نواز شریف اور اندِرا پِریا دَرشَنی گاندھی کی ملتی جُلتی کہانی




نواز شریف اور اندِرا پِریا دَرشَنی گاندھی کی ملتی جُلتی کہانی
تحریر شاہد لطیف

جنوری 1966میں بھارتی وزیرِ اعظم آنجہانی لال بہادر شاستری کی اچانک موت کے بعد کانگریس پارٹی نے ا ندِرا پِریا دَرشَنی گاندھی، المعروف اندرا گاندھی کو بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہرلال کی بیٹی ہونے کے ناطے پارٹی لیڈر بنا دیا۔مگر ان کی لیڈری کو پارٹی کے دائیں بازو کے عناصر جیسے سابقہ وزیرِ تجارت مرار جی ڈِیسائی نے موروثیت کے فساد کی وجہ سے قبول نہیں کیا۔ 1967 میں لوک سبھا کے انتخابات میں اندرا گاندھی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں اور وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر پہنچ گئیں اور مرار جی ڈیسائی نائب وزیرِ اعظم بن گئے ۔ پارٹی میں اندرا گاندھی کی لیڈری اور ملکی سیاست میں خاندانی حاکمیت اور موروثیت کے خدشات سے کشیدگی پیدا ہونے لگی لہٰذا اندرا گاندھی کو کانگریس پارٹی سے نکال باہر کر دیا گیا۔ 

کچھ پارٹی ممبران اندرا کے ساتھ ہو گئے اور ’ نیو ‘ کانگریس پارٹی وجود میں آ گئی۔ 1971 کے لوک سبھا کے انتخابات میں نیو کانگریس نے اعتدال اور قدامت پسندوں پر واضح برتری حاصل کر لی ۔ دوسرے الفاظ میں پاکستانی عوام کی طرح کہ پیپلز پارٹی بھٹو خاندان اور مسلم لیگ (ن) شریف اور(ق) چوہدری خاندان کی میراث ہے، بھارتی عوام کی بھی دکھتی رگ کہ ’ نہرو خاندان ‘ پارٹی اور قومی سیاست کا حق دار ہے، ثابت ہو گئی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد مارچ 1972میں نیو کانگریس نے مزید کامیابیاں حاصل کر لیں۔اُس وقت نہایت تکبر کے ساتھ اندرا گاندھی نے اقوامِ متحدہ، عوامی جمہوریہ چین اور امریکہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا ’’ میں کسی فرد یا ملک کے دباؤ میں آنے والی نہیں ‘‘۔اِس کے کچھ ہی عرصہ بعد اندرا گاندھی کے مخالف راج نرائن نے 1971 کے عام انتخابات میں اندرا گاندھی کی جانب سے انتخابی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کو عدالت میں چیلینج کر دیا ۔ 1977) کے انتخابات میں موصوف نے اندرا گاندھی کو رائے بریلی سے انتخابی شکست دی )۔ 12 جون 1975میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اِند را گاندھی کے خلاف فیصلہ دے دیا۔یوں 1971کے لوک سبھا کے انتخابات میں اُن پر لگائے گئے الزامات درست ثابت ہو گئے۔فیصلے کی رو سے انہیں پارلیمان میں اپنی نشست سے ہاتھ دھونے پڑتے اور عملی سیاست سے چھ سال کی چھُٹی۔موصوفہ نے بھارتی سپریم کورٹ میں اپیل کی لیکن نتیجہ حسبِ خواہش نہیں آ سکا ۔ 

برصغیر کی مجموعی سیاست میں بہت مماثلت ہے۔ اس میں سب سے بڑی مماثلت پارٹی میں خاندانی حاکمیت ہے اس پر مستزاد عوام کا مزاج کہ وہ بھی پورے بر صغیر میں ایک سا ہے ۔۔۔ اور وہ ہے شخصیت پرستی! مزید مماثلت پر آگے بات ہوتی ہے۔ بھارت کی وزیرِ اعظم نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو جوتی کی نوک پر رکھ دیا۔ اپنی پارٹی اور استعفیٰ دینے کے عوامی دباؤ کو انہوں نے مسترد کر دیا جبکہ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا اور وہ اِس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے منصبِ وزارت سے علیحدہ ہو کر اپنے گھر چلے گئے ۔۔۔ لیکن فیصلے پر دونوں کا رد عمل ایک تھا۔ اندرا گاندھی نے استعفیٰ نہ دینے کا استدلال یہ دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے اُن کی وزارتِ عظمیٰ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔’’ ہماری حکومت کے معاملات صاف سُتھرے نہ ہونے کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے ، لیکن میرے تجربے کے مطابق حزبِ مخالف کی حکومتوں کے دوران یہ معاملات ہم سے بھی گئے گزرے تھے‘‘ ۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری انتخابی مہمات میں پیسوں کے حصول کے طریقوں پر تنقید کی جاتی ہے جبکہ دیگر پارٹیاں بھی یہی کچھ کرتی ہیں ‘‘۔اُس وقت بھارت کے سیاسی پنڈت بھی یہی کہتے تھے جو نواز شریف کی معزولی پر پاکستانی سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ ’ عدالت سے نا اہل ہونے سے اندرا کی سیاسی ساکھ و وقعت بالکل متاثر نہیں ہو گی کیوں کہ عوام کی اکثریت اُن ہی کے ساتھ ہے اور فیصلہ عوام کا ہے ‘۔اس طرح اندرا گاندھی نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پورے بھارت میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔سیاسی مخالفین جیل بھیج دیے گئے۔ ایمر جنسی اختیارات خود اپنے پاس رکھ لئے۔اِس دوران کئی غیر مقبول پالیسیاں نافذ کی گئیں۔

1977کے اوائل میں ایمرجنسی کا خاتمہ ہوا۔سیاسی مخالفین نے تہیہ کر لیا کہ اب اندرا گاندھی ا ور نیو کانگریس کو اقتدار سے گرانا ہے ۔اسی سال جب عرصے کے ملتوی شدہ انتخابات کے انعقاد کا وقت آیاتو اندرا اور اُن کی پارٹی کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اقتدار اور حکومت ہاتھ سے گئے اور بی جے پی کی حکومت بنی اور مرار جی ڈِیسائی وزیرِ اعظم۔ 

1978کے اوائل میں اندرا گاندھی نے اپنی ’’ ذاتی‘‘پارٹی بنا لی: کانگریس آئی ۔ یہاں ’ آئی ‘ سے مراد اندرا ہے۔بعینہٖ یہی کام نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (ن)۔۔۔کو اپنی ذاتی جماعت بنا کر کیا ۔ بالآخر وہ نومبر 1978 کے لوک سبھا کے ضمنی انتخاب میں ایک نشست جیت گئیں۔پنڈت نہرو کی بیٹی ہونے کی شناخت کو کیش کرایا گیا اور کانگریس آئی بتدریج زور پکڑنے لگی۔حکمران جنتا پارٹی اور اُس کے اتحادیوں کے آپس کے جھگڑے اگست 1979 میں حکومت کے زوال کا باعث بنے۔لوک سبھا کے انتخابات جنوری 1980 میں ہوئے۔اندرا گاندھی اور کانگریس ( آئی) نمایاں اکثریت سے جیتی۔ حکمرانی کی میراث میں اب اندرا گاندھی کا بیٹا سنجے گاندھی بھی داخل ہو گیا ۔ اِسی دِن کے آنے کو روکنے اور خالص جمہوریت کے پروان چڑھانے کے لئے1966 میں مرار جی ڈیسائی اور دیگر کانگریسی ممبران نے کوشش کی تھی کہ خاندانی موروثیت جمہوریت میں نہ آ سکے۔سنجے اب اندرا گاندھی کے مشیرِ اعلیٰ بن گیا اور لوک سبھا میں ایک نشست بھی حاصل کر لی۔ماں بیٹے کے خلاف تمام قانونی کیس واپس لے لئے گئے۔سنجے کی عملی سیاسی زندگی کا آغاز اپنی ماں کی نافذ کردہ ایمرجنسی کے زمانے میں ہوا تھا ۔ اُس وقت کسی سرکاری عہدے کے بغیرہی وہ طاقت کا سرچشمہ بن گیا۔مارک ٹیلی ( 20 سال نئی دہلی میں بی بی سی کے بیورو چیف رہے) کے مطابق ’’ حکومتی معاملات PMH پرائم منسٹر ہاؤس سے چلائے جاتے تھے نا کہ PMO پرائم منسٹر آفس سے ‘‘! پاکستانی جمہوری حکومتوں میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔

جون 1980 میں ہوائی جہاز کے ایک حادثہ میں سنجے گاندھی کی موت واقع ہو گئی، اِس طرح اِندرا گاندھی کا متوقع سیاسی جانشین بھارتی سیاسی افق سے غروب ہو گیا۔کانگریس (آئی) چوں کہ نہرو خاندان کی جاگیر تھی لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ کوئی اور کانگریسی ممبر حکمرانی کا خواب بھی دیکھ سکے۔اِس پس منظر میں راجیو کو میدان میں اُتارا گیا جو اُس وقت بھارتی قومی ہوائی کمپنی میں پائلٹ تھا۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اِند را گاندھی سیاسی مدوجزرسے جوبچ نکلتی رہیں اُس کی ایک بہت بڑی وجہ اُن کا سیاسی خاندانی پس منظر تھا کہ وہ بھارت کے اولین وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی ہیں اور حکمرانی کرنا اُن کا ورثہ اور حق ہے۔ 31اکتوبر 1984میں ایک قاتلانہ حملہ میں اُن کی موت واقع ہو گئی ۔موروثیت اور مظلومیت نے کام دکھایا اور اُن کے بیٹے راجیو گاندھی بھارت کے چھٹے وز یرِ اعظم بن گئے۔یہ خود 21 مئی بروز منگل 1991، تامل ناڈو ریاست میں مدراس کے قریب Liberation Tigers of Tamil Eelam (LTTE)کی ایک خودکش بمبار خاتون کے ہاتھوں اگلے جہاں سُدھار گئے لیکن ۔۔۔نہرو۔ گاندھی خاندان سیاست اور عوام میں اپنی حاکمیت قائم رکھنے کے لئے ختم نہیں ہوا، ابھی بھی موجود ہے۔اب آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی ایک بڑی پارٹی کی اپنی جمہوریت ملاحظہ فرما ئیں ۔۔۔راجیوگاندھی کی اطالوی نژاد بیوی سونیا کانگریس کی صدر ہیں۔اِن کے بیٹے راہول گاندھی2014 میں کانگریس کے ممبر بن گئے اورجلد ہی نائب صدر۔ اسی سال انتخابات میں کانگریس کی کارکردگی مایوس کُن رہی۔ لیکن تمام گاندھی ناکام نہیں رہے۔ انتخابی کامیابیاں حاصل کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی سے جیتنے والی مانیکا گاندھی جو سنجے کی بیوی ہیں اور جِن کو اندرا گاندھی نے سنجے کی موت کے بعد اپنے گھر سے نکال باہر کیا تھا۔ یہ اور ان کا بیٹا ’ ورون ‘ اب اقتدار کی کشتی میں سوار ہیں۔مانیکا خواتین اور بچوں کی نشو و نما کی وزیرہیں۔بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اندرا پِریا دَرشَنی گاندھی کا خاندان مستقبل قریب میں بھی بھارتی سیاست میں فعال رہے گا۔

اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی اپنے انجام کو پہنچ گئے۔کانگریس ( آئی) کے وارث بہو سونیا گاندھی اور پوتا راہول گاندھی قرار پائے جبکہ دوسری بہو اور پوتا مخالفین کی جماعت میں ہیں۔بالکل یہی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو اپنے انجام کو پہنچ گئے اور اب پاکستان پارلیمینٹیرین پارٹی کے وارث داماد آصف زرداری اور بلاول زرداری ہیں۔۔۔ باقی خاندان شہید بھٹو پارٹی میں اور پاکستان پیپلز پارٹی خود کہاں ہے؟ نہیں معلوم ! ۔

میاں نواز شریف سے التماس ہے کہ وہ تاریخ سے عبرت پکڑیں۔حکمرانی عوام کی نہیں ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی ہے ! فیصلہ عوام نے نہیں ۔۔۔ اللہ نے کرنا ہے اور اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔آپ جمہوریت کے نام لیوا ہیں تو برائے مہربانی اپنی پارٹی میں جمہوریت قائم کریں۔پارٹی کے پُر خلوص اور منجھے ہوئے سیاست دان جن پر عوام کا بھی اعتماد ہے ۔۔۔ اُنہیں آگے آنے کا موقع دیں۔

نواز شریف کی یہ خوبی ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کے بعد اپنے منصب سے علیحدہ ہو گئے ۔ اب یہ اِن کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنا نام تاریخ میں کس طرح لکھواتے ہیں ۔۔۔ جمہوری سیاست دان یا موروثیت قائم کرنے والے سیاست دان؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اختتام
اِس   تحریر کا ایک حصہ بطور پہلی قسط، 7  اکتوبر 2017 بروز سنیچر روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہوا ۔












  

Comments

Popular posts from this blog