ہھر وہی شامِ الم



پھر وہی شامِ الم


تحریر شاہد لطیف

۹ ستمبر کو سنیچر کے روز سینڈسپٹ کے مقام پر ۲ بچوں سمیت ۱۲ افراد ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ ماڑی پور اور پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ۱۲ افراد پکنک کی غرض سے آئے تھے تا ہم سمندر کی تیز لہروں نے انہیں گھیر لیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے سعد ایدھی نے بتلایا کہ ڈوبنے والے تمام ۱۲ افراد کی نعشوں کو نکال لیا گیا ۔ بعد ازاں تمام میتیں ضابطے کی کاروائی کے بعد ایدھی سرد خانے سہراب گوٹھ منتقل کر دی گئیں۔افسوسناک واقعہ کے بعد متوفین کے رشتہ دار سرد خانے پہنچ گئے جہاں پر رقعت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے۔اس کے علاوہ متوفین کی رہائش گاہوں پر بھی اہلِ محلہ اور عزیز واقارب جمع ہو گئے اور شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔ سمندرمیں نہانے پر دفعہ ۱۴۴ کے تحت حکومتِ سندھ نے پابندی عائد کی ہوئی ہے تا ہم انتظامیہ کی جانب سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ہاکس بے پر پکنک کے لئے آنے والے افراد کے ڈوبنے کے واقعات وقتاََ فوقتاََ ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ماہ ۱۴ اگست کو نہانے پر پابندی کے باوجود ایک ہی خاندان کے ۵ افراد ڈوب گئے تھے۔


جب سے خاکسار نے اخبار بینی شروع کی تب سے ایسی چیختی ہوئی اخباری سُرخیا ں پڑھ پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے افسوسناک واقعات کا تدارک کیوں نہیں کیا جاتا ؟ کیا کبھی اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوششیں کی گئیں؟ بلدیہ عظمیٰ کراچی اور حکومتِ سندھ نے اِس سنگین مسئلہ کے حل کے لئے کیا کیا؟


کراچی شہر کے غریب عوام کی اِس گرم موسم میں لے دے کے ایک ہی تفریح ہوا کرتی ہے۔۔۔ ساحلِ سمندر پر نہانا۔کیا کراچی کے تمام ساحلی مقامات ہاکس بے، سینڈسپٹ کی طرح خطرناک ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر صرف ہاکس بے اور سینڈسپٹ ہی کا نام کیوں آتا ہے؟ یقیناًایسا نہیں۔کراچی کے ساحل پر محفو ظ مقامات بھی ہوں گے۔ 


اِس سلسلے میں ، میں نے اپنے ایک دوست جو کسٹم کے افسر ہیں اور اکثر ان کی تعیناتی سمندر کے قریب رہتی ہے، سے رابطہ کیا۔خود خاکسار کئی مرتبہ اُن کے ساتھ ساحل کے قریب اور گہرے سمندر میں مچھلی کے شکار کا لطف اُٹھا چکا ہے۔ اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے وہ اکثر مچھیروں کی بستیوں میں جاتے رہتے ہیں۔یہ مچھیرے سمندر کے مزاج سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔اُن کی معیت میں میرے دوست بھی سمندر کے مزاج آشنا ہو گئے ہیں۔اُنہوں نے بہت اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ 


اُن کا کہنا ہے کہ ہاکس بے اور سینڈ سپٹ کی کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں سمندر کے نیچے کی زمین آدھے پیالے جیسی ہے۔یعنی پانی کے اندر زمین ایک دم گہری ہو جاتی ہے نیز اِن علاقوں میں زیرِ آب پتھر پائے جاتے ہیں جہاں سے پانی گھومتا ہے اور بھنور بن جاتے ہیں۔یہاں کے ماہی گیر سمندر کے ایسے حصوں سے بخوبی واقف ہیں۔


کلفٹن کے ساحل کے بارے میں اُنہوں نے بتایا کہ وہ قدرے ہموار ہے۔یہ کافی دور تک ایک ہی حالت میں ہے اور بتدریج گہرائی میں جاتا ہے۔


سمندر کے مدوجزر کے متعلق کہا کہ مئی کے مہینے میں سمندر چڑھنا شروع ہوتا ہے ۔چھوٹی بڑی لانچیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ اِس لئے نہیں کہ حکومت نے اِن مہینوں میں مچھلی پکڑنے پر پابندی لگا رکھی ہوتی ہے بلکہ اِس لئے کہ سمندر کی کیفیت بہت خطرناک ہو تی ہے۔ ہاں ! پابندی اگر ہے تو جون اور جولائی کے مہینوں میں ۔وہ بھی صرف جھینگے پکڑنے پر۔ پڑھنے والے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مئی سے اگست تک سمندر کتنا خطرناک ہوتا ہے۔لہر کا کیا ہے۔ اچانک کوئی ۱۴ فٹ بلند لہر کا سینڈسپٹ یا ہاکس بے پر اِن مہینوں میں آ جانا کوئی حیران کُن بات نہیں۔ ستمبر کے مہینے میں سمندر پُر سکون ہونا شروع ہوتا ہے لیکن وہ مقامات جہاں آدھا پیالہ نما ساحل اور زیرِ آب پتھر ہوں وہاں سارا سال خطرہ رہتا ہے، اور اِن چار مہینوں میں یہ خطرہ خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے۔


اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ خطرناک ساحلوں پر تر بیت یافتہ لائف گارڈ موجود ہیں جو قریبی ماہی گیر بستیوں کے باشندے ہیں لیکن اِن کی نفری کم ہے۔جب میں نے اِن کسٹم افسر دوست سے پوچھا کہ آپ ہاکس بے اور سینڈسپٹ والے افسوسناک واقعات کی روک تھام کے لئے کیا کہتے ہیں تو پہلے اُنہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستانیوں کا قومی مزاج قانون شکن بن چکا ہے اور عوام میں تحفظِ زندگی کی آگاہی ہے ہی نہیں۔اُنہوں نے چند قابلِ عمل تجاویز پیش کیں۔


یہ کہ ہاکس بے اور سینڈ سپٹ جانے کے لئے چیک پائنٹ موجود ہیں۔اِن کے علاوہ وہاں جانے کا کوئی راستہ نہیں ۔لہٰذاہر وہ گاڑی، وین یا بس جو پکنک کی غرض سے جا رہی ہو اُس کے مسافروں کو خطروں سے آگاہ کرتے ہوئے یونین کونسل کی جانب سے ایک انتباہی پیغام ریکارڈ کروا کر لا ؤڈ اسپیکر سے سُنوایا جائے اور مختلف پیش آ ئے ہوئے واقعات کے ذریعے خطروں سے آگاہی دی جائے۔ مثلاََ کوئی یہ سوچے کہ میں تو محض پانی میں پاؤں ڈبوئے بیٹھا ہوں۔اِن مقامات پر اسے کیا خبر کہ کوئی خطرناک لہر کب، اچانک آئے اور بہا کر لے جائے؟ایسے واقعات ماضی میں پیش آتے رہے۔واضح ہو کہ اِس پس منظر میں بڑے سے بڑے ماہر تیراک بھی بے بس ہو جاتے ہیں۔


پھریہ کہ خطر ناک ساحلی مقامات پر صرف ’’ یہاں نہانا منع ہے ‘‘ کے انتباہی بورڈ کافی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ مختلف حادثات کی تصاویر اور واقعات بھی تحریر کرنا چا ہیءں تا کہ تفریح کی غرض سے آنے والے کو زندگی کی اہمیت کا احساس ہو سکے۔یہاں میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔راقم کو ۱۹۷۹ میں وسطی اور مشرقی افریقہ جانے اور رہنے کا اتفاق ہوا ۔میں کئی ایک سفاری پارکوں میں بھی گیا۔ پارکوں میں داخل ہونے کے راستہ پرکئی زبانوں میں یہ تحریر ہوتی تھی ’’ اگر آپ گاڑی سے باہر نکل کر تصاویر بنوائیں یا اُتاریں گے تو آپ کا یہ حشر ہو سکتا ہے ‘‘۔ اِس عبارت کے ساتھ ایک قدِ آدم عبرت ناک تصویر ہوتی تھی۔حیرت کی بات ہے کہ ایک سروے کے مطابق جس سفاری کے داخلی دروازے پر یہ عبارت اور دہشت ناک تصویر تھی وہاں ایسے حادثات نہ ہونے کے برابر تھے بمقابلہ اُن سفاریوں کے جہاں ایسی تنبیہ نہیں تھی۔حکومتِ سندھ کو چاہیے کہ وہ اِن خطرناک مہینوں کے دوران ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن پر اور پریس اینڈ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ، اخبارات کے ذریعے لوگوں کو مخصوص خطرناک ساحلی مقامات کے متعلق آگہی دے ۔ 


آخر میں ایک بہت اہم بات کہنا چاہوں گا کہ عوام الناس کو اس بات کی آگاہی دینا بہت ضروری ہے کہ اپنے کسی عزیز یا ساتھی کے ساتھ حادثے کی صورت میں خود پر قابو رکھیں۔اسے خود بچانے کے بجائے فوراََ متعلقہ افراد تک پہنچنے کی کوشش کریں تا کہ زیادہ جانی نقصان نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
' اُلٹ پھیر ' کایہ کالم  16 ستمبر کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ نمبر 11 پر شائع ہوا۔



















Comments

Popular posts from this blog