اوندھی بستی




اوندھی بستی

تحریر شاہد لطیف

90کی دہائی میں میرے ایک دوست، جن کا تعلق پاکستان کسٹمز ( مصلحتاََ نام نہیں لکھا ) سے ہے ، جنہیں تاریخی چیزیں اور کھنڈرات دیکھنے کا بہت شوق تھا ، کہنے لگے کہ ’’ لہائی بندر ‘‘ چلنے کا پروگرام بنا لو ۔پوچھا کہ یہاں کیا ہے؟ تو جواب دیا کہ یہاں کہیں قریب ایک بستی کے آثار بہت اچھی حالت میں ہیں ۔اور سُنا ہے کہ کچھ مکان اوندھے بھی ہیں؛ جِن کا ذکر ابنِ بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں کیا ہے۔ پروگرام تو بنا نہیں لیکن تاریخ کا طالبِ علم ہونے کے ناطے میرے اندر شوق اور تجسس نے سر اُٹھایا ، ابنِ بطوطہ کی کتاب کی تلاش شروع ہوئی اور بالآخر کراچی کے اُردو بازار میں رئیس احمد جعفری صاحب کا اُردو ترجمہ مِل گیا۔ 

تقریباَ 683 سال پہلے ابنِ بطوطہ بر صغیر پاک و ہند سیاحت کے لئے آیاتھا ۔ اُس کی آمد 12 ستمبر 1333عیسوی بنتی ہے۔ سفر کے دوران وہ یادداشتیں مرتب کرتا رہا۔جب 25 سال بعد وطن واپس پہنچا تو گوشہ ء عافیت میں بیٹھ کر اِن کی مدد سے اپناسفرنامہ لکھا ۔ اس دلچسپ سیاحت کے عربی زبان سے فارسی اور پھر اردو میں کئی تراجم ہوئے ۔جناب رئیس احمد جعفری صاحب کے سفر نامہ ابنِ بطو طہ کے ترجمے میں ایک الٹی (اوندھی) بستی کا ذکر ہے جِس میں ابنِ بطوطہ نے بعض مکانات ا وندھے دیکھے تھے گویا کسی طاقتور ہاتھ نے اُنہیں اُٹھا کر اُلٹا کر دیا ہو ۔
ابنِ بطوطہ لکھتا ہے ’’ ۔۔۔ پانچویں دِن ہم ’ لاہری ‘ پہنچے۔ یہ خوبصورت شہرسمندر کے کنارے واقع ہے۔قریب ہی دریائے سندھ ، سمندر میں گِرتا ہے۔ ۔۔۔ شہر سے سات کوس کے فاصلے پر ایک میدان ہے جِس کو ’ تارنا ‘ کہتے ہیں۔وہاں جا بجابے شمار آدمیوں اور حیوانات کی پتھر کی بنی مورتیں، ثابت اور ٹوٹی پھوٹی نظر آتی ہیں ۔ غلّہ ، گیہوں، چنا اور مِسری وغیرہ پتھرائے ہوئے پڑے ہیں۔ کھنڈرات میں میں پتھر کا بنا ہوا ایک گھر ہے، جِس کے وسط میں ایک ہی طویل پتھر کا بنا ہوا چبوترہ ہے ....... ایک جگہ نہایت بدبو دار پانی کھڑا ہوا تھا ۔ دیواروں پر ہندی زبان کے کتبے نظر آئے۔..... مقامی لوگ اور یہاں کے مورخ خیال کرتے ہیں کہ یہ شہر مسخ ہو گیا تھا۔چبوترے پر بادشاہ کا بُت ہے۔چنانچہ اب بھی اِس کو راجہ کا محل کہتے ہیں۔یہاں کی دیوار کے کتبے سے پتا لگتا ہے کہ یہ بربادی، میرے یہاں آنے سے تقریباََ ایک ہزار سال پہلے ہوئی تھی‘‘۔ 

آج کا ’ لہائی بندر ‘ جِس کا طول بلد اور عرض بلد 2917611'N, 6817613'Eہے ، غالباََ کل کا لاہری بندر تھا جس کے قریب دریائے سندھ ، طاس ( ڈیلٹا ) کی صورت سمندر میں گرتا ہے۔ یہاں پر آج بھی یہ کھنڈرات اچھی حالت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہ سفر نامہ پڑھنے کے بعد دِل میں آیا کہ کیوں نہ ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے ۔اِس سلسلے میں سوچا کہ سرکاری سروے کرنے والے ا داروں سے رابطہ کیا جائے۔سب سے پہلے راقِم ’ کے ڈی اے ‘ کے جناب شہاب افروز علوی صاحب(م) کے پاس گیا۔یہ میرے جامعہ کراچی کے ہم شعبہ اور ہم جماعت، سہیل اختر علوی کے بڑے بھائی تھے۔ موصوف نے کہا کہ بالکل ایسی بستی موجود ہے اور اُنہوں نے خود اِس مقام کا سروے بھی کیا ہے۔اِس بات نے مجھے تقویت دی اور اپنے چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ شہیدِ مِلّت روڈ اور شاہراہِ فیصل کے سنگم سے کچھ پہلے واقع ، محکمہِ آثارِ قدیمہ کے مرکزی دفتر گیا۔ہمارے ملک کی سڑکوں یعنی شاہراہوں کو کہیں فارسی میں شاہراہ اور کہیں عربی میں شارع لکھا جاتا ہے جو ایک اُلجھن کا باعث ہے۔بہر حال، راقِم نے جناب رئیس احمد جعفری صاحب کے ’ سفر نامہ ابنِ بطوطہ ‘ کے اُردو ترجمہ کے متعلقہ صفحات کی فوٹو کاپی، شعبہ کے ذمہ دار افراد کو دِکھلا ئی جِن میں ’ لہری بندر ‘ کا ذکر تھا۔وہ اِس جگہ کو جانتے تھے۔ راقِم نے تجویز پیش کی کہ اگر اُن کے محکمہ کا کوئی ذمّہ دارفرد اُس کے ساتھ چلے اور اُس تاریخی مقام کے پس منظر میں چند جُملے فِلم بند کروا دے تو اِس کام کو سرکاری سند حاصل ہو جائے گی۔

جواب مِلا: ’’ یہاں تو موہنجو دڑو کے لئے فنڈ مُشکِلوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ’ لہری بندر ‘ ہماری ترجیحات میں ہے ہی نہیں ۔ آپ ہماری جیپ کو قابلِ اِ ستعمال کروا کر اِس میں تیل پانی ڈلوا دیں تو پھرہمیں وہاں جانے میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے‘‘۔ اِس جواب نے ہمیں لا جواب کر دیا۔

اب آپ کر لیں تحقیق!!! 

اُنہی دِنوں اتفاق سے کراچی ائر پورٹ کے کلثوم بائی ولیکا اسکول کے ہم جماعت اور پُرانے محلہ دار، زاہد احمد(م) کے ہاں ، اپنے ایک پڑوسی، جناب سرفراز حُسین صاحب سے مُلاقات ہوئی جو اُس وقت پاک فوج میں لیفٹیننٹ کرنل تھے۔باتوں باتوں میں سفر نامہ ابنِ بطوطہ او ر لا ہری بندر کا ذکر ہوا۔وہ بھی یہ کھنڈرات اور اوندھی بستی دیکھنے کے لئے بہت پُر جوش ہو گئے۔راقِم نے اُن کو رئیس صاحب کے ترجمے کی فوٹو کاپی دی؛ جِس سے اُس مقام تک رسائی میں مدد مِل سکتی تھی۔اِس خاکسار کی قِسمت اچھی تھی کہ وہ اُس وقت آرمی ایویشن سے بھی تعلق میں تھے ۔ یہ حضرت میری طرح ، اِس قسم کی جگہوں پر جانے کے شوقین تھے۔فرمانے لگے کہ جلد وہاں جانے کی کوشش کریں گے۔

کرنل صاحب (ر)نے اگلی ہی شام یہ خوش کُن خبر سُنائی کہ وہ ہیلی کاپٹر سے مطلوبہ مقام دیکھ آئے ہیں۔ نیز یہ کہ جیسا رئیس صاحب نے ترجمہ میں بیان کیا تھا ، اُنہوں نے اُس بستی اور کھنڈرات کو ویسا ہی پایا۔

اِس اوندھی بستی اور کھنڈرات کے مقام اور وجود کی تحقیق صحیح سمت میں اور صحیح رفتار سے ہو رہی تھی۔ اُس تاریخی مقام کا وجود ثابت ہو گیا، اب خود دیکھنا باقی رہ گیاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شوق کو مہمیز ملی اور راقم نے اپنے ذہن کو چاروں جانب دوڑانا شروع کیا۔ سوچ بچار کے بعد ایک صاحب کا خیال آیا جو اُس وقت پاکستان کسٹمز کے شعبہ اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن میں ابراہیم حیدری میں تعینات تھے۔ یہ صاحب بھی دور دراز تاریخی کھنڈرات دریافت کرنے کے شوقین تھے۔ راقِم نے اُن سے لاہری بندر / لہائی بندر کا ذکر کیا۔اِنہوں نے مُختلف افراد سے اُس مقام پر جانے کی صورت دریافت کی۔ معلوم ہوا کہ مختصر راستہ تو زمینی ہے مگر اِس میں خطرات کچھ زیادہ ہیں؛ سب سے بڑا مسئلہ تو دلدلیں ہیں۔اگر کسی مقامی جانور، جیسے گدھا یا گائے کی دُم پکڑ کر اس کو زبردستی دلدل میں لے جائیں تو وہ آپ کو بحفاظت دلدل میں سے نِکال کر اُن کھنڈرات تک لے جا ئے گا۔ شاید قُدرت نے اِس علاقے کے چوپایوں میں اُن کی حفاظت کے لئے یہ جِبِلّت رکھی ہو۔

دوسرا اور زیادہ بہتر ذریعہ سمندری سفر تھا، جو کِسی قریبی بستی سے بادبانی کشتی کے ذریعے بہ آسانی طے کیا جا سکتا تھا۔اِن کھنڈرات کے تین طرف دلدل اور سامنے کی جانب سمند ر تھا۔پانی کی گہرائی اکثر جگہوں پر کافی کم تھی لہٰذا بڑی یا چھوٹی لانچ کا وہاں لے جانا مُناسب نہیں تھا؛ اِسی لئے بادبانی کشتی کا مشورہ دیا گیا۔ویسے یہی راستہ ، کے ڈی اے ، کے شہاب بھائی (م) نے بھی استعمال کیا تھا۔

یہ میرا بادبانی کشتی کا پہلا سفر تھا۔جِن لوگوں نے کبھی بادبانی کشتی میں سمندری سفر نہیں کیا وہ ایک مرتبہ ضرور یہ تجربہ کر کے دیکھیں۔
لہائی یا لہری بندر کبھی ایک بڑا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا مگر زمانے کے سرد و گرم نے آج کل اسے گمنام کر دیا۔اب اِن کھنڈرات تک، سمندری کھاڑی کے راستے جایا جاتا ہے۔ سمندر کے خشکی میں اندر تک جانے کے آبی راستے کو کھاڑی کہتے ہیں ۔کئی تنگ اور چھوٹی بڑی کھاڑیوں سے گزر کر اچانک نظروں کے سامنے یہ کھنڈرات آ گئے۔ پہلی نظر میں ایسا لگا جیسے کہ کسی تاریخی فِلم کا سیٹ لگایا گیا ہو کیوں کہ اُن کھنڈرات میں مٹی اور دھول کا نام و نشان نہیں تھا۔اِس کی وجہ غالباََ یہ ہو گی کہ تین اطراف میں دلدل اور کیچڑ ہے اور سامنے سمندر اور اُسکی کھاڑیاں ۔ لہٰذا لاکھ ہوا چلے، مٹی تو دور دور تک ہے ہی نہیں۔ بالکل صاف سُتھرے کھنڈرات، جب ہی تو فِلمی سیٹ کا گُمان ہوا تھا۔دوسرا سبب قریبی بستیوں میں نسل در نسل چلی آنے والی پُر اسرار داستانیں اور لوگوں کی توہم پرستی بھی ہو سکتی ہے۔ دور نزدیک کی بستیوںوالے اِدھر کا رُخ کرتے ہی نہیں تھے۔اِسی لئے اتنے قیمتی تاریخی خزائین اب تک قریباََ اُسی حالت میں ہیں جیسے ابنِ بطوطہ نے دیکھے ۔ 

دیکھنے والوں کو یوں لگتا ہے گویا ایک چھوٹے سے مخصوص علاقے میں کوئی قُدرتی آفت آئی اور ویرانیاں پھیر گئی۔ممکن ہے بستی کا ایک خاصا بڑا حصّہ اب بھی دلدلی زمین کے نیچے ہو۔یا سمندر بُر د ہو گیا ہو۔ممکن ہے وہ کوئی ہلکا پھلکا زلزلہ ہو...... حقیقت کچھ بھی ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ یہاں ایک مجموعی ہیبت طاری تھی۔ 

کرنل (ر) سرفراز صاحب کا کہنا تھا کہ جب اُنہوں نے اور اُن کے ساتھی نے ہیلی کاپٹر سے یہ کھنڈرات دیکھے تو وہ ششدر رہ گئے۔اتنی اچھی حالت اور صاف سُتھرے!! آپ پاکِستان کے کسی بھی آثارِ قدیمہ میں چلے جاےئے ، وہ آثار سے زیادہ اشتہار گاہ لگتے ہیں ، ہر طرف پینٹروں کے لکھے ہوئے اشتہارات، وال چاکنگ ، جیتنے اور ہار نے والے دونوں اُمید واروں کے نہ جانے کِن کِن انتخابات
کے فلیکس، جا بجا اُن کا اور اپنا نوحہ پڑھتے نظر آ ئیں گے۔

لہری بندر کے کھنڈرات ایک تو عوام کی دسترس سے دُور ہیں ، دوسرے توہم پرستی کہ ’ وہاں کوئی نہ جائے، جو وہاں جاتا ہے مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے ‘ نے بہت حد تک اِس مقام کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ تیسرے وہاں پہنچنا قطعاََکوئی آسان کام نہیں۔

اِن آثار میں سب سے عمدہ اور دِلچسپ چیز پتھر ایا ہو ا (فوَسِل) غلّہ ہے؛ جیسے گیہوں، چنا اور شاید کسی قِسم کی کوئی دال وغیرہ۔یہ ایک چبوترے پر بکھرا ہوا ہے۔چبوترے کے ساتھ ہی ایک پتھر کا بنا ہوا اوندھا مکان ہے۔ایسا لگتا ہے کہ کسی زبردست قوت نے پکڑ کر اوندھا کر دیا ہو۔یہ اوندھا پن بالکل صاف محسوس ہوتا ہے۔قرب و جوار میں کچھ مورتیاں بھی سر کے بَل ہیں۔تھوڑی سی محنت سے ایک سنگی کتبے پر قدیم سنسکرت کی تحریر بھی مِل گئی۔شاید اِسی کو دیکھ کر ابنِ بطوطہ نے بستی کی قدامت کا اندازہ لگایاتھا۔کم از کم اِس خاکسار کو ایسا لگا جیسے میں وہاں تقریباََ 700 سال قبل کے ابنِ بطوطہ کی آنکھ سے ہی یہ سب دیکھ رہا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تو ویسے ہی کھاڑیوں میں سمندر کا پانی آتا جاتا رہتا ہے جِس کی وجہ سے کبھی کبھی وہاں صرف کیچڑ ہی رہ جاتا ہے ، دوسرے موسم کی اونچ نیچ سے دلدلی پانی اور خود دلدل بھی خشک ہونے لگتی ہے ایسے میں تاریخ سے د ل چسپی رکھنے والوں اور محققوں کو ایسی جگہوں سے گئی تہذیبوں کے روز مرہ استعمال کی اشیاء مِل جایا کرتی ہیں جو آج کے نوادِر ہوتے ہیں۔ 

راقِم کے دوست، جِن کا تعلق پاکستان کسٹمز سے تھا ، اِن کو پتہ نہیں کیوں اِس بات کا یقین تھا کہ ہم لوگ اگر کچھ محنت کریں اور کچھ روز اِدہر ہی رہیں تو ہمیں بھی پرانے زمانے کی اشیاء مِل سکتی ہیں۔اِن کے پاس اپنی بات کو پُر اثر بنانے کو صرف ایک ہی دلیل تھی کہ کھاڑی میں پانی اُترا ہوا ہے لہٰذاکسی نہ کسی تاریخی چیز کے ملنے کا روشن امکان ہے۔ہمارے ایک اور ساتھی نے مشورہ دیا کہ تاریخی
چیزیں دلدلی کیچڑ میں ضرور ہوں گی کیوں کہ یہاں کسی کا کچھ تلاش کرنے کی نیت سے آناَ محال ہے۔ 

اِس میں کوئی شک نہیں کہ نہ تو ہم میں سے کوئی مہم جو ہونے کا دعویٰ دار تھا نہ ہی کبھی ایسا تجربہ ہی تھا۔ہم لوگ تو یہاں تفریحاََ آئے تھے کہ گھنٹے دو گھنٹے بعد واپسی کی راہ لیں گے۔یہ جنگل تو تھا نہیں کہ شام ہوئی نہیں اور درندے آئے نہیں۔لیکن یہ سطور لکھنے میں کوئی شرم نہیں کہ اِس جگہ ٹہرنے سے خوف محسوس ہوتا تھا، ابھی تو رات بھی آنا تھی۔شاید ماحول کے اثر کے ساتھ ساتھ اِس بستی سے متعلق گردش میں رہنے والی داستانوں نے دہشت طاری کر دی تھی۔یہ بھی لکھنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ہم سب کو وہاں سے پرانے زمانے کی کی کسی شے کے ملنے کی زبردست آرزو تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ معمولی بحث و تکرار کے بعد ہم چاروں وہاں رات بسر کر نے پر تیار ہو گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھاڑی کے کناروں کناروں اچھی طرح دیکھ بھال کی لیکن کوئی چونکا دینے والی چیز نظر نہیں آئی۔پھر سوچا کہ ابھی سورج کی خاصی روشنی ہے ، کیوں نا دلدلی زمین کو بھی دیکھ لیا جائے۔ یہ کہنا آسان تھا مگر کیچڑ میں اُترنا کوئی اتنا آسان کام نہیں تھا۔ 

کیچڑ اور دلدلی زمین کے آس پاس کافی باریک بینی سے چھان بین کی مگر نتیجہ صفر رہا۔پھر خیال آیا کہ ابنِ بطوطہ نے انہی کھنڈرات کے پاس کہیں بدبو دار پانی کھڑا ہونے کی بات لکھی تھی کیوں نا اسے تلاش کیا جائے۔ ہم نے اب تک جو باتیں 
اُس کے سفر نامہ میں پڑھی تھیں من و عن ویسی ہی پائی تھیں ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِن آثار کی بالکل و یسی ہی حالت میں رہنے کی کچھ تو وجوہات ہوں گی ہمیں زیادہ اِس بات سے دل چسپی تھی کہ چونکہ اب تک نہ تو کسی چیز کو چھیڑا گیا نہ ہی عوام یا محکمہِ آثارِ قدیمہ والے کوئی شے یہاں سے اُٹھا لے گئے چنانچہ اِس بد قسمت بستی والوں کی کوئی نہ کوئی چیز ہم بہ آسانی دریافت کر سکتے ہیں۔
اب تک توہم کھنڈرات کے آس پاس ہی تھے، کھاڑی کے کنارے اور کیچڑ زدہ زمین پر بھی نظر ڈالی تھی اور اب بدبو دار پانی کی تلاش میں بہت پُر جوش ہو گئے ۔ ایک ساتھی نے مشورہ دیا کہ کھڑا پانی کھاڑی کے علاوہ کہیں تلاش کیا جائے۔دلدلی زمین پر بھی ’ بدبو دار ‘ پانی نہیں مِلا۔

باہم مشورے سے ہم کھنڈرات کے اندرداخل ہو گئے۔کچھ ہی آگے گئے ہوں گے کہ وہی مخصوص بو آنے لگی جو کھڑے پانی کی نشاندہی کر تی ہے۔ہم نے ُبو کی سمت چلنا شروع کیا۔کچھ آگے ایک جوہڑ نظرآ یا۔ جوں جوں آگے بڑھے توں توں تعفن کی بو بڑھتی گئی۔ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ یہ مقام وہی ہو سکتا ہے جِس کو ابنِ بطوطہ نے بیان کیا۔قریب جانے پر واضح ہوا کہ اِس مقام پر زمانے پہلے کبھی پانی کھڑا رہا ہو گا۔اب جوہڑ بالکل خشک تھا اور بد بو نا قابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی ۔ ہر طرف سنّاٹا تھا ، ہمارے چاروں طرف کھنڈرات اور بت بکھرے پڑے تھے۔ 

مکانوں کے سائے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ اچانک ہم سب کی نظر ایک ساتھ مغرب کی جانِب جھکتے ہوئے سو رج کی طرف اُٹھی ۔ وہ اُسی مکان کے پیچھے غروب ہو رہا تھا جو اوندھا تھا ۔ اِس کی ہیبت نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہم سب ایک ساتھ پلٹے اور تیزی کے ساتھ اپنی کشتی کی طرف بڑھے۔دس منٹ میں ہم اپنی کشتی کے اندر تھے۔اِس دوران ہم میں سے کوئی بھی ایک لفظ نہ بول سکا۔کشتی والوں نے واپسی کا سفر شروع کیا ۔ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے اوسان بحال کئے تو ہم بات کرنے کے قابل ہوئے۔ 

پڑھنے والوں کو دعوت ہے کہ وہ سفرنامہ ابنِ بطوطہ کا مطالعہ کریں اور اگر ہو سکے تو خود بھی وہاں تک جائیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اختتام 
یہ تحریر  نومبر 2017 کےماہنامہ اُردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئی۔











































  

Comments

Popular posts from this blog