عوامی نمائندگی ایکٹ سے صادق اور امین کے الفاظ نکالنے کے لئے درخواست سپریم کورٹ میں دائر
عوامی نمائندگی ایکٹ سے صادق اور امین کے الفاظ نکالنے کے لئے
درخواست سپریم کورٹ میں دائر
تحریر شاہد لطیف
عموماََ اِن کالموں میں سیاسی امور پر ہلکی پھلکی بات ہوتی ہے لیکن علامہ اقبال ؒ ایک انتہائی اہم نکتے کی نشاندہی کر گئے ہیں اور ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
جمعہ ۲۵ اگست ۲۰۱۷ کے قومی اخبارات کی ایک خبر نے مجھے بھی دین کے معاملے میں تحقیق کرنے پر مجبور کر دیا۔خبر ہے: سپریم کورٹ میں عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ ۹۹ ایف سے صاد ق اور امین کے الفاظ کو حذف کرنے کا حکم دینے کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ جمعرات کو درخواست دائر کرنے والے ، وکیل سلیم اللہ خان نے موقف اپنایا ہے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ ۱۹۷۶ کی شق ۹۹ ایف میں الفاظ صادق اور امین کا استعمال کیا گیا ہے جبکہ صادق اور امین کے الفاظ نبی پاک ﷺ کی ذات سے منسوب ہیں ۔کوئی بھی عام شخص صادق اور امین کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ تاریخِ اسلام میں کسی دوسری شخصیت کے ساتھ یہ الفاظ منسوب نہیں کیے گئے ، عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ ۹۹ ایف سے صادق اور امین کے الفاظ حذف کیے جائیں اور ان الفاظ کی جگہ کوئی متبادل الفاظشامل کیے جائیں۔خبر پڑھ کر میں بے اختیار ان دو الفاظ کی تحقیق میں جُت گیا۔ہمارے نبی کو یہ القاب نبوت سے بہت پہلے ہی مل چکے تھے۔قبل از نبوت خانہ کعبہ کی تعمیر اور اس میں حجرِ اسود نصب کرنے کا فیصلہ جب آپ کے سپرد ہوا تو تمام لوگ بے اختیار پکار اٹھے کہ یہ صادق اور امین ہے یہ صحیح فیصلہ کرے گا۔اس وقت آپ کی عمرِ مبارک تقریباََ ۳۵ سال تھی۔کسی بھی ہستی کو کوئی لقب ایسے ہی نہیں مل جاتا۔پھر وہ نسبی بنیاد پر بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کے کردار کا مستقل وصف ۔۔۔ لقب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
نبی کی صفات کا مقابلہ ہم تو کیا ۔۔۔ خود صحابہ کرامؓ بھی نہیں کر سکتے۔اس خبر کے مطابق معاملہ عدالت میں ہے لیکن عام قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لئے اِن دو الفاظ کی وضاحت پیشِ خدمت ہے: صادق: یہ لفظ صدق سے نکلا ہے۔صدق ، کذب کی ضِد ہے۔یعنی جانتے بوجھتے کسی چیز کے متعلق خلافِ حقیقت خبر دینا۔اسی طرح سورۃ المنافقون کی آیت 1 میں منافقوں کو کاذب کہا ہے۔یعنی زبان کی بات تو حقیقت کے مطابق لیکن دل کی ہم آہنگی نہیں ہے۔اور اگر کسی معاملے میں زبان و دل کی ہم آہنگی تو ہے لیکن وہ بات واقعہ کے خلاف ہے تو اسے کذب نہیں بلکہ لاعلمی کہیں گے۔اس لئے قرآن مجید نے سخت تاکید کی ہے کہ جس بات کا علم نہ ہو اس کے پیچھے مت لگا کرو( ۱۷ : ۳۶)۔ جب لفظ کذب کو اچھی طرح سمجھ لیا تو صدق اس کی ضد ہے یعنی دل و زبان کی ہم آہنگی کے ساتھ بیان کردہ واقعہ/بات حقیقت کے عین مطابق ہو۔ اصل میں ’ صادق ‘ اس انسان کو کہتے ہیں جس میںِ صدق کی صفت پائی جائے نیز اس مادے یعنی صدق سے جتنے الفاظ بنتے ہیں وہ ان پر بھی پورا اترے۔ مثلاََ اسی سے ایک لفظ صَدَقَ ہے جس کے معنی ہیں کہ اس نے جو کہا اس پر عمل کر کے اسے سچ کر دکھایا۔ اسی طرح الفاظ کی ایک لمبی فہرست موجود ہے جسے میں طوالت کی بنا پر نہیں لکھ رہا۔اس لفظ کی وضاحت کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہمارے آئین میں یہ شرط جن لوگوں کے لئے رکھی گئی ہے کیا انہیں منظور approve کرنے سے پہلے اس شرط کے مطابق اُن کا کردار پرکھا گیا؟ یہ لوگ جب اپنے مخالفین پر چڑھائی کرتے ہیں تو کیا انہیں کوئی باور کرواتا ہے کہ صاحب ! برائے مہربانی ’’ صادق ‘‘ کی شرط پوری کیجئے۔جب یہ اقتدار میں آتے ہیں تو کیا ان کو چیک کیا جاتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے اپنے منشور میں کہا ۔۔۔ انہوں نے اسے ’’ سچ کر دکھایا ‘‘؟
دوسرا لفظ امین، امن سے نکلا ہے۔امن کا مطلب ہے کسی کو بے فکر اور مطمئن کر دینا۔دوسرے کو امن دینا۔اس کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر لینا۔امن کا مطلب ہے بے خوف ۔جسے قابلِ اعتماد سمجھا جائے، جس پر بھروسہ کیا جا سکے۔اسی طرح ’ امین ‘ وہ شخص ہے جو امانت کی حفاظت کر سکے۔امانت کا لفظ وسیع معنی رکھتا ہے۔ہم صرف ایک معنی جانتے ہیں،وہ مادی اشیاء جنہیں حفاظت کی غرض سے بطور امانت کسی کے پاس رکھوایا جائے۔امانت کا ایک اور اہم مطلب ذمہ داری ہے۔قرآنِ کریم کی سورۃ النسآء آیت ۵۸ میں ہے: ’’ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل کے سپرد کرو ۔۔۔ ‘‘
تفسیر ابنِ کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں کئی ایک صحابہؓ کے امانت سے متعلق اقوال نقل ہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس چیز سے منع کیا گیا وہ سب امانت ہے۔ ربیع بن انسؓ فرماتے ہیں جو جو معاملات تیرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہیں وہ سب اسی میں شامل ہیں۔اور رسول اللہ ؑ کا فتح مکہ کے بعد خانہ کعبہ کی چابیاں دوبارہ عثمان بن طلحہؓ کے حوالے کر دینا اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔مولانا مودودی نے اس آیت کی تفسیر میں صرف بنی اسرائیل کی تباہی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’ تم ان برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے ہیں۔ان کی بنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنی امانتیں یعنی ذمہ داری کے منصب ، مذہبی پیشوائی اورقو می سرداری کے مرتبے ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نا اہل ، کم ظرف، بد اخلاق، بد دیانت اور بد کار تھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ برے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہو گئی۔مسلمانوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنا ۔۔۔ ‘‘
آئین میں لکھی ہوئی دوسری شرط کون پوری کرتا ہے؟ وزارت کا قلم اس کے ہاتھ میں دیا جاتاہے جو اپنی وزارت کے محکمہ جات کی الف ب بھی نہیں جانتا۔جس کے پاس اختیار ہوتا ہے وہ اپنی مرضی کے بندے مختلف محکموں میں بھرتی کرواتا ہے خواہ وہ اہل ہوں یا نہ ۔۔۔ کیوں کہ ان محکموں میں انہیں اپنی پوزیشن مضبوط کرنی اور کام نکلوانے ہوتے ہیں۔اس تمام بحث کا لبِ لباب یہ ہے کہ اگر آئین میں ’’ صادق و امین ‘‘ کی شرط نبی اکرم ﷺ کے القاب سے متاثر ہو کر رکھی گئی ہے تو عدالت میں دائر کی گئی درخواست کی حمایت میں، میں بھی یہی کہوں گا کہ خدا را ان مبارک الفاظ کی توہین مت کیجئے۔اور اگر یہ شرط محض سیاسی کردار کی صفات ہیں تو پھر ان شرائط کو انتخاب سے پہلے کیوں نہیں لاگو کیا جاتا؟ اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا آئین میں درج شرائط صرف کاغذوں کا پیٹ بھرنے کے لئے ہیں؟ کیا یہ اسی وقت منظرِ عام پر آتی ہیں جب پانی سر سے گزر جاتا ہے؟ ایک سیاست دان اس کی لپیٹ میں آ گیا تو وہ سیاست سے باہر ہو گیا۔کیا باقی تمام سیاست دان ’’ صادق اور امین ‘‘ ہیں؟ دو سیاست دان تو ہمارے
قانون کے تحت پولیس کے اشتہاری ہیں۔ مجھے یقین ہے اگر شفافیت کے ساتھ صرف ان دو شرائط کے تحت تمام سیاست دانوں کو پرکھا جائے تو یہ سب کے سب سیاست سے باہر ہو جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
خاکسار کی یہ تحریر 2 ستمبر 2017 کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ 11 پر شائع ہوئی۔
Comments