹ کا السر جوانی سے ہی لاحق تھا۔شاید اسی لئے مزاج میں سختی تھی۔۔۔اور ہے‘‘۔مجھے یہ لکھتے ہوئے بہت اچھا لگ رہا ہے کہ آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ۔۔۔ وہ بھی آفاقی صاحب کے طفیل۔۔۔یہ ایسے کہ ایک مرتبہ کہیں باتوں باتوں میں خاکسار نے اُن سے اپنے وسطی افریقہ کے جنگلات کے تجربات کا ذکر کیا تو بے ساختہ بولے: ’’ میاں ! تُم یہ لکھتے کیوں نہیں؟‘‘۔ میں نے جواباََ کہا کہ میں نے تو کبھی لکھنے کا سوچا بھی نہیں۔اِس پر وہ کہنے لگے ’’ کبھی بھی کسی نے بھی کوئی نیا کام نہیں کیا ہوتا، کرنے سے آتا ہے۔۔۔‘‘ یوں میری حوصلہ افزائی کی۔ گو علی سفیان آفاقی ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن میری تحریر کی ہر ایک سطر کے لکھتے وقت، ہر ایک لفظ میں میرے محترم، میرے محسن آفاقی صاحب میری راہ نمائی کرتے اپنی مخصوص مسکراہٹ لیے موجود ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اِن کی مغفرت فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر 26 دسمبر 2017 بروز منگل، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 9 پر شائع ہوئی۔
Comments