ٹیلی وژن اور فلم ا داکار اظہار قاضی گلوکار بننے نکلا اور اداکار بن گیا (1955 سے 23 دسمبر 2007 )





ٹیلی وژن اور فلم ا داکار اظہار قاضی
گلوکار بننے نکلا اور اداکار بن گیا 

 (1955 سے 23 دسمبر 2007 )

تحریر شا ہد لطیف

جامعہ کراچی کا ہم شعبہ اور ہم جماعت سہیل اختر علوی الفلاح ’ بی ‘ روڈ نزد کیفے لبرٹی، طارق روڈ میں رہتا تھا۔ میں وہاں اکثر جایاکرتا تھا۔اُن کے پڑوس میں ایک لڑکا شاہد بشیر نیا نیا ڈاؤ میڈیکل کالج میں گیا ۔ اس سے بھی دوستانہ ہو گیا ۔ میں خود بھی اُس زمانے میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام میں نیا گیا تھا۔ایک روز شاہد بشیر کے ہاں اُس کے کلاس فیلو، کھلاڑی اور ایتھلیٹ اسرار قاضی سے ملاقات ہوئی ۔باتوں باتوں میں وہ کہنے لگا کہ میرے بڑے بھائی کو گانے کا شوق ہے آپ ان کو سُن لیں لیکن بات آئی گئی ہو گئی۔پھر ۱۹۸۲ شروع ہو گیا۔اسرار جب مجھ سے ملتا تو یہی کہتا کہ میرے بھائی کو سُن لوں۔ ایک روز میں شاہد بشیر کے ہاں گیا تو وہاں اس کے دوست، اسرار کے ہمراہ ایک لڑکے کو بیٹھا دیکھا جو ایک نظر میں بھارتی اداکار امیتابھ بچن سے مشابہہ لگا۔ 

’’ یہ میرے بڑے بھائی ا ظہار ہیں‘‘۔اسرار نے خوش ہوتے ہوئے تعارف کروایا۔
وہ میرا ہی ہم عمر تھا۔ رسمی دعا سلام کے بعد اس نے ایک مشہور گیت سنایا۔ گلوکار میں تین چیزیں دیکھی جاتی ہیں: آواز، سُر اور تال ۔۔۔ اظہارقاضی تینوں میں کمزور تھا لیکن اُس کی شکل و صورت اور قد و قامت متاثر کُن تھے۔میں اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھالہٰذا اُسے مشورہ دیا:
’’ ارے تم کہاں اِس گلوکاری کے چکر میں پڑ گئے ! اُس سے کہیں زیادہ آسان ہے کہ ماڈلنگ میں آ جاؤ اور پھر اگر قسمت نے یاوری کی تو اداکاری بھی ۔۔۔ تمہاری شباہت اداکار امیتابھ بچن جیسی اور ڈیل ڈول مناسب ہے ‘‘۔
’’ اداکاری؟‘‘ ۔اظہار نے مسکرا کے کہا۔
’’ ہاں ہاں کیوں نہیں ! اداکار ندیم بھی توپلے بیک سنگر بننے نکلے تھے اور ۔۔۔ آج کل فاطمہ ثریا بجیا اپنے ٹی۔وی۔سیریل ’ انا ‘ میں نئے چہروں کی تلاش میں ہیں ۔کہو تو اُن سے مِلواؤں؟‘‘۔
’’ لیکن میں تو ٹی وی کے موسیقی کے پروگرام میں حصہ لینا چاہتا ہوں !‘‘۔ اظہار نے جواب دیا ۔
’’ دیکھو ! میں موسیقار نہیں لیکن اُن میں اُٹھتا بیٹھتا ہوں۔تمہیں سُر جما کر گانے میں کافی مشق کرنا پڑے گی تب کہیں ریڈیو ٹی وی پر گا سکو گے۔اِس سے آسان کیا یہ نہیں کہ ماڈلنگ میں آ جاؤ‘‘۔ میں نے کہا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہر خاص و عام ماڈلنگ کی دنیا میں آ رہا تھا۔مرزا خورشید مسعوداور موسیٰ رضا سے بھی خاکسار کی اچھی دعا سلام تھی جو ماڈلنگ اور فوٹو شوٹ میں ایک نام رکھتے اور صفِ اول کے فوٹوگرافر شمار ہوتے تھے۔ میں کافی دیر تک اسے سمجھاتا رہا۔دراصل ’ انا ‘ سیریل کی، ٹی وی سے نشر ہونے کے ساتھ ساتھ ریکارڈنگ بھی جاری تھی۔میرا اس سیریل سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن بجیا، ’’ جگت ‘‘ بجیا تھیں، ہر ایک کے ساتھ ایسا رویہ تھا گویا وہی سب سے عزیز ہے۔یہ کمتر بھی اُن میں شامل تھا۔میں اظہار کو اُن سے ملوا سکتا تھا اور ممکن ہے کوئی چھوٹا موٹا کردار بھی مل جاتا۔

’’ دیکھو اظہار ! اگر تم سنجیدہ ہو تو ابھی بجیا سے ملنے چلو ! ‘‘ ۔
میں نے مختصراََ اسے تاکید کی کہ لباس میں ضرور پائجامہ کرتا پہن کر جانا تا کہ امیتابھ سے اور زیادہ مشابہت ہو۔ ساتھ ہی بجیا کے گھر کا پتا سمجھا دیا ۔ اُس نے ایسا ہی کیا۔ اظہار قاضی کی اداکاری کی شروعات بہت دلچسپ ہے۔ بجیا نے خود مجھے اظہار کے انتخاب کا قصہ سنایا۔ہوا یوں کہ جب وہ اُن کے ہاں پہنچا تو سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد بجیا نے لوگوں کی چہ مگوئیاں سنیں کہ یہ لڑکا کس قدر امیتابھ بچن سے مشابہہ ہے۔اظہار فطری طور پر خاموش طبع تھا۔وہ سنجیدگی سے بیٹھا رہا۔آخر بجیا نے اسے اشارے سے بلایا، اس نے قریب جا کر مختصراََ میرا حوالہ دیا اور ادب سے بیٹھ گیا۔ انہوں نے فوراََ ایک بندے سے کہا کہ وہ جو ایک خاموش کردار ہے وہ اس بچے کو دے دو۔یوں اظہار کی اسکرین پر پہلی آمد میں کوئی مکالمہ نہیں تھا۔اس کے باوجود اس نے اِس مختصر سے کام کو بھی بہت دلجمعی سے کیا۔لیکن ابتدا میں اُس کی شہرت کی وجہ امیتابھ سے مشابہت تھی ۔  جب پورے ملک میں اس کا چرچا ہوا تو بعد میں وہی خاموش کردار، مرکزی کردار میں ڈھل گیا۔اس ڈرامے کے بعد اظہار کی شہرت کا سلسلہ بڑھ گیا ۔امیتابھ بچن سے مشابہت اپنی جگہ لیکن اظہار نے اپنے حصہ کا کام بہت توجہ اور محنت سے کیا اوراپنی فنکارانہ صلا حیتوں کا لوہا منوا لیا۔اتفاق سے اُس نے کبھی میرے کسی ڈرامہ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔ کچھ وقت گزرا کہ اسرار نے مجھے اپنی ایک نجی محفل میں دعوت دی۔وہاں کافی عرصے بعد اظہار سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔تب وہ ٹی وی کے اداکاروں میں شامِل ہو چکا تھا۔ اُس کی سنجیدگی اور رکھ رکھاؤ برقرار تھا۔مزاج اور گفتگو کے ساتھ سادہ پن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ملاقات میں اس نے مجھے بتایا :

’’ شباب کیرانوی کے بیٹے نذر شباب فلم ’ روبی ‘ بنا رہے ہیں ۔اس میں ہیرو کا کردار جاوید شیخ کو ادا کرنا تھا مگر کسی وجہ سے وہ نہیں آ رہا لہٰذاتقسیم کار ادارے، ایور ریڈی فلمز کے ستیش آنند(اِن کے والد آنجہانی جے۔سی۔آنند صاحب سے میری اچھی دعا سلام تھی )نے مجھے یہ کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔سوچتا ہوں جاؤں یا نہیں ! ‘‘۔
صاف لگ رہا تھا کہ اظہارشش و پنج میں مبتلا ہے۔ ایک طرف اسٹیل ملز کی مناسب اور اچھی نوکری اور دوسری طرف لاہور کی پیشکش اور فلمی دنیا میں خوابوں کی تعبیر کے مواقع ۔ وہ مجھ سے رائے لینے لگا۔

’’ اظہار ! فلم اور ٹی وی کی دنیا عارضی ہے۔یہ جس طرح کسی کو اوپر اُٹھاتے ہیں اُسی طرح نیچے پٹخ بھی دیتے ہیں۔بھئی فیصلہ تو تُم نے کرنا ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ اپنی پکی نوکری نہ چھوڑو ‘‘۔


بہر حال وہ آخری فیصلہ کرنے کا حق رکھتا تھا ۔جلد ہی اس کے بارے میں اطلاع آ گئی کہ وہ لاہور منتقل ہو گیا ہے۔’ روبی ‘ ایک کامیاب فلم رہی جِس کا سہرا ستیش آنند اور نذر شباب کے ساتھ ساتھ خود اظہار قاضی کو بھی جاتا ہے۔

عموماََنئے آنے والوں کو ابتدائی مواقع اس طرح ملتے ہیں کہ کسی منجھے ہوئے اداکار نے کوئی کردار ادا کرنا تھا، یا کسی گلوکار نے کوئی گانا ریکارڈ کرواناتھا لیکن ۔۔۔ بعض وجوہات کی بنا پر نہ آ سکا اور یوں اُس کے نہ آنے سے نئے آنے والے آرٹسٹ کو ایک موقع مل گیا۔یہی کچھ اظہار کے ساتھ بھی ہوا۔فلمساز و ہدایتکار جان محمد ،جاوید شیخ کی غیر ذمہ داریوں سے تنگ آ ئے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے اپنی فلم ’ بینکاک کے چور ‘ میں جاوید شیخ کو ہٹا کر اظہار کو رکھ لیا۔اپنی تیسری ہی فلم میں اظہار نے اُس وقت کی صفِ اول کی اداکارہ شبنم کے ساتھ اداکاری کی جس میں جوان سے بوڑھے کا غیر معمولی اورمشکل کردار نبھایا۔ گو کہ اُس نے زیادہ تر اُردو فلموں میں کام کیا لیکن وہ اردو پنجابی ڈبل ورژن فلموں میں بھی نظر آیا۔ ایک پشتو فلم ’ گھنگھرو دا کلاشنکوف ‘ بھی کی جس کی ہیروئن سلمیٰ آغا تھی۔یہاں اوپر تلے اس کی فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔آگے چل کر اسے۱۹۹۱ میں فلم ’’ بخت آور ‘‘ اور ۱۹۹۶ میں فلم ’’ سخی بادشاہ ‘‘ پرنگار ایوارڈ ملے ۔ ۱۹۹۰ میں فلم ’ چراغ بالی ‘ پر نیشل ایوارڈ۔اس کے علاوہ گر یجویٹ ایوارڈ اور بولان ایوارڈ حاصل کیے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ اظہار نے ابتداء میں بھارتی اداکار امیتابھ بچن کی مشابہت سے مشہوری پائی لیکن اس نے ہمیشہ یہی کوشش کی کہ مکالموں کی ادائیگی، چال ڈھال اور چہرے کے تاثرات میں کبھی امیتابھ کی نقل نہ ہو اور وہ اس میں کامیاب بھی رہا۔ 


غمِ روزگار نے ہم سب کو الگ الگ کر دیا۔رابطے ختم ہو گئے۔میں خود ملک سے باہر چلا گیا۔ اسرار اور اظہار قاضی دونوں سے رابطہ کروانے والا ڈاکٹر شاہد بشیر پہلے ایران پھر اس کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ چلا گیا ۔ اسرار پہلے بھی رابطہ کرنے کا چور تھا۔ڈاکٹر شاہد بشیر ایک دو خط لکھنے کے بعد تھک گیا۔اس طرح ہم سب کا آپس میں رابطہ ختم ہو گیا۔اظہار سے میرا کوئی ایسا دوستانہ بھی نہیں تھا کہ مستقل بات چیت ہوتی۔ میرے کراچی میں قیام تک وہ جب بھی یہاں آتا مجھ سے ضرور رابطہ کرتا رہا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ شہرت اور پیسہ آنے کے باوجود اُس کے مزاج میں کوئی فرق نہ آیا۔وہ ایک مہذب اور تعلیم یافتہ نوجوان تھا۔فلمی دنیا کی چکا چوند نے اسے متاثر نہیں کیا۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کا رویہ دوستانہ تھا۔مجھے اظہار کی کامیابیاں اخبارات اور ٹیلی وژن سے ملتی رہیں ۔

کولمبو، سری لنکا ہانگ کانگ وغیرہ میں کامیڈی ایکشن فلموں کا آغاز اداکارہ و ہدایتکارہ شمیم آرا صاحبہ نے ۸۰ کی دہائی میں کیا۔اُن کی تقریباََ سب ہی فلموں نے بہت اچھا کاروبار کیا۔ان کو دیکھتے ہوئے جان محمد صاحب نے بھی یہی فارمولا استعمال کیا۔ سری لنکا ، تھائی لینڈاورفلپین میں بننے والی فلمیں کم لاگت میں مکمل ہو جاتی تھیں اور اس طرح فلمسازی میں لگنے والا سرمایا بہت کم وقت میں منافع کے ساتھ واپس آ جاتا تھا۔ مجھے ایک مرتبہ اظہار کے بھائی اسرار نے بتلایا کہ لاہور منتقل ہونے کے فوراََ بعد ۱۹۸۶ میں فلم ’ بینکاک کے چور ‘ سے ہدایت کار اور فلمساز جان محمد صاحب اور اظہار کی ذہنی ہم آہنگی ہو گئی۔ ایک فارمولا طے ہو گیا ۔اس طرح ان دونوں نے مل کر کئی فلموں میں مالی اشتراک کیا ۔ اس مشترکہ فلمسازی میں کئی ایک کامیاب فلمیں بنائی گئیں جیسے ’ منیلا کی بجلیاں ‘، ’ روپ کی رانی ‘ ، ’ چوروں کا بادشاہ ‘ وغیرہ۔یہاں ایک دلچسپ بات کہتا چلوں ۔پاکستانی اداکار اکثر فلموں کی ملتی جلتی کہانیوں /کرداروں کی یکسانیت کا رونا روتے رہتے ہیں لیکن اس کو کیا کہیے کہ جب وہ خود فلمساز بنتے ہیں تب وہ یہ ہوتا کام کیوں نہیں روکتے؟ بلکہ خود بھی یہی کرنے لگتے ہیں۔ اظہار قاضی اور جان محمد کی فلموں کے نام (اور موضوع بھی) خود یکسانیت کا شکار ہیں،جیسے یہ فلمیں: چوروں کا بادشاہ، روپ کی رانی، منیلا کے جانباز، منیلا کی بجلیاں، عالمی جاسوس،انٹرنیشنل گوریلے، ناگن سپیرا، سنپنی،ناچے ناگن،کالا راج، کالے ناگ وغیرہ۔ان دونوں کی تقریباََ تمام فلمیں ہی کامیاب ہوئیں۔جیسی روح ویسے فرشتے۔ بنانے والے بھی اور فلم بیں بھی خوش۔( اب آپ معیار کو کیا کہیں؟) ۔


اظہار کو، جیسا کہ شروع میں بیان کیا جا چکا ہے، گلوکاری کا شوق تھا لہٰذا اُس نے چند فلموں میں پلے بیک سنگنگ بھی کی۔اِس کے علاوہ غیر فلمی گیتوں کا آڈیو البم بھی ریلیز کیا۔اُس کو افسوس ہی رہا کہ عوام نے یہ البم پسند نہیں کیا۔

۱۹۸۲ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ ۲۰۰۵ تک چلاپھر اظہار قاضی نے اداکاری ترک کر کے اپنی پوری توجہ پراپرٹی کے کاروبار کی طرف کر دی۔ اداکاری سے ریٹائرمنٹ سے پہلے اطہار قاضی کا آخری کام ٹی وی سیریل ’ پانی پہ نام ‘ ہے جو پی ٹی وی سے نشر ہوا جِس پر ان کو لکس اسٹائل ایوارڈ کے لئے ۲۰۰۴ بہترین اداکار کے لئے نامزد کیا گیا۔


ذیل میں اُس کی چند کامیاب فلموں کی تفصیل درج ہے:

  • 1986 میں بننے والی  ' روبی ' جِس کے ستارے  سبیتا، رنگیلا،مصطفےٰ قریشی تھے۔
  • 1987 میں بننے والی   ' منیلا کی بجلیاں  ' جس کے ستارے  سبیتا، نازاں سانچی، سشما شاہی،رنگیلا، ادیب تھے۔یہ جمعرات ۲۸ مئی کو پیش ہوئی۔
  • 1988  میں بننے والی   ' چوروں کا بادشاہ  ' جس کے ستارے  کویتا،سلمیٰ آغا، مصطفےٰ قریشی، جہانزیب، محمد علی شہکی تھے۔یہ بدھ ۱۸ مئی کو پیش ہوئی۔ 
  • 1989 میں بننے والی ' منیلا کے جانباز ' جس کے ستارے  کویتا،اسماعیل شاہ، مصطفیٰ قریشی تھے۔یہ ۱۴ جولائی کو پیش ہوئی۔
  • 1990 میں بننے والی فلم ' انٹرنیشنل گوریلے (ڈبل ورژن اُردو پنجابی) ' جس کے ستارے بابرا شریف، جاوید شیخ، نیلی، غلام محی الدین، جہانزیب تھے۔یہ جمعہ ۲۷ اپریل کو پیش ہوئی۔ 
  • 1991 میں بننے والی ڈبل ورژن فلم،   'عالمی جاسوس ' جس میں  کویتا، غلام محی الدین،عجب گُل، رنگیلا، بہار، آصف خان  اداکار  تھے۔یہ منگل ۱۶ اپریل کو پیش ہوئی۔ 
  • 1992 میں  ایک اور   ڈبل ورژن  فلم  ' محبت کے سوداگر' بنی جس کے ستارے  نیلی، جاوید شیخ، صائمہ اور صاحبہ تھے۔یہ اتوار ۳ اپریل کو پیش ہوئی۔ 
  • 1993 میں ' جنت ' بنائی گئی جس کے نمایاں ستارے روبی نیازی اور محسن خان تھے۔
  • 1994 میں فلم  ' سب کے باپ ' نمائش کی گئی۔اِس کے فنکار انیتا ایوب،محسن خان،سعود، معین اختر، شفیع محمد اورصبیحہ خانم تھیں۔یہ اتوار۲ ۲ مئی کو پیش ہوئی۔
  • 1997 میں ' اولاد کی قسم ' تیار ہوئی جس میں  ریما، بابر علی، شبنم  اورندیم نے کام کیا۔
  • 2005 میں  ' پرچم ' بنائی گئی جس کے نمایاں ستارے  ثناء، شان اور اربازخان تھے۔

اداکار اظہار قاضی کے ٹیلی وژن ڈرامے  ' انا  '،  ' دائرے  ' ، '  گردش '،  ' زخم '، '  '  گنہگار 'اور ' پانی پہ نام ' ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا تو ہمیشہ ہی زیادہ زور فارمولا فلموں پر رہا۔ فلمساز کہنہ مشق فنکاروں کو سامنے رکھ کر کردار تخلیق نہیں کرتے۔اسی لئے ایک خاص وقت کے بعد ۔۔۔ جبکہ ایک فنکار کی صلاحیتوں میں نکھار آ چکا ہوتا ہے ۔۔۔ وہ ’’ مخصوص ‘‘ فارمولا کرداروں میں فِٹ نہیں ہو پاتا اور فلمساز اسے نظر انداز کر کے نئے جوان چہروں کو اہمیت دینے لگتے ہیں۔یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور شاید جاری ہی رہے جب تک اس شعبے میں نئے ہنر مند انوکھے آئیڈئے لے کر نہیں آتے۔


۲۰۰۲ میں جان محمد کے انتقال کے بعد اظہار کا فلمسازی کا کام جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ اُن دونوں کی شاید ہی کوئی فلم ناکام ہوئی ہو گی۔لاہور میں یہ لوگ فلم بناتے ہی نہیں تھے کہ بڑے چھوٹے اداکاروں اور دیگر ہنر مندوں کے نخرے اُٹھاتے پھریں۔یہ تو دوسرے ممالک میں فٹا فٹ اور سستا کام کرنے کے عادی تھے۔لاہور کے نگارخانوں کا کام اور کام کی رفتار اظہار کے سامنے تھی ۔ فلمی دنیا میں اپنی موجودگی قائم رکھنے کے لئے کوئی اور ’’ جان محمد ‘‘ لاہور تو کیا کراچی میں بھی دور دور نہیں تھا۔ جان محمد کے چلے جانے کے بعد وہ تنِ تنہا فلمسازی کا خطرناک ’’ جوا ‘‘ کھیلنے کو تیار نہیں تھا۔ انڈسٹری میں پہلے ہی اظہارپر جام محمد کے گروپنگ کی چھاپ لگ چکی تھی۔ اب دوسروں کے کھُل کر کھیل کھیلنے کی باری تھی۔


ہمارے مشہور فنکار مقبولیت کا عرصہ گزار کر یہ کہتے ہوئے فلمی دنیا سے واپس ہوتے ہیں کہ’’ اب لاہور فلم انڈسٹری کی صورتِ حال مخدوش اور فلموں کا معیار پست ہو کر رہ گیا ہے۔ فلمی دنیا کی منفی سیاست دیکھتے ہوئے وہ اداکاری چھوڑ رہے ہیں ‘‘۔ مجھے اس بات سے ہمیشہ اختلاف رہا۔’’ ہمارا ‘‘ معیار تو ایک زمانے سے یہی ہی۔ہاں ! سال میں ایک آدھ معیاری فلم بن بھی گئی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے! پیسے کی برسات تلے جب یہ فنکار مقبولیت کی عروج پر تھے کیا اُس وقت یہ اُن کا فرض نہیں تھا کہ وہ کم از ایک ’’ معیاری ‘‘ فلم بنانے میں کوئی حصہ ہی ڈالتے؟ ۔سیدھی بات ہے اِنہوں نے بھی تو کسی کی جگہ پُر کیتھی ! یہ ایک فطری اور قدرتی امر ہے کہ اب اِن کی جگہ نئے آنے والے فنکار لیں ۔ ایسے میں یہ کہنا کہ اب لاہور فلمی صنعت کا معیار گر گیا ۔۔۔ زیب نہیں دیتی۔ 


اظہار قاضی کی وفات کے بعد اخبارات میں بھی یہی لکھا گیا کہ لاہور فلم انڈسٹری میں مخدوش صورتِ حال، فلموں کے پست ہوتے معیاراور فلمی دنیا کی منفی سیاست دیکھتے ہوئے یہ اداکاری سے کنارہ کر کے کراچی آ گئے ۔۔۔ اور اپنی تمام تر توجہ پراپرٹی کے کاروبار میں مرکوز کر لی ۔میں اس بات سے بھی اختلاف کرتا ہوں۔اظہار ایک معقول شخص تھا کبھی خیالی دنیا میں نہیں رہا۔اس قسم کی مایوسانہ بات اُس نے کبھی نہیں کی۔البتہ زمینی حقائق کی روشنی میں جب اُس نے کراچی آنے کا فیصلہ کیا تو یہ باتیں پھلائی گئیں۔ 


۲۳ دسمبر ۲۰۰۷ کو خبر ملی کہ اظہار قاضی کا انتقال ہو گیا۔صرف ۵۲ سال کی عمر میں؟ میں حیران رہ گیا۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی عزیزہ کی مہندی کے فنکشن میں نغمہ سرا تھا کہ اچانک گاتے گاتے رُک گیا ساتھ ہی اس کی حالت بگڑنے لگی۔اسے فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا مگر راستے میں ہی اجل نے آ لیا۔انا للہ ۔۔۔ اپنی عمر کا بہترین حصہ فلمی صنعت کو دے کر عزت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کہ یہ  تحریر، 10 اکتوبر 2017 بروز منگل، روزنامہ نوائے وقت کراچی  کے صفحہ فن و ثقافت میں شائع ہوئی۔













 

Comments

Popular posts from this blog

خالدہ ریاست کردار میں ڈھل جانے والی اداکارہ