قوّالی کا ایک بڑا نام صابری برادران اور اُن کے جانشین امجد صابری


قوّالی کا ایک بڑا نام صابری برادران 
اور اُن کے جانشین امجد صابری
تحریر شاہد لطیف
؎
 میرا   کوئی نہیں ہے تیرے سوا
 مجھے نظرِ کرم کی   بھیک   مِلے
میں بن کے سوالی   آیا   ہوں

یہ قوّالی ایک زمانے سے ریڈیو پر سنتے چلے آئے ،پھر کراچی میں ٹیلی وژن کی نشریات شروع ہونے کے بعد گاہے بگاہے صابری برادران اور ہمنوا کو دیکھا بھی۔پھر قسمت مجھے  1978میں گراموفون کمپنی آف پاکستان المعروف EMI لے گئی جہاں راقِم کا امتحان اُس وقت کے فیکٹری منیجر جناب مُسلم عباسی اور چیف ساؤنڈ انجینئر جناب عزیز صاحب نے لیا۔وہ امتحان بھی خوب امتحان تھا۔مجھے غلام فرید اور مقبول صابری قوّال اور ہمنوا کی قوالی کے آدھ آدھ منٹ کے تین آڈیو ٹیپ اسپول سُنوائے اور کہا گیا کہ اِن میں سے ایک ٹھیک اور دو غلط ہیں۔بتانا ہو گا کون سا اسپول ٹھیک ہے اور کیوں ہے اور کون سے دو غلط ہیں اور کیوں ہیں۔خاکسار نے غور سے اُن کو سُنا اور بتایا کہ کون سا ٹھیک ہے اور کیوں ہے اور کون سے غلط ہیں اور کیوں ۔اللہ کا کرم ہو گیا یہ کمتر واحد تھا جس نے درست جواب دیا۔عزیز صاحب نے خوش ہو کر اسٹوڈیو میں غلام فرید اور مقبول صابری سے ملاقات کرائی اور ہنس ہنس کر اس امتحان کا بتایا ۔ غلام فرید مسکرائے اور مقبول صابری نے مجھے شاباش دی۔یہ تھا وہ پس منظر جِس میں راقم کی صابری برادران سے پہلی ملاقات ہوئی۔پھر پاکستان ٹیلی وژن کے کراچی مرکز میں شعبہ پروگرام میں آنے پرصابری برادران سے رابطہ کرنے کو کہا گیا تا کہ اُن سے قوالی کے پروگرام ریکارڈ کرائے جائیں۔

لیاقت آباد میں اُن کی رہایش تھی۔ دروازے پر آنے کا مقصد بتایا تو پہلی منزل میں ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا۔فرشی نشست کا انتظام تھا۔غلام فرید صاحب گاؤ تکئے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ جیسے اپنی تصاویر اور ٹی۔وی کی اسکرین پر نظر آتے تھے مجھے وہ ویسے ہی لگے۔کچھ دیر بعد مقبول صاحب بھی کمرے میں تشریف لے آئے۔ وہ کہیں جانے والے تھے ۔مختصر سی ملاقات میں اُنہوں نے ڈائری دیکھ کر قوالی کی ریکارڈنگ کے لئے دو متبادل تاریخیں دیں ۔ وہ قوالی کا پروگرام پروڈیوسر مرغوب احمد صدیقی صاحب کے ساتھ لائیو ریکارڈ کیا گیا۔ ایک ساتھ دو پروگرام ریکارڈ ہوئے ۔ایک اور دوسری ریکارڈنگ کے درمیان بس معمولی سا وقفہ تھا جِس میں قوالی کا سیٹ الگ نظر آنے کے لئے ضروری تبدیلییاں کی گئیں۔دونوں پروگراموں میں صابری برادران نے فی پروگرام پرانی قوالیوں کے ساتھ ۲ نئے کلام/قوالیاں بھی پیش کیں۔

صابری برادران میں زیادہ تر گفتگو اور معاملات مقبول صاحب کیا کرتے تھے لہٰذا میری بھی تین چار ملاقاتوں میں زیادہ تر بات چیت مقبول صاحب کے ساتھ ہی رہی۔ لیکن ایک دِن غلام فرید صاحب خوشگوار موڈ میں تھے تو اُنہوں نے خاکسار کو سامنے بٹھا کر ایک پوربی گیت سُنایا ۔اُس نشست میں یہ بھی بتایا کہ ٹاور (میری ویدر) سے لے کر سِٹی ریلوے اسٹیشن تک کافی عمارات کی اینٹیں اِن کی بھی لگائی ہوئی ہیں۔شروع میں انہوں نے کافی سخت اور کڑا وقت دیکھا تھا ۔شاید اِسی لئے وہ گفتگو کم کرتے اور زبان پر اللہ کے شکر کے کلمات زیادہ رکھتے تھے۔

ابتدائی ملا قات میں مقبول صابری صاحب نے مجھے بتایا کہ اُنہوں نے دہلی گھرانے کے اُستادرمضان خان صاحب سے باقاعدہ موسیقی کے رموز سیکھے تو پھر میں نے اُنہیں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے کلاسیکی موسیقی کے پروگرام ’ راگ رَنگ ‘ میں جو پروڈیوسر مرغوب احمد صدیقی کرتے تھے ، مقبول صابری صاحب کو ریکارڈ کیا۔اِس پروگرام میں اُنہوں نے راگ پیلو کا خیال اور ٹھمری پیش کی۔ راقم نے کئی دفعہ کوشش کی کہ مقبول صاحب سے اپنے ہفتہ وار موسیقی کے پروگرام ’ آواز و انداز ‘ میں کچھ گیت اور غزلیں ریکارڈ کرائی جائیں .... لیکن.... یہ ہو نہ سکا۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، غلام فرید صاحب صاحب سے بھی فرمائش کی کہ وہ ہلکے پھلکے دوہے اور گیت اِس پروگرام کے لئے ریکارڈ کرائیں لیکن ہر ایک مرتبہ اُن کا جواب ایک مسکراہٹ ہی رہا۔غلام فرید صابری صاحب5 اپریل 1994 کو اِس فانی دُنیا سے کوچ کر گئے ۔ اِ ن کو صدر ضیاء الحق نے1978 میں تمغہِ حسنِ کارکردگی دیا تھا۔

غلام فرید صابری کے انتقال کے بعد مقبول صابری صاحب نے قوالی کے سلسلے کو اپنے انتقال تک ۱۷ سال جاری رکھا۔اِن کا 21 ستمبر2011کو ساؤتھ افریقہ میں انتقال ہوا۔اُن کو بھی تمغہِ حسنِ کارکردگی صدر آغا محمد یحیےٰ خان نے 1970 میں دیا تھا۔

راقم 1979 میں وسطی افریقہ میں رہا جہاں سے کینیا کے دار الحکومت نیروبی آنا جانا ر ہتا تھا ۔ وہاں پر اکثر گلوکارہ منی بیگم اور صابری برادران کے ہونے والے پروگراموں کے پوسٹرز ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیشی دوکانوں پر چسپاں دیکھے۔صابری برادران کے قوالی کے لانگ پلے ریکارڈ وہاں بہت بکتے تھے۔میں نے بھی کئی ایک خرید کرہندوستان کے لوگوں کو تحفتاََ دیے، جو اُنہیں بہت پسند آئے۔

فنکارایک بہت حساس اور بے ضرر قسم کا انسان ہوتا ہے۔اب اگر اِس کو بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا جائے تو یہ ظلم ہوگا۔ابھی کراچی کے میوزیشن قمر اللہ دِتّہ کا غم ہلکا نہ ہوا تھا کہ امجد صابریکی خبر آ گئی۔ گزشتہ رمضان کے
 سو لہویں روزے بمطابق22 جون 2016 ، وہ ایک ٹیلی وژن چینل میں سحری کی نشریات میں مشہور نعت:  ؂ 
اے سبز گنبد والے منظو ر دعا   کرنا
 جب وقتِ نزع آئے دیدار عطا کرنا
 
پیش کر کے اپنے گھر لیاقت آباد آ رہے تھے کہ دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔
راقم کی امجد صابری سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن میں نے اُس کے والد اور چچا کو جیسے پایا مجھے یقین ہے اُن کے ہونہار سپوت نے ان کے اثرات ضرور لئے ہوں گے۔ اُن کے والد صاحب اور چچا نے1958 سے بھر پور محنت کر کے قوالی کو پاکستان کے عوام میں مقبول کیا۔ اُن کے ہم عصر بھی کچھ کم نہیں تھے؛ جیسے بہاؤ الدین قوّال اور ہمنوا، یاور علی واجد علی مٹکے والے قوّال، چھوٹے صالح محمد قوّال اور ہمنوا وغیرہ۔لیکن کچھ خود اُن کی ان تھک محنت، کچھ قسمت کی یاوری کچھ اللہ تعالیٰ کا فضل کہ امریکہ اور یورپ میں قوالی کو بہ طور موسیقی کی ایک صنف روشناس کر انے کا سب سے پہلا اعزاز اِن ہی کے حصّہ میں آیا ۔

صابری برادران کے دنیا سے چلے جانے کے بعد امجد صابری ان کے جانشین کے طور پر ابھرے ۔ امجد میں اپنے والد کی صفات بدرجہ اتم موجود تھیں : محنت، روا داری،ساتھیوں سے محبت اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا۔انہی صفات نے اسے بہت کم وقت میں مقبولیت کے عروج پر پہنچا دیا۔اپنی وفات تک اِن پانچ سالوں میں اس نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا جو دوسرے افراد عشروں کے بعد حاصل کرتے ہیں۔اس مقبولیت اور کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اپنے ساتھیوں کی مالی کفالت کا خیال رکھنا، خود محنت کرنا، پروگرام حاصل کرنا اور اپنے ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ معاوضے میں شریک رکھنا۔یہ وہ خوبی ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔اور یہ سب امجد کو اللہ کے کرم سے حاصل ہوا۔افسوس کہ امجد کے جانے کے بعد صابری برادران کا 1958سے شروع کیا ہوا سفر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
.............................................................
(یہ مضمون 4 جولائی کے روزنامہ نوائے وقت کراچی کے صفحہ فن و ثقافت میں  شائع ہوا)






Comments

Popular posts from this blog