Shayar Mohammad Nasir
تذکرہ روشن سِتاروں کا
شاعر محمدناصرؔ
تحریر شاہد لطیف
یہ شام اور تیرا نام دونوں کتنے ملتے جلتے ہیں
تیر ا نام نہیں لوں گا بس تجھ کو شام کہوں گا گلوکار: عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
شام سے پہلے آنا دھوپ ساری ڈھل چکی ہو
پھول سارے کھل چکے ہوں
موسم سارے لے آنا گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
ہوا ہو ا اے ہوا خوشبو لُٹا دے گلوکار:حسن جہانگیر شاعر: محمد ناصرؔ
کہہ دینا آنکھوں سے
سمجھ لینا سانسوں سے
کوئی تو رہتا ہے سانسوں میں گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
پاس آ کر کوئی دیکھے تو پتہ لگتا ہے
دور سے ذخم تو ہر دل کا بھر ا لگتا ہے گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
میں نے تمہاری گھاگر سے کبھی پانی پیا تھا گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
تم میری آنکھیں ہو میں خواب جیسا ہوں
کبھی اپنے جیسا ہو ں کبھی تیرے جیسا ہوں گلوکار:عالمگیر شاعر: محمد ناصرؔ
مُحمد نَاصِرؔ
آج تک اِس بھید کا علم نہ ہو سکا کہ ہم پاکستانی ، ایک بیدار قُوم کی حیثیت سے کسی جیتے جاگتے ، چلتے پھرتے شخص کے بارے میں نہ لکھنا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی پڑھنا۔اِدھر کوئی گُزرا نہیں اور اُدھر اُس کی یاد میں ریفرنس شروع ہوا نہیں۔پرنٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ ایک دو روز، گزرنے والے کی یاد میں، اُس کی عظمت کے وہ وہ گُن گاتے ہیں کہ ’ وہ ‘ غریب بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہو گا کہ ...........اُس کے بعد؟ اُس کے بعد آپ جانتے ہی ہیں..........
راقِم کو کئی ایک نامور شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اُن میں سے زیادہ تر، دارِ فانی سے کوچ کر گئیں اور کچھ بفضلِ خدا ابھی بقیدِ حیات ہیں۔اللہ تعالیٰ اُنہیں صحت والی زندگی عطا فر مائے۔
...............................................
۷۰ کی آخری دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن نے گلوکار عالمگیر کو گھر گھر پہنچایا۔ اس مشہوری میں اس کی اپنی محنت، قسمت، اچھی دھنیں، اور دلوں کے تار چھو لینے والے عام فہم گیت بھی کم اہم نہیں۔ ان میں زیادہ تر نغمات محمد ناصرؔ کے لکھے ہوئے ہوتے تھے۔
اکتوبر ۱۹۸۰ کے اواخر میں پاکستان ٹیلیوژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام میں راقِم نے جب ذمہ داریاں سنبھالیں تو اول اول مجھے موسیقی کے پروگرام دیئے گئے جن میں ترنگ، امنگ، سرسنگم ا و ر آواز و انداز وغیرہ شامل ہیں۔ابتدا ہی میں اُس وقت کے اسکرپٹ ایڈیٹر جناب مُدبِر رِضوی صاحب نے شاعر محمد ناصرؔ سے رابطہ کرنے کو کہا گیا۔
موصوف سے پہلی ملاقات کا احوال بھی دلچسپ ہے۔ان کے گھر کی اطلاعی گھنٹی پر ایک دبلے سے صاحب برآمد ہوئے۔جب ان سے محمد ناصر کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ وہی محمد ناصر ہیں۔ بیساختہ خاکسار کے مونہہ سے نکلا : ’’ حیرت ہے!!‘‘۔ انہوں نے پوچھا ’’ کس بات کی حیرت؟‘‘ ۔ تب کہنا پڑا : ’’ آپ تو شاعر ہی نہیں لگتے‘‘۔وہ اِس پر بہت ہنسے۔ در اصل ان کی آواز میں ویسے ہی کھرج ہے ، اور فون پر کچھ زیادہ ہی بھاری محسوس ہو رہی تھی، مگر دیکھنے میں وہ اِس سے بالکل اُلٹ نکلے۔اِن سے قبل جن مشہور شعراء کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا، اُن کے حلیہ، بات چیت، چال ڈھال وغیرہ کے لحا ظ سے یہ حضرت مختلف تھے۔
پہلے اُن کا اور میرا ساتھ، واجبی اور سرکاری سا رہا، مگر پھر بہت جلد یہ بے تکلف دوستی میں بدل گیا؛ الحمدُللہ، یہ تعلق اب بھی قائم ہے۔راقم نے پا کستان ٹیلی و ژن کراچی مرکز میں کئی شعراء کو موسیقار کی طرز پر بو ل لکھتے دیکھا، ان میں سر فہرست شبی فاروقی صاحب اور ان کے بعد ، مُحمد ناصرؔ بہت ہی تیز رفتار کام کرنے والے تھے۔
راقِم خود کئی ایک مرتبہ تخلیق کے اس منظر کا چشم دید گوا ہ ر ہا ہے ، جب دُھن پر یا ’ ڈمی ‘ بول پر محمد ناصرؔ گیت لکھ رہے ہوتے تھے۔ انہوں نے نیاز احمد، کریم شہاب الدین، جاوید اللہ دتّہ ، اختر اللہ د تّہ، محبوب اشرف اور دوسرے موسیقاروں کے لئے گیت لکھے ۔ نثار بزمی صاحب کے ساتھ بھی کام کیا، حالانکہ بزمی صاحب کے ساتھ کام کرنا بجائے خود خاصہ مشکل کام ہوتا تھا ؛ کیوں کہ وہ بہترین سے کم پر مطمئن نہیں ہوا کرتے تھے۔
اب ذر ا محبوب اشرف صاحبان کا زکر ہو جائے۔ حسن جہانگیر کی آواز میں ناصرؔ صاحب کا گیت ’ ہوا ہوا اے ہوا خوشبو لُٹا دے ‘ کی طرز محبوب اور اشرف صاحبان المعروف محبوب اشرف نے بنائی تھی۔یہ گیت خاص و عام میں مقبول ہو کر سرحد پار بھارت چلا گیا۔وہاں ایک فلم میں دوبارہ انہی حسن جہانگیر کی آواز میں لمبے چوڑے آکسٹرا کے ساتھ صدا بند ہوا۔فلم کی تشہیر کے سلسلہ میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خاصی ہلچل رہی مگر بقول پروین شاکر:
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی
اگر آپ غیر جانب دار ہو کر بہت سے سازوں، اور بمبئی کے صفِ اوّل کے اسٹوڈیو میں صدابند کروائے گئے ’ اُس ‘ فِلمی گیت اور پھر محبوب اشرف کا کم سازوں سے ریکارڈ شدہ اصل گیت ساتھ ساتھ سُنیں ، تو بجا طور پر ہمارا کام اُن سے کہیں بہتر لگے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ باتوں باتوں میں ذکر چل نکلا کہ کیا محفلِ سماع کے لئے باقاعدہ قوالی بھی لکھی جا سکتی ہے؟ جواب میں موصوف نے غلام فرید مقبول صابری قوال کے لئے یہ کام کر کے اس سوال کا جواب دے دیا جو پی ٹی وی کراچی مرکزسے نشر بھی ہوئی۔یہ بہت عجیب سی بات ہے کیوں کہ قوالی میں کوئی شعر کہیں سے کوئی کہیں سے، کوئی دوہے اور کوئی حضرت امیر خسروکے مشہور گیتوں کے شعر ، تو کوئی حمدیہ شعر، کوئی منقبت کے بند۔ اب پاکستان ٹیلی وژن کی ۲۵ منٹ کی قوالی میں اگر یہ سب کچھ شامِل ہو جِس کا اوپر کی سطور میں ذکر ہو چکا ہے تو ایسا کام کرنا خاصی ٹیڑھی کھیر ہے۔
.................................................
یہ کوئی ۱۹۸۱ کا زمانہ ہو گا، میری رہائش کراچی کے علاقہ گلشنِ اِقبال ، حسن اسکوائرمیں ہوا کرتی تھی۔موصوف شاہ فیصل کالونی میں رہا کرتے تھے اور باقاعدگی سے جوگنگ اور دیگر ورزشوں کے لئے علی الصباح ، حسن اسکوائر کے قریب ایک میدان میں آیا کرتے تھے۔پھر وہاں سے میرے غریب خانے آ کر میری والدہ کے ہاتھ کے بنے پراٹھے اور گھر کے دہی سے ناشتہ کر کے واپس اپنے گھر ۔پھر اپنا کام دھندہ دِن کے گیارہ بجے کے بعد شروع کرتے تھے۔وہ بھی کتنے اچھے اور سادگی سے پُر دِن تھے ۔میری و الدہ کو وہ ’ امی جان ‘ کہا کرتے تھے اور میری والدہ مرحومہ کے لئے وہ بیٹوں کی طرح سے تھے۔
اِن کو شاید ہی کبھی پتلون قمیض میں دیکھا ہو گا۔سادہ شلوار قمیض اور دائیں ہاتھ میں ایک بریف کیس، جو اُن کی پہچان تھا۔ دائیں ہاتھ میں بریف کیس ہے سامنے سے آپ آ جا ئیں تو نہایت ہی برق رفتاری سے بریف کیس دائیں سے بائیں ہاتھ میں آ جاتا او ر اپنے اُس خالی دا ئیں ہاتھ سے آپ کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ایسی ’ بے تکلفی ‘ سے دباتے کہ........
بات محمد ناصر بحیثیت شاعر کے شروع ہو کر کہاں جا اٹکی۔یہ اہلِ قلم اور فنکار وغیرہ پہلے اِنسان ہوتے ہیں بعد میں کچھ اور۔محمد ناصرؔ کے علاوہ راقِم کا اِس قدر دوستانہ کسی اور شاعر یا فنکار سے نہیں رہا۔جلوت میں خلوت میں یہ صلح جو، دھیمے مزاج والے ، وقت کی پابندی میں اپنی مثال آپ۔ زیادہ تر اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان ہیں۔عام طور سے کام کے دوران غصّہ کم کم آتا تھا۔
پچھلے کئی ایک سال سے آپ ٹی وی ڈراموں کے ٹائٹل نغمے theme song لکھ رہے ہیں۔اِس سلسلے میں اِنہوں نے زیادہ تر موسیقار وقار علی۔ جو گلوکار سجاد علی کے بھائی ہیں۔کے لئے لکھے ہیں۔
عالمگیر کے منظر سے ہٹنے کے بعد تحسین جاوید، حسن جہانگیر اور کراچی کے دیگرفنکاروں کے سی ڈی البموں کے بیشتر نغمات اِن ہی کے لِکھے ہوئے ہیں۔
۱۹۸۱ کے اواخر میں، کراچی مرکز کے ہفتہ وار موسیقی کے پروگرام ’ آواز و انداز ‘‘ کو جلد ریکارڈ کر نا تھا۔ اُس وقت آس پاس اختر اللہ دتّہ سب سے موزوں موسیقار دِکھائی دئیے۔شام کو ناصرؔ صاحب کوبتلا دیا گیا کہ صبح۱۰ بجے وہ اختر صاحب کے گھر آ جائیں جہاں ۱۰ گیت لکھنے ہیں۔ اُس مذکورہ صبح کے سات بھی نہ بجے ہوں گے کہ میری والدہ نے مجھے اُٹھاتے ہوئے کہا کہ ناصر ؔ کب سے آیا بیٹھا ہے، جب تمہیں اُس کے ساتھ کہیں جانا تھا تو اب تک کیوں پڑے سورہے ہو؟۔اب آپ کر لیں بحث۔حضرت پراٹھوں سے انصاف کرتے جاتے اور کھی کھی کرتے جا رہے تھے۔ ہم دونوں ۹ بجے اختر صاحب کے ہاں موجود تھے ۔اِس سے پہلے کہ اختر صاحب گٹار یا کی بورڈ پکڑتے، ناصرؔ صاحب نے اپنا بریف کیس کھولا قلم اور چند صفحات نکال کر سامنے رکھ لئے ۔اختر صاحب نے کہا کہ عابدہ پروین کے لئے سب سے پہلے لکھتے ہیں۔پڑھنے والوں کے لئے یہ بات یقیناََ دلچسپی کا باعث ہو کہ گلوکارہ عابدہ پروین اِس گیت سے پہلے، صرف چند سِندھی علاقائی پروگراموں تک ہی محدود تھیں ۔ناصرؔ صاحب اُن کو نہیں جانتے تھے جب اُنکو بتلایا گیا کہ سریلی اور کھلے ’ سبتک ‘ wide octave range والی آواز ہے ، تو بے ساختہ پہلا لفظ جو اُن کے مونہہ سے ادا ہوا وہ ’ صبح ‘ کا لفظ تھا۔کہنے لگے سُریلے پرندے اللہ کی ثناء صبح سویرے شروع کرتے ہیں لہٰذا عابدہ کے لئے گیت کا پہلا لفظ بھی صبح ہی ہو گا۔لیجئے جناب مکھڑا تیارہو گیا:
صبح کی پہلی کرن میری آنکھوں سے ملی
جانے کیا بات کہی نینوں نے میرے
سپنوں سے تیرے
یہ عابدہ پروین کا پہلااُردو زبان کا گیت تھا جو پروڈیوسر جنابہ سلطانہ صدیقی صاحبہ اور راقِم کے پروگرام ’ آواز و انداز ‘ میں ۱۹۸۱ کے در میانی عرصہ میں نشر ہوا ۔
پروگرام آواز و انداز میں ایک تجربہ کیا گیا تھا کہ تمام نغمات ؍گیت؍غزل کا دورانیہ ڈھائی منٹ ہو گا ۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔گئے زمانے کے گر ا موفون ریکارڈ بھی ڈھائی سے تین منٹ دورانیہ کے ہوا کرتے تھے۔پھر EP (extended play) کا زمانہ آیا اوراُس کے بعد LP (long play) ریکارڈ بننے لگے اور ساتھ ہی گانوں کا دورانیہ بھی بڑھ گیا۔ایک بحث آڈیو کے سلسلہ میں آج تک چل رہی ہے کہ کسی ایک گانے کا وہ کیا دورانیہ ہے جِس سے اِنسانی کان لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔اور کہاں سے یہ لطف بتدریج کم ہو کر دماغ پر گراں محسوس ہونے لگتا ہے۔اِس سلسلہ میں امریکی اور برطانوی محققوں نے وہی پرانا دورانیہ ، یعنی ڈھائی سے تین منٹ کا بتلایا ہے۔چونکہ راقِم نے اپنی عملی زندگی میں اوّل کام گراموفون کمپنی آف پاکِستان۔ EMI.Pakistanکراچی اسٹوڈیو سے صدابندی کا ہی سیکھا تھا لہٰذا پی ٹی وی میں اپنے سینئیر سے اجازت لے کر ۲۵ منٹ کے دورانیہ کے پروگرام میں ۹ سے ۱۰ گیت رکھے گئے ۔
آیا یہ عوام نے پسند کیا یا مُسترد ؟ یہ شاید کم اہم بات ہو۔زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گلوکاروں؍ موسیقاروں؍شاعروں اور سازندوں کے لئے یہ ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔ کیسے؟ ایسے کہ کہاں تین سے چار گیتوں کا معاوضہ کہاں ۱۰ گیتوں کا!!!۔
اگلا گلوکار محمد علی شہکی تھا۔راقِم نے اختر صاحب سے فرمائش کی کیوں نہ ایک گیت خالص کلاسیکی انگ میں تیار کیا جائے۔راگوں کے نام لئے جانے لگے مثلاََ ایمن، جونپوری، پیلو، دیس، مالکوس، درباری، بہار، میگھ، بھیرو، ملہار، گونڈ سارنگ اور کئی دوسرے۔کچھ سے تو یہ خاکسار بھی آشنا تھا ۔ سب راگ اپنی اپنی جگہ بھر پور تاثر والے ہوتے ہیں، لیکن کیا کیجئے اُ ن ڈھائی منٹ دورانئے کو۔تب اختر صاحب نے ایک راگ کے بنیادی سُر چھیڑے یقین مانئے کہ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصّہ میں راقِم اور ناصرؔ صاحب، دونوں کے دِل کو گویا راگ نے اپنی مُٹھی میں جکڑ لیا۔ راقِم نے بیساختہ کہا کی یہی ہے جسکی تلاش تھی۔ وہ راگ ’ جھنجھوٹی ‘ تھا۔( فیض احمد فیض کی لکھی اور مہدی حسن صاحب کی گائی ہوئی غزل ’ گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے ‘ اِسی راگ میں ہے)۔فوراََ غزل انگ میں بول لکھے گئے:
تیرے بِن کیسے بیتیں یہ راتیں
نیندیں کہاں ہیں کون بتائے
ڈھائی منٹ کے اِس گیت میں ’ آکار ‘ بھی تھی۔اختر صاحب کے بڑے بھائی جناب جاوید اللہ دتّہ صاحب اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر خاص طور پر صرف اِس گیت کے لئے سِتار بجانے کے لئے آئے ۔ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آج بھی اگر آپ یہ گیت ٹی وی پر دیکھیں یا اِس کا آڈیو سنیں، تو ایسا بھر پور ماحول رچتا ہے کہ یہ خاکسار بھی حیران ہو جاتا ہے کہ کتنے کم وقت میں یہ لکھا گیا، طرز بنی ، محمد علی شہکی نے جی توڑ کر محنت کی اور اِس کی صدابندی میں کِس مہارت سے شالیمار ریکارڈنگ کمپنی کے جناب شریف صاحب نے گلوکار کے اندر سے اِس گیت کی روح کو نچوڑ لیا۔کیا کمال کے لوگ تھے۔
...............................................
ہاں لکھتے وقت اکثر ناصرؔ صاحب کو ردھم کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ایک اِس کا بھی قصّہ ہو جائے۔اِتفاق سے اِس میں بھی موسیقار اختر صاحب ہی تھے۔ ’ آواز و انداز ‘ میں گلوکارہ مہناز کے لئے گیت لکھنے تھے۔شاعر کوئی مشین نہیں کہ اِدھر خام مال ڈالو اُدھر بول تیار۔کبھی کبھار گیت میں بولوں کی آمد رُک بھی جاتی ہے۔ ہو ا یوں کہ ایک مُکھڑے کے پہلے مصرعے پر سوئی اٹک گئی، حضرت نے فوراََ کہا کہ کسی گُردہ کلیجی یعنی کھٹا کھٹ بنانے والے کے پاس بٹھا دو ، منٹوں میں گیت تیار ہو جائے گا۔میرے عزیز دوست اور اُستاد جناب عدنان الحق حقّی جِن کے نامور اور قابلِ فخر والدین، جناب شان الحق حقّی اور جنابہ سلمیٰ حقّی صاحبہ ہیں، اُن دِنوں کراچی میں کارساز کے علاقے میں ’ اِگلو اِن ‘ Igloo Inn کے نام سے ایک فاسٹ فوڈ اور باربی کیو کا کاروبار کرتے تھے۔میں سیدھا اختر اور ناصرؔ صاحبان کو لے کر اُ ن کے پاس پہنچا ۔ ابھی تو شام ٹھیک سے اُتری بھی نہیں تھی، کاروبار کی سیج ہی سجائی جا رہی تھی۔بہر حال کھٹا کھٹ والے کو خالی اور ٹھنڈے توے ہی پر کھٹا کھٹ کرنے پر لگا دیا گیا۔ راقِم، عدنان اور اختر صاحبان قریب ایک میز پر بیٹھ گئے، ناصرؔ صاحب یکسوئی سے نظریں خالی صفحہ پر مرکوز کر کے بیٹھ گئے اور چند ہی لمحات میں قلم کاغذ پر دوڑنے لگا اور گیت مکمل ہوا۔ ایک مر تبہ موصوف سے میں نے سوال کیا کہ ٹی وی کے لئے کِس پروگرام کے لئے سب سے پہلے گیت لکھے۔انہوں نے جواب دیا کہ کراچی مرکز کے پروگرام ’ نغمہ زار ‘ کے لئے جِس کے پروڈیوسر جناب امیر امام صاحب تھے۔اور جب پوچھا کہ آپ کے گیتوں میں ’ شام ‘ کا کافی ذکر مِلتا ہے۔یہ اِتفاق ہے یا کچھ اور؟ جواب میں خود انہوں نے جوابی سوال کر دیا ’’ اگلا سوال کرو‘‘۔
بہرحال اللہ سے دعا ہے کہ ناصرؔ صاحب صحت سے آسودہ زندگی گزاریں۔
......................................................
(یہ مضمون ماہنامہ قومی ڈائجسٹ ، اگست 2016 کے شمارے میں شائع ہوا۔)
Comments